Dr Noor Zaman

Dr Noor Zaman Homeopathic Physician

24/09/2024

اکثر مقامی غیرسندیافتہ پریکٹیشنرز، ڈسپنسرز یا میٹرک، مڈل پاس میڈیکل سٹور دکاندار طاقت کی ڈرپ یا جگر کی گرمی دور کرنے والی ڈرپ کے نام پہ لوگوں کو Bejectal، Basileri، Neurobian، Multibionta اور Decadran یا dexamethasone (سٹیرائیڈ) وغیرہ کے انجکشنز ڈرپس میں لگا دیتے ہیں، جو سیاہ، سرخ، یا پیلے ہو سکتے ہیں۔ اور تقریبا 2000، 2500 روپے وصول کرتے ہیں، یہ ایک غلط عمل ہے ان عطائیوں کے پاس دوائیوں کی ڈوز، سائیڈ ایفیکٹس اور استعمال کا علم ناکافی ہوتا ہے۔ اس سے اپ کے صحت پر مستقل مضر اثرات اور بعض اوقات انتہایئ شدید اور خطرناک اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
اپنی صحت کا خیال رکھنا اپ کی اپنی ذمہ داری ہے۔
غلط لوگوں کو اپنی صحت اور زنگیوں سے نہ کھیلنے دیں۔

22/11/2023

(بیکٹیریا کی مزاحمت)
اینٹی بائیوٹک مزاحمت اس وقت ہوتی ہے جب بیکٹیریا اس طرح تبدیل ہوتے ہیں کہ اینٹی بائیوٹک کے اثرات کو کم کرے۔ سادہ الفاظ میں، وہ دوائیں جو کبھی مخصوص بیکٹیریا یا جراثیم کو مار دیتی تھی یا ان کی نشوونما کو روک دیتی تھیں، وہ اب ان کے خلاف کام کرنا چھوڑ دیں، جس سے انفیکشن کا علاج مشکل ہو جاتا ہے۔
وجوہات:
1. ضرورت سے کم ڈوز میں اینٹی بائیوٹک استعمال کرنے سے مائیکروبیل ریزسٹنس پیدا ہوتی ہے۔ مثلا ٹائیفائیڈ میں 500mg کی جگہ 250 mg استعمال کرنا یا صبح شام کی بجاۓ صبح یا شام استعمال کرنا

2.ضرورت سے کم دورانیے کے لئے اینٹی بائیوٹک استعمال کرنے سے مائیکروبیل مزاحمت پیدا ہوتی ہے۔ مثلاً کسی انفیکشن کے علاج کے لئے اینٹی بائیوٹک 7 دن کھانے کی ضرورت ہے لیکن آپ دو تین دن کھاکر چھوڑ دیتے ہیں۔

3. نئ اینٹی بائیوٹک مارکیٹ میں آتی ہے تو ڈاکٹرز کمیونٹی پرانی اینٹی بائیوٹک چھوڑ کر نئ اینٹی بائیوٹک لکھنا شروع کردیتی ہے جس سے نۓ اینٹی بائیوٹک کی زندگی خطرے میں پڑ جاتی ہے اور اسی طرح مریضوں کی زندگی ۔

4.ڈاکٹرز کمیونٹی کو آپس میں اتفاق کرکے طے کرنا چاہئیے کہ کون کون سے اینٹی بائیوٹکس کو انھوں نے reserved رکھنا ہے۔ ترقی یافتہ دنیا میں ایسا ہی ہوتا ہے۔

5.کہتے ہیں کہ ہم آزاد نہیں ہیں لیکن میں کہتا ہوں کہ ہم ضرورت سے زیادہ آزاد ہیں۔ حکومت وقت کو چاہئیے کہ ہماری آزادی تھوڑی کم کرے اور اپنی ذمہ داریاں بھی پوری کرے😀۔ ادویات کے نسخوں کے لیۓ قانون سازی کریں۔ غیر سند یافتہ افراد کی مریضوں کے علاج کرنے پر پابندی لگا دے، دوائیوں کی دکانوں پر سند یافتہ فارماسسٹس کی موجودگی یقینی بناۓ۔
5.عوام کو چاہیۓ کہ علاج کے لیۓ میٹرک فیل دکانداروں پر اعتبار نہ کریں۔

12/11/2023

مچھلی کا کانٹا گلے میں پھنس جاے تو کیا کریں!!!

سردیوں کا موسم شروع ہو گیا ہے اور اس موسم کے اندر مچھلی بڑے شوق سے کھائی جاتی ہے۔ہمارے ہاں زیادہ تر عام دستیاب مچھلی جس میں کالا رہو شامل ہے یہ کانٹوں والی مچھلی ہوتی ہے اور اگر اپ مچھلی بار بار کھاتے ہیں تو چانسز ہیں کہ کانٹا اپ نگل بھی سکتے ہیں اور ہو سکتا ہے بعض دفعہ کانٹا گلے کے اندر پھنس بھی جائےاگر اپ بہت تیزی سے کھا رہے ہیں۔

زیادہ تر کیسز میں مچھلی کانٹے چونکہ بہت چھوٹے ہوتے ہیں تو اگر اپ نگلتے ہیں تو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔یہ حلق م یا پھر خوراک کی نالی میں پھنستے نہیں ہیں بلکہ سیدھا معدے میں چلے جاتے ہیں

مگر بعض اوقات ایسا ہوتا ہے مچھلی کا کانٹا جوچھوٹا اور پتلا ساہوتا ہے گلے کے اندر کہیں جا کے پھنس جاتا ہے تو اس سے کھانے والے کو بہت زیادہ بے چینی ہوتی ہے گلے میں خراش ہوتی ہے اور تکلیف کا احساس ہوتا ہے۔

اگر اپ کے لیے اچھی بات یہ ہے کہ گھر میں رہتے ہوئے بھی اگر خدانخواستہ کانٹا حلک میں پھنس جاتا ہے تو اس کو اپ ان طریقوں سے نکال سکتے ہیں یا پھر اس کو معدے کی طرف پہنچا سکتے ہیں۔

سب سے پہلے ہم دیکھ لیتے ہیں کہ اگر کسی شخص کے گلے میں کانٹا پھنس جاتا ہے اور اس کو نہ نکالا جائے تو اس کی پیچیدگیاں کیا ہو سکتی ہیں۔
تو اس میں ممکنہ پیچیدگیوں میں گلے کے اندر خراش کا ہونا کھانا کھاتے ہوئے تکلیف کا محسوس ہونا کھانا نگلنے میں تکلیف,چھاتی کا انفیکشن گلے سے خون کا انا اور گلے کے اندر پیپ کا بن جانا شامل ہے۔

کافی ایسے طریقے اور ٹوٹکے ہیں جن کی مدد سے ہم ڈاکٹر کے بغیر بھی گھر پہ رہتے ہوئے کانٹے کو نکال سکتے ہیں یا معدے تک پہنچا سکتے ہیں مگر چونکہ ہر شخص کے اندر کانٹے کا سائز مختلف ہوگا ,کانٹا کتنا پھسا ہوا یہ مختلف ہوگا تو ان کا افادیت ہر شخص میں مختلف ہوگی۔

سب سے پہلے تو اپ زور سے کوشش کریں کہ کھانسی کریں اگر تو کانٹا ہلکا سا پھنسا ہوگا اور اوپر ہوگا تو زور سے کھانسی کرنے سے تیز سانس کی وجہ سے کانٹا باہر نکل سکتا ہے۔

ایک اور طریقہ یہ ہے کہ اپ تھوڑا سا سرکہ پی لیں کانٹا سرکے میں موجود تیزابیت کی وجہ سے نرم ہو جائے گا اور چانسز ہیں کہ وہ معدے کی طرف چلا جائے گا

کولڈ ڈرنک یا سوڈے کی جو بوتلز ہوتی ہیں ان کو پینے سے بھی کانٹے کے نکلنے میں مدد ہوگی کیونکہ ان کے اندر ایک تو تیزابیت کے ایلیمنٹ ہوتا ہے اور دوسرا گیس ہوتی ہے جس کی وجہ سے کانٹا جو ہے وہ اپنی جگہ سے ہل جائے گا اور معدے میں چلا جائے گا۔

زیتون کے تیل لے کر اس کو ایک چمچ اپ پی سکتے ہیں یہ بھی کانٹے کو مر تک پہنچانے میں مدد کرتا ہے۔

آپ کیلے کا ایک بڑا ٹکڑا جیسے آدھا کیلا لے کر اس کو نگلنے کی کوشش کریں ۔جب کیلا نگلیں گے تو یہ ساتھ میں کانٹوں کے بھی معدے میں لے جائے گا۔

اپ روٹی لیں اور کچھ دیر کے لیے پانی کے اندر بھگوئیں۔ جب یہ بالکل نرم ہو جائے تو ایک بڑا ٹکڑا لے کر اس کو نگلیں۔ روٹی کا ٹکڑا کانٹے کو اپنے ساتھ معدے میں لے جائے گا۔

ڈبل روٹی پربٹر لگا کر اس کا ایک بڑا سا ٹکڑا لیں اور اس کو نگلنے کی کوشش کریں یہ بھی کانٹے کو معدے میں پہنچ جائے گا

اگر گھر میں مارش میلو موجود ہے تو اس کا ایک بڑا ٹکڑا تھوڑا سا چبا کر سالم نگل لیں، یہ بھی کانٹے کو اپنی جگہ سے ہلا دے گا۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر مریض کو کوئی ایمرجنسی علامات ارہی ہیں جیسے کہ مریض کو سانس لینے میں مسئلہ ا رہا ہے یا منہ سے خون ا رہا ہے تو ایسی صورت میں اپ ڈاکٹر کے پاس جائیں اور ایمرجنسی میں چیک کروائیں۔ دوسری صورت میں اگر مریض بالکل ٹھیک ہے تو اپ اس کو ٹوٹکے وغیرہ ازما سکتے ہیں لیکن اگر یہ کام نہیں کرتے تو دوبارہ اپ کو پھر ڈاکٹر کے پاس ہی جانا پڑے گا۔
Share to aware others

26/10/2023

ڈاکٹر صاحب ٹوتھ پیسٹ کون سا استعمال کریں؟

کسی بھی ڈینٹسٹ سے اس کی زندگی میں سب سے زیادہ پوچھا جانے والا سوال یہی ہے۔۔ آج آپ کو اس کے جواب کے بارے میں بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ آپ کے لیے کونسا ٹوتھ پیسٹ استعمال کرنا مفید ہوگا۔۔

اس کے لیے جاننا ضروری ہے کہ ٹوتھ پیسٹ کتنی قسم کے ہوتے ہیں۔۔ بنیادی طور پر ٹوتھ پیسٹ کی دو اقسام ہیں:

1- نان میڈیکیٹڈ non-medicated یا نارمل ٹوتھ پیسٹ:

یہ ٹوتھ پیسٹ ان افراد کو استعمال کرنے چاہئیں جن کے دانت اور مسوڑھے بالکل ٹھیک ہوں یعنی انہیں دانتوں یا مسوڑھوں کی کوئی بیماری نہیں ہے۔۔ یہ ٹوتھ پیسٹ لمبے عرصے تک استعمال کیے جا سکتے ہیں۔۔ ان میں عام جنرل سٹور پر موجود ٹوتھ پیسٹ کولگیٹ ہربل، ڈوکٹر ٹوتھ پیسٹ، فورہنز، وغیرہ شامل ہیں۔۔

2- میڈیکیٹڈ medicated ٹوتھ پیسٹ:

یہ ٹوتھ پیسٹ دانتوں یا مسوڑھوں کی کسی بیماری کی صورت میں استعمال کیا جاتا ہے اور عام حالات میں لمبے عرصے تک ان ٹوتھ پیسٹ کا استعمال تجویز نہیں کیا جاتا۔۔ میڈیکیٹڈ ٹوتھ پیسٹ استعمال کے حوالے سے مزید کئ اقسام کے ہوتے ہیں:

ا) فلورائیڈ flourideٹوتھ پیسٹ:
یہ ٹوتھ پیسٹ زیادہ تر ان مریضوں کو تجویز کیا جاتا ہے جن کو دانتوں کو کیڑا جلدی لگ جاتا ہے یا کیڑا لگنے کی وجہ سے ان کے ایک سے زیادہ دانت خراب ہو چکے ہوں۔۔ پیسٹ میں موجود فلورائیڈ دانتوں کو کیڑا لگنے سے بچانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔۔

ب) ڈی سنسیٹاءزنگ Desensitizing ٹوتھ پیسٹ:
یہ ٹوتھ پیسٹ ان مریضوں کے لیے تجویز کیے جاتے ہیں جن کے دانتوں میں کسی بھی وجہ سے حسیات یعنی ٹھنڈا گرم لگنے کا مسئلہ ہو۔۔ اس میں ایسے کیمیکلز ہوتے ہیں جو کہ وقتی طور پر اس مسلے سے نجات دیتے ہیں۔۔ ان میںSense T,Prodent, ,sensodyne rapid action اور Colgate sensitive pro relief جیسے ٹوتھ پیسٹ شامل ہیں۔۔
پ) وائٹننگ whitening ٹوتھ پیسٹ:
اس قسم کے ٹوتھ پیسٹ دانتوں پر معمولی قسم کے بدنما نشانات کو کم کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔۔ ان میں sensodyne ultra whitening ,Oral B 3d white , اور Colgate optic white , Sodawhite,ٹوتھ پیسٹ شامل ہیں۔۔

ت) اینٹی انفیکٹو anti-infective ٹوتھ پیسٹ:
ٹوتھ پیسٹ کی یہ قسم ایسے مریضوں کے لئے مفید ہے جن کے مسوڑھوں یا دانتوں میں کسی قسم کا انفیکشن ہو چکا ہو۔۔ ان میں chlorhexidine ملے ٹوتھ پیسٹ شامل ہیں۔۔protect G,,hi paradent,parodontax original

,اس کے علاؤہ بھی ٹوتھ پیسٹ کی کیء اقسام ہیں تاہم سب کا احاطہ کرنا اس ایک پوسٹ کے ذریعے بہت مشکل ہے۔۔

امید ہے یہ پوسٹ پڑھنے کے بعد آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ ہر شخص کے لیے مختلف قسم کا ٹوتھ پیسٹ تجویز کیا جاتا ہے۔۔ مزید معلومات کے لیے قریبی ڈینٹسٹ سے رجوع کریں تاکہ چیک اپ کرنے کے بعد وہ آپ کے لیے مناسب ٹوتھ پیسٹ تجویز کر سکیں ۔۔
نوٹ: گھریلو ٹوٹکے کرنے سے پرہیز کریں ۔۔ ******اور بہتر یہ ہے۔۔۔۔کہ آپ کو آگرایک پسٹ سے الرجی ہے۔۔تو دوسرا کوئی اور پسیٹ استعمال کریں۔۔نیز ایک ٹوتھ پسیٹ استعمال نہ کریں ہمیشہ۔۔۔چینج کرتے جائے۔۔۔کیونکہ ہر ٹوتھ پیسٹ کی Combination دوسرے سے مختلف ہوتی ہے

20/10/2023

اگر آپ ڈاکٹر اس لیے بن رہے ہیں کہ کمائی بہت اچھی ہے تو یقیننا آپ کے لیے مریض گاہک ہے ۔ اپ مسیحا نہیں بیوپاری ہیں

لیکن مریض کو بھی تب تک اچھا ڈاکٹر نہیں مل سکتا جب تک اس کی اپنی زندگی کے معاملات ایمانداری سے نہ گزر رہے ہوں ۔

اچھائی کو اچھائی کھینچتی ہے

جمعہ مبارک

17/10/2023

”ادویات کو بچوں کی پہنچ سے دور رکھیں“
یہ فقرہ آپ سب نے کئی بار سنا ہوگا اور اسے میڈیسن پر لکھاہوا بھی پڑھا ہو گا، آئیے اس کو سائنسی انداز میں دیکھتے ہیں۔
ہر دوائی کی اپنی ایک مخصوص محفوظ مقدار ہوتی ہے اور دوا کی مقدار اس سے زیادہ ہو جاۓ تو اس کے انسانی جسم پر مضر اثرات ہوتے ہیں۔ دوا کی خوراک کا انحصار لینے والے کے وزن پر ہوتا ہے۔ بچوں کے کیس میں چونکہ ان کا وزن کم ہوتا ہے اس لیے دوائیوں کی نقصان دہ مقدار بڑوں کے مقابلے میں کم ہوتی ہے اور چند گولیوں سے بھی ان کے سنگین نتاٸج آسکتے ہیں۔
آئیے ہمارے گھروں میں عام استعمال ہونے والی میڈیسن کی مثال لیتے ہیں۔پیناڈول ہر گھر میں موجود ہے اس کی 500 ملی گرام کی گولی ہوتی ہے .ایک خاص مقدار سے زیادہ لینے کی صورت میں یہ نقصان دہ ہے کیونکہ یہ جگر کی خرابی اور جگر کو فیل کرنے کا باعث بن سکتی ہے .پیناڈول کی نقصان دہ مقدار150ملی گرام ہر ایک کلو وزن کے حساب سے ہے . لہذا اگر بچے کا وزن 10 کلو گرام ہے تو دواٸ کی خطرناک مقدار 1.5 گرام ہوگی جو پیناڈول کی صرف تین گولیوں کے برابر ہے۔ بڑوں کے لیے شاید پناڈول کی تین گولیاں معنی نہ رکھیں لیکن بچوں میں کافی خطرناک ہو سکتی ہیں اور جگر کو مکمل نقصان پہنچا سکتی ہیں۔
بروفن ایک ایسی گولی ہے جو عام طور پر دستیاب ہے، بچوں میں اس کی زیادہ مقدار معدے کے السر، معدے میں سوراخ اور گردے فیل ہونے کا باعث بن سکتی ہے۔
بلڈ پریشر کی ادویات بچوں کے بلڈ پریشر کو خطرناک حد تک گرا سکتی ہیں۔ ذیابیطس کی ادویات بچوں کے بلڈ شوگر کی سطح کو انتہائی خطرناک حد تک کم کر سکتی ہے۔ بڑوں میں نیند کے لیے استعمال کی جانے والی دوائی ضرورت سے زیادہ غنودگی اور یہاں تک کہ بچوں میں سانس لینا بند کر سکتی ہے۔
لہذا بڑوں کے لیے کسی بھی دوا کی نارمل خوراک چھوٹے بچوں کے لیے ان کے کم وزن اور چھوٹے جسمانی سائز کی وجہ سے مہلک ہو سکتی ہے۔
ضروری ہے کہ دوا کو ہمیشہ بچوں کی پہنچ سے دور رکھیں، دوائی کو لاک رہیں رکھیں۔ ایسی جگہ پر رکھیں جہاں بچوں کا ہاتھ نہ پہنچ سکے۔
بچے اگر حدثاتی طور پر کوٸ دوائی کھا لے تو ضروری ہے کہ جلد از جلد ہسپتال پہنچیں کیونکہ دوائی کھا لینے کے صرف ایک گھنٹے کے اندر معدے کی صفاٸ فاٸدہ مند ہو سکتا ہے۔ ہسپتال جاتے وقت دوائیوں کی پیکنگ اپنے ساتھ لے کر جاٸیں تاکہ ڈاکٹر کو معلوم ہو سکے کہ بچے نے کون سی دوائی لی ہے اور دوا کی مقدار کیا تھی؟
اللہ ہمیں اور ہمارے بچوں کو ایسے حادثات سے محفوظ رکھے۔
دوسروں کے والدین کے ساتھ بھی شیئر کریں۔ جزاک اللہ
ڈاکٹر ارشد محمود (MBBS.FCPS)

07/10/2023

جب بچوں کا سینہ جب خراب ھو جاتا ھے تو کچھ مائیں بچوں کا سینہ کپڑے سے مضبوطی کےساتھ باندھ لیتے ھیں۔ یہ ایک انتہائ خطرناک عمل ھے اس سے بچے کی جان جا سکتی ھے۔ یہ بچے کو فائدہ کے بجائے نقصان پہنچاتی ھے کیونکہ جب سینہ خراب ہوجاتا ھے تو فطری عوامل انسان کو موت سے بچانے کے لئے متحرک ھو جاتے ھے جیسے سانس کا پھولنا اور چھاتی کا تیز تیز حرکت شروع کرنا تاکہ زیادہ سے زیادہ آکسیجن کینچح سکے ۔ لہذہ سینہ باند ھنے سے آکسیجن کھینچنے میں مزید دشواری ھو جاتی ھے اور بچے کی تکلیف میں مزید اضافہ ھو جاتا ھے۔ اسلئے اس عمل کی حوصلہ شکنی کریں...
سینہ خراب ہونے کی صورت میں فوری طور پر بچوں کے ڈاکٹرز سے چیک کروائیں. منقول
صحت سے متعلق مستند معلومات کے لیے ہمارا پیج فالو کریں !

05/10/2023

میڈیکل اسٹور پر اترتی ابابیلیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیلزمین سے دوائیں نکلوانے کے بعد، پیسے دینے کے لیے جب کائونٹر پر پہنچا تو مجھ سے پہلے قطار میں دو لوگ کھڑے تھے۔
سب سے آگے ایک بوڑھی عورت، اس کے پیچھے ایک نوجوان لڑکا۔
میری دوائیاں کائونٹر پر سامنے ہی رکھی تھیں اور ان کے نیچے رسید دبی ہوئی تھی۔ ساتھ ہی دو اور ڈھیر بھی تھے جو مجھ سے پہلے کھڑے لوگوں کے تھے۔
مجھے جلدی تھی کیونکہ گھر والے گاڑی میں بیٹھے میرا انتظار کررہے تھے۔۔۔ مگر دیر ہورہی تھی کیونکہ بوڑھی عورت کائونٹر پر چپ چاپ کھڑی تھی۔
میں نے دیکھا، وہ بار بار اپنے دبلے پتلے ، کانپتے ہاتھوں سے سر پر چادر جماتی تھی اور جسم پر لپیٹتی تھی۔ اس کی چادر کسی زمانے میں سفید ہوگی مگر اب گِھس کر ہلکی سرمئی سی ہوچکی تھی۔ پائوں میں عام سی ہوائی چپل اور ہاتھ میں سبزی کی تھیلی تھی۔ میڈیکل اسٹور والے نے خودکار انداز میں عورت کی دوائوں کا بل اٹھایا اور بولا۔
'980 روپے'۔ اس نے عورت کی طرف دیکھے بغیرپیسوں کے لیے ہاتھ آگے بڑھادیا۔
عورت نے چادر میں سے ہاتھ باہر نکالا اور مُٹھی میں پکڑے مڑے تڑے ، 50 روپے کے دو نوٹ کائونٹر پر رکھ دئیے ۔ پھر سر جھکالیا۔
' بقایا ؟'۔ دکاندار کی آواز اچانک دھیمی ہوگئی۔بالکل سرگوشی کے برابر۔اس نے عورت کی طرف دیکھا ۔ بوڑھی عورت سر جھکائے اپنی چادر ٹھیک کرتی رہی۔
شاید دو سیکنڈز کی خاموشی رہی ہوگی۔ ان دو سیکنڈز میں ہم سب کو اندازہ ہوگیا کہ عورت کے پاس دوائوں کے پیسے یا تو نہیں ہیں یا کم ہیں اور وہ کشمکش میں ہے کہ کیا کرے۔ مگر دکاندار نے کوئی لمحہ ضائع کیے بغیر، تیزی سے اس کی دوائوں کا ڈھیر تھیلی میں ڈال کرآگے بڑھاتے ہوئے کہا۔
'اچھا اماں جی۔ شکریہ'۔
بوڑھی عورت کا سر بدستور نیچے تھا۔ اس نے کانپتے ہاتھوں سے تھیلی پکڑی اور کسی کی طرف دیکھے بغیر دکان سے باہر چلی گئی۔ ہم سب اسے جاتا دیکھتے رہے۔میں حیران تھا کہ 980 روپے کی دوائیں اس دکاندار نے صرف 100روپے میں دے دی تھیں۔ اس کی فیاضی سےمیں متاثر ہوا تھا۔
جونہی وہ باہر گئی، دکاندار پہلے ہمیں دیکھ کر مسکرایا۔ پھر کائونٹر پر رکھی پلاسٹک کی ایک شفاف بوتل اٹھالی جس پر لکھا 'ڈونیشنز فار میڈیسنز' یعنی دوائوں کے لیے عطیات۔
اس بوتل میں بہت سارے نوٹ نظر آرہے تھے۔ زیادہ تر دس اور پچاس کے نوٹ تھے۔ دکاندار نے تیزی سے بوتل کھولی اوراس میں سے مٹھی بھر کر پیسے نکال لیے۔ پھر جتنے پیسے ہاتھ میں آئے انہیں کائونٹر پر رکھ کر گننے لگا۔ مجھے حیرت ہوئی کہ یہ کیا کام شروع ہوگیا ہے مگر دیکھتا رہا۔
دکاندار نے جلدی جلدی سارے نوٹ گنے تو ساڑھے تین سو روپے تھے۔ اس نے پھر بوتل میں ہاتھ ڈالا اور باقی پیسے بھی نکال لیے۔
اب بوتل بالکل خالی ہوچکی تھی۔ اس نے بوتل کا ڈھکن بند کیا اور دوبارہ پیسے گننے لگا۔ اس بار کُل ملا کر ساڑھے پانچ سو روپے بن گئے تھے۔
اس نے بوڑھی عورت کے دیے ہوئے، پچاس کے دونوں نوٹ، بوتل سے نکلنے والے پیسوں میں ملائے اور پھر سارے پیسے اٹھا کر اپنی دراز میں ڈال دئیے ۔ پھر مجھ سے آگے کھڑے گاہک کی طرف متوجہ ہوگیا۔'جی بھائی'۔
نوجوان نے،جو خاموشی سے یہ سب دیکھ رہا تھا، ایک ہزار کا نوٹ آگے بڑھادیا۔ دکاندار نے اس کا بل دیکھ کر نوٹ دراز میں ڈال دیا اور گِن کر تین سو تیس روپے واپس کردیے۔
ایک لمحہ رکے بغیر، نوجوان نے بقایا ملنے والے نوٹ پکڑ کر انہیں تہہ کیا۔ پھر بوتل کا ڈکھن کھولاا اور سارے نوٹ اس میں ڈال کر ڈھکن بند کردیا۔اب خالی ہونے والی بوتل میں پھر سے، سو کے تین اور دس کے تین نوٹ نظر آنے لگے تھے۔ نوجوان نے اپنی تھیلی اٹھائی ۔زور سے سلام کیا اور دکان سے چلاگیا۔
بمشکل ایک منٹ کی اس کارروائ نے میرے رونگھٹے کھڑے کردئیے تھے۔ میرے سامنے، چپ چاپ، ایک عجیب کہانی مکمل ہوگئی تھی اور اس کہانی کے کردار، اپنا اپنا حصہ ملا کر، زندگی کے اسکرین سے غائب ہوگئے تھے۔ صرف میں وہاں رہ گیا تھا جو اس کہانی کا تماشائی تھا۔
'بھائی یہ کیا کیا ہے آپ نے؟'۔ مجھ سے رہا نہ گیا اور میں پوچھ بیٹھا۔'یہ کیا کام چل رہا ہے؟'۔
'اوہ کچھ نہیں ہے سر'۔ دکاندار نے بے پروائی سے کہا۔'ادھر یہ سب چلتا رہتا ہے'۔
'مگر یہ کیا ہے؟۔ آپ نے تو عورت سے پیسے کم لیے ہیں؟۔ پورے آٹھ سو روپے کم۔اور بوتل میں سے بھی کم پیسے نکلے ہیں۔ تو کیا یہ اکثر ہوتا ہے؟'۔
میرے اندر کا پرانا صحافی بے چین تھا جاننے کے لیے کہ آخر واقعہ کیا ہے۔
'کبھی ہوجاتا ہے سر۔ کبھی نہیں۔ آپ کو تو پتا ہے کیا حالات چل رہے ہیں'۔ دکاندار نے آگے جھک کر سرگوشی میں کہا۔'دوائیں اتنی مہنگی ہوگئی ہیں۔ سفید پوش لوگ روز آتے ہیں۔ کسی کے پاس پیسے کم ہوتے ہیں۔ کسی کے پاس بالکل نہیں ہوتے۔ تو ہم کسی کو منع نہیں کرتے۔ اللہ نے جتنی توفیق دی ہے، اتنی مدد کردیتے ہیں۔ باقی اللہ ہماری مدد کردیتا ہے'۔
اس نے بوتل کی طرف اشارا کیا۔
'یہ بوتل کتنے دن میں بھر جاتی ہے؟'۔ میں نے پوچھا۔
'دن کدھرسر'۔ وہ ہنسا۔'یہ تو ابھی چند گھنٹے میں بھرجائے گی'۔
'واقعی'۔ میں حیران رہ گیا۔'پھر یہ کتنی دیر میں خالی ہوتی ہے؟'۔
'یہ خالی نہیں ہوتی سر۔ اگر خالی ہوجائے تو دو سے تین گھنٹے میں پھر بھر جاتی ہے۔ دن میں تین چار بار خالی ہوکر بھرتی ہے۔ شکر الحمدللہ'۔ دکاندار اوپر دیکھ کر سینے پر ہاتھ رکھا اور بولا۔
'اتنے لوگ آجاتے ہیں پیسے دینے والے بھی اور لینے والے بھی'۔ میں نیکی کی رفتار سے بے یقینی میں تھا۔
'ابھی آپ نے تو خود دیکھا ہے سر'۔ وہ ہنسا۔'بوتل خالی ہوگئی تھی۔ مگر کتنی دیر خالی رہی۔ شاید دس سیکنڈ۔ابھی دیکھیں'۔ اس نے بوتل میں پیسوں کی طرف اشارہ کیا۔
'پیسے دینے والے کون ہیں؟۔
'ادھر کے ہی لوگ ہیں سر۔ جو دوائیں لینے آتے ہیں، وہی اس میں پیسے ڈالتے ہیں'۔
'اور جو دوائیں لیتے ہیں ان پیسوں سے، وہ کون لوگ ہیں؟'۔ میں نے پوچھا۔
'وہ بھی ادھر کے ہی لوگ ہیں۔ زیادہ تر بوڑھے، بیوائیں اور کم تنخواہ والے لڑکے ہیں جن کو اپنے والدین کے لیے دوائیں چاہیے ہوتی ہیں'۔ اس نے بتایا۔
'لڑکے؟'۔ میرا دل لرز گیا۔'لڑکے کیوں لیتے ہیں چندے کی دوائیں؟'۔
'سر اتنی بے روزگاری ہے۔ بہت سے لڑکوں کو تو میں جانتا ہوں ان کی نوکری کورونا کی وجہ سے ختم ہوگئی ہے'۔ اس نے دکھی لہجے میں کہا۔'اب گھر میں ماں باپ ہیں۔ بچے ہیں۔ دوائیں تو سب کو چاہئیں۔ تو لڑکے بھی اب مجبور ہوگئے ہیں اس بوتل میں سے دوا لینے کے لیے۔ کیا کریں۔ کئی بار تو ہم نے روتے ہوئے دیکھا ہے اس میں سےلڑکوں کو پیسےنکالتےہوئے۔ یقین کریں ہم خود روتے ہیں'۔ مجھے اس کی آنکھوں میں نمی تیرتی نظر آنے لگی۔
'اچھا میرا کتنا بل ہے؟'۔ میں نے جلدی سے پوچھ لیا کہ کہیں وہ میری انکھوں کی نمی نہ دیکھ لے۔
'سات سو چالیس روپے'۔ اس نے بل اٹھا کر بتایا اور ایک ہاتھ سے اپنی آنکھیں پونچھیں۔ میں نے بھی اس کو ہزار کا نوٹ تھمایا اور جو پیسے باقی بچے، بوتل کا ڈھکن کھول کر اس میں ڈال دیے۔
'جزاک اللہ سر'۔ وہ مسکرایا اور کائونٹر سے ایک ٹافی اٹھا کر مجھے پکڑادی۔
میں سوچتا ہوا گاڑی میں آبیٹھا۔
غربت کی آگ ضرور بھڑک رہی ہے ۔مفلسی کے شعلے آسمان سے باتیں کررہے ہیں۔
مگرآسمانوں سے ابابیلوں کے جھنڈ بھی، اپنی چونچوں میں پانی کی بوندیں لیے، قطار باندھے اتر رہے ہیں۔
خدا کے بندے اپنا کام کررہے ہیں۔چپ چاپ۔ گم نام۔ صلے و ستائش کی تمنا سے دور۔
اس یقین کے ساتھ کہ خدا دیکھ رہا ہے اورمسکرارہا ہے کہ اس کے بندے اب بھی اس کے کام میں مصروف ہیں۔


منقول

Address

Khyber Pakhtunkhwa
Bannu

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Dr Noor Zaman posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Practice

Send a message to Dr Noor Zaman:

Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on LinkedIn
Share on Pinterest Share on Reddit Share via Email
Share on WhatsApp Share on Instagram Share on Telegram

Category