15/02/2025
✅اختلاف: ایک فطری حقیقت اور اس کے آداب
اختلاف انسانی دنیا کی ایک مسلمہ حقیقت ہے، جو اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں ایک سنت کے طور پر موجود ہے۔ اللہ نے انسانوں کو مختلف رنگ، زبانیں، طبیعتیں، ادراکات، معارف، عقول، اور شکل و صورت میں پیدا کیا ہے۔ یہ تنوع نہ صرف انسانیت کی خوبصورتی ہے بلکہ فطرت کا ایک لازمی حصہ بھی ہے۔ امت محمدیہ کو ہمیشہ سے اختلافات کا سامنا رہا ہے، چاہے وہ افراد و جماعتوں کے درمیان ہوں، مذاہب و مکاتب فکر میں ہوں، یا حکومتوں اور اداروں کے درمیان۔
✅ اختلاف کی مشروعیت
اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں اختلاف بذات خود کوئی منفی یا ناپسندیدہ چیز نہیں ہے۔ قرآن و سنت میں اس حوالے سے بے شمار دلائل موجود ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ اختلاف ایک فطری اور مشروع امر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا:
"وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَا يَزَالُونَ مُخْتَلِفِينَ" (سورة هود: 118)
"اور اگر تمہارا رب چاہتا تو سب لوگوں کو ایک امت بنا دیتا، لیکن وہ ہمیشہ مختلف رہیں گے۔"_
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ اختلاف اللہ کی مشیت کا حصہ ہے اور انسانوں کے درمیان ہمیشہ پایا جاتا رہے گا۔
✅اختلاف کے آداب
اگرچہ اختلافات کا خاتمہ ممکن نہیں، لیکن اسلاف نے ان اختلافات کو ایک مثبت اور تعمیری انداز میں حل کرنے کا طریقہ اپنایا۔ ان کے ہاں اختلاف کے کچھ آداب و اصول موجود تھے جو آج بھی امت کے لیے رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ ان آداب کا خلاصہ درج ذیل ہے:
◀️ 1. اخلاص اور نیت کی درستگی
اختلاف کا مقصد حق کی تلاش ہونا چاہیے، نہ کہ اپنی برتری ثابت کرنا یا دوسروں کو نیچا دکھانا۔
◀️2. علم اور دلیل کی بنیاد پر اختلاف
اختلاف ہمیشہ علم اور دلیل کی بنیاد پر ہونا چاہیے، نہ کہ جذبات، تعصب یا جہالت کی بنیاد پر۔ قرآن و سنت کو ہر اختلاف میں حتمی معیار سمجھا جائے۔
◀️3. احترام اور حسن سلوک
اختلاف کرنے والوں کے ساتھ نرم رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ ان کی رائے کو سننا اور ان کی عزت کرنا ضروری ہے، چاہے ان کی رائے سے اتفاق نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو حکم دیا:
"وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ"(سورة النحل: 125)
_"اور ان سے بہترین طریقے سے بحث کرو۔"_
،◀️ 4. اتحاد کو ترجیح دینا۔
اختلاف کے باوجود امت کے اتحاد کو برقرار رکھنا ضروری ہے۔ ایسے مسائل کو اختلاف کا سبب نہیں بنانا چاہیے جو امت کو تقسیم کریں یا دشمنی کا باعث بنیں۔
◀️ 5. جزوی اختلاف کو کلی مخالفت نہ بنائیں
اختلاف ہمیشہ جزوی معاملات میں ہوتا ہے۔ کسی کی رائے یا اجتہاد سے اختلاف کا مطلب یہ نہیں کہ اس کی تمام باتوں کو رد کر دیا جائے۔
◀️ 6. تنقید برائے اصلاح، نہ کہ برائے تخریب۔
اختلاف کے دوران تنقید کا مقصد اصلاح ہونا چاہیے، نہ کہ کسی کی شخصیت کو نشانہ بنانا یا اس کی عزت کو مجروح کرنا۔
◀️ 7. اپنے دائرہ کار میں رہنا
ہر شخص کو اپنے علم اور مہارت کے دائرے میں رہ کر اختلاف کرنا چاہیے۔ غیر متعلقہ معاملات میں بے جا دخل اندازی فساد کا سبب بنتی ہے۔
◀️8.اختلاف کو دشمنی میں نہ بدلنے دینا۔
اختلاف کے باوجود دلوں میں بغض، کینہ، یا دشمنی پیدا نہیں ہونی چاہیے۔ اسلاف کے ہاں اختلاف باوجود محبت اور احترام کا رشتہ قائم رہتا تھا۔
✅اسلاف کا طرز عمل
ہم دیکھتے ہیں کہ صحابہ کرام اور تابعین میں بھی علمی اور اجتہادی اختلافات موجود تھے، لیکن انہوں نے ہمیشہ ادب و احترام کا دامن تھامے رکھا۔ سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے فرمایا:
_"مجھے صحابہ کے اختلافات بہت پسند ہیں، کیونکہ وہ امت کے لیے رحمت ہیں۔"_
امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا:
_"میری رائے درست ہے، لیکن اس میں غلطی کا امکان ہے۔ اور دوسرے کی رائے غلط ہے، لیکن اس میں درستگی کا امکان ہے۔"_
💌 خلاصہ:
اختلاف انسانی فطرت کا حصہ ہے اور امت کے لیے ایک رحمت بھی ہو سکتا ہے، اگر اسے درست آداب کے ساتھ نبھایا جائے۔ اختلاف کو دشمنی یا تفرقہ کا ذریعہ بنانے کے بجائے اسے علم و فہم میں اضافہ اور خیر کی جستجو کا ذریعہ بنایا جائے۔ اسلاف کے طریقے، ادب اور آداب کو اپنانا آج کے دور میں امت کے مسائل کو حل کرنے اور اتحاد کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔