19/11/2024
دیار غیر میں کیسے تجھے صدا دیتے
تو مل بھی جاتا تو آخر تجھے گنوا دیتے
تمہی نے ہم کو سنایا نہ اپنا دکھ ورنہ
دعا وہ کرتے کہ ہم آسماں ہلا دیتے
ہمیں یہ زعم رہا اب کے وہ پکاریں گے
انہیں یہ ضد تھی کہ ہر بار ہم صدا دیتے
وہ تیرا غم تھا کہ تاثیر میرے لہجے کی
کہ جس کو حال سناتے اسے رلا دیتے
تمہیں بھلانا ہی اول تو دسترس میں نہیں
جو اختیار بھی ہوتا تو کیا بھلا دیتے
ہم اپنے بچوں سے کیسے کہیں کہ یہ گڑیا
ہمارے بس میں جو ہوتی تو ہم دلا دیتے
تمہاری یاد نے کوئی جواب نہ دیا
مرے خیال کے آنسو رہے صدا دیتے
سماعتوں کو میں تا عمر کوستا وصی
وہ کچھ نہ کہتے مگر ہونٹ تو ہلا دیتے
وصی شاہ