Dr Sajid Iqbal Naich

Dr Sajid Iqbal Naich MEDICAL OFFICER IN CH PERVAIZ ELLAHI INSTITUTE OF CARDIOLOGY MULTAN. HAVING 1 YEAR EXPERIENCE OF CARDIOLOGY EMERGENCY.

21/11/2025

آئس کے نشے کے بارے میں آگاہی مہم ۔۔

سکوٹیاں اور ہماری بیٹیاںمرد ڈرائیور حضرات توجہ فرمائیں: سڑکوں پر آج کل نوجوان لڑکیاں اور خواتین رنگ برنگی سکوٹیاں چلاتی ...
13/11/2025

سکوٹیاں اور ہماری بیٹیاں

مرد ڈرائیور حضرات توجہ فرمائیں: سڑکوں پر آج کل نوجوان لڑکیاں اور خواتین رنگ برنگی سکوٹیاں چلاتی نظر آتی ہیں۔ کوئی اپنی یونیورسٹی ، کالج. سکول جا رہی ہے تو کوئی کسی کو ڈراپ کرنے تو کوئی اپنی اماں کو ہسپتال لے کر جا رہی ہے, یا گھر کیلئے روزمرہ کا سامان لینے۔۔
ایسے میں سڑک پر ان کو دیکھ کر آپے سے باہر نہ ہوجائیں۔۔۔ان کو راستہ دیں۔ گھوریں نہیں۔ڈرائیں نہیں
ان کے ساتھ ریس نہ لگائیں اور ان کو گزر جانے دیں۔۔

ان کے ساتھ عزت سے پیش آئیں، تحفظ کا احساس دلائیں، یہ ہماری عزتیں ہیں، یہ ہمارے گھروں کی رحمت ہیں۔۔ یہ ہماری بہنیں اور بیٹیاں ہیں یہ اپنے گھر والوں کو سہارا دینے نکلی ہیں

کسی کی بہن بیٹی کو تحفظ دیں تاکہ آپکی بہن بیٹی بھی سڑک پہ محفوظ رہے

Alhamduleallah 💓
05/11/2025

Alhamduleallah 💓

🐍 قدرت کا ٹیکہیہ کوئی لیب کی سوئی نہیں بلکہ قدرت کا بنایا ہوا انجکشن ہےزہریلے سانپ کا دانت اندر سے کھوکھلا ہوتا ہے بالکل...
15/10/2025

🐍 قدرت کا ٹیکہ
یہ کوئی لیب کی سوئی نہیں بلکہ قدرت کا بنایا ہوا انجکشن ہے
زہریلے سانپ کا دانت اندر سے کھوکھلا ہوتا ہے بالکل ایک سرنج کی طرح
جب سانپ حملہ کرتا ہے تو اس کے زہر کے غدود دباؤ کے ساتھ زہر کو نالی سے گزارتے ہیں
بالکل ایسے ہی جیسے ڈاکٹر سرنج کا دباؤ دے کر دوا سیدھا ہمارے جسم میں پہنچا دیتا ہے
ہر نسل کے سانپ کے دانت اپنی الگ پہچان رکھتے ہیں

🐍 وائپرز کے دانت لمبے فولڈ ہونے والے اور خنجر جیسے تیز ہوتے ہیں تصویر میں رَیٹل سنیک کے دانت دکھائے گئے ہیں جو اسی خاندان کا حصہ ہے عام حالت میں چھپے رہتے ہیں مگر حملے کے لمحے میں جھپٹ کر زہر داخل کرتے ہیں

🐍 کوبرا کے دانت چھوٹے تیز اور ہمیشہ سامنے دکھائی دینے والے ہوتے ہیں جو ایک ہی وار میں زہر سیدھا جسم میں اتار دیتے ہیں

🐍 کچھ سانپوں کے دانت منہ کے پچھلے حصے میں ہوتے ہیں یعنی اُن کے زہریلے دانت آگے نہیں بلکہ پیچھے چھپے ہوتے ہیں جیسے بُوم سلانگ اور ٹوکیو سنیک جو اپنے شکار کو پہلے آہستہ سے پکڑتے ہیں اور پھر دھیرے دھیرے زہر داخل کرتے ہیں ان کا وار خاموش مگر نہایت مہلک ہوتا ہے

سانپ کا زہر دراصل ایک کیمیائی کرشمہ ہے

اس میں انزائمز پروٹینز اور نیوروٹاکسنز شامل ہوتے ہیں جو شکار کے جسم کو مفلوج کرتے ہیں خون جماتے ہیں یا دل کی دھڑکن بند کر دیتے ہیں
کچھ زہروں میں ایسے اجزاء ہوتے ہیں جو شکار کے گوشت کو اندر ہی اندر پگھلا دیتے ہیں تاکہ سانپ آسانی سے اسے نگل سکے
یہ صرف قاتل نہیں بلکہ قدرت کا حیاتیاتی شاہکار ہے
اسی زہر سے آج ہم دوائیں بنا رہے ہیں بلڈ پریشر دل کے امراض اور کینسر تک کے علاج میں مددگار ثابت ہوتا ہے اس کے انجیکشن بنتے ہیں
یہ صرف ایک دانت نہیں فطرت کا نایاب ہتھیار ہے قدرت کا بنایا ہوا انجکشن جزاک اللّہ 🤲

#ڈاکثرـسونیاـاحساس✍️

جب دل رک جائےیہ غالباً 1987 کی بات ہے۔ اُس وقت میں جنرل سرجری میں FCPS پارٹ ٹو کی تربیت حاصل کر رہا تھا۔ میری پوسٹنگ وار...
14/10/2025

جب دل رک جائے

یہ غالباً 1987 کی بات ہے۔ اُس وقت میں جنرل سرجری میں FCPS پارٹ ٹو کی تربیت حاصل کر رہا تھا۔ میری پوسٹنگ وارڈ نمبر 9 میں تھی، مگر اُس زمانے میں ایمرجنسی نشتر ہسپتال کے آؤٹ ڈور کے نچلے ہال میں قائم تھی، جہاں میڈیسن اور سرجری دونوں کے مریض لائے جاتے تھے۔ جس وارڈ کی ایمرجنسی ہوتی، اُس کے رجسٹرار وہاں ڈیوٹی دیتے، اور ساری رات وہیں بیٹھے رہتے۔
اُس دن میری ڈیوٹی تھی۔ رات کے قریب دس ساڑھے دس بجے کے درمیان جب میں نے نائٹ ڈیوٹی دوسرے ڈاکٹر کے حوالے کی تو میں ریمپ سے نیچے اُترا۔
نیچے پہنچا تو سامنے دو دوست دکھائی دیے — ڈاکٹر حافظ سلیم قریشی اور شائد ڈاکٹر محمد علی، جو وارڈ نمبر 7 میں پروفیسر حیات ظفر مرحوم کے رجسٹرار تھے۔ ہم نے طے کیا کہ کچھ دیر بیٹھ کر بات چیت کر لی جائے، مگر عین اسی لمحے میری نظر دائیں طرف پڑی۔
ایک شخص موٹر سائیکل کے پاس کھڑا تھا — اور اچانک وہ زمین پر گر گیا۔
ہم تینوں فوراً اُس کی طرف لپکے۔ پاس ہی کھڑے ایک آدمی نے بتایا،
“کوئی صاحب اس مریض کو ایمرجنسی میں لے کر آئے تھے، وہ اندر گئے ہیں، اور یہ باہر کھڑے کھڑے گر گئے۔”
حافظ سلیم صاحب نے جھک کر نبض چیک کی، پھر سنجیدگی سے کہا:
“یہ تو کارڈیک اریسٹ ہے!”
یعنی دل کی دھڑکن رک چکی تھی۔
وقت ایک لمحے کے لیے جیسے رک گیا۔ ہم نے وہیں سڑک پر اس کا کارڈیک مساج شروع کر دیا۔ میں بھاگ کر ایک وارڈ بوائے، سٹریچر کے ساتھ بلوایا، اور ہم تینوں نے مریض کو اٹھا کر تیزی سے کارڈیالوجی وارڈ (وارڈ نمبر 1) کی طرف دوڑ لگا دی۔
راستے میں ہم مسلسل مساج کرتے رہے — تین سو میٹر کا فاصلہ ہم نے چند منٹوں میں طے کیا۔
جب ہم کارڈیالوجی وارڈ میں داخل ہوئے تو سامنے ڈاکٹر بلال احسن قریشی ڈیوٹی پر موجود تھے۔
میں نے زور سے کہا:
“ڈاکٹر صاحب، کارڈیک اریسٹ ہے، فوراً دیکھیں!”
انہوں نے لمحہ ضائع کیے بغیر ڈیفیبریلیٹر تیار کیا۔ مریض کو بیڈ پر لٹایا گیا، انجیکشن لگائے گئے، اور پہلا الیکٹرک شاک دیا گیا۔
دل نے ذرا سی حرکت کی۔
دوسرا جھٹکا دیا گیا — کچھ امید بندھی۔
تیسرا شاک دیا گیا تو دل پھر ساکت ہو گیا۔
ڈاکٹر بلال نے مایوسی سے سر ہلایا:
“شاید دیر ہو چکی ہے…”
اچانک میری نظر مریض کے پاؤں پر پڑی — وہ بیڈ کے لوہے سے لگا ہوا تھا۔ میں نے فوراً کہا:
“پاؤں ہٹائیں! کرنٹ وہاں منتقل ہو رہا ہے!”
پاؤں الگ کیا گیا۔
بلال صاحب نے ایک اور جھٹکا دیا —
اور دل نے پھر دھڑکنا شروع کر دیا۔
وہ لمحہ ایسا تھا جیسے وقت نے سانس بحال کر لی ہو۔ ہم نے اسے مانیٹر پر منتقل کیا، سانس بحال کی، اور اطمینان سے باہر آ گئے۔ دل میں ایک سکون سا تھا کہ شاید ہم نے کسی انسان کی زندگی بچانے میں حصہ ڈال دیا۔
اگلے دن تجسس کے مارے دوبارہ کارڈیالوجی وارڈ گیا۔
مریض اب بھی بے ہوش تھا، مگر مانیٹر پر دل کی دھڑکن موجود تھی۔ میں نے چپکے سے دعا کی کہ اللہ کرے اس کا دماغ متاثر نہ ہو۔
پانچ دن بعد ڈاکٹر بلال قریشی ملے تو اُن کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔
کہنے لگے:
“وہ اپنے پاؤں پر چلتا ہوا گھر چلا گیا۔”
میں نے بے اختیار کہا:
“جسے اللہ رکھے، اُسے کون چکھے!”
کچھ عرصہ بعد میں پاک عرب فرٹیلائزر فیکٹری گیا جہاں میرے بہنوئی چیف میڈیکل آفیسر تھے۔
کالونی کی سڑک پر اچانک ایک مانوس چہرہ سامنے آیا۔ وہی شخص، جو اس رات زمین پر گرا تھا، اب مسکراتا ہوا چل رہا تھا۔
میں نے بہنوئی سے پوچھا،
“یہ صاحب کون ہیں؟”
انہوں نے بتایا:
“یہ تنویر قریشی ہیں، یہاں آڈٹ آفیسر ہیں۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے بائی پاس کروا کے آئے ہیں۔”
میں نے سارا واقعہ سنایا تو وہ حیران رہ گئے۔
بعد میں پتا چلا کہ تنویر صاحب کو جب یہ بات بتائی گئی تو وہ خود بھی شکر گزار ہوئے کہ “مجھے نہیں معلوم تھا کہ مجھے سڑک سے اُٹھا کر کون کارڈیالوجی لے گیا تھا۔”
زندگی نے انہیں اُس واقعے کے بعد کئی برس مزید دیے۔
لیکن میرے لیے وہ لمحہ، جب ایک بجھتا ہوا دل دوبارہ دھڑکنے لگا، آج بھی ایمان، سائنس، اور انسانیت — تینوں کا حسین امتزاج لگتا ہے۔
دل کی بحالی (CPR) کی اہمیت اس بات سے بھی بخوبی ظاہر ہوتی ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں عام شہریوں کو بھی اس کی تربیت دی جاتی ہے۔ ائیرپورٹس، ریلوے اسٹیشنز اور بس ٹرمینلز پر واضح ہدایات آویزاں ہوتی ہیں کہ اگر کسی کا دل اچانک بند ہو جائے تو ابتدائی طبی امداد کے طور پر دل کا مساج کیسے کیا جائے۔ ان جگہوں پر ڈی فِبری لیٹرز (Defibrillators) بھی نصب ہوتے ہیں تاکہ فوری طور پر مریض کو جھٹکا دے کر دل کی دھڑکن دوبارہ بحال کی جا سکے۔ یہ عمل نہ صرف انسان کی جان بچا سکتا ہے بلکہ معاشرتی شعور اور ذمہ داری کا مظہر بھی ہے۔ ہمیں بھی چاہیے کہ اپنے معاشرے میں اس شعور کو عام کریں اور عوام الناس کو تربیت دے کر زندگی بچانے کے اس فن سے روشناس کرائیں۔

ایک اور دھڑکن — ایک اور سبق

اوپر بیان کئے گئے واقعہ سے چند سال پہلے کی بات ہے۔ میں کارڈیالوجی وارڈ میں اپنے دوست ڈاکٹر اعظم چیمہ کے پاس بیٹھا چائے پی رہا تھا کہ اچانک شور ہوا — ایک شخص کو دل کا دورہ پڑا تھا۔
ساتھ آیا ڈرائیور چیخ رہا تھا:
“میرے صاحب کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے!”
ڈاکٹر چیمہ فوراً اٹھے، میں بھی ساتھ گیا۔ جب مریض کا چہرہ دیکھا تو پہچان کر حیران رہ گیا — وہ اللہ نواز ترین تھے، سابق ڈی آئی جی اور جہانگیر ترین کے والد۔
ڈاکٹر چیمہ انہیں نہیں جانتے تھے۔ انہوں نے تیزی سے علاج شروع کیا، مگر ڈرائیور کے پاس پیسے نہیں تھے۔
ہم نے ہسپتال کے دوسرے مریضوں کے بیڈز سے دوائیاں اکٹھی کیں، کچھ چیمہ صاحب نے اپنی جیب سے منگوائیں، اور علاج جاری رکھا۔ چند گھنٹوں بعد ان کی حالت سنبھل گئی۔ مگر اب بھی بیہوش تھے۔
اگلے دن معلوم ہوا کہ ان کے بیٹے جہانگیر ترین پہنچ گئے تھے، اور انہیں یہاں سے لے گئے۔
اللہ نواز ترین کافی عرصہ بعد تک حیات رہے اور اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ خوشگوار زندگی گزاری۔

ان دو واقعات نے مجھے ایک بنیادی حقیقت سکھائی —
کہ ڈاکٹر کے لیے مریض کا نام، حیثیت، یا پس منظر کوئی معنی نہیں رکھتا۔
دل رک جائے تو صرف ایک پہچان باقی رہ جاتی ہے:
انسان۔
چاہے وہ راہ چلتا اجنبی ہو یا ملک کا رئیس ترین شخص —
ڈاکٹر کا کام صرف ایک ہے:
زندگی کی لوٹتی ہوئی دھڑکن واپس لانا۔
زندگی میں ایسے لمحے بارہا آتے ہیں جب علم، مہارت اور سائنسی منطق ایک حد پر آ کر رک جاتی ہے — اور وہاں سے دعا، تقدیر اور ایمان کا آغاز ہوتا ہے۔ میں نے بارہا محسوس کیا ہے کہ زندگی دراصل ایک نازک امانت ہے، جو انسان کے ہاتھ میں نہیں، بلکہ صرف اس کے ہاتھوں کے ذریعے چلائی جاتی ہے۔
جب کسی مریض کا دل رک جاتا ہے تو وہ لمحہ دراصل ڈاکٹر کے ضمیر کی آزمائش بن جاتا ہے — کہ وہ ہاتھ روک لے یا پوری قوت سے زندگی واپس لانے کی کوشش کرے۔
میری نظر میں، ہر وہ دھڑکن جو دوبارہ چل پڑے، صرف میڈیکل کامیابی نہیں بلکہ رحمتِ الٰہی کی علامت ہے۔
اور اگر وہ دھڑکن واپس نہ بھی آئے تو بھی ڈاکٹر کی کوشش ضائع نہیں جاتی، کیونکہ وہ ایک انسان کی زندگی کے احترام کا ثبوت بن چکی ہوتی ہے۔
میں ہمیشہ یہی سمجھتا ہوں کہ زندگی اور موت کے درمیان جو پل بنا ہے — وہ صرف انسانی ہمدردی سے قائم رہتا ہے
ہارون پاشا

08/10/2025
25/07/2025

دل کے بائی پاس سرجری ۔۔۔

25/07/2025

ڈاکٹر کی بروقت طعبی امداد سے مریض کی جان بچ گئی مریض معدے کی تکلیف کی شکایت لے کر آیا تھا اچانک دل کا دورہ پڑا۔۔

تفصیلات کے مطابق ہارٹ اینڈ جنرل ہسپتال ایمرجنسی میں ایک مریض لایا گیا جس کو ڈاہر یا اور معدے کی شکایت تھی چیک اپ کے دوران اچانک دل کا دورہ پڑا ڈاکٹرغلام نبی نے حاضر دماغی سے کام لیا اور سی پی آر اور فرسٹ ایڈ دیا اس طرح ایک قیمتی جان بچ گئی قابل ڈاکٹر قوم کا بہت بڑا سرمایہ ہوتے ہیں قوم کو ایسے مسیحا پر فخر ہے

18/07/2025

ہارٹ اٹیک اور اس کا انجیو گرافی کے ذریعے علاج ۔۔۔

اہم اطلاع: انجیکشن سیفٹریاکسون (Ceftriaxone) کے استعمال کے بارے میںبراہ کرم نوٹ کریں:انجیکشن سیفٹریاکسون کو کسی بھی کیلش...
13/04/2025

اہم اطلاع: انجیکشن سیفٹریاکسون (Ceftriaxone) کے استعمال کے بارے میں
براہ کرم نوٹ کریں:

انجیکشن سیفٹریاکسون کو کسی بھی کیلشیم والی ڈرپ (جیسے Ringer’s یا Hartmann’s) کے ساتھ استعمال نہ کریں۔ اگر سیفٹریاکسون کیلشیم والے محلول کے ساتھ مل جائے تو خطرناک قسم کی جھاگ یا سفید مادہ (precipitate) بن سکتا ہے، جو مریض کی جان کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔

خصوصاً neonates (نوزائیدہ بچوں) میں یہ خطرہ اور بھی زیادہ ہوتا ہے۔

کیا کریں؟
سیفٹریاکسون کو صرف ان محلولوں میں استعمال کریں:

Dextrose 2.5%

Dextrose 5%

Dextrose 10%

Normal Saline (Sodium Chloride 0.9%)

یاد رکھیں:
اگر سیفٹریاکسون اور کیلشیم والی ڈرپ کو الگ الگ استعمال کرنا ضروری ہو، تو دونوں ڈرپ لائنز کو اچھی طرح دھو کر نیا سیٹ اپ لگائیں۔

یہ پیغام تمام نرسنگ اور پیرامیڈکس عملے کے لیے نہایت اہم ہے تاکہ مریضوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے۔

برائے مہربانی اس پیغام کو آگے پہنچائیں۔
۔

10/03/2025

انتہائی افسوسناک واقعہ انسانی جانوں کے موت پر دلی افسوس
میو اسپتال میں اینٹی بائیوٹک انجکشن سے ہونے والی اموات کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق انجکشن کو مکس کرنے کے لیے پانی کی بجائے رینگر لیکٹیٹ اور کیلشمیم گلوکونیٹ شامل کیا گیا۔۔۔ انجکشن کے بیچ میں کوئی خرابی نہیں ۔۔إِنَّا لِلَّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ‎,

یہ وہ پتھروں کا حجم ہے جو مصر کے عظیم اہرام کی تعمیر میں استعمال ہوا تھا۔ کل 25 لاکھ پتھر کے بلاکس استعمال کیے گئے تھے، ...
26/01/2025

یہ وہ پتھروں کا حجم ہے جو مصر کے عظیم اہرام کی تعمیر میں استعمال ہوا تھا۔ کل 25 لاکھ پتھر کے بلاکس استعمال کیے گئے تھے، یعنی 20 سال کے عرصے میں ہر 9 سیکنڈ کے اندر ایک بلاک کو نکالنا، سینکڑوں کلومیٹر تک منتقل کرنا، ایک دریا عبور کرنا، اور پھر اسے اٹھا کر اپنی جگہ پر رکھنا پڑتا تھا، وہ بھی دن رات بغیر کسی وقفے کے!

اہرام کی چوٹی تک پہنچنے کے لیے 150 میٹر کی بلندی تک پہنچنے کے لیے تقریباً 3 کلومیٹر طویل ڈھلوان بنانی پڑتی تاکہ تعمیر میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ آئے۔

کچھ موجودہ انجینئرز کا کہنا ہے کہ یہ کام جدید بھاری مشینری اور طریقوں کے ساتھ بھی ممکن نہیں ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ قدیم دور میں ایک زبردست اور ترقی یافتہ انجینئرنگ کا مظاہرہ کیا گیا تھا۔ یہ ڈھانچہ تقریباً 5000 سال پرانا ہے اور آج بھی اپنی عظمت کا گواہ ہے۔

Address

Kabirwala

Telephone

+923065005109

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Dr Sajid Iqbal Naich posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Practice

Send a message to Dr Sajid Iqbal Naich:

Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on LinkedIn
Share on Pinterest Share on Reddit Share via Email
Share on WhatsApp Share on Instagram Share on Telegram

Category