19/10/2025
جناح اسپتال کو خودمختار ادارہ بنانے کا فیصلہ، ملازمین کو شدید تحفظات
وفاق نے جناح اسپتال 25 سال کیلئے سندھ حکومت کو دیا مگر اب سندھ حکومت اسپتال این جی او کے حوالے کر رہی ہے، ملازمین
طفیل احمد
October 18, 2025
کراچی:
سال 1959ء میں قائد اعظم کے نام سے کراچی میں قائم کیے گئے جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کو محکمہ صحت سندھ سے علیحدہ کرکے خود مختارادارہ بنانے کا فیصلہ کرلیا گیا جب کہ ملازمین کا کہنا ہے کہ اسپتال کو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے نام پر این جی او کے حوالے کرنے کی تیاری کرلی گئی ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق اسپتال کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے تصدیق کی ہے کہ جناح اسپتال کو محکمہ صحت سے علیحدہ کرنے کیلئے قانونی مسودہ تیار کرلیا گیا ہے جسے منظوری کے لیے سندھ اسمبلی کے اجلاس میں پیش کیاجائے گا، جناح اسپتال کے پاس پیسے نہیں ہیں اور وہ مختلف ادائیگیوں کی مد میں 70 کروڑ روپے کا مقروض ہے۔
جناح اسپتال پہلے وفاقی حکومت کے زیر اتنظام تھا لیکن 2011ء میں 18 ویں ترمیم کی منظوری کے بعد اسے devolution کے تحت سندھ حکومت کے حوالے کردیا گیا تھا۔ اس فیصلے کے خلاف اسپتال کے ملازمین نے سندھ ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی اور 5 سال بعد عدالت نے جناح اسپتال کے ملازمین کے حق میں فیصلہ دیا کہ جناح اسپتال، این آئی سی ایچ اور این آئی سی وی ڈی کو وفاق کے ماتحت کریں گے لیکن سندھ حکومت نے اس فیصلے کے خلاف عدالت سے رجوع کیا تھا جس پر عدالت نے سندھ حکومت کی درخواست مسترد کردی تھی۔
بعد ازاں 8 اگست 2023ء کو وفاقی حکومت نے جناح اسپتال کو سندھ حکومت کے ماتحت کرنے کے سلسلے میں ایک معاہدہ کیا تھا (معاہدے کی کاپی ایکسپریس کے پاس موجود ہے)، اس معاہدے کے تحت جناح اسپتال سندھ حکومت کے زیر انتظام 25 سال تک کام کرتا رہے گا، معاہدے کی شق نمبر 9 کے مطابق اسپتال کے کسی بھی ملازمین کو نکالا نہیں جائے گا لیکن اسپتال کے ملازمین ڈیپوٹیشن کے تحت سندھ حکومت کے ماتحت تصورکیے جائیں گے اور ملازمین کے مفاد کے خلاف کوئی کام نہیں ہوگا۔
اس تحری معاہدے پر اس وقت کے سیکریٹری منسٹری آف نیشنل ہیلتھ سروسز، ریگولیشن اینڈ کوآرڈی نیشن حکومت پاکستان اور سیکریٹری صحت سندھ کے دستخط موجود ہیں۔ اسپتال میں کام کرنے والے ملازمین کا کہنا ہے کہ جناح اسپتال کو کسی این جی او کے ماتحت نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وفاق نے جناح اسپتال کا انتظام 25 سال کے لیے حکومت سندھ کے حوالے کیا ہے اور اس معاہدے میں ایسا کوئی ذکر نہیں ہے کہ اسپتال کو کسی این جی اوکے حوالے کیا جائے۔
جناح اسپتال کو بورڈ آف گورنر کے تحت خودمختار اسپتال بناکر چلایا جائے گا جس کے بعد جے پی ایم سی کا محکمہ صحت سندھ سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔
ذرائع نے بتایا کہ جناح اسپتال کو آئندہ چند ماہ بعد خودمختار ادارہ بنادیا جائے گا۔ جناح اسپتال کے ملازمین کادعوی ہے کہ اسپتال کواین جی او کے حوالے کیا جارہا ہے اور اس سلسلے میں منصوبے پر خاموشی سے کام شروع کردیا گیا ہے۔
ایگزیکٹو ڈائریکٹر جناح اسپتال
جناح اسپتال کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر شاہد رسول نے ایکسپریس کو بتایا کہ اسپتال کو صوبائی محکمہ سے علیحدہ کرکے خودمختار بنا کر بورڈ آف ڈائریکٹران کے ماتحت چلایا جائے گا، اسپتال کے تمام معاملات اور اخراجات کا فیصلہ اسپتال کی گورننگ باڈی کرے گی، گورننگ باڈی میں اسپتال میں کام کرنے والی این جی او کے نمائندے بھی شامل ہوں گے جبکہ گورننگ باڈی کے چیئرمیں وزیراعلی سندھ ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ جناح اسپتال کو اب قومی ادارہ امراض قلب کی طرز پر خود مختار بنایا جارہا ہے جس کے بعد محکمہ صحت کی بجائے حکومت سندھ جناح اسپتال کو ون لائن بجٹ براہ راست فراہم کرے گی۔
انھوں نے بتایا کہ اس حوالے سے وزیراعلی سندھ نے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی ہے لیکن ابھی تک کمیٹی کا ایک اجلاس بھی منعقد نہیں کیا گیا، جناح اسپتال 60 کروڑ روپے سے زائد کا مقروض ہے اور اس حوالے سے حکومت سندھ کو اسپتال پر واجبات کی فہرست فراہم کردی ہے تاکہ اسپتال کی خودمختاری سے پہلے اسپتال کے تمام واجبات ادا کیے جاسکیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اسپتال کو خود مختار کیے جانے کے سلسلے میں قانونی مسودہ بھی تیار کرلیا گیا ہے جس کی منظوری سندھ اسمبلی سے لی جائے گی، اسمبلی سے بل پاس ہونے کے بعد اسپتال کا انتظامی ڈھانچہ بھی تبدیل کردیا جائے گا اور اسپتال کو 12رکنی بورڈ آف گورنر کے تحت چلایا جائے گا۔
ایگزیکٹو ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ اس وقت جناح اسپتال مختلف وینڈروں کا مقروض ہے، حکومت سندھ سے اسپتال کو مختلف وینڈروں کی جانب سے مہیا کی جانے والی سروسز کے بقایاجات کی ادائیگی کے لیے مزید فنڈز کی ضرورت ہے اس لیے اسپتال نے حکومت سندھ کو فنڈ جاری کرنے کی درخواست کی ہے جس میں واجبات کی تفصیلات بھی شامل ہیں۔
ڈاکٹر شاہد رسول کے مطابق اس وقت اسپتال کے ذمہ اسپتال کی سیکیورٹی کے مد میں 79 لاکھ 35 ہزار کی ادائیگی کرنی ہے جبکہ اسٹیشنری کی مد میں 66 لاکھ 7 ہزار 796 روپے، پرنٹنگ کی مد میں 3 لاکھ 85 ہزار 600 روپے اور اسپتال کے دیگر اخراجات کی مد میں 1 کروڑ 27 لاکھ 52 ہزار 164 روپے کی ادائیگی کرنی ہے۔
جناح اسپتال کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اسپتال کے ملازمین اور دیگر معاملات پر ہائی کورٹ اور دیگر عدالتوں میں 83 کیسز زیر سماعت ہیں، ان میں زیادہ تر کیسز ملازمین کی پروموشن اور حقوق سے متعلق ہیں۔
جناح اسپتال کے ملازمین کے خدشات اور بات چیت
اسپتال کے ملازمین اور بعض انتظامی افسران نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ حکومت سندھ اسپتال کواین جی او کے حوالے کررہی ہے یہی وجہ حکومت سندھ اور اسپتال انتظامیہ اسپتال کی 1200 سے زائد خالی اسامیوں پر ملازمین کی بھرتیاں نہیں کررہی جبکہ ملازمین گزشتہ دس دس سال سے اپنی ترقی کے منتظر بیٹھے ہیں۔
ان ملازمین کا کہنا تھا 2011ء سے پہلے ہم وفاقی حکومت کے ملازم تھے پھریہ اسپتال صوبائی حکومت کے ماتحت کردیا گیا وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان متعدد تنازعات کی وجہ سے سیکڑوں ملازمین اپنی ترقی کے بغیرریٹائرڈ ہوگئے جبکہ سیکڑوں ملازمین اج بھی اپنی پروموشن سے محروم ہیں۔
ان ملازمین نے بتایا کہ حکومت سندھ اور اسپتال کی انتظامیہ اسپتال کے معاملات میں کوئی دلچسپی نہیں لیتی، اسپتال کے طبی فضلے کو تلف کرنے کی 2 مشینیں کئی سال سے خراب پڑی ہیں جبکہ سیکڑوں بائیو میڈیکل آلات بھی ناکارہ پڑے ہیں۔
ہیوی سولر سسٹم کے باوجود بجلی کا ماہانہ بل 8 کروڑ روپے
ملازمین کا کہنا تھا کہ اسپتال میں ہیوی سولر سسٹم لگائے جانے کے باوجود اسپتال کا بجلی کا بل ماہانہ 6 سے 8 کروڑ روپے جبکہ سوئی گیس کا بل 2 سے 3 کروڑ روپے کا آتا ہے، ان ملازمین نے الزام عائد کیا کہ جناح اسپتال شدید بدنظمی کا شکار ہے، مریضوں کو ادویات فراہم نہیں کی جاتی جبکہ آپریشن کے لیے مریضوں کو چھ چھ ماہ بعد کا وقت دیا جاتا ہے، اسپتال کے پلاسٹک سرجری سمیت کئی شعبے بند پڑے ہیں۔
اسی ضمن میں ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت بتدریج عوام کے سرکاری اسپتالوں کو مختلف این جی او کے حوالے کررہی ہے لیکن عوام کو صحت کے حوالے سے خاطر خواہ طبی سہولتیں فراہم نہیں کی جارہی اور عوام کی بڑی تعداد حصول علاج کے لیے نجی اسپتالوں کا رخ کر رہی ہے۔
ڈھائی سال قبل اسپتال کی 571 مستقل اسامیاں بجٹ بک سے ختم، کوئی بھرتی نہ ہوا
اسپتال کے انتظامی ذرائع کا کہا ہے کہ ڈھائی سال قبل جناح اسپتال کی 571 مستقل اسامیوں کو بجٹ بک سے ختم کردیا گیا، یہ اسامیاں ٹیچینگ کیڈر، فیکلٹی، نرسنگ اور دیگر شعبے سے متعلق ہیں، ان اسامیوں کو ختم کرنے کے بعد موجودہ ملازمین کی پروموشن کے مسائل پیدا ہوگئے ہیں اور سیکڑوں ملازمین ترقی کے منتظر بیٹھے ہیں، نہ ہی ان اسامیوں پر کوئی بھرتی ہوئی ہے۔
اسپتال کو منصوبہ بندی کے تحت پرائیویٹ کرنے کی سازش ہورہی ہے، ملازمین
جناح اسپتال کے ذرائع نے بتایا کہ اس وقت جناح اسپتال میں بستروں کی تعداد 2 ہزار سے زائد ہے جہاں صرف 800 ملازمین کام کررہے ہیں۔ ذرائع نے دعوی کیا کہ اسپتال کو ایک منصوبہ بندی کے تحت پرائیویٹ کرنے کی سازش خاموشی سے کئی سال سے کی جارہی ہے، یہی وجہ ہے کہ جناح اسپتال کی مختلف ٹیچنگ فیکلٹی میں اسامیاں خالی پڑی ہیں، کئی شعبوں کے ایچ او ڈیز نہیں ہیں جبکہ مختلف شعبوں میں طبی عملے کی قلت ہے اور اسپتال انتظامیہ جان بوجھ پر خالی اسامیوں پر بھرتیاں کرنے سے گریزاں ہے۔
اسپتال کی 75 ایکڑ اراضی میں سے 21 ایکڑ پر قبضہ
جناح اسپتال کی 75 ایکڑ اراضی ہے جس میں سے جناح اسپتال کی رہائشی کالونی کی تقریباً 21 ایکٹر اراضی پر قبضہ ہے اور قابضین اسپتال کی پانی، بجلی اور گیس بلامعاوضہ اسپتال کررہے ہیں۔ اسپتال انتظامیہ نے رہائشی کالونی میں قابضین کو ہٹانے کے لیے متعدد بار آپریشن کیے لیکن اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
اسپتال کے ساتھ جناح سندھ میڈیکل کالج بھی قائم، ہزاروں طلبا زیر تعلیم
جناح اسپتال 1959ء میں جناح سینٹرل اسپتال کے نام سے قائم کیا گیا تھا، بعدازاں اسے اپ گریڈ کر کے پوسٹ گریجویٹ تربیت کا مرکز بنادیا گیا اور اس کے نام میں ترمیم کرکے جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر (JPMC) رکھا گیا۔ 1960ء اور 1970ء کے درمیان اسپتال میں مختلف تحقیقی شعبے اور شعبہ طب میں پوسٹ گریجویشن کے کورسز بھی شروع کیے گئے جس میں سرجری میڈیسن، پیڈیاٹرک، گائنی سمیت دیگر تحقیقی شعبے بھی قائم ہیں، جناح اسپتال کے ساتھ اب جناح سندھ میڈیکل کالج ہے جہاں ہزاروں طلباء تعلیم اور تربیت کے ساتھ ساتھ کلینکل ٹریننگ بھی حاصل کرتے ہیں، گریجویشن کے بعد زیادہ تر میڈیکل گریجویٹ جناح اسپتال میں ہی ہاؤس جاب کرتے ہیں۔
اوپی ڈیز میں یومیہ 5 ہزار مریضوں کی آمد، متعدد شعبے غیر فعال
جناح اسپتال کی مختلف اوپی ڈیز میں یومیہ 5 ہزار سے زائد مریض معائنے کے لیے رپورٹ ہوتے ہیں جبکہ شعبہ حادثات میں یومیہ 1800 سے 2 ہزار افراد کو علاج کی غرض سے لایا جاتا ہے۔ اس وقت جناح اسپتال کے مختلف شعبے ایچ او ڈیز نہ ہونے کی وجہ سے غیرفعال ہیں، اسپتال میں پلاسٹک سرجری، تھروسسک سرجری سمیت دیگر شعبے عملا بند ہیں۔ جناح اسپتال کے 6 داخلی و خارجی رستے ہیں، اسپتال کی سیکیورٹی کے لیے 79 لاکھ 35 ہزار رقم ادا کرنے کے باوجود اسپتال میں غیر متعلقہ افراد کی رات بھر امدورفت کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔