ماہر نفسیات

ماہر نفسیات Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from ماہر نفسیات, Psychologist, Karachi.

🧠 ماہر نفسیات سے رجوع کریں
🌿 ذہنی سکون اب ممکن

✅ ڈپریشن (افسردگی)
✅ اینگزائٹی (بے چینی، گھبراہٹ)
✅ غصہ اور نیند کے مسائل
✅ منفی خیالات
✅ خوف، وہم، OCD
✅ بچوں میں ADHD، آٹزم یا سلو سیکھنا
✅ پینک اٹیک اور جذباتی مسائل

آج ہی رابطہ کریں

19/10/2025

ایک آدمی اپنے بوڑھے والد کے پاس گیا اور کہا:
"میری بیوی بالکل بدل گئی ہے۔ وہ اب جوان نہیں لگتی، اس کا جسم پہلے جیسا خوبصورت نہیں رہا۔ میں اب اسے طلاق دینا چاہتا ہوں اور کسی دوسری عورت سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ میں ایک جوان، خوبصورت اور دُبلی پتلی عورت کا حقدار ہوں، ترجیحاً لمبے بالوں والی۔"

بوڑھے باپ نے کچھ دیر خاموشی اختیار کی، پھر کہا:
"ٹھہرو، میں کل تمہارے گھر آؤں گا تاکہ تمہاری بیوی کو دیکھ سکوں۔ اگر وہ واقعی بدصورت ہوئی تو تم اسے طلاق دے دینا اور کسی اور سے شادی کر لینا۔"

اگلے دن بوڑھا باپ بیٹے کے گھر آیا۔ بیوی کو دیکھ کر وہ خاموشی سے سر ہلاتا رہا، جیسے کسی گہری سوچ میں ہو۔ پھر کہا،
"میں تمہیں بعد میں جواب دوں گا۔"

تین دن بعد باپ نے بیٹے کو اپنے گھر بلایا اور کہا:
"تم ٹھیک کہتے ہو۔ تمہاری بیوی واقعی بدصورت اور خوفناک ہو گئی ہے۔ تمہیں اسے طلاق دے دینی چاہیے! سنو، میں نے تمہارے لیے ایک بہتر عورت ڈھونڈ لی ہے۔ وہ ایک جگہ رہتی ہے جسے 'ایموہ' کہتے ہیں۔ دنیا میں اُس سے زیادہ خوبصورت کوئی عورت نہیں۔"

بیٹے نے حیرت سے پوچھا:
"واہ، زبردست! ابو، بتائیے کہ یہ 'ایموہ' کہاں ہے؟ میں اُس عورت سے ملنا چاہتا ہوں۔"

باپ کچھ لمحے خاموش رہا، پھر حیران کن بات کہی:
"کیا تم نے کبھی غور کیا ہے کہ 'Emoh' کو الٹا پڑھو تو وہ 'Home' بنتا ہے؟ وہ عورت تمہارے اپنے گھر میں رہتی ہے۔ دنیا کی سب سے خوبصورت عورت وہی ہے جو تمہارے گھر میں تمہاری بیوی ہے۔"

بیٹا بالکل خاموش ہو گیا، وہ کچھ بول نہ سکا۔ تب اس کے باپ نے مزید کہا:
"میرا خیال ہے تمہیں اپنی نظر چیک کرانی چاہیے۔ لگتا ہے تم اپنی بیوی کو صحیح طرح دیکھ ہی نہیں رہے۔ اگر تم روز اپنی دلہن کو اُس کی اصل خوبصورتی کے ساتھ نہیں دیکھ پا رہے تو مسئلہ تمہارے اندر ہے۔ تمہاری بیوی نے اپنی جوانی تمہارے لیے قربان کی، اپنا جسم تمہارے بچوں کو جنم دینے کے لیے دیا۔ زندگی کی ہر اونچ نیچ میں تمہارے ساتھ کھڑی رہی۔ اگر تمہیں وہ خوبصورت نہیں لگتی تو اس کی وجہ یہ ہے کہ تم نے کبھی اس پر دھیان نہیں دیا۔ یاد رکھو، بغیر توجہ اور محبت کے ہر جیتی جاگتی چیز مرجھا جاتی ہے۔ اسے محبت، عزت اور توجہ دو، وہ بھی ویسی ہی کھل اٹھے گی جیسی تم باہر کی عورتوں کو دیکھتے ہو۔"

دنیا میں کوئی عورت اس سے زیادہ خوبصورت نہیں ہوتی جو بیوی اور ماں ہو۔ اُس نے بہت کچھ جھیلا ہے اور خود کو قربان کیا ہے تاکہ وہ اپنے فرائض نبھا سکے۔ اُس کی خوبصورتی بے مثال ہے۔
copied

16/10/2025

"بچے صرف تربیت سے نہیں… عزت سے سنورتے ہیں۔"

ہم اپنے بچوں سے عزت چاہتے ہیں،
مگر اکثر انہیں عزت دینا بھول جاتے ہیں۔
ہم چاہتے ہیں وہ ہماری بات مانیں،
مگر انہیں بولنے کی اجازت نہیں دیتے۔
ہم چاہتے ہیں وہ ہم پر بھروسہ کریں،
مگر ان کے احساسات کا مذاق بنا دیتے ہیں۔

کبھی سوچا؟
جب آپ کسی محفل میں اپنے بچے کی غلطی دوسروں کے سامنے بیان کرتے ہیں،
تو آپ صرف اس کی "اصلاح" نہیں کرتے —
بلکہ اس کا اعتماد توڑ دیتے ہیں۔
جب آپ کسی چھوٹی بات پر اونچی آواز میں ڈانٹتے ہیں،
تو وہ آپ سے ڈرنا سیکھتا ہے،
محبت نہیں۔

عزت صرف بڑوں کے لیے نہیں ہوتی۔
ہر دل جو دھڑکتا ہے، وہ احترام چاہتا ہے۔
بچوں کو عزت دینے کا مطلب یہ نہیں کہ
انہیں بے لگام چھوڑ دیا جائے —
بلکہ یہ سکھانا کہ "تمہاری رائے کی بھی اہمیت ہے،
تمہارا احساس بھی قابلِ قدر ہے۔"

بچے وہ نہیں سنتے جو آپ کہتے ہیں،
وہ وہی کرتے ہیں جو آپ کرتے ہیں۔
اگر آپ ہر وقت غصے میں رہیں،
تو وہ بھی چلاّنا سیکھیں گے۔
اگر آپ انہیں پیار اور تحمل سے سمجھائیں،
تو وہ دوسروں کے ساتھ بھی ویسے ہی پیش آئیں گے۔

یاد رکھیں —
احترام ایک بیج کی طرح ہے،
جو بچپن میں بویا جائے تو عمر بھر پھل دیتا ہے۔
جو بچہ گھر میں عزت پاتا ہے،
وہ دنیا میں عزت دینا جانتا ہے۔

جب آپ اپنے بچے کی بات پوری توجہ سے سنتے ہیں،
تو وہ یہ سیکھتا ہے کہ
"میری آواز کی بھی اہمیت ہے۔"
یہی احساس کل اسے ایک بہتر انسان بنائے گا —
جو دوسروں کو بھی سن سکے گا،
سمجھ سکے گا،
اور دلوں کو توڑنے کے بجائے جوڑنے والا بنے گا۔

بچوں کو دبانے سے نہیں،
سمجھنے سے سدھارا جاتا ہے۔
اور سب سے قیمتی تحفہ جو آپ اپنے بچے کو دے سکتے ہیں —
وہ ہے عزت، سنجیدگی اور یقین۔
کیا ہم واقعی اپنے بچوں کو اتنی عزت دیتے ہیں جتنی ہم خود چاہتے ہیں؟
کمنٹ میں بتائیں، آپ اپنے بچے کو عزت کیسے سکھاتے ہیں؟ 🌿

دعاؤں میں یاد رکھیں، سدا خوش رہیں، مسکراتے رہیں آمین

copied

16/10/2025

مائیں بچوں سے نہیں بھاگتیں،
انہیں بس کچھ دیر کے لیے ذمہ داریوں سے بریک چاہیے ہوتا ہے۔

انہیں اپنے بچوں سے نہیں، بلکہ اس مسلسل دوڑ سے تھکن محسوس ہوتی ہے جہاں ہر لمحہ یاد رکھنا پڑتا ہے کہ کس نے کیا کھایا، کپڑے دھل گئے یا نہیں؟ سکول کی سب چیزیں ریڈی ہیں؟یونیفارم ریڈی ہے؟ ہوم ورک کر لیا؟ بچے آپس میں لڑائی کیوں کر رہے؟ جس کا ساتھ دو، دوسرا والا خفا۔۔

اور سب سے اہم! آج کھانے میں کیا بنے گا۔ ایک چیز ایک بچے کو پسند نہیں، دوسری والی دوسرے کو ۔ کس کو راضی رکھیں، کس کی ناراضگی مول لیں۔ نہ ختم ہونے والی بحث۔

ماؤں کو اپنے بچوں سے فرار نہیں چاہیے ہوتا۔ انہیں بس اتنی سی خواہش ہوتی ہے کہ کبھی وہ بھی کسی لمحے میں صرف “خود” بن سکیں۔ بغیر کسی ٹو ڈو لسٹ، بغیر کسی عجلت، بغیر کسی فکر کے۔وہ چاہتی ہیں کہ ہنسیں، اور اُن کی ہنسی کے پیچھے کسی کام کا بوجھ نہ چھپا ہو۔ وہ چاہتی ہیں کہ بچوں کے ساتھ کھیلیں، یوں کہ ذہن میں اگلے کام کی گھنٹی نہ بجتی رہے۔

ماں ہونا بوجھ نہیں،
اصل بوجھ تو کاموں کا وہ تسلسل ہے جو کبھی رکتا نہیں، تھمتا نہیں۔

تو مائیں جب تھک جانے کا ذکر کریں تو جج نہ کیا کریں۔ باتیں نہ سنایا کریں۔ ماں کو آرام بچوں سے نہیں، ذمہ داریوں کے شور سے چاہیے ہوتا ہے۔ بڑھ کر ذمہ داری بانٹنے کی کوشش کیا کرں نہیں تو بس نرمی سے ایکنالج کر لیا کریں۔ انسان کو بعض اوقات مدد نہیں چاہئے ہوتی، احساس کرنے والا ایک ساتھی درکار ہوتا ہے۔

انگریزی تحریر کا ترجمہ و ترجمانی
Copy

12/10/2025

یہ کہانی ایک ایسی عورت کی ہے جو اپنی جوانی کے عروج میں تھی جب اس کا شوہر اسے چھوڑ کر دوسری عورت سے شادی کر لی۔ اس کے دو بچے، ایک بیٹا اور ایک بیٹی، تھے۔ اُس نے کبھی طلاق کی درخواست نہیں دی، یہ سوچ کر کہ یہ ایک عارضی چیز ہوگی جو ختم ہو جائے گی۔ مگر یہ عارضی دورانیہ طویل ہو گیا، اور اس نے خود کو اور اپنے بچوں کو نظرانداز ہوتے دیکھا۔ پھر بھی، اس نے طلاق نہیں مانگی کیونکہ وہ اپنے بچوں پر رحم کرتے ہوئے مطلقہ کا لقب نہیں چاہتی تھی، جیسے طلاق کوئی جرم ہو۔

اس عورت نے کھیتوں میں کام کیا، مویشی اور مرغیاں پالیں، تاکہ اپنے بچوں کو تعلیم دے سکے۔ اس کا خواب تھا کہ وہ ایک دو منزلہ گھر بنائے جہاں وہ اپنے بچوں کی شادیاں کر سکے اور ان کے قریب رہ سکے۔ اس نے اپنے والد کے ورثے سے ملنے والے پیسے سے یہ خواب پورا کیا۔

اُس کے بیٹے کی شادی اس گھر میں ہوئی، مگر بیٹی کا شوہر اس گاؤں میں رہنے کو تیار نہیں تھا، اس لیے وہ شہر میں رہنے لگا۔ بیٹی نے بھی گاؤں کے نوجوانوں کو چھوڑ کر اپنے کام کے مقام پر ملنے والے لڑکے سے محبت کی اور شادی کرلی۔

وقت گزرنے کے ساتھ، اس عورت کے بیٹے کی بیوی اسے شہر لے گئی، اور بیٹا اس کے قریب رہنے لگا۔ اس عورت کے بچوں سے تعلقات بس فون اور کبھی کبھار کی ملاقاتوں تک محدود ہو گئے، خاص طور پر بیٹے کی جانب سے۔ اس نے جب محسوس کیا کہ اس کی زندگی میں اب اس کے بچے بھی کم ہی آتے ہیں، تو وہ خود ہی انہیں فون کرنے لگی۔

پڑوسیوں نے ہی اُس کی دیکھ بھال کی جب وہ بیمار ہوئی، اور ضرورت پڑنے پر اس کا خیال رکھا۔ وہ عورت اب اپنی زندگی کے فیصلوں پر پچھتا رہی ہے اور کہتی ہے کہ اگر وقت دوبارہ پلٹ جاتا، تو وہ سب کچھ مختلف طریقے سے کرتی۔

اس نے اپنے پڑوسیوں سے وصیت کی ہے کہ اگر کبھی وہ ان کو عادی اوقات میں نظر نہ آئے، تو دیکھ لیں کہ شاید وہ مر چکی ہو۔

واقعی، انسان دوسروں کی خوشی کے لیے اپنی زندگی قربان کرتا ہے، مگر بدلے میں اسے خود کے لیے کوئی چھوٹا سا خوشی کا لمحہ بھی نہیں ملتا۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی قربانیوں اور اپنے والدین کی خوشیوں کا خیال رکھیں، چاہے وہ صرف ایک لفظ یا توجہ سے ہی کیوں نہ ہو۔

یا اللہ! ہمارے والدین پر رحم فرما، جس طرح انہوں نے ہمیں بچپن میں محبت اور شفقت سے پالا۔

09/10/2025

کسی کا امیر یا غریب ہونا اس کی خاندانی عادتیں یا خواہشات نہیں بدل سکتا یعنی انسان کی فطرت نہیں بدلتی تو جناب کچھ یہی حال ہمارا ہے میں اپنے ماں باپ کی پہلی اولاد ہوں جو اپنی دادی کی بھر پور دعائوں کا نتیجہ ہوں۔
دادی کہتی تھیں یا اللہ میرے بیٹے کو اولاد دے چاہے بیٹی ہی دے دے۔ عادتیں بھی پھر دادی کی ہی لے کے پیدا ہوئ۔ میری دادی کی عادتیں امیرانہ تھیں پاکستان بننے کے بعد دادا جی نے آم امرود اور کینو کا باغ لگایا تاکہ بچے پال سکیں۔ اور آم دادی کے فیورٹ تھے۔ دادا جی کے پاس ہنر بھی تھے جیسے چارپائی اور جال وغیرہ بنانا اس طرح انہیں کبھی تنگی نہیں ہوئ اپنی اچھی خاصی زمین بھی تھی۔
دادی روایتی عورت نہیں تھیں چغلی حسد اور عورتوں کی جو اور غلط عادتیں ہوتی ہیں ان سے کوسوں دور تھیں پورے گائوں کے بچے انکے پاس قرآن مجید پڑھنے آتے تھے ۔
ہمارے گھر میں ایک ٹینکی تھی جو بچے صبح نلکا چلا کر بھر جاتے اور دادی دن بھر استعمال کرتیں ۔
ان دنوں لڑکیاں سکول نہیں جاتی تھیں استاد کی عزت تھی اور اکثر کام بھی لڑکیاں ہی کر جاتیں۔ دادی نے کبھی باہر کا کام بھی نہیں کیا تھا فصل کے دنوں میں قرآن پڑھنے والے لڑکے دادا کا ہاتھ بٹاتے۔
لوگ ہمیں اب تک بتاتے ہیں کہ ہم نے آپکی دادی سے قرآن پڑھا ہے پھر امی نے پڑھایا اور ان کے بعد میں نے یوں یہ سلسلہ میری شادی کے بعد ختم ہو گیا۔
ننھیال سائڈ پر بھی نانی بچوں کو قرآن پڑھاتی تھیں ۔ اور مجھے یاد ہے کہ اک بار نانی نے مجھے بتایا کہ وہ ابھی پارہ پڑھ رہی تھیں کے ان کی شادی ہو گئ اور قرآن انہوں نے خود ہی مکمل کیا شادی کے بعد لیکن نانی کی ذہانت کمال تھی وہ جوڑ کر کے اردو پڑھ لیتی تھیں۔ کہتی تھیں شادی کے کچھ سال بعد ہی نانا جی وفات پا گئے اور چھوٹے چھوٹے تین بچے تھے۔
ان دنوں عورت کی دوسری شادی معیوب سمجھی جاتی تھی لیکن بیوہ عورت کا خدشہ بھی ہوتا تھا نانی جوان اور حسین تھیں ۔لیکن عاجزی انکساری اور خدا کا خوف ان سے زیادہ میں نے کسی میں نہیں دیکھا اور صبر ۔۔۔۔ جب ہم نانی کی باتیں سن کر ان کا حسن اور صحت دیکھتے تو لگتا تھا کہ یہ ان کے صبر کے بدلے ملا ہے۔
نانی کہتیں میں بیوہ ہوئ تو مجھے میری استاد جو انکی بھابھی بھی تھیں نے کہا اس قرآن کو دل سے لگا لو کسی طرف نہیں دیکھنا یہی تمہارا سب کچھ ہے انکے لفظ یوں تھے یہی تمہارا مالک ہے اس سے ہی سب کچھ مانگنا تمہیں کسی چیز کی کمی نہیں آئے گی۔
نانی کہتی میں نے انکی بات مانی مجھے قرآن میں سرور آنے لگا میں اسکی دیوانی ہوتی چلی گئ جو بات رب سے کرتی پوری ہو جاتی بچے کچھ جوان ہوئے تو واپس سسرال آ گئیں ۔ بچوں کو قرآن پڑھاتیں لوگ انکی بہت عزت کرتے ۔انکے دم میں شفاء تھی وہ ایک تہجد گزار عورت تھیں لوگ انسے دعائیں کرواتے انکے اس زندگی کا صلہ ہم نے دیکھا۔ پیار تو ہم بھی اپنی دادی سے کرتے تھےمگر جیسے ماموں کے بچوں کو دیکھا واقعی اس دنیا میں اب دیکھنے کو نہیں ملتا۔
خیر بات کہاں سے کہاں نکل گئ بات تو دادی اماں کی ہو رہی تھی۔
دادی بھی نماز قرآن پڑھنے والی تھی مگر وہ ایک لیڈر کی اکلوتی اولاد تھی اور سسرال میں نمبر داروں کی بہو تھی ۔ صاف ستھرے مہنگے کپڑے پہنتیں ۔ باہر جانے سے پہلے اچھی طرح تیار ہوتیں انکی سہیلیاں بھی امیر تھیں ۔
لائف سٹائل اور کھانا پینا شاہانہ تھا ۔ باتوں اور لہجے میں مزاح پایا جاتا۔
مجھے ہر کوئی بات بات پر کہہ دیتا ہے تم اپنی دادی جیسی ہو۔
دادی کو پھلوں کے علاوہ۔ گوشت کھویا اور مربعہ بہت پسند تھا
اب اپنی بات نہیں لکھوں گی میرے حالات کچھ مختلف ہیں بس یہی کہہ لیں کہ عادات اور خواہشات تو دادی جیسی ہیں مگر حالات نانی جیسے ہیں اور حالات کی ستم ظریفی دیکھئے دادی نانی اکیلی تھیں یعنی انکی دیورانی جیٹھانی نہیں تھیں اور یہاں بھی میں نہیں لکھوں گی کہ اس کہانی میں اس سے آگے کیا ہو رہا ہے
کچھ دن پہلے کھویا کھانے کو دل کیا تو منگوا لیا لیکن آج پھر بہت دل کر رہا تھا بیٹے کو پانچ سو دیا کہ جاءو کھویا لے کے آئو۔
مگر دو نمبر ملا پائڈر اور فلیور والا بہت دکھ ہوا کچھ بھی اچھا نہیں ملتا اگر کبھی کبھار دل پر پتھر دکھ کر خواہش پوری کرنے کا سوچ ہی لوں ۔
تو آج دادی کا زمانہ ٹوٹ کر یاد آ رہا ہے جب وہ چیز منگوا کر مجھے اسمیں سے حصہ دیتی نجانے وہ لوگ وہ ذائقہ کہاں کھو گئے ۔
آئ مس یو دادی
آئ مس یو

09/10/2025

ہم جس معاشرے میں جی رہے ہیں وہاں عزت اور مقام کا پیمانہ اکثر انسان کی کمائی اور پیشے سے ناپا جاتا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ عزت انسان کے کردار، اخلاق اور سچائی سے جڑی ہونی چاہیے مگر بدقسمتی سے ہم نے اسے دولت اور نوکری کے ساتھ باندھ دیا ہے یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی بڑے ادارے میں کام کرے یا اچھی تنخواہ لے تو لوگ اسے عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں لیکن اگر کوئی محنت مزدوری کرے یا چھوٹا کاروبار کرے تو مذاق اڑایا جاتا ہے حالانکہ وہ بھی حلال کما رہا ہے اور اپنی محنت سے اپنی زندگی چلا رہا ہے عزت کو پیسوں سے تولنے کا یہ رویہ دراصل معاشرتی پسماندگی اور ذہنی غلامی کی علامت ہے ہم بھول جاتے ہیں کہ ہر پیشہ اپنی جگہ قابلِ احترام ہے چاہے وہ ڈاکٹر ہو یا مزدور استاد ہو یا رکشہ ڈرائیور اصل بات نیت اور محنت کی ہے ہمارے ہاں لوگ پوچھتے ہیں آپ کیا کرتے ہیں یا کتنا کماتے ہیں دراصل یہ سوال عزت کی قیمت طے کرنے کے لیے ہوتا ہے معاشرتی نظریہ یہ بنا دیا گیا ہے کہ زیادہ پیسہ کمانے والا زیادہ عزت دار اور کم کمانے والا کم عزت دار ہے حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ وہ لوگ جو دنیا میں سب سے زیادہ عزت پانے والے ہیں وہ دولت کے انبار لگانے والے نہیں تھے بلکہ اصول اور کردار کے پکے لوگ تھے انبیاء کرام، بزرگ اولیاء اور سچے رہنما پیسے سے نہیں بلکہ سچائی اور خدمتِ خلق سے پہچانے گئے مگر ہم نے اپنی سوچ کو اتنا محدود کر دیا ہے کہ انسان کی قدروقیمت نوکری اور تنخواہ کے پرچوں میں ڈھونڈتے ہیں یہ رویہ صرف افراد کو نہیں بلکہ پورے معاشرے کو کھوکھلا کر دیتا ہے کیونکہ اس سوچ سے احساسِ کمتری، حسد اور مایوسی جنم لیتی ہے کم کمانے والا اپنی محنت کو کمتر سمجھتا ہے اور زیادہ کمانے والا تکبر میں مبتلا ہو جاتا ہے یوں انسانیت کا اصل حسن بگڑ جاتا ہے ہمیں سمجھنا ہوگا کہ عزت دینا ایک اخلاقی فریضہ ہے یہ پیسوں سے نہیں بلکہ انسان کے سلوک، رویے اور نیت سے جڑی ہونی چاہیے اگر ہم چاہتے ہیں کہ معاشرہ مضبوط ہو تو ہمیں ہر پیشے اور ہر محنت کرنے والے کو برابر کی عزت دینی ہوگی کیونکہ عزت وہ چیز ہے جو بانٹنے سے بڑھتی ہے اور جس معاشرے میں عزت کمائی کے بجائے انسانیت پر دی جائے وہاں نفرتیں ختم ہو جاتی ہیں اور بھائی چارہ بڑھتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی سوچ کو بدلیں اور لوگوں کی عزت ان کے اخلاق اور کردار کی بنیاد پر کریں نہ کہ ان کی جیب میں موجود پیسوں پر کیونکہ پیسہ تو ختم ہو سکتا ہے مگر اصل عزت ہمیشہ انسان کے کردار سے زندہ رہتی ہے۔

09/10/2025

سیلاب متاثرین کا مال ہڑپ کرنیوالو اور ان کا مال ناحق وصول کرنیوالو اللہ تمہاری نسلوں کو برباد کریگا 🤲

07/10/2025

میری وفات کے بعد...
ایک بار ضرور ضرور پڑھیے۔
بہت عرصہ پہلے دل کو چُھو لینے والی یہ تحریر پڑھی تھی پھر لاکھ ڈھونڈنے پر نا ملی۔۔۔ اب جو ملی تو اس "فن پارے" کو آپ کی نذر کر رہا ہوں۔
ہو سکتا ہے آپ پہلے پڑھ چکے ہوں لیکن حقیقت سے بھرپور یہ تحریر بار بار پڑھنے کے لائق ہے۔۔۔
ایک نامعلوم ڈائری سے۔
میری وفات کے بعد۔۔۔
موسم سرما کی ایک انتہائی ٹھٹھرتی شام تھی جب میری وفات ہوئی۔
اس دن صبح سے بارش ہو رہی تھی۔ بیوی صبح ڈاکٹر کے پاس لے کر گئی۔ ڈاکٹر نے دوائیں تبدیل کیں مگر میں خلافِ معمول خاموش رہا۔
دوپہر تک حالت اور بگڑ گئی۔ جو بیٹا پاکستان میں تھا وہ ایک تربیتی کورس کے سلسلے میں بیرون ملک تھا۔ چھوٹی بیٹی اور اس کا میاں دونوں یونیسف کے سروے کے لیے کراچی ڈیوٹی پر تھے۔
لاہور والی بیٹی کو میں نے فون نہ کرنے دیا کہ اس کا میاں بے حد مصروف ہے اور بچوں کی وجہ سے خود اس کا آنا بھی مشکل ہے۔
رہے دو لڑکے جو بیرون ملک ہیں انہیں پریشان کرنے کی کوئی تُک نہ تھی.
میں میری بیوی گھر پر تھے اور ایک ملازم جو شام ڈھلے اپنے گھر چلا جاتا تھا۔
عصر ڈھلنے لگی تو مجھے محسوس ہوا کہ نقاہت کے مارے بات کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ میں نے اپنی پرانی ڈائری نکالی، بیوی کو پاس بٹھا کر رقوم کی تفصیل بتانے لگا جو میں نے وصول کرنا تھیں اور جو دوسروں کو ادا کرنا تھیں۔
بیوی نے ہلکا سا احتجاج کیا:
” یہ تو آپ کی پرانی عادت ہے ذرا بھی کچھ ہو تو ڈائری نکال کر بیٹھ جاتے ہیں“
مگر اس کے احتجاج میں پہلے والا یقین نہیں تھا۔ پھر سورج غروب ہوگیا۔ تاریکی اور سردی دونوں بڑھنے لگیں۔ بیوی میرے لیے سُوپ بنانے کچن میں گئی۔ اس کی غیر حاضری میں مَیں نے چند اکھڑی اکھڑی سانسیں لیں اور........... میری زندگی کا سورج غروب ہو گیا۔
مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ میں آہستہ آہستہ اپنے جسم سے باہر نکل رہا ہوں۔ پھر جیسے ہوا میں تیرنے لگا اور چھت کے قریب جا پہنچا۔
بیوی سُوپ لے کر آئی تو میں دیکھ رہا تھا۔ ایک لمحے کے لیے اس پر سکتہ طاری ہوا اور پھر دھاڑیں مار کر رونے لگی۔ میں نے بولنے کی کوشش کی. یہ عجیب بات تھی کہ میں سب کچھ دیکھ رہا تھا مگر بول نہیں سکتا تھا۔
لاہور والی بیٹی رات کے پچھلے پہر پہنچ گئی تھی۔ کراچی سے چھوٹی بیٹی اور میاں صبح کی پہلی فلائیٹ سے پہنچ گئے۔
بیٹے تینوں بیرون ملک تھے وہ جلد سے جلد بھی آتے تو دو دن لگ جانے تھے۔ دوسرے دن عصر کے بعد میری تدفین کر دی گئی۔
شاعر، ادیب، صحافی، سول سرونٹ سب کی نمائندگی اچھی خاصی تھی۔ گاؤں سے بھی تقریباً سبھی لوگ آ گئے تھے۔ ننھیا ل والے گاؤں سے ماموں زاد بھائی بھی موجود تھے۔
لحد میں میرے اوپر جو سلیں رکھی گئی تھیں مٹی ان سے گزر کر اندر
آ گئی تھی۔ بائیں پاؤں کا انگوٹھا جو آرتھرائٹس کا شکار تھا، مٹی کے بوجھ سے درد کر رہا تھا۔
پھر ایک عجیب کیفیت طاری ہو گئی۔
شاید فرشتے آن پہنچے تھے۔ اسی کیفیت میں سوال و جواب کا سیشن ہوا۔
یہ کیفیت ختم ہوئی۔
محسوس ہو رہا تھا کہ چند لمحے ہی گزرے ہیں مگر فرشتوں نے بتایا کہ پانچ برس ہو چکے ہیں تمہیں فوت ہوئے ۔
پھر فرشتوں نے ایک عجیب پیشکش کی:
” ہم تمہیں کچھ عرصہ کے لیے واپس بھیج رہے ہیں۔ تم وہاں دنیا میں کسی کو نظر نہیں آؤ گے. گھوم پھر کر اپنے پیاروں کو دیکھ لو،
پھر اگر تم نے کہا تو تمہیں دوبارہ نارمل زندگی دے دیں گے ورنہ واپس آ جانا “
میں نے یہ پیشکش غنیمت سمجھی اور ہاں کر دی۔
پھر ایک مدہوشی کی حالت چھا گئی۔ آنکھ کھلی تو میں اپنی گلی میں کھڑا تھا۔ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا اپنے گھر کی جانب چلا۔ راستے میں کرنل صاحب کو دیکھا۔ گھر سے باہر کھڑے تھے۔ اتنے زیادہ بوڑھے لگ رہے تھے۔ خواجہ صاحب بیگم کے ساتھ واک کرنے نکل رہے تھے۔
اپنے مکان کے گیٹ پر پہنچ کر میں ٹھٹھک گیا۔ میرے نام کی تختی غائب تھی۔ پورچ میں گاڑی بھی نہیں کھڑی تھی۔ وفات سے چند ہفتے پہلے تازہ ماڈل کی خریدی تھی دھچکا سا لگا۔
گاڑی کہاں ہوسکتی ہے؟
بچوں کے پاس تو اپنی اپنی گاڑیاں تھیں تو پھر میری بیوی جو اب بیوہ تھی، کیا گاڑی کے بغیر تھی؟
دروازہ کھلا تھا۔ میں سب سے پہلے سیڑھیاں چڑھ کر اوپر اپنی لائبریری میں گیا۔ یہ کیا؟
کتابیں تھیں نہ الماریاں
رائٹنگ ٹیبل اس کے ساتھ والی مہنگی کرسی، صوفہ، اعلیٰ مرکزی ملازمت کے دوران جو شیلڈیں اور یادگاریں مجھے ملی تھیں اور الماریوں کے اوپر سجا کر رکھی ہوئی تھیں۔ بے شمار فوٹو البم، کچھ بھی تو وہاں نہ تھا۔
مجھے فارسی کی قیمتی ایران سے چھپی ہوئی کتابیں یاد آئیں، دادا جان کے چھوڑے ہوئے قیمتی قلمی نسخے، گلستان سعدی کا نادر نسخہ جو سونے کے پانی سے لکھا ہوا تھا اور دھوپ میں اور چھاؤں میں الگ الگ رنگ کی لکھائی دکھاتا تھا.
داداجان اور والد صاحب کی ذاتی ڈائریاں سب غائب تھیں۔ کمرہ یوں لگتا تھا، گودام کے طور پر استعمال ہو رہا تھا. سامنے والی پوری دیوار پر جو تصویر پندرہ ہزار روپے سے لگوائی تھی وہ جگہ جگہ سے پھٹ چکی تھی.
میں پژمردہ ہوکر لائبریری سے باہر نکل آیا۔ بالائی منزل کا یہ وسیع و عریض لاؤنج بھائیں بھائیں کر رہا تھا۔ یہ کیا؟
اچانک مجھے یاد آیا کہ میں نے چکوال سے رنگین پایوں والے سُوت سے بُنے ہوئے چار پلنگ منگوا کر اس لاؤنج میں رکھے تھے شاعر برادری کو یہ بہت پسند آئے تھے وہ غائب تھے۔
نیچے گراؤنڈ فلور پر آیا، بیوی اکیلی کچن میں کچھ کر رہی تھی۔ میں نے اسے دیکھا۔ پانچ برسوں میں اتنی تبدیل ہو گئی تھی میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ کیسے پوچھوں کہ گھٹنوں کے درد کا کیا حال ہے؟
ایڑیوں میں بھی درد محسوس ہوتا تھا۔ دوائیں باقاعدگی سے میسر آرہی تھیں یا نہیں؟
میں اس کے لیے باقاعدگی سے پھل لاتا تھا۔ نہ جانے بچے کیا سلوک کر رہے ہیں؟
مگر... میں بول سکتا تھا نہ وہ مجھے دیکھ سکتی تھی۔
اتنے میں فون کی گھنٹی بجی بیوی بہت دیر باتیں کرتی رہی۔ جو اس طویل گفتگو سے میں سمجھا یہ تھا کہ بچے اس مکان کو فروخت کرنا چاہتے تھے۔ ماں نے مخالفت کی کہ وہ کہاں رہے گی۔ بچے بضد تھے کہ ہمارے پاس رہیں گی.
میری بیوی کو میری یہ نصحیت یاد تھی کہ ڈیرہ اپنا ہی اچھا ہوتا ہے مگر وہ بچوں کی ضد کے سامنے ہتھیار ڈال رہی تھی۔
گاڑی کا معلوم ہوا کہ بیچی جاچکی تھی۔ بیوی نے خود ہی بیچنے کے لیے کہا تھا کہ اسے ایک چھوٹی آلٹو ہی کافی ہو گی۔
اتنے میں ملازم لاؤنج میں داخل ہوا۔
یہ نوجوان اب ادھیڑ عمر لگ رہا تھا۔
میں اس کا لباس دیکھ کر ٹھٹھک گیا۔ اس نے میری قیمتی برانڈڈ قمیض جو ہانگ کانگ سے خریدی تھی پہنی ہوئی تھی۔ نیچے وہ پتلون تھی جس کا فیبرک میں نے اٹلی سے خریدی تھی. اچھا... تو میرے بیش بہا ملبوسات ملازموں میں تقسیم ہو چکے تھے.
میں ایک سال لوگوں کی نگاہوں سے غائب رہ کر سب کو دیکھتا رہا۔
ایک ایک بیٹے بیٹی کے گھر جا کر ان کی باتیں سنیں۔ کبھی کبھار ہی ابا مرحوم کا یعنی میرا ذکر آتا وہ بھی سرسری سا۔
ہاں...
زینب، میری نواسی اکثر نانا ابو کا تذکرہ کرتی۔ ایک دن ماں سے کہہ رہی تھی:
” اماں... یہ بانس کی میز کرسی نانا ابو لائے تھےنا جب میں چھوٹی سی تھی اسے پھینکنا نہیں“
ماں نے جواب میں کہا:
” جلدی سے کپڑے بدل کر کھانا کھاؤ پھر مجھے میری سہیلی کے گھر ڈراپ کردینا“
میں شاعروں ادیبوں کے اجتماعات اور نشستوں میں گیا۔ کہیں اپنا ذکر نہ سنا۔ وہ جو بات بات پر مجھے جدید غزل کا ٹرینڈ سیٹر کہا کرتے تھے جیسے بھول ہی تو چکے تھے۔
اب ان کے ملازموں نے میری کتابیں بھی الماری سے ہٹا دی تھیں۔
ایک چکر میں نے قبرستان کا لگایا۔
میری قبر کا برا حال تھا. گھاس اگی تھی۔ کتبہ پرندوں کی بیٹوں سے اٹا تھا۔ ساتھ والی قبروں کی حالت بھی زیادہ بہتر نہ تھی۔
ایک سال کے جائزے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ میری موت سے دنیا کو کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔ زرہ بھر بھی نہیں.
بیوی یاد کر لیتی تھی تاہم بچے پوتے نواسے پوتیاں سب مجھے بھول چکے تھے ۔
ادبی حلقوں کے لیے میں اب تاریخ کا حصہ بن چکا تھا۔ جن بڑے بڑے محکموں اور اداروں کا میں سربراہ رہا تھا وہاں ناموں والے پرانے بورڈ ہٹ چکے تھے۔
دنیا رواں دواں تھی۔ کہیں بھی میری ضرورت نہ تھی۔ گھر میں نہ باہر. پھر تہذیبی، معاشرتی اور اقتصادی تبدیلیاں تیزی سے آ رہی تھیں اور آئے جا رہی تھیں.
ہوائی جہازوں کی رفتار چار گنا بڑھ چکی تھی۔ دنیا کا سارا نظام سمٹ کر موبائل فون کے اندر آ چکا تھا۔ میں ان جدید ترین موبائلوں کا استعمال ہی نہ جانتا تھا۔
فرض کیجئے،
میں فرشتوں سے التماس کر کے دوبارہ دنیا میں نارمل زندگی گزارنے آ بھی جاتا تو کہیں بھی ویلکم نہ کہا جاتا. بچے پریشان ہو جاتے ، ان کی زندگیوں کے اپنے منصوبے اور پروگرام تھے جن میں میری گنجائش کہیں نہ تھی.
ہو سکتا تھا کہ بیوی بھی کہہ دے کہ تم نے واپس آ کر میرے مسائل میں اضافہ کر دیا ہے۔ مکان بک چکا،
میں تنہا تو کسی بچے کے پاس رہ لیتی، دو کو اب وہ کہاں سنبھالتے پھریں گے.
دوست تھوڑے بہت باقی بچے تھے۔
وہ بھی اب بیمار اور چل چلاؤ کے مراحل طے کر رہے تھے. میں واپس آتا تو دنیا میں مکمل طور پر اَن فِٹ ہوتا۔ نئے لباس میں پیوند کی طرح۔
جدید بستی میں پرانے مقبرے کی طرح.
میں نے فرشتے سے رابطہ کیا اور اپنی آخری خواہش بتا دی۔ میں واپس قبر میں جانا چاہتا ہوں.
فرشتہ مسکرایا۔ اس کی بات بہت مختصر اور جامع تھی:
”ہر انسان یہی سمجھتا ہے کہ اس کے بعد جو خلا پیدا ہو گا، وہ کبھی بھرا نہیں جا سکے گا مگر وہ یہ نہیں جانتا کہ خلا تو کبھی پیدا ہی نہیں ہوتا “
-------------
ہمارے سبھی کے دماغوں میں بھی یہی سوچ ہے کہ یہ گھر، یہ کاروبار، یہ نوکری، یہ دنیا کی، گھر کی، بچوں کی ضرورتیں اور سارے کام کاج میری وجہ سے ہی جاری ہیں.اگر میں نہ رہا تو دنیا کی گردش رک جائے گی۔۔۔
مگر صرف ایک پل کو صرف ایک پل کو سوچئے ایسا بلکل بھی نہیں ہے۔ دنیا تو ہمارے سے پہلے جانے والوں کے بغیر بھی چل رہی ہے اور ہمارے جانے کے بعد بھی یوں ہی چلتی رہے گی۔
اک خیال ہے، سراب ہے، وہم ہے، گماں ہے اور بس کچھ بھی نہیں۔۔۔کچھ بھی نہیں۔
سلامت اور آباد رہئے۔

Copied

05/10/2025

فری سیکھنا ہے؟

اگر آپ فری ٹک ٹاک آٹو میشن سیکھنا چاہتے ہیں تو یوٹیوب پہ 90s mentor اور saddam buriro کا چینل سرچ کریں

اگر آپ فری یوٹیوب آٹو میشن سیکھنا چاہتے ہیں تو یوٹیوب پہ Kashif majeed کا چینل سرچ کریں

اگر آپ فری میں ویب ڈویلپمنٹ سیکھنا چاہتے ہیں تو یوٹیوب پہ code with harry کا چینل سرچ کریں

اگر فری ورڈ پریس سیکھنا چاہتے ہیں تو
Website learners
نام کا چینل سرچ کریں

اگر فری ڈیجیٹل مارکیٹنگ گوگل ایڈز SEO سیکھنی ہے تو
Umer tazkeer
کا چینل سرچ کریں یہ بندہ خود میں ڈیجیٹل مارکیٹنگ کا ایک سمندر ہے

اگر فیسبک ایڈز سیکھنی ہیں تو
Ben heath
کا چینل سرچ کریں انگلش میں ہے لیکن انتہائی ایڈوانس لیول کا کانٹینٹ ہے

اگر فری ایڈوانس لیول آرٹی فیشل انٹیلیجنس پائتھون سیکھنا چاہتے ہیں تو
Irfan Malik
کا چینل سرچ کریں

اگر فری ویڈیو ایڈیٹنگ سیکھنا چاہتے ہیں تو
Ishan Sharma یا Imran Ali dina
کا چینل سرچ کریں

اگر فری تھری ڈی اینیمیشن سیکھنا چاہتے ہیں تو

Technical dhuriya analysis
کا چینل سرچ کریں

اگر آپ فری سوشل میڈیا مارکیٹنگ سیکھنا چاہتے ہیں تو یوٹیوب پہ Jawad shah skills hub نام سے چینل سرچ کریں

لیکن بس ایک چیز کا خیال رکھیں کوئی بھی سکل سیکھیں اس میں کام کرنا تب تک نہیں آئے گا جب تک ساتھ ساتھ پریکٹیکل نہیں کریں گے

جواد شاہ

04/10/2025

مردوں نے چار شادیاں کرنی ہیں تو کر لیں
مردوں یا عورتوں نے افیئر چلانے ہیں چلا لیں

میں سمجھتی ہوں کہ بحثیت ایک پارٹنر مجھے یا آپکو اپنی زندگی میں آنے والے پارٹنر کے ایمان سے ایک حد کے بعد کچھ لینا دینا نہیں ہے ۔

کیوں کہ adult بندے کو بتا دینا کافی ہوتا ہے کہ اسکے لئے کیا ٹھیک ہے ۔ اسکے بعد وہ جانے اور اسکا رب ۔

میرے نزدیک اسلام ایسے معاملات میں زور زبردستی نہیں کرتا ، بھلا وہ مرد ہو یا عورت، دونوں کو اپنی ازدواجی زندگی اپنے ڈھنگ سے گزارنے کی اجازت ہے جب تک وہ اسلام کے ضابطہ حیات کے مطابق ہے ۔

رہی بات شادی کی تو یہ ایک انتہائی اہم فیصلہ ہے ۔ آپ یہ ذہن میں رکھیں کہ آپ ایک s*x agreement پر سائن نہیں کر رہے ہوتے کہ جی بس جی شوق شوق میں شادی ہی کر لی۔ بلکہ آپ شادی کی شکل میں ایک بندے کے ساتھ پوری زندگی گزارنے کا plan بناتے ہیں ، اس سے یہ وعدہ کرتے ہیں کہ اسکے ہر دکھ میں اور ہر سکھ میں اسکے ساتھ رہینگے ۔

شادی نام ہے اپنی values کو کسی دوسرے کے ساتھ align کرنے کا وعدہ کرنا اور جو بھی differences ہوں انکا احترام کرنا ۔

شادی کوئی زور زبردستی کا نام نہیں ہے ۔ اسلئے اگر آپکا ذہن ایک بندے سے مطمئن ہونے والا نہیں ہے تو اگلے بندے کو نکاح سے پہلے بتا دیں کہ بھائی میں mutiple partner میں انٹرسٹڈ ہوں ۔ مذہب کا ڈرامہ صرف میں face keeping کے لئے کرتا ہوں تو اگر تم اسے پسند کرتے/کرتی ہو تو شادی کرو ورنہ نہیں کرتے ۔

ڈسپریشن ، اور فرسٹریشن کا عالم یہ ہے کہ ہمارے سماج میں ہر دوسرے بندے کا ٹانکا کہیں نہ کہیں unofficialy fit ہے اور نہ لڑکے مانتے ہیں کہ انکا افیئر ہے نہ لڑکیاں ۔ مطلب کوئی ہوائی چیزیں آتی ہیں انسے افیئر چلانے ۔

خیر ایسے لوگوں نے اسلام کا مطلب سامنے گناہ کرنا نہیں ہے بلکہ چھپ کر کرنابنایاہوا ہے ۔(یہاں اب وہ لوگ بھی آئینگے جو کھینگے کہ افیئر چلانا گناہ ہے تو چھپ کر ہی ہونا چاہیے ۔ بھئی سبحان اللّٰہ! میرا سوال ہے کرنا ہی کیوں ہے وہ بھی اپنے پارٹنر سے چھپ کے؟؟)

ہم وہ منافق اور ignorants ہیں کہ شادی کرنے کا سبکو شوق ہے لیکن اگر جو کوئی خود منہ سے بول کر کہہ دے کہ اسنے شادی کرنی ہے تو بھائی وو بےشرم ہے LOL۔

معاشرے میں بچے مسلسل پیدا ہورہے ہیں اور جیسے ہورہے ہیں وہ بات کرتے اتنی فضول کی شرم ہے کہ بیسک بیالوجی کو extreme بیشرمی بنا دیا ہوا ہے ۔

پوری قوم نے کیوں کہ سیکس کو ڈسکس نہیں کرنا اسلئےسیکس و سیکس ہوئی پڑی ہے !!

کچھ بھی کرینگے انکے دماغ ایک ہی سوچ میں اٹکی ہو گی اور اسکا الزام بھی مذہب پر ڈالتے رھینگے کہ جی وہ opposite gender میں اٹریکشن شروع سے ہی ہوتی ہے ۔ جی بالکل ہوتی ہے لیکن اپنی ساری توجہ اس ایک “attraction”پر برباد کرنا کہیں نہیں لکھا ۔

سبسے بڑے دکھ کی بات ہے کہ کوئی اس بات کی اہمیت کو سمجھتا ہی نہیں ہے کہ اس ڈومین میں ہمیں بہت زیادہ سیکھنے کی ضرورت ہے۔

کیوں کہ جو سبق آپ کھلے دروازوں میں اپنے بچوں کو نہیں سکھا سکے ۔ وہ آج بند دروازوں کے پیچھے اسے ایک گالی بنا چکے ہیں۔ بتائیں اپنے بچوں کو کہ حلال کرنا ہے یا حرام انکی مرضی لیکن یہ شروع سے ہی وہ اپنے لائف پارٹنر کو ضرور بتائیں۔ یہ نہیں کہ شادی کے بالکل بیچ میں پتا چلے آپکو کوئی اور پسند آگیا ہے تو آپ بس چل پڑے مذہب کا جھنڈا اٹھا کر ادھر کہ مجھے تو چار کی اجازت ہے ۔ دوسرے بندے نے توساری زندگی گھاس پھوس کھایا ہے جو اسکا اسلام میں کوئی حصہ نہیں تھا جیسے ۔

اپنی بات کروں تو میں بحثیت ایک عورت ایسے مرد کے ساتھ رہنا نہیں پسند کرتی جسکی زندگی میں کوئی اور عورت ہو ۔ اب بھلا وہ اس سے میری موجودگی میں شادی کر کے رہے یا کیے بغیر رہے مجھے اس سے کچھ لینا دینا ہی نہیں ہے ۔بات سیدھی ہے کہ “مجھے میری موجودگی میں اسکی زندگی میں دوسری عورت چاہیے ہی نہیں”اور نہ میں اپنی زندگی میں mutiple partners رکھنے پر یقین رکھتی ہوں۔

مجھے اپنی پرائیویسی اور پرسنل سپیس پر کوئی کمپرومائز نہیں چاہیے پھر بھلا وہ آپ مذہب کے نام پر نئی بیوی کے نام پر کروانا چاہیں یا معاشی طور پر “مردوں پر یہ سب سجتا ہے ” کر کے اپنی side chicks مجھ پر تھوپنے کی کوشش کریں ۔ میں برداشت نہیں کرونگی ۔ اور مجھے معلوم ہے یہ بہت سی اور عورتوں اور کہیں نہ کہیں چند ایک مردوں کی بھی خواہش ہے ۔

اور دنیا کا کوئی مذہب مجھے یا آپکو اس اپنے لئے یہ چننے کے حق سے دستبردار نہیں کرتا ۔ اور رہی کسی کی اس بات پر میری توجہ صبر کر کے ثواب کمانا پر دلوانے کی ۔تو جی نہیں کمانا میں نے ثواب اس میں ۔ آپ اپنا نیکیوں کا کسٹمائزڈ bank اپنے پاس رکھیں مجھے میری اپنی نیکیوں کی choices کے ساتھ جینے دیں ۔

ایک چیز جو مجھے پسند ہی نہیں ہے اور مذہب بھی مجھے اس بات کی اجازت دیتا ہے تو میں کیوں ضرورت سے زیادہ اچھی بن کر اپنی خوشیوں کا گلا گھونٹونگی ؟؟

رہی بات گناہوں کی تو ہم میں سے ہر کوئی گنہار ہے تو flawless والی بات ہے ہی نہیں ۔ اسلئے آپ کا کوئی ایسا کام یا personality trait ایسا ہے جسکا آپکی زندگی میں آنے والے شخص پر گہرا اثر ہو سکتا ہے اسے نکاح نامے پر سائن کرنے سے پہلے منظر عام پر لائیں تا کہ دونوں صارفین مطلوبہ سہولیات کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے پیکیج کا انتخاب کریں ۔

کیوں کہ اگر آپ شروع میں یہ سب ایک دوسرے سے چھپائنگے تو آگے جا کر یہ اختلاف اتنی بڑی conflict کی صورت سامنے آتے ہیں کہ گھر ہی نہیں نسلیں اجاڑ دیتے ہیں ۔ اور long term marriages جس میں ایک ساتھی مسلسل cheating کر رہا ہو اور دوسرا ساتھی کسی بھی معاشرتی معاشی یا مذہبی مجبوری کی بنا اسے چھوڑ نہ سکتا ہو تو بالاخر وہ دوسرا ساتھی بھی ایک نہ ایک دن خود کو مزید mental torture سے بچانے کے لئے دوسرے رشتے ڈھونڈے گا جو اسے سکون دیں ۔

دوسری بات اپنے بچوں کو human anatomy ضرور سمجھائیں تا کہ وہ بے حیائی کو بیالوجی کے ساتھ کنفیوز نہ کریں ۔ انکو بتائیں کہ جنسی تعلق جانوروں کے درمیان بھی ہوتا ہے۔ انسان اس وجہ سے معتبر ہے کہ یہ ہر جگہ منہ نہیں مارتا بلکہ اپنوں عقل کو استعمال کرتا ہے اور جانوروں جیسے انتخابات کرنے سے بچ جاتا ہے ۔

زندگی بہت چھوٹی ہے اسے اپنی زندگی جنت بنانے میں لگائیں نہ کہ ایک دوسرے کی زندگی جہنم بنانے میں!

خوش رہیں اور خوش رہنے دیں!

04/10/2025

مرد کو سمجھنے کی جتنی صلاحیت اللہ تعالیٰ نے عورت کو بخشی ہے، مرد کو اس کی ہوا بھی نہیں لگی ،،
مرد کے معاملے میں خود اللہ پاک نے عورت میں وہ (Sensor) لگایا ہے جو دھواں سونگھ کر آگ کی خبر دیتا ہے ،، MBA شوہر دوست کو گھر لاتا ہے اور مڈل پاس بیوی اس کو دس منٹ میں بتا دیتی ہے کہ اس کی نظر ٹھیک نہیں ،، عورت میں مرد کے بارے میں اتنی Applications رکھی گئی ہیں کہ وہ اس کی نظر پڑھ سکتی ہے، اس کی چال پڑھ سکتی ہے ، اس کے الفاظ پڑھ سکتی ہے ،، یہاں تک کہ وہ مرد کی مصنوعی اور حقیقی مسکراہٹ کے فرق کو دن اور رات کی طرح جانتی ہے۔
جھوٹ پکڑنے والی مشین کو دھوکا دیا جا سکتا ہے ،عورت کو دھوکا دینا نا ممکن ہے ، وہ مروت سے چپ کر جائے تو اس کی مہربانی ہے ،جھگڑا دفتر میں ہوتا ہے اور اس کی خبر وہ آپ کا مُکھڑا دیکھ کر دے دیتی ہے ،، آپ ٹریفک وارڈن سے لڑ کر مسکراتے ہوئے گھر میں داخل ہوں مگر وہ اچانک پیچھے سے آ کر کہتی ہے " کس سے لڑ کر آئے ہیں ؟ " اور آپ کا تراہ نکل جاتا ہے، جس خدا نے عورت کو جسمانی طور پہ نازک بنایا ہے اس خدا نے نفسیاتی طور پر اس کو بڑا قوی بنایا ہے۔
پیغمبروں کی حفاظت عورت کو سونپی گئی، کتنے بڑے امتحان کے لئے بھولی بھالی مریم علیہ السلام کو چنا گیا موسی علیہ السلام کی ماں سے کیا کام لیا ؟
موسی علیہ السلام کی 9 سال کی بہن سے کیا کام لے لیا ؟ فرعون کی بیوی سے کیا کام لے لیا ؟ اور شیخِ مدین کی بیٹی نے باپ کے سامنے اجنبی موسی کا پورا Curriculum بیان کیا تھا یا نہیں ؟
کیا وہ ان کو جانتی تھی ؟
اسے کیسے پتہ چل گیا کہ وہ مارشل آرٹس کے ماہر ہیں اور امین بھی ہیں حیاء والے بھی ہیں؟
جس اللہ نے عورت کو جسمانی طور پہ کمزور بنایا ہے اس اللہ نے ہی اسے نفسیاتی طور پر بہت مظبوط بھی بنایا ہے..!
لہذا عورتوں کو ہر لحاظ سے کمزور سمجھنا یہ مردوں کی غلط فہمی ہے، اور ایک عورت کو وہی مقام دینا چاہئیے جو ایک مرد اپنے لئے حاصل کرنا چاہتا ہے، ان کی عزت ان کا احترام ایسا ہی ضروری ہے جیسے وہ اپنے لئے دوسروں سے سوچتا ہے.....

04/10/2025

اپنے پھول جیسے چھوٹے بچوں ،اپنی بیوی ،اپنے ضعیف العمر اور سفید ریش والد کے ہوتے ہوئے مظلوم بچوں کے لیے یوں جان ہتھیلی پہ رکھنا اور موت کو گلے سے لگا لینا ہر کسی کی بس کی بات نہیں ۔
مشتاق صاحب! آپ جیسی عظیم ہستیاں صدیوں بعد پیدا ہوتی ہیں ۔
آپ اتنے عظیم ٹھہرے ہیں ہمارے لئے کہ ہم اپنے آپ کو آپ کے پاؤں کے خاک کے برابر بھی نہیں سمجھتے ۔
آپ کیلئے ڈھیر ساری دعائیں 🥰🥰

Address

Karachi

Opening Hours

Monday 14:00 - 18:00
Tuesday 14:00 - 18:00
Wednesday 14:00 - 18:00
Thursday 14:00 - 18:00
Friday 09:00 - 17:00

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when ماہر نفسیات posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on LinkedIn
Share on Pinterest Share on Reddit Share via Email
Share on WhatsApp Share on Instagram Share on Telegram

Category