Your Health Matters

Your Health Matters To provide information about Covid-19 disease, its prevention, sign/symptoms and treatment.

 #اسٹیویا پودا ( ) چینی کا متبادل بلکہ کئی گنا بہترین پودا...اسٹیویا پودا اپنے میٹھے پتوں کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہ...
15/07/2021

#اسٹیویا پودا ( )
چینی کا متبادل بلکہ کئی گنا بہترین پودا...

اسٹیویا پودا اپنے میٹھے پتوں کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے اس کے پتے چینی سے تقریباً 20 گنا زیادہ میٹھے ہوتے ہیں اور اس کے عرق چینی سے 200 سے 300 گنا زیادہ میٹھا ہوتا ہے۔اس میں نشاشتہ اور حرارے نہ ہونے کے برابر ہیں جس کی وجہ سے یہ شوگر کے مریضوں کے لیے انتہائی مفید ہے یہ خون میں شوگر کی مقدار اور کو بھی کنٹرول کرتا ہے #شوگر کے مریض یا عام افراد شوگر سے بچاو کے خاطر یا عام استعمال کے لیے اس کے پتے بطور چینی چائے اور دوسری میٹھی اشیاء میں استعمال کرسکتے ہیں اسے امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن ( ) نے 2008 میں Approve کرلیا ہے۔

استعمال کرنے کا طریقہ:
۔ پھول آنے سے قبل اس کے پتوں کو توڑ کر سایہ میں سُکھا لیا جاتا ہے اور پیس کر پاؤڈر کی شکل میں چائے یا کھانوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ باقاعدہ ایک فصل ہے مگر اسے تھوڑی سی محنت سے گھروں میں گملوں میں بھی اگایا جا سکتا ہے۔

References
https://www.diabetes.co.uk/sweeteners/stevia.html
https://www.ncbi.nlm.nih.gov/pmc/articles/PMC7103435/

واشنگٹن: امریکا کے عالمی شہرت یافہ ریگولیٹری ادارے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (FDA) نے جانسن اینڈ جانسن کی ایک ٹیکے والی ک...
14/07/2021

واشنگٹن: امریکا کے عالمی شہرت یافہ ریگولیٹری ادارے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (FDA) نے جانسن اینڈ جانسن کی ایک ٹیکے والی کورونا ویکسین سے اعصابی بیماری گیلین بیری سینڈروم (Guillain barre syndrome) ہونے سے متعلق انتباہ جاری کیا ہے۔

امریکی ادارے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن نے انتباہ جاری کیا ہے کہ جانسن اینڈ جانسن کی ویکسین لگوانے والوں میں 42 دن بعد اعصابی بیماری گیلین بیری سینڈروم کی علامات ظاہر ہوئی ہیں۔

ایف ڈی اے حکام کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ اب تک 100 افراد میں گیلین بیری سینڈروم کی تشخیص ہوئی ہے جن میں سے 95 افراد کو حالت تشویشناک ہونے کے سبب اسپتال میں داخل ہونا پڑا جب کہ اس موذی مرض سے ایک ہلاکت بھی ہوئی ہے۔
حکام نے تجویز دی ہے کہ ویکسین لگوانے کے بعد اگر کمزوری یا جسم کے حصے خصوصاً ہاتھ اور پیر سُن ہوجائیں تو فوری طور پر معالج سے رابطہ کریں کیوں کہ یہ علامت بڑھ کر دہرا دکھائی دینے، چلنے پھرنے، بولنے، چبانے اور نگلنے میں مسئلہ پیدا کرسکتی ہے۔

واضح رہے کہ امریکا میں گیلین بیری سینڈروم سے 3 سے 6 ہزار افراد متاثر ہوتے ہیں جن میں سے اکثر صحت یاب ہوجاتے ہیں۔ اس اعصابی بیماری میں مدافعتی نظام اعصابی خلیوں کو نقصان پہنچاتا ہے جس سے پٹھے کمزور ہوجاتے ہیں اور فالج لاحق ہو سکتا ہے۔

جانسن اینڈ جانسن کی جانب سے تاحال اس پر کسی قسم کا تبصرہ سامنے نہیں آیا۔

04/12/2020
ذیابیطس: تعارف، احتیاط اور علاجذیابیطس کے شکار افراد میں کورونا کے باعث شدید پیچیدگیوں کا امکان زیادہ ہوتا ہےذیابیطس یا ...
27/11/2020

ذیابیطس: تعارف، احتیاط اور علاج

ذیابیطس کے شکار افراد میں کورونا کے باعث شدید پیچیدگیوں کا امکان زیادہ ہوتا ہے

ذیابیطس یا شوگر کا شمار دنیا میں تیزی سے بڑھنے والے امراض میں کیا جاتا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں 42 کروڑ 22 لاکھ افراد ذیابیطس کا شکار ہیں۔ عالمی ادارہ صحت (WHO)کے مطابق یہ تعداد 40 سال پہلے کے مقابلے میں چار گنا زیادہ ہے۔ڈبلیو ایچ او کا یہ بھی اندازہ ہے کہ اگلے 25 سالوں میں یہ تعداد دوگنا ہو جائے گی.

ڈبلیو ایچ او کے مطابق جنوبی ایشیا کا شمار ایسے علاقوں میں ہوتا ہے جہاں ذیابیطس کے مریض تیزی سے بڑھنے کے امکانات ہیں۔ صرف پاکستان میں ہر سال ذیابیطس کے مرض کے باعث تقریباً ڈیڑھ سے دو لاکھ افراد معذور ہو جاتے ہیں۔

ایک حالیہ تحقیق کے مطابق پاکستان میں ہر چار میں سے ایک فرد ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہے اور یہ تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ذیابیطس پاکستان میں ہلاکتوں کی آٹھویں بڑی وجہ بھی ہے اور 2005ء کے مقابلے میں اس سے متاثرہ افراد کی ہلاکتوں میں 50 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ ذیابیطس کے مریض جلد ہی دل اور گردوں اور آنکھوں کے مرض میں بھی مبتلا ہو جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں انسانی صحت کو ناقابل تلافی خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔

ذیابیطس ایک مستقل رہنے والی بیماری ہے۔ اس پر موثر کنٹرول کے لیے محتاط غذا، منصوبہ بندی، باقاعدہ ورزش یا ادویات کا استعمال ضروری ہے۔ اس مرض میں خون میں گلوکوز /شوگر مطلوبہ حد سے بڑھ جاتی ہے اور ایسا لبلبے میں پیدا ہونے والے ہارمون ’انسولین‘ کے متاثر ہونے سے ہوتا ہے۔

ماہرین کے مطابق انسولین کی یہ کمی دو طرح کی ہو سکتی ہے۔ایک لبلبے سے انسولین کی پیداوار ہی کم یا ختم ہو جاتی ہے، دوسری لبلے سے انسولین تو پیدا ہوتی رہتی ہے، لیکن کسی وجہ سے اس کا اثر کم ہو جاتا ہے۔ اس کیفیت کو انسولین کی بے اثری بھی کہا جاتا ہے۔

یہ معلوم ہے کہ گلوکوز / شوگر ہمارے خون کا انتہائی لازمی اور مستقل جزو ہے۔ہم اپنی خوراک میں جتنی بھی نشاستہ دار غذائیں استعمال کرتے ہیں وہ ہماری آنتوں میں جا کر شوگر میں تبدیل ہو جاتی ہیں اور یہی شوگر بعد میں خون میں شامل ہو جا تی ہے۔ ہمارے جسم کے اکثر اعضا اسی شوگر کو ایندھن کی طرح استعمال کر کے توانائی حاصل کرتے ہیں اور اگر خون میں شوگر موجود نہ ہو، یا بہت زیادہ کم ہو جائے تو ان اعضا کا کام متاثر ہوتا ہے۔ ایک نارمل انسان کے خون میں شوگر کی مقدار قدرت کی طے کی ہوئی حدوں کے اندر ہی رہتی ہے جبکہ ذیابیطس کی حالت میں شوگر نارمل حد سے بڑھ جاتی ہے۔

ذیابیطس سے متاثر افراد میںمندرجہ ذیل علامات ہو سکتی ہیں، لیکن یاد رکھیے کہ ذیابیطس کی حتمی تشخیص کے لیے خون میں گلوکوز / شوگر کی مقدار چیک کرانا لازمی ہے۔ اگر کسی شخص کے خون میں شوگر مقررہ حد سے زیادہ ہے، تو شوگر کی کوئی علامت ہو یا نہ ہو، اْسے ذیابیطس ہو چکی ہے۔ اسی طرح اگر کسی شخص میں ذیابیطس کی تمام علامات پائی جائیں، لیکن خون میں شوگر نارمل ہے تو اْسے ذیابیطس ابھی نہیں ہوئی۔

درج ذیل علامات ذیابیطس کے مرض کی وجہ سے ہو سکتی ہیں۔ لہٰذا کسی ایک یا زائد علامات کی صورت میں فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کریں۔

ذیابیطس کی علامات

تھکاوٹ کا احساس، بھوک اور پیاس میں اضافہ، پیشاب کی زیادتی، ہاتھوں یا پیروں کا سن ہونا یا جھنجھناہٹ، انفیکشن کا با ر بار ہونا، بینائی میں دھندلاپن، زخموں کا دیر سے ٹھیک ہونا، خشک کھردری جلد/خارش، جنسی مسائل وغیرہ ۔

ذیابیطس ٹائپ 1میں تو اس کی علامات تقریباً ہر مریض میں ہوتی ہیں ، لیکن ٹائپ 2کے مریضوں میں اکثر یہ علامات موجود نہیں ہوتیں۔ تھکن ،کمزوری جیسی غیر مخصوص علامات یا ذیابیطس کی پیچیدگیوں کے آثار ان مریضوں میں غالب ہوتے ہیں۔ اکثر اوقات کسی اور وجہ سے خون میں گلوکوز کا ٹیسٹ ہوتا ہے تو ذیابیطس کا علم ہوتا ہے۔

ذیابیطس کی درج ذیل دو اقسام ہیں:

ذیابیطس ٹائپ 1: یہ بچپن یا اوائل عمری میں ہوتی ہے، اس میں انسولین قدرتی طور پر جسم میں کم پیدا ہوتی ہے ، اس کا علاج انسولین کے بغیر ممکن نہیں۔

ذیابیطس پائپ 2: یہ ذیابیطس کی عام قسم ہے۔ ذیابیطس کے مریضوں میں دس میں سے کم از کم نو ٹائپ 2 میں مبتلا ہوتے ہیں۔ یہ عموماً بڑی عمر کے افراد میں ہوتی ہے۔ ذیابیطس کی اس قسم میں جسم میں بننے والی قدرتی انسولین مؤثر طور پر استعمال نہیں ہو سکتی، جس کی وجہ سے خون میں گلوکوز /شوگر کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔

ذیابیطس ٹائپ 2 زیادہ تر ان افراد کو ہوتی ہے جو زیادہ وزن رکھتے ہوں یا موٹاپے کا شکار ہوں، جن کے خاندان کے دیگر افراد کو بھی ذیابیطس ہو، جو عمومی طور پر جسمانی حرکت اور ورزش سے گریز کرتے ہوں، وہ خواتین جنہوں نے 9 پانڈ سے زائد وزن کے بچے کو جنم دیا ہو یا جنھیں دوران حمل ذیابیطس ہو چکی ہو، ان میں مستقل طور پر ذیابیطس کا مرض ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

ذیابیطس کا مرض اگر کئی سال کنٹرول میں نہ رہے تو جسم کے اہم حصوںکومتاثرکرنے کا باعث بنتا ہے۔ دل کی شریانوں کی تنگی ، دل کے دوروں (ہارٹ اٹیک) کا باعث بنتی ہے۔ فالج، اعصاب کی کمزوری (ہاتھ پاؤں کا سن ہونا)، آنکھوں میں پردہ بصارت کا متاثر ہونا ، گردوں کی کمزوری اور زخموں کے سبب پاؤں کا ناکارہ ہونا ذیابیطس کی پیچیدگیوں میں شامل ہیں۔

خون میں گلوکوز کی مقدار کو نارمل رکھنا ذیابیطس کے علاج کا بنیادی اصول ہے۔ خون میں گلوکوز(بلڈ شوگر) کو مستقل کنٹرول رکھنے سے مرض کے عمومی مسائل سے نجات ملتی ہے اور پیچیدگیوں سے بھی بچا جاسکتا ہے۔

درج ذیل تین طریقوں سے ذیابیطس کا علاج کیا جاتا ہے۔

1۔ خوراک میں تبدیلی اور جسمانی ورزش (فربہ افراد کا وزن کم کروانا)

2۔ کھانے والی ادویات

3۔ انسولین کے ٹیکوں کا استعمال

ذیابیطس ٹائپ 1کا علاج تو انسولین کے ذریعے ہی ممکن ہے لیکن ذیابیطس ٹائپ 2کی اکثریت میں غذا کی پرہیز،جسمانی ورزش کا اور کھانے والی ادویات کے استعمال سے خون میں گلوکوز کنٹرول ہو سکتا ہے۔ ان ذرائع سے اگرذیابیطس کنٹرول نہ ہو تو انسولین کے استعمال کی ضرورت بھی پڑ سکتی ہے۔

معالج کی ہدایات کے مطابق غذا کے پرہیز، ادویات کے باقاعدہ استعمال اور بلڈگلوکوز کے مقررہ مدت کے بعد ٹیسٹوں کے ذریعے مریض صحت مند زندگی گزار سکتا ہے اور ذیابیطس کی طویل المیعاد پیچیدگیوں سے محفوظ رہ سکتا ہے۔

ذیابیطس کے شکار افراد میں کورونا کے باعث شدید پیچیدگیاں ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ عمومی طور پر جب بھی ذیابیطس کا مریض کسی بھی وائرس کا شکار ہو تو اس میں اس کی علامات زیادہ شدید ہوتی ہیں، اس بناء پر موجودہ حالات میں ذیابیطس کے مریضوں کو کورونا سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر اختیار کرنے میں زیادہ خیال رکھنا چاہیے۔

اگر ذیابیطس کا مریض گلوکوز کی مقدار کو کنٹرول میں رکھتا ہے تو اس سے وہ نہ صرف طبیعت کی خرابی سے بچا رہے گا بلکہ ساتھ ہی ساتھ اس کے کورونا سے متاثر ہونے کے امکانات بھی کم ہو جاتے ہیں۔ کورونا یا دیگر قسم کے وائرل انفیکشن سے بچاؤ کے لیے انسانی جسم اور قوت مدافعت کا مضبوط ہونا شرط اولین ہے جبکہ ذیابیطس یا دیگر بیماریاں جسم کو اس طرح کے انفیکشن سے لڑنا مشکل بنا دیتے ہیں۔ (بحوالہ امریکن ذیابیطس ایسوسی ایشن)

ذیابیطس کے مریضوں کے کورونا سے بچاؤ کی عمومی احتیاطوں بشمول ماسک پہننے، دوسروں سے کم از کم 6 فٹ کا فاصلہ رکھنے کے علاوہ ان امور پر بھی خصوصی دھیان رکھنا چاہیے۔

اگر آپ بیمار ہوتے ہیں تو حوصلہ نہ ہاریں اور ذہنی طور پر خود کو مضبوط رکھیں۔

یقینی بنائیں کہ اگر آپ کو ضرورت کی صورت میں روابط کی تمام متعلقہ تفصیلات مہیا ہوں۔

اپنے گلوکوز کو کنٹرول میں رکھنے پر اضافی توجہ دیں۔

گلوکوز کی باقاعدگی سے نگرانی کے ذریعے ان پیچیدگیوں سے بچا جا سکتا ہے جو اس کے زیادہ یا کم ہونے کی صورت میں لاحق ہو سکتی ہیں۔

اگر آپ کو نزلہ زکام، بخار کھانسی اور سانس کی دشواری جیسی علامات درپیش ہوں تو فوری طور پر ماہر ڈاکٹر سے رجوع کریں۔

بلغم کے ساتھ کھانسی انفیکشن کی نشاندہی کرتی ہے، اس صورت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔

کوئی بھی انفیکشن جسم میں گلوکوز کے لیول اور Fluids کی ضرورت کو بڑھاتا ہے، اس لیے پانی کا استعمال زیادہ سے زیادہ کرنا چاہیے۔

اپنے پاس ذیابیطس کی ادویات کی موجودگی کو یقینی بنائیں اور اس بات کا خیال رکھیں کہ اگر آپ کو کچھ ہفتوں کے لیے سب سے الگ تھلک رہنا پڑے تو ضرورت کی تمام ادویات آپ کو میسر رہیں۔

اپنے کھانے پینے کے معمول سے غفلت نہ برتیں۔

اگر خون میں گلوکوز کی مقدار اچانک کم ہو جائے تو ایسی صورتحال کو سنبھالنے کے لیے آپ کو تیار رہنا چاہیے۔

زیادہ کام کرنے سے گریز کریں اور رات کو اچھی اور پرسکون نیند لیں۔

اگر آپ تنہا رہتے ہیں تو اس بات کو یقینی بنائیں کہ بیمار ہونے کی صورت میں آپ جس پر انحصار کرتے ہوں، اسے آپ کی ذیابیطس کی بیماری کا علم ہو۔ (بحوالہ انٹرنیشنل ذیابیطس فیڈریشن)

پاکستان میں ذیابیطس کے مریضوں کی بڑھتی ہوئی شرح کے پیشِ نظر پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) نے 2014ء میں ملک بھر میں فری ذیابیطس کلینکس کا آغاز کیا۔ اس منصوبے کے تحت اب تک مختلف شہروں میں 20کلینکس قائم کیے جا چکے ہیں، جہاں تین ہزار سے زائد رجسٹرڈ مریضوں کو ہر ماہ باقاعدگی کے ساتھ مفت ادویات اور سکریننگ کی سہولت مہیا کیا جاتی ہے، اور عام افراد کی معلومات میں اضافے کے سیشن بھی منعقد کیے جاتے ہیں ۔

اس کے ساتھ ساتھ پیما کے کونسلرز ذیابیطس کے مریضوں کو شوگر کی موجودگی میں لائف سٹائل کی تبدیلی کے بارے میں آگاہی فراہم کرتے ہیں اور متوازن غذا کے بارے میں سمجھاتے ہیں۔ جن شہروں میں یہ کلینکس قائم کیے جا چکے ہیں، ان میں لاہور، فیصل آباد، صادق آباد، رحیم یار خان، پتوکی، جڑانوالہ، کوٹ مٹھن، سکھر، خیرپور، ماتلی، شکارپور، گلشن حدید، کراچی، مظفرآباد اور میرپور شامل ہیں۔

( ڈاکٹر محمد افضل میاں پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کے سابق صدر ہیں،ا ن دنوں پیما ریلیف کے انچارج ہیں۔ وہ لاہور میں بطور پروفیسر آف سرجری خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ )

پاکستان میں پہلی بار فالج کے مریض کے دماغ میں اسٹنٹ ڈالا جائے گادماغ میں اسٹنٹ ڈالنے کے بعد فالج کے مریضوں میں معذوری کا...
27/11/2020

پاکستان میں پہلی بار فالج کے مریض کے دماغ میں اسٹنٹ ڈالا جائے گا

دماغ میں اسٹنٹ ڈالنے کے بعد فالج کے مریضوں میں معذوری کا عمل ختم ہوجائے گا، سربراہ این آئی سی وی ڈی
دماغ میں اسٹنٹ ڈالنے کے بعد فالج کے مریضوں میں معذوری کا عمل ختم ہوجائے گا، سربراہ این آئی سی وی ڈی

کراچی: این آئی سی وی ڈی میں پہلی بار فالج کے مریضوں کے دماغ میں اسٹنٹ ڈالنے کی تیکنیک شروع کی جائے گی۔

قومی ادارہ برائے امراض قلب (این آئی سی وی ڈی) میں فالج کے مریضوں کے علاج کے لئے پہلی بار نئی تیکنیک کا اعلان کردیا گیا، فالج کے اٹیک کے 4 گھنٹے کے اندر متاثر ہونے والے مریض کے دماغ کی بند ہونے والی شریان کو کھولنے کے لئے انجیوپلاسٹی کی طرز پر اسٹنٹ ڈالا جائے گا، یہ طریقہ علاج پاکستان میں پہلی بار متعارف کرایا جائے گا۔

ایکسپریس ٹربیون کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے اسپتال کے سربراہ پروفیسر ندیم قمر نے بتایا کہ فالج کے مریضوں کو زندگی بھر معذوری سے محفوظ رکھنے کیلیے این آئی سی وی ڈی کی ماہرین فیکلٹی نے اپنی خدمات پیش کردیں جب کہ دماغ کی بند شریان کھولنے کے اس پیچیدہ اور حساس نوعیت کے پروسیجر میں صرف ایک گھنٹہ درکار ہوگا۔ انھوں نے بتایا کہ دماغ میں اسٹنٹ ڈالنے کیلئے انجیوپلاسٹی کی طرز پرماہرین کی نگرانی میں انتہائی پیچیدہ طریقہ کار کیا جائے گا جس کے بعد فالج کے مریضوں میں معذوری کا عمل ختم ہوجائے گا۔

پروفیسر ندیم قمر نے بتایا کہ اس سے قبل فالج لاحق ہونے کے بعد مریض معذوری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتے ہیں تاہم قومی ادارہ برائے امراض قلب کے ماہرین نے فیصلہ کیا ہے کہ ایسے مریض جنہیں فالج کا اٹیک ہو اور وہ مریض 4 گھنٹے کے اندر اسپتال پہنچ جائے تو ان کے دماغ کی بند شریان کوکھولنے کے لئے اسٹنٹ ڈال دیاجائے گا جس کے بعد فالج کا مریض نارمل زندگی گزار سکے گا۔

پروفیسر ندیم قمر نے پاکستانی قوم کو خوشخبری دیتے ہوئے بتایا کہ اسپتال میں آئندہ سال سے دل کی پیوندکاری (ہارٹ ٹرانسپلانٹ) کرنے کی بھی تیاریاں شروع کردی گئیں ہیں، اس سلسلے میں بعد ازمرگ عطیہ اعضا کا قانون پہلے ہی سینیٹ سے منظور کیا جاچکا ہے، اس قانون کا نام The Transplantation of Human Organ & Tissue Act 2010 ہے، 2007 میں سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں آردینینس جاری کیا گیا بعدازاں 2010 میں قومی اسمبلی اور سینٹ سے متفقہ طور پر منظور کیا گیا، اس قانون پر سابق صدر آصف علی زرداری کے دستخط موجود ہے، اس قانون کے تحت کوئی بھی انسان اپنا اعضا کسی دوسرے انسان کو عطیہ کرسکتا ہے۔ اس قانون کے تحت ایس آئی یوٹی میں 1985 میں گردوں کا پہلا ٹرانسپلانٹ بھی کیا گیا جو جاری ہے۔

سربراہ قومی ادارہ برائے امراض قلب کا کہنا تھا کہ دل کی پیوندکاری بھی اسی قانون کے تحت کی جاسکے گی، تاہم اس کے لئے ہم سب کوقومی سطح پر آگاہی مہم شروع کرنا ہوگی۔ برین ڈیتھ (یعنی دماغی موت) کی تصدیق کے 6 گھنٹے کے اندر دل نکال کردوسرے مریض میں لگانا ہوگا، ایسے افراد جوکسی بھی خوفناک حادثے کا شکار ہوکر ٹراما سینٹر لائے جاتے ہیں اوران کے بچنے کے امکانات نہیں ہوتے، ان مریضوں کے لواحقین کی اجازت سے دل نکال کردوسرے مریضوں کی زندگی بچائی جاسکیں گی، انھوں نے کہاکہ قومی ادارہ برائے امراض میں آئندہ 6 ماہ بعددل کی پیوندکاری کا ابتدائی عمل شروع کردیا جائیگا۔

پروفیسر ندیم قمر نے کہا کہ پہلے مرحلے میں ناکارہ دل کے مریضوں کو برج ٹو ٹرانسپلانٹ (Bridge to Transplant) یعنی دل میں ایک میکنیکل ڈیوائیس لگائی جائیگی اس دوران مریض کی انتہائی نگہداشت جاری رہے گی، دل کی پیوندکاری کے لیے پہلے مرحلے میں میکینکل ڈایوائیس لگائی جاتی ہے جس کو طبی زبان میں برج ٹو ٹراسپلانٹ کہتے ہیں، بعدازاں کچھ ماہ بعد اس کے دل کی پیونکاری کی جاتی ہے۔

قومی ادارہ برائے امراض قلب کے سربراہ پروفیسر ندیم قمر نے بتایا کہ ہیومین آرگن ایند ٹشوٹرانسپلانٹ ایکٹ 2010 کے تحت کوئی بھی انسان اپنے جسم کا کوئی بھی اعضا رضاکارانہ طورپر عطیہ کرسکتا ہے، دل کی پیوندکاری کے ساتھ ساتھ دوبارہ میکنیکل ہارٹ (مصنوعی دل) میکینکل ڈیوائیس لگانے کا کام بھی شروع کیا جارہا ہے،اسپتال میں میکنیکل ڈیوائیس لگانے کا کام 2018 میں شروع کیاگیا تھا، 5 مریضوں کویہ ڈیوائیس لگائی گئی تھی جس میں سے2 مریض صحت مندانہ زندگی گزاررہے ہیں۔

پروفیسر ندیم قمر کا کہنا تھا کہ فالج کے مریضوں کو اب پریشان ہونے کی ضرروت نہیں، نئے سال 2021میں فالج کے مریضوں کے دماغ کی بند شریان کو کھلونے کیلیے انجیوپلاسٹی کا عمل شروع کردیا جائیگا۔ انھوں نے کہا کہ اسپتال میں سالانہ 16 ہزار دل کے مریضوں کی انجیوپلاسٹی کی جاتی ہیں جن کی کامیابی کا تناسب 99 فیصد ہے۔

وہ غذا جو ہڈیوں کو کمزور کرکے فریکچر کا خطرہ بڑھائےغذا میں گوشت کی جگہ صرف سبزیوں کو ترجیح دینے والے افراد میں ہڈیوں کے ...
27/11/2020

وہ غذا جو ہڈیوں کو کمزور کرکے فریکچر کا خطرہ بڑھائے

غذا میں گوشت کی جگہ صرف سبزیوں کو ترجیح دینے والے افراد میں ہڈیوں کے فریکچر کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔

یہ بات ایک طویل المعیاد طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

طبی جریدے بی ایم سی میڈیسین میں شائع تحقیق میں 55 ہزار افراد کو شامل کیا گیا تھا جن کی غذائی عادات کا تجزیہ کرنے کے بعد دریافت کیا گیا کہ مچھلی اور سبزیاں تک محدود رہنے والے افراد میں ہڈیوں کے فریکچر کا خطرہ میں کم مگر نمایاں اضافہ ہوتا ہے جبکہ صرف سبزیوں کھانے والے لوگوں میں یہ خطرہ 43 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔

برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی کی اس تحقیق میں شامل محقق ڈاکٹر ٹامی تھونگ نے بتایا کہ یہ پہلی جامع تحقیق ہے جس میں مختلف غذائی عادات رکھنے والے گروپس میں ہڈیوں کی کمزوری کے خطرے کا تجزیہ کیا گیا۔

اس تحقیق کا آغاز 1993 میں ہوا تھا س کے لیے 29 ہزار 380 گوشت کھانے والے، 8 ہزار ایسے افراد جو گوشت تو نہیں کھاتے مگر مچھلی کو پسند کرتے تھے، ساڑھے 15 ہزار سبزیاں کھانے والے جبکہ 2 ہزار ایسے رضاکار تھے جو سبزیاں کھاتے تھے مگر دودھ سے بھی دور رہتے تھے۔

ان افراد کی غذائی عادات کا تجزیہ اوسطاً 18 سال تک کیا گیا اور ان میں ہڈیوں کے فریکچر کے کیسز کو دیکھا گیا۔

تحقیق کے دوران 3 ہزار 931 فریکچر کے کیسز پورٹ ہوئے اور دریافت کیا گیا کہ گوشت ے سے دور رہنے والوں میں یہ شرح سب سے زیادہ تھی، خاص طو پر کولہے، ٹانگوں، ہاتھوں، ٹخنووں، پسلیاں اور دیگر اہم جسمانی مقامات پر۔

اس سے قبل تحقیقی رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ غذا میں پروٹین اور کیلشیئم کی کم مقدار ہڈیوں کی صحت کو منفی انداز سے متاثر کرتی ہے۔

محققین کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے ٹھوس شواہد نہیں جن کی بنیاد پر حتمی طور پر کہا اسکے کہ آخر یہ غذائیں فریکچر کا خطرہ کیوں بڑھاتی ہیں، مگر یہ واح ہے کہ گوشت کھانے والوں میں یہ خطرہ سبزی پسند کرنے والوں کے مقابلے میں 1.3 گنا کم ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ماضی کی تحقیقی رپورٹس سے ثابت ہوتا ہے کہ کم سمانی وزن بھی کولہے کے فریکچر کا باعث ہوسکتا ہے، بکہ کیلشیئم اور پروٹین کا کم استعمال بھی ہڈیوں کو کمزور بناتا ہے، ہماری تحقیق میں ثابت کیا گیا کہ سبزیاں پسند کرنے والوں کا اوسط سمانی وزن کم ہوتا ہے بکہ وہ گوشت کھانے والوں کے مقابلے میں کیلشیئم اور پروٹین کو بھی کم جزوبدن بناتے ہیں، جس سے متعدد جسمانی حصوں میں فریکچر کا خطرہ بڑھتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مزید تحقیق میں مختلف قومیتوں کے افراد کو شامل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ غذائی عادات کے ہڈیوں پر اثرات کو دیکھا جاسکے۔

Address

Hayatabad
Peshawar

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Your Health Matters posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on LinkedIn
Share on Pinterest Share on Reddit Share via Email
Share on WhatsApp Share on Instagram Share on Telegram