Fun and funy

Fun and funy That is a fun
this page was a nice
That is a must be dedicated to funny person
This page just for a fun prsons

10/06/2020

وہ ہمسفر تھا مگر
قسط 5
Anaya dhariwal

صبح کا وقت تھا جب رخسار شاہ بی بی کے کمرے میں وضو کروانے کے لیے آئیں

" سویرا کدھر ہے ؟؟ " انہوں نے سلام کا جواب دیتے ہوئے پوچھا

"بی بی جان اسے رات سے بخار ہے میں نے دوا دی تھی ابھی سو رہی ہے ۔۔۔" رخسار ان کے لئیے جائے نماز بچھاتے ہوئے بولیں

" ٹھیک ہے وہ جیسے ہی اٹھے اسے ہمارے پاس بھیج دینا ۔۔۔" انہوں نے نیت باندھنے سے پہلے حکم دیا

رخسار اثبات میں سر ہلاتی ہوئی باہر نکل گئی
رخسار کچن میں تیزی سے ملازمہ کی مدد سے سب کا ناشتہ تیار کروا رہی تھیں آج سویرا کی غیر موجودگی کی وجہ سے سب کاموں میں دیر ہو رہی تھی سب کو ناشتہ کمروں میں بھجوا کر وہ سویرا کیلیئے دودھ ڈبل روٹی ٹرے میں رکھ کر کچن سے نکلی ہی تھیں کہ مین دروازے سے فرزانہ پھوپھو اندر داخل ہوئی

"السلام علیکم پھپھو جان !! " رخسار نے جھٹ سے سلام کیا

وہ اشارے سے جواب دیتی ہوئی تنے ہوئے چہرے کے ساتھ شاہ بی بی کے کمرے کی جانب بڑھ گئیں

"کیا ہوا رمیز !! پھوپھو اتنے غصہ میں کیوں ہیں ؟؟ " رخسار نے پوچھا

" کچھ نہیں بھابھی بس اکرم بھیا نے انہیں رات ہی شہریار بھائی کے آنے کی اطلاع دے دی تھی اماں نے ہسپتال میں بڑی مشکل سے رات کاٹی ہے" رمیز نے رپورٹ دی

" اچھا دیور جی تم جا کر فریش ہو میں ناشتہ بھجواتی ہوں ۔۔۔" رخسار ٹرے لیکر سویرا کے کمرے کی طرف بڑھیں
_____________________________________

" شاہ بی بی یہ میں کیا سن رہی ہوں آپ شاہو کہ ساتھ اس کرم جلی کو رخصت کر رہی ہیں ؟؟ " وہ چادر اتار کر پرس کو میز پر پٹختے ہوئے بولیں

" نا سلام نا دعا ؟؟ فرزانہ آتے کہ ساتھ ہی سوال ؟؟ یہ مت بھولوں کہ تم ہم سے مخاطب ہو اور ہم کسی کو جواب دہ نہیں !!! " شاہ بی بی سرد لہجے میں بولیں

" معذرت چاہتی ہوں لیکن کیا آپ مجھے بتائیں گی کہ آپ نے ایسا کیوں کیا ؟؟ آپ کو پوری دنیا میں بس یہی لڑکی ملی تھی میرے شاہو کے لیے؟؟ کیا سارے گاؤں کی لڑکیاں مر گئی ہیں اپنی برادری میں بھی کوئی لڑکی نہیں ملی جو اس منحوس کو زبردستی میرے بچے کے گلے باندھ رہی ہیں ۔۔۔" فرزانہ پھٹ پڑیں

" شاہو ہمارا بھی بچہ ہے اور یہ کوئی نیا فیصلہ تو نہیں !! نکاح تو ان دونوں کا بہت پہلے ہی ہوچکا ہے اب تو بس رخصتی ہی باقی ہے اور اس میں برائی بھی کیا ہے؟؟ " شاہ بی بی تحمل سے بولیں

"میں کہتی ہوں کیا یہی دنیا سے نرالی منحوس لڑکی میرے بھتیجے کے لئے رہ گئی تھی اپنے باپ کو تو کھا چکی ہے اب دیکھنا یہ میرے شاہو کو کوئی نقصان نہ پہنچا دے !! میرے خوبرو لائق بھتیجے کیلیئے کیا یہی رہ گئی تھی ؟؟ اور نکاح کا کیا ہے کبھی بھی توڑا جا سکتا ہے میں تو کہتی ہو آپ ابھی بھی وقت ہے اس بے جوڑ رشتے کو ختم کر دیں ۔۔۔"

"فرزانہ بس کرو تمہاری زبان کے آگے تو خندق ہے اب یہ فضول گوئی بند کرو !! میری سویرا تو اتنی خوبصورت نیک دل اور حساس لڑکی ہے جو ڈھونڈنے سے بھی نا ملے ، سب کا خیال رکھنے والی طبیعت کی بھی بہت نیک ہے دیکھنا شادی کے بعد شاہو کو سنبھال لے گی سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔" وہ رسان سے سمجھاتے ہوئے بولیں

" آپ نے شاہو سے پوچھا ؟؟ یا اس بار بھی خود ہی فیصلہ کرلیا ہے ؟؟ " فرزانہ نے پوچھا

" شاہو سے پوچھ کر ہی رخصتی طے کی ہے " شاہ بی بی روکھے لہجے میں بولیں

" سب سے پوچھ لیا ساری باتیں طے کر لی اور مجھے کچھ بھی بتانا ضروری نہیں سمجھا بس یہی عزت رہ گئی ہے میری کہ اب مجھ سے باتیں چھپائی جاتی ہیں۔۔" وہ روہانسی ہو گئی

" بس فرزانہ بہت ہوگیا جاؤ !! اب میں آرام کروں گی اور شادی میں خوشی خوشی شریک ہو سکتی ہو تو ٹھیک ہے ورنہ آرام سے اپنے کمرے میں بند ہو کر بیٹھ جاؤ خبردار جو میرے بچوں کی خوشیوں میں کوئی ٹانگ اڑائی ۔۔۔"
________________________________________
عروہ یک ٹک اسے دیکھے جارہی تھی

" کم آن عروہ !! دیر ہو رہی ہے ۔۔۔ " وہ جھنجھلا کر بولا

" شیری سچ کہو تم مجھ سے پیار کرتے ہو نا ؟؟ "وہ اس کی آنکھوں میں جھانک رہی تھی

" عروہ ہنی !! تم اچھی طرح سے جانتی ہو کہ میں پیار عشق ان فضولیات پر یقین نہیں رکھتا میرے نزدیک انڈرسٹینڈنگ فرینڈ شپ اہم ہے اور جب ہم شادی کرنے کا فیصلہ کر ہی چکے ہیں تو اب اتنی بے اعتباری کیوں ؟؟ "

" شیری میں تمہارے معاملہ میں بہت حساس ہوں پتا نہیں کیوں پر تمہیں کھونے سے ڈرتی ہوں ۔۔" وہ دھیرے سے چلتی ہوئی اس کے نزدیک آئی

" عروہ !! میں اس ٹرپ سے واپس آجاؤں تو تمہاری اس بے اعتباری کا علاج کرتا ہوں ۔۔" اس نے کہا

" بس ایک وعدہ کرو !! " عروہ نے اس کے گلے کے میں ہاتھ ڈالے

" چاہے جیسے بھی حالات ہوں چاہے کچھ بھی ہو جائے پر تم کبھی بھی مجھے نہیں چھوڑوں گئے ہمیشہ میرے رہو گئے ۔۔۔" وہ اس کی آنکھوں میں جھانک رہی تھی

" لیٹس گو عروہ دیر ہو رہی ہے ۔۔۔" شہریار نے اسے آگے بڑھنے کا اشارہ کیا

" پہلے وعدہ کرو شیری !! " وہ ضدی لہجے میں بولی

" اوکے پرامس !! بس اب خوش ؟؟ "

" جینٹلمین پرامس ؟؟ " عروہ نے اپنا ہاتھ بڑھایا

" اوکے بابا جینٹلمین پرامس !! اب چلیں ؟؟ میں فلائٹ مس نہیں کرنا چاہتا ۔۔" وہ زچ ہو کر رہ گیا تھا

" ٹھیک ہے شیری !! یاد رکھنا تم نے مجھے زبان دی ہے !! اب تم جاؤ اور جلد واپس آنا اپنے پیرنٹس کو ہماری شادی کیلئے منا کر آنا ۔۔۔" عروہ اپنا ٹکٹ پھاڑ کر ڈسٹ بن میں ڈالتے ہوئے بولی

" تم نہیں آرہی ؟؟ " وہ حیران ہوا

" نہیں میں تمہیں پریشان کرنا نہیں چاہتی اور نا ہی یہ چاہتی ہوں کہ تم مجھے ان سیکیور ٹائپ لڑکی سمجھو ۔۔اب تم جاؤ میں تمہاری واپسی کا انتظار کرونگی ۔۔" وہ اداسی سے بولی

فلائٹ کی بورڈنگ اناؤسمنٹ بار بار ہو رہی تھی وہ اسے گڈ بائے کہتا ہوا تیزی سے قدم اٹھاتے ہوئے اندر چلا گیا
___________________________________

رخسار آہستگی سے سویرا کے کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی کمرے میں اندھیرا چھایا ہوا تھا انہوں نے کھڑکی سے پردے ہٹائے تو سورج کی کرنیں چھن چھن کرتی اندر داخل ہو گئی وہ ٹرے سائیڈ پر رکھ کر سویرا کے پاس آئیں لحاف ہٹا کر اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھا تو بخار تھوڑا کم تھا

" سویرا چندا اٹھو !! " انہوں نے پیار سے اسے جگایا

سویرا نے بمشکل آنکھیں کھولیں اور رخسار کو دیکھ کر سلام کرتی ہوئی اٹھ بیٹھی

" چلو شاباش اٹھو جلدی سے منھ ہاتھ دھو کر آؤ " وہ اس کا بستر ٹھیک کرتے ہوئے بولی

سویرا خاموشی سے اٹھ کر فریش ہونے چلی گئی کچھ دیر میں وہ تولیہ سے منھ پوچھتی باہر نکلی
"سویرا !! یہ تھوڑا سا دودھ پی لو اور ساتھ میں یہ ٹیبلیٹ لے لو طبیعت بہتر ہو جائے گی " رخسار نے نرمی سے کہا

وہ اثبات میں سر ہلاتی دودھ کا گلاس اور دوا اٹھا کر پینے لگی رخسار یک ٹک اس کے معصوم کمسن حسن کو دیکھ رہی تھیں واقعی اگر قسمت اچھی نا ہو تو بےپناہ حسن و جمال بھی کسی کام کا نہیں ہوتا

" اچھا سنو شاہ بی بی تمہیں یاد کررہی تھیں ان سے جا کر مل لو میں جب تک تمہارے لئیے سوپ بنواتی ہوں ۔۔۔"

"رخسار آپی !! پلیز آپ تو میرا ساتھ دیں شاہ بی بی کو منع کریں کہ وہ ایسا نا کریں اس طرح تو میں ساری زندگی سر اٹھا کر نہیں جی سکوں گی میرا سارا غرور خاک میں مل جائے گا آپ جانتی تو ہیں وہ کتنے انا پرست ہیں یوں زبردستی مجھے ان پر مسلط مت کریں پلیز تمام عمر کے لیے میری ہی نظروں سے نہ گرائیں ۔۔۔" سویرا ان کے ہاتھ تھام کر رو پڑی

" سویرا گڑیا !! تم اتنا منفی مت سوچوں دیکھنا شادی کے بعد سب ٹھیک ہو جائے گا اور اگر شاہو نے تمہیں تنگ کیا تو تم اکیلی نہیں ہو ہم سب تمہارے ساتھ ہی ہیں چندا !! " رخسار نے بڑے پیار سے اس کے آنسو پونچھے

چلو شاباش جلدی سے شاہ بی بی سے مل آؤ ۔وہ انتظار کر رہی ہیں " رخسار باہر نکلتے ہوئے بولیں
________________________________________

" اسلام علیکم !! شاہ بی بی آپ نے یاد فرمایا تھا ۔۔" سویرا نے اندر داخل ہوتے ہی کہا

"آؤ بیٹی ادھر میرے پاس آکر بیٹھو ۔۔ " انہوں نے اپنے پہلو میں اس کیلیئے جگہ بنائی

"سویرا بیٹی!!! تم جانتی ہو ہم خاندانی لوگ ہیں ہم نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی ہے اس کے کچھ اصول ہیں کچھ روایات ہیں جن کی پاسداری ہم سب کا فرض ہے ۔ہم اپنی لڑکیوں کی شادی خاندان سے باہر نہیں کرتے اور تمہارا نکاح تو بہت پہلے ہو چکا ہے اور اب وقت آ چکا ہے کہ ہم تمہارے فرض سے سبکدوش ہوجائیں۔۔ "


" شاہ بی بی !! " وہ ہچکچائی

" کیا ہوا سویرا !!! یہ ایسی کون سی انوکھی بات ہے جو تم اتنا پریشان ہو رہی ہو یہ رشتہ تو بہت پہلے سے طے تھا رخصتی تو بس ایک فارمیلٹی ہے "

"شاہ بی بی میری سمجھ میں نہیں آرہا میں کیا کہوں کیسے آپ کو سمجھاؤں " وہ انگلیاں چٹخاتے ہوئے بےبسی سے بولی

" سویرا جو تمہارے دل میں ہے وہ کہو ۔ اپنے دل سے ہر اندیشہ کو نکال پھینکو خوشیاں تمہارے دروازے پر دستک دے رہی ہیں آگے بڑھ کر ان کا استقبال کرو ۔۔۔" شاہ بی بی رسانیت سے بولیں
" مجھے ان سے بہت ڈر لگتا ہے وہ اس رشتے کو پسند نہیں کرتے ۔۔۔" سویرا نے بمشکل کہا

"دیکھو بچے ہر انسان کی اپنی شخصیت ہوتی ہے مانا کے تم لوگوں کے مزاج میں فرق ہے سوچ بھی مختلف ہے لیکن شادی کے بعد سب ٹھیک ہو جاتا ہے تم پریشان مت ہو جب اس پر ذمہ داری پڑھے گی تو وہ ٹھیک ہو جائے گا ۔" انہوں نے سنجیدگی سے سمجھایا

" مگر !! " سویرا نے سر اٹھایا

"زندگی ایک بار ملتی ہے بار بار نہیں اس لیے بجائے رونے دھونے کہ کیوں نہ تم اپنے دل کو یہ تسلی دوں کہ تم یہ مرحلہ طے کر سکتی ہو خوشیوں پر تمہارا بھی حق ہے ہاتھ بڑھاؤ اور سمیٹ لو۔۔۔" انہوں نے اس کی بات کاٹی

سویرا خاموشی سے سر جھکا کر رہ گئی

" کل رات تک شہریار پہنچ جائیگا بس پھر جلد ہی یہ رسم ادا کر دی جائیگی اب تم جاؤ اور خوش رہنے کی کوشش کرو ۔۔۔۔"
_________________________________________

استنبول میں ایک کامیاب بزنس ڈیل سائن کرنے کے بعد وہ پاکستان کیلئے روانہ ہوچکا تھا اب اس کا دماغ آگے کا لائحہ عمل سوچ رہا تھا وہ کسی بھی صورت سویرا کو اپنے ساتھ لانا نہیں چاہتا تھا بس کسی بھی بہانے اسے پاکستان چھوڑ کر واپس آنے کا وہ پکا ارادہ کر چکا تھا
_______________________________________
جاری ہے

سٹوری میں ھوگا کیا؟؟؟
ناول سب سے پہلے پڑھنےکہ لیے فولو کر کہ سی فرسٹ ضرور کریں۔۔

10/06/2020

وہ ہمسفر تھا مگر
قسط 4
Anaya dhariwal

وہ کانوں پر بلیو ٹوتھ لگائے مسلسل رخسار آپی سے باتوں میں مصروف تھا

" آپی آپ خود کو ایک بار تو میری جگہ رکھ کر سوچیں شادی زندگی کا ایک اہم ترین فیصلہ ہوتا ہے اور میرے سر پر تو آپ سب نے ایک ناپسندیدہ ہستی کو تھونپ دیا ہے ۔۔" وہ انہیں سمجھا رہا تھا

" شیرو کوئی اور راستہ نہیں ہے ؟؟ کیا تم واقعی اسے نہیں اپناؤ گئے ؟؟ "

"نہیں ...میرے نزدیک اس کا وجود کوئی اہمیت نہیں رکھتا اور آپ بیفکر رہیں میں اسے کسی ظلم و ستم کا نشانہ نہیں بناؤ گا بس ایک سال ہی کی تو بات ہے کرلونگا برداشت ۔۔۔"

"تم اتنا منفی کیوں سوچ رہے ہوں سویرا کو ایک موقع دیکر تو دیکھو یقین کرو وہ ایک وفا شعار بیوی ثابت ہوگی تمہاری زندگی میں خوشیاں بھر دے گی ۔۔ "

" آپی پلیز مجھے سبز باغ دکھانا بند کریں مجھے کسی وفا شعار ٹائپ بیوی کی ضروت نہیں ہے اس لئیے براہ مہربانی مجھے قائل کرنے کی کوشش مت کریں۔ ۔۔"

" شاہو !! اتنا غرور اچھا نہیں ہوتا دیکھنا ایک دن تمہاری زندگی میں اس کی بہت اہم جگہ بن جائے گی تمہیں نہ چاہتے ہوئے بھی اس سے محبت ہو جائیگی پھر میں دیکھوں گی کہ تم کیسے محبت سے منھ موڑو گئے ؟ ڈرو اس وقت سے جب تم سویرا سے محبت کی بھیک مانگو گے ۔۔ "

"سیریسلی آپی !! آپ مجھے بہت انڈر ایسٹیمیٹ کررہی ہیں بہرحال آپ کی اطلاع کے لئیے میں اپنی وائف ٹو بی سلیکٹ کرچکا ہوں ۔۔۔۔"

ابھی وہ بات کرہی رہا تھا جب ڈرائیور نے گاڑی ائیرپورٹ اینٹرینس پر روکی ۔۔

" سر !! ائیر پورٹ آگیا ہے ۔۔۔" باوردی ڈرائیور نے اتر کر دروازہ کھولا

اس نے فون بند کیا اور بڑے اطمینان سے کاندھے پر ٹریول بیگ لئیے ہاتھ میں بریف کیس لیکر نیچے اترا سن گلاسز آنکھوں پر لگائے اور بڑے بڑے قدم اٹھاتا اندر داخل ہو گیا

ہیتھرو دنیا کا ایک مصروف ترین ائیر پورٹ جہاں منٹ منٹ پر فلائٹس لینڈ اور ٹیک آف کرتی ہیں یہاں ہمہ وقت ایک گہما گہمی سی نظر آتی ہے ہر کوئی اپنے آپ میں مگن تیز رفتاری سے اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے

وہ تمام سیکیورٹی مراحل سے گزرنے کے بعد اب آرام سے اپنا کوٹ اتار کر آستینیں فولڈ کرکے ویٹنگ لاونج میں بیٹھ کر اپنے بریف کیس سے لیب ٹاپ نکال کر ای میلز کرنے میں مصروف تھا جب اسے اپنے شانے پر کسی کے ہاتھ کا لمس محسوس ہوا ۔۔۔
_______________________________________

عروہ انتہائی غصہ میں گھر واپس آ گئی تھی شہریار کی سیکرٹری سے اس کا ٹریول پروگرام فلائٹ ڈیٹیل لیکر اپنی آن لائن بکنگ کروا چکی تھی اور اپنے ڈیڈ سے ضد کرکے اب ائیر پورٹ جانے کیلئے تیار کھڑی تھی اس کی مام نے اسے آخری لمحے تک سمجھانے کی کوشش کی پر وہ نہیں مانی ۔۔۔

" عروہ ڈارلنگ ایک بار پھر سوچ لو تم پاکستان میں کیسے رہو گی ؟؟ دو دن بھی نہیں ٹک سکو گئی ادھر ۔۔۔"

" مام پلیز !! میں کسی بھی قیمت پر شیری کو ادھر اکیلا نہیں جانے دے سکتی آپ تو مجھے سمجھیں !! " اس نے سنجیدگی سے کہا

" تم آج تک پاکستان نہیں گئی ہو ادھر کا ماحول بہت الگ ہے آخر تم ادھر کیسے رہو گی ذرا سی دھول تمہیں برداشت نہیں ہوتی اور ادھر تو ۔۔۔۔"

" مام پلیز !! " عروہ نے انہیں ٹوکا

" میں کوئی ادھر رہنے نہیں جارہی بس شیری کے پیرنٹس سے مل کر اسے اپنے ساتھ لیکر واپس لے آؤ نگی ۔۔۔" عروہ نے دو ٹوک لہجے میں کہا

وہ اپنی مام کے گال چومتی ڈیڈ کو بائے کہتی باہر نکل گئی جہاں اس کے ڈیڈ کا ڈرائیور اسے ائیر پورٹ لے جانے کیلئے تیار کھڑا تھا

ائیرپورٹ پہنچ کر وہ تمام سیکیورٹی مراحل سے گزرنے کے بعد اب ویٹنگ لاونج میں شہریار کو ڈھونڈ رہی تھی جب اس کی نظر شہریار پر پڑی جو سامنے ہی صوفہ پر بیٹھا لیب ٹاپ پر مصروف تھا وہ اسے دیکھ کر ٹھٹک سی گئی جیل سے سیٹ کئیے ہوئے گھنے بال وجیہہ چہرے پر سنجیدگی لئیے وہ دور سے بھی لاکھوں میں ایک نظر آرہا تھا

اس نے اپنے بالوں پر ہاتھ پھیر کر درست کیا پرس میں سے گلوس نکال کر خود کو فریش اپ کرنے کے بعد وہ شہریار کی جانب بڑھی قریب پہنچ کر اس کے شانے پر ہاتھ رکھا ہی تھا کہ وہ تیزی سے پلٹا
" عروہ !! تم ۔۔۔"شہریار کی آنکھوں میں ناگواری امڈ آئی

" کیوں کیا ہوا ؟؟ مجھے دیکھ کر خوشی نہیں ہوئی ۔۔" عروہ اس کے سامنے آکر بولی

" عروہ سیریسلی اٹس ٹو مچ !! میں کام سے جا رہا ہوں فن ٹرپ پر نہیں جو تم میرے ساتھ چلو ہر بات کی حد ہوتی ہے ۔۔۔" وہ غصہ دباتے ہوئے بولا
" شہریار !! تم اچھی طرح سے جانتے ہو کہ میں تم سے کتنا پیار کرتی ہوں مجھے ڈر لگتا ہے سنا ہے دیسی پیرنٹس بہت خطرناک ہوتے ہیں اگر تمہارے بابا نے تمہاری زبردستی شادی کردی تو ؟؟ میں تو مر جاؤنگی نا ؟؟ " اس کا لہجہ بھرا گیا

" سو اٹ مینس یو ڈونٹ ٹرسٹ می ؟؟ " وہ سرد لہجے میں بولا

" ایسا مت کہو ٹرسٹ کرتی ہوں !! بہت ٹرسٹ کرتی ہوں جبھی تو کسی بھی رشتے کے بغیر تمہاری راہ پر چل رہی ہوں ۔۔۔" اس نے شہریار کے کندھے پر سر رکھا

جینز شرٹ میں ملبوس سنہرے بالوں کو پشت پر بکھرائے وہ لاؤنچ میں بیٹھے لوگوں کی توجہ کھینچ رہی تھی شہریار کے چہرے پر ناگواری کی رمق سی چمکی

" کیا تمہیں میری پریشانی کا بھی کچھ اندازہ ہے مجھے بزنس میٹنگ اٹینڈ کرنی ہے استنبول میں ، اس کے بعد فوراً پاکستان روانگی ہے مجھے اپنے بابا کو ہسپتال میں دیکھنا ہے ان کو علاج کیلئے ساتھ لانے کی کوشش کرنی ہے ایک تو ادھر پہلے ہی سارے لوگ بہت کنزرویٹو ہیں اوپر سے بغیر شادی کے کسی لڑکی کا اس طرح میرے ساتھ آنا تو ؟؟ تم میرے لئے صرف اور پرابلمز کھڑی کرو گی۔۔" شہریار اسے خود سے الگ کرتے ہوئے بولا

"سچ کہو تمہیں میرا اپنے ساتھ آنا برا لگ رہا ہے نہ یہی بات ہے نا ؟؟ " عروہ کی سبز آنکھوں میں نمی امنڈ آئی

"تم اچھی طرح جانتی ہو ایسی بات نہیں ہے میری تم سے کمٹمنٹ ہے اور میں کمٹمنٹ نبھانے والا بندہ ہوں چلو اپنا سامان سمیٹو ہو بورڈنگ اناؤنس ہو رہی ہے۔۔۔" وہ لیب ٹاپ بند کر کے بیگ میں ڈالتے ہوئے اپنا کوٹ اٹھا کر سیدھا کھڑا ہو گیا
________________________________________

" شاہ بی بی !! اگر وہ ایک سال بعد بھی نا راضی ہوا تو ۔۔۔" زاہدہ کے لہجے میں اندیشے تھے

" جی شاہ بی بی آپ ایک بار پھر سوچ لیں ایسا نا ہو سال بعد اس نے اگر سویرا کو خدا ناخواستہ چھوڑ دیا تو ۔۔۔" رخسار بھی فکر مند تھیں

" ایسا کچھ نہیں ہوگا یہ بات خاندان کے شملہ کو اونچا رکھنے کیلئے ضروری تھی ویسے بھی شاہو کی رگوں میں ہمارا خاندانی خون دوڑ رہا ہے جب ایک بار شادی ہو جائے گی تو وہ پھر کبھی بھی برداشت نہیں کریگا کہ اس سے منسلک عورت اس کی عزت کو کوئی ایرا غیرا دیکھے دوسری شادی بیاہ کرنا تو بہت دور کی بات ہے اس کی غیرت اسے کبھی بھی ایسا فیصلہ لینے نہیں دیگی ۔۔ " شاہ بی بی کے لہجہ میں مضبوطی تھی مان تھا

" لیکن سویرا کے وجود کو تو اس نے نکاح کے بعد بھی تسلیم نہیں کیا تھا وہ تو اسے پہلے دن سے چھوڑنے کی رٹ لگائے بیٹھا ہے آپ دیکھ لیں شاہ بی بی کہیں پھر ہماری طرف سے زیادتی نا ہو جائے ۔۔۔" زاہدہ سنجیدگی سے بولیں

" اسی لئیے تو ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے جب تک وہ سویرا کو دیکھے گا نہیں جانے گا نہیں تو فیصلہ کیسے کریگا ؟؟ ایک سال تو کچھ نہیں ہوتا بس ایک لمحے کی ضرورت ہوتی ہے محبت کو وحی بن کر دل میں اترنے کے لئے!! اور مجھے پورا یقین ہے شاہو کے دل میں ایک دن سویرا راج کریگی " شاہ بی بی نے رسان سے سمجھاتے کہا

سویرا جو سب کو رات کے کھانے کیلئے بلانے آئی تھی اندر سے آتی آوازوں کو سن کر اپنی جگہ منجمد سی ہوگئ یہ قسمت اس کے ساتھ کیسا کھیل کھیل رہی تھی اس کی سگی دادی اسے ایک سال کیلئے داؤ پر لگا رہی تھیں

وہ چپ چاپ پلٹ گئی اور مائی کو اندر کھانے کے لئیے سب کو بلانے کے لیے بھیج کر خود میز لگانے لگی

فرزانہ پھوپھو ہسپتال میں بابا سائیں کے پاس تھیں باقی سب افراد رات کے کھانے کیلئے میز پر موجود تھے سویرا بھی چپ چاپ سر جھکائے بیدلی سے پلیٹ میں چمچہ ہلا رہی تھی جب شاہ بی بی کی آواز گونجی

" ٹھیک دو روز بعد شاہو واپس آرہا ہے اس کے آتے ہی ہم سویرا کی رخصتی کردینگے !! زاہدہ تم مہمانوں کی لسٹ بنا لو اور رخسار تم شاہو کا کمرہ کھلوا کر درست کروا لو باقی آپ مرد حضرات کل اسپتال چلیں اور سلیم سے مشورہ کر کے تیاری شروع کریں ساتھ ہی ساتھ سویرا کا پاسپورٹ اور ویزا کروائیں ۔۔۔" انہوں نے اعلان کرنے کے ساتھ ہی ساتھ سب میں کام بانٹ دئیے
_______________________________________

رات کا وقت تھا سب کھانا کھانے کے بعد اپنے اپنے کمروں میں جا چکے تھے زاہدہ تائی اور رخسار آپی شاہ بی بی کے ساتھ ان کے کمرے میں چلی گئی تھی وہ سارے کام سمیٹ کر چپ چاپ چلتی ہوئی باہر نکل آئی۔

بڑے سے صحن میں آتے ہی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے اس سے ٹکرائے موسم سرد تھا ہلکی ہلکی پھوار برس رہی تھی وہ چپ چاپ صحن میں بچھی چارپائی پر بیٹھ گئی

اس کے وجود پر اداسی چھائی ہوئی تھی ایک عجیب سی
یاسیت نے اسے اپنی گرفت میں لے لیا تھا ماں جیسی تائی امی کا بدلتا رویہ اس سے برداشت نہیں ہو رہا تھا خود ساختہ انا اسے بہت تیزی سے ہر رشتے سے دور کر رہی تھی اس کا ذہن شدید قسم کی ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا سر درد سے پھٹا جا رھا تھا دل بھر آیا تھا کالی سیاہ آنکھیں برس رہی تھیں وہ سب کچھ خود پر سہہ تھی

" کاش بابا آج آپ زندہ ہوتے !! تو ایسا کبھی بھی نہیں ہوتا اتنی ذلت !! اللہ میاں مجھے میرے بابا کے پاس بھیج دے ۔۔۔" وہ رو پڑی

ٹھنڈ اس کی برداشت سے باہر ہو رہی تھی پہ در پہ چھینکیں آنی شروع ہو چکی تھی وہ ہمت کرکے اٹھی اور اندر اپنے کمرے کی جانب بڑھی

کمرے میں داخل ہو کر وہ خود کو سر سے پیر تک لحاف میں پیک کر کے لیٹ گئی تھی مگر سردی کم نہیں ہوئی اس کا پورا وجود سردی سے کانپ رہا تھا ۔۔۔

" سویرا !! اٹھو جلدی سے دودھ پی لو تم نے کھانا بھی ڈھنگ سے نہیں کھایا آج ۔۔۔" رخسار کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی ہی تھی کہ اس کے لحاف میں پیک وجود کو دیکھ کر قریب آئیں سر سے لحاف اٹھایا تو اس کا تپتا ہوا سرخ چہرہ دیکھ کر چونک گئیں

" سویرا چندا کیا ہوا ؟؟ طبیعت تو ٹھیک ہے ؟ " انہوں نے پریشانی سے اسے دیکھا

سویرا نے اپنی بھیگی پلکیں اٹھا کر انہیں دیکھا تو وہ اس کی لال سرخ آنکھوں کو دیکھ کر بےحد پریشان ہوگئیں تیزی سے اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھا

" یا اللہ تمہیں تو بہت تیز بخار ہو رہا ہے !! تم ایک منٹ ویٹ کرو میں دوا لے کر آتی ہوں " وہ اسے اچھی طرح سے لحاف اوڑھاتے ہوئے بولیں

" رخسار آپی رہنے دیں میں بہت ڈھیٹ ہڈی ہوں اتنی آسانی سے نہیں مرنے والی ۔۔" وہ بھرائے ہوئے لہجے میں بولی

" اللہ نا کرے سویرا !! کیسی باتیں کررہی ہو سوچ کر بولا کرو ۔۔۔" انہوں نے اسے سرزنش کی

" بھلا بتاؤ شادی سر پر ہے اور دلہن بی بی بیمار ہو گئی ہیں " وہ بڑبڑاتی ہوئی تیزی سے کچن کی جانب گئی جہاں میڈیکل کیبنیٹ میں بخار کی دوا موجود تھی
________________________________________

جاری ہے

10/06/2020

وہ ہمسفر تھا مگر
قسط 3
Anaya dhariwal

یہ شہر کے ایک بہت ہی جدید ہاسپٹل کا وی وی آئی پی کمرہ تھا جس میں باوقار سے بابا سائیں لیٹے ہوئے تھے ان کے ایک ہاتھ میں ڈرپ لگی ہوئی تھی اور چہرے پر سوچ کی پرچھائیاں چھائی ہوئی تھیں تبھی ہلکے سے کھٹکا ہوا اور دروازہ کھول کر ان کی جان سے عزیز بیگم زاہدہ ان کے پیچھے پیچھے فرزانہ اور رخسار اندر داخل ہوئی ۔۔۔

"اسلام علیکم بابا سائیں !! " رخسار نے سلام کیا

"وعلیکم السلام !! بیٹی " وہ اس کے پیچھے دروازے کی طرف دیکھ رہے تھے

"اب آپ کی طبیعت کیسی ہے ؟ " زاہدہ بیگم نے ان کے پاس کھڑے ہوتے ہوئے کہا

بابا سائیں نے ایک نظر زاہدہ کی لال سرخ آنکھوں کو بغور دیکھا ۔۔۔

" آپ اپنا خیال نہیں رکھ رہی ہیں!! " وہ ناراض لہجے میں بولے

" بھائی صاحب !! بھابھی تو بس دن رات روتی رہتی ہیں پہلے ہی ایک شیرو کا دکھ کم تھا جو اب آپ بھی اس منحوس لڑکی کی وجہ سے ہسپتال میں ہیں ۔۔۔" فرزانہ نے مداخلت کرتے ہوئے کہا
" پھپھو پلیز ابھی ابو کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے ایسی باتیں مت کریں !!! " رخسار نے انہیں ٹوکا

"زاہدہ بیگم !! سویرا کدھر ہے ؟؟ " وہ ساری باتیں اگنور کرتے ہوئے پوچھنے لگے

" وہ !! وہ گھر پر شاہ بی بی اکیلی تھیں اس لئیے ان کے ساتھ رک گئی !!! " زاہدہ بیگم تھرماس سے یخنی نکال کر ان کی طرف بڑھاتے ہوئے بولیں

" مجھے آپ سے یہ امید نہیں تھی میں ایک ہفتے سے ہسپتال میں ہوں اور آپ اس بچی کو ایک دن بھی مجھ سے ملانے نہیں لائیں !!! " انہوں نے تاسف سے کہا

" بھائی صاحب !! بھابھی سے ناراض مت ہوں میں نے اسے منع کیا تھا ۔۔۔" فرزانہ نے کہا

" کیوں ؟؟ فرزانہ کیوں منع کیا ؟؟ وہ میری بیٹی ہے میرے مرحوم بھائی کی نشانی !! آئندہ اگر کسی نے بھی اسے میرے پاس آنے سے روکا تو !!! " ان کا سانس اکھڑنے لگا

رخسار نے جلدی سے بیل بجا کر نرس کو بلایا جلد ہی نرس اور ڈاکٹر اندر داخل ہوئے

" ریلیکس سر !! "
ڈاکٹر نے انہیں چیک کر کے سکون کا انجکشن دیا اور نرس کو ڈرپ تبدیل کرنے کی ہدایت دینے لگا دیکھتے ہی دیکھتے بابا سائیں غنودگی میں چلے گئے ۔۔۔
" دیکھئیے ان کی حالت ابھی بہتر نہیں ہے شوگر کنٹرول نہیں ہورہی اور بلڈ پریشر بھی نارمل نہیں ہے اس وقت کسی بھی قسم کا ذہنی دباؤ ان کیلئے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے کوشش کریں انہیں بالکل بھی اسٹریس نہیں ہو ۔۔۔" اس نے تینوں خواتین کو سمجھایا ۔۔
_______________________________________

شاہ بی بی کے کمرے سے نکل کر سویرا پہلے کچن میں گئی جہاں صغریٰ کام میں مصروف تھی اسے کھانا پکانے کی ہدایات دے کر وہ ناک کی سیدھ میں چلتی ہوئی اپنے کمرے میں پہنچی اور خاموشی سے بیڈ کے کنارے پر آ کر بیٹھ گئی اور بہت دیر تک اپنی جھولی میں رکھے ہاتھوں کو تکتی رہی بائیں ہاتھ میں ہیرے کی ایک نازک سی انگوٹھی جگمگا رہی تھی جو نکاح کے وقت شہریار نے اسے اپنے بابا سائیں کے کہنے پر مجبوراََ پہنائی تھی اس وقت وہ بچی تھی رویوں کو نہیں سمجھتی تھی لیکن آج وہ ایک سمجھدار دوشیزہ کا روپ دھار چکی تھی اسے اپنے اور شہریار کے رشتے کا احساس تھا شہریار کی بیگانگی کا اس کے وجود سے انکاری ہونے کا اپنے رد ہونے کا بھرپور احساس تھا ۔۔۔۔۔

اس نے دونوں ہاتھوں میں اپنا چہرہ چھپا لیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اسے اپنے بابا یاد آرہے تھے !! دل بہت دکھا ہوا تھا وہ پھوٹ پھوٹ کر دل کھول کر رو رہی تھی اپنی قسمت کو اپنے مقدروں کو رو رہی تھی ۔۔۔

" اتنی بےعزتی اور بے توقیری ،اللہ کبھی بھی کسی کو یتیم اور محتاج نا بنانا ۔۔۔" وہ سسک رہی تھی
بابا سائیں کی شفقت، تائی امی کی محبت، رخسار بجو کی بے لوث دوستی نے اسے سنبھال رکھا تھا لیکن اب ناجانے کیوں اسے ایسا لگ رہا تھا کہ یہ سب رشتے اسے ایک ایک کرکے چھوڑ جائینگے ۔۔۔
_______________________________________

سویرا کو آرام کرنے کا کہہ کر وہ سوچ میں ڈوب چکی تھیں جو بھی تھا اب اس مسئلے کو حل کرنا تھا اس سے پہلے نازک رشتوں کی دراڑ بڑھتے بڑھتے ایک بڑے خلا میں تبدیل ہوجاتی بہتر تھا اس دراڑ کو بھر دیا جاتا !!
کافی سوچ بچار کے بعد وہ جاء نماز بچھا کے نفل پڑھنا شروع ہوگئیں ان کے نزدیک ہر مشکل کا حل سوہنے رب کی عبادت نماز پڑھنے میں تھا۔۔۔
نفل عبادت سے فارغ ہو کر وہ پرسکون ہو چکی تھی انہوں نے سرہانے رکھا فون اٹھایا

" زاہدہ !! آج فرزانہ کو ہسپتال میں رات رکنا ہے، اسے بتا دو اور تم اور رخسار بھی سلیم سے ملکر جلد واپس آؤں ۔۔۔" انہوں نے ہدایت دی

فون رکھ کر انہوں نے انٹرکام ملایا

" صغراں !! زاہدہ بیگم اور رخسار جیسے ہی گھر آئیں انہیں میرے کمرے میں بھیجو ۔۔۔" ان کے چہرے سے لگ رہا تھا کہ وہ کسی نتیجے پر پہنچ چکی ہیں
_______________________________________

عصر کی نماز کے بعد زاہدہ بیگم اور رخسار گھر واپس لوٹیں تو صغراں نے انہیں شاہ بی بی کا پیغام دیا وہ دونوں چادر اتار کر تہہ کرتی ہوئی شاہ بی بی کے کمرے کی جانب بڑھیں

" اسلام علیکم !! " اندر داخل ہوتے ہی سلام کیا

"وعلیکم السلام " انہوں نے سر کے اشارے سے جواب دیا اور بیٹھنے کا اشارہ کیا

" شاہ بی بی آپ نے یاد کیا ؟؟ " زاہدہ تائی بیٹھتے ہوئے گویا ہوئیں

" اب سلیم کیسا ہے اس کی طبیعت کیسی ہے " انہوں نے سنجیدگی سے بیٹے کی طبیعت پوچھی

" ابھی تو ویسے ہی ہیں بڑا ڈاکٹر کہتا ہے شوگر کنٹرول ہوگی تب ہی کچھ کرینگے ۔۔۔"

" زاہدہ بیگم !! ہم نے آج بہت سوچ سمجھ کر ایک فیصلہ لیا ہے ۔۔۔" وہ تسبیح گھماتے ہوئے بولیں

" جی شاہ بی بی !! آپ کا ہر فیصلہ سر آنکھوں پر !! آپ حکم کریں ۔۔۔"زاہدہ بیگم نے ان کے ہاتھ تھامے
" سویرا ہماری پوتی !! ہمارے دل کا ٹکڑا ہے تو دوسری طرف شاہو ہماری جان ہے ہم نے یہ رشتہ بہت سوچ سمجھ کر جوڑا تھا بہو !! اور وہ تو تمہارے اپنے ہاتھوں کی پلی بچی ہے اور میں اب تم سب کے رویوں کو دیکھ رہی ہوں اس لئیے میں نے سوچا ہے کے سویرا کی رخصتی کردی جائے ۔۔۔"

" مگر !!! " زاہدہ بیگم نے کہنا چاہا

" اگر مگر کچھ نہیں !! کیا تمہیں سویرا اپنی بہو کے روپ میں قبول ہے یا نہیں اپنی بات کرو زاہدہ !! " وہ ان کی بات کاٹ کر دو ٹوک لہجے میں بولیں

" شاہ بی بی سویرا میری بیٹی ہے میں تو خود کب سے اسے رخصت کروانا چاہتی ہوں مگر شاہو !! وہ تو مانتا ہی نہیں شاہ بی بی پانچ سال ہونے والے ہیں بات تک نہیں کرتا بتائیں میں کیا کروں ؟ " زاہدہ لاچاری سے بولیں

رخسار بچے یہ میرا فون پکڑ اور شاہو کا نمبر ملا ابھی سب کے سامنے بات ہوگی ۔۔۔" وہ اپنا فون رخسار کی جانب بڑھاتے ہوئے بولیں

رخسار نے ان کے ہاتھ سے فون لیا ایک نظر اپنی پریشان بیٹھی مان کو دیکھا اور پھر فون ملا کر ہینڈ فری کرکے میز پر رکھ دیا ۔۔
بیل جا رہی تھی اور وہ سب دم سادھے فون کو دیکھ رہے تھے ۔۔
_______________________________________

شہریار اپنے فون پر شاہ بی بی کا نام جگمگاتا دیکھ کر ایک دم چونک کیا اس نے تیزی سے عروہ کو خود سے جدا کیا اور اسے واپس جانے کا کہتا ہوا فون اٹھا کر کانوں سے لگاتے ہوئے سیدھا باہر نکل آیا ۔۔۔

"شاہ بی بی !! شاہ بی بی یہ آپ ہی ہیں نا !!!!" وہ ابھی تک بےیقینی کا شکار تھا ۔۔۔
گاڑی کے قریب پہنچ کر تیزی سے ڈرائیور کو باہر نکلنے کا اشارہ کیا

" السلام علیکم ، کتنے سالوں کے بعد آپ نے مجھے یاد کیا ہے مجھے تو لگا آپ مجھے اپنے شاہو کو بھول ہی گئی ہیں !!" نا چاہتے ہوئے بھی وہ شکوہ کرگیا

" وعلیکم اسلام !! راستہ تو تم بھولے بیٹھے ہو !! " ٹہرے ہوئے لہجے میں شاہ بی بی کی آواز ابھری

"آپ سب جانتی تو ہیں ! میں تو آپ کو بابا سائیں کو امی کو دیکھنے کے لئے تڑپ رہا ہوں لیکن لگتا ہے ادھر کسی کو میری فکر نہیں خیر آج اتنے سالوں کے بعد آپ نے مجھے یاد کیا ہے کہئیے کیا حکم ہے۔۔ " وہ مؤدبانہ انداز میں بولا

"دیکھ شہریار تو گھر چھوڑ گیا ہمارے فیصلوں سے ٹکرا گیا پھر بھی ہم نے کچھ نہیں کہا بلکہ الٹا تیرے بینک میں لاکھوں پاؤنڈز ڈلوائے کہ تجھے پریشانی نہ ہو ، تو نے پلٹ کے ، ضد میں آکر مڑ کے نہیں دیکھا فون نہیں کیا اور ادھر ہم تیری جان و مال کا صدقہ دیتے رہے چار سال سے بھی اوپر ہو گئے ہیں تجھے گھر چھوڑے اب تو اپنی ضد چھوڑ دے واپس آجا !! تیرا باپ اسپتال میں پڑا ہے بس اب بس کر اور واپس حویلی آجا ۔۔۔"

"میں آجاتا ہوں مگر پھر اس کا اب کیا کریں گی؟؟ " اس نے درپردہ سویرا کی بات کی

"بس تو آجا !! تو تیری دلہن کی رخصتی کروالینگے ۔۔" وہ اطمینان سے بولیں

"مجھے رخصتی نہیں کروانی شاہ بی بی آپ یہ اچھی طرح جانتی ہیں ۔۔۔" وہ آستین فولڈ کرتا ہوا بلیو ٹوتھ کانوں میں لگا کر ڈرائیو کرنے لگا

"کیا مطلب !! بالکل نہیں کروانی یا ابھی نہیں کروانی؟؟؟" سنجیدگی سے پوچھا

"یہ رشتہ آپ لوگوں نے زبردستی جوڑا تھا میں کبھی بھی اسے رخصت نہیں کرواؤں گا آپ اس رشتے کو ختم کردیں تو میں بھی واپس آجاونگا ۔۔۔"

"رشتہ ختم کردیں؟؟؟ وہ تیری عزت ہے عزت تو اس سے ایسے منھ نہیں موڑ سکتا !! بچپن سے تیرے نام پہ بیٹھی ہے تیرے نکاح میں ہے !! تو اتنا بے غیرت کیسے ہوسکتا ہے کہ اپنی نکاحی بیوی سے رشتہ توڑ کے اسے کسی اور کے حوالے کر دے ؟؟؟ آخر تجھے اعتراض کیا ہے ؟؟ "

" شاہ بی بی پلیز میری بات کو سمجھیں وہ مجھ سے عمر میں بہت چھوٹی ہے حویلی میں پلی بڑھی ایک دبو سی مشرقی لڑکی میرے ساتھ نہیں چل سکے گی میں دنیا گھومنا چاہتا ہوں میں اپنی بیوی کے ساتھ مل کے قدم سے قدم ملا کر زمانے کا سامنا کرنا چاہتا ہوں مجھے اپنی ہم عمر بیوی چاہیے پڑھی لکھی ماڈرن مضبوط لڑکی !!!" اس نے ہزاروں بار کی کہی بات دھرائی

"جب وہ تیرے نکاح میں آئی تھی اس وقت بچی تھی اور اب وہ جوان ہو چکی ہے ہمارے سات پشتوں میں اتنی خوبصورت لڑکی نہیں گزری ہے اور پڑھ بھی رہی ہے انٹر کا امتحان دیا ہے ابھی !! سگھڑ ہے نمازی ہے اور بڑے صاف دل کی لڑکی ہے میری سویرا ۔۔۔۔" انہوں نے تحمل سے کہا

"میں مانتا ہوں وہ بہت اچھی لڑکی ہے اس میں سبھی کچھ ہے مگر پھر بھی اس میں مجھے صرف ایک کزن روتی دھوتی بچی نظر آتی ہے میں اپنی پوری زندگی ایسے بے جوڑ رشتے میں بندھ کر نہیں گزار سکتا مجھے اپنا ہم عمر ساتھی چاہیے۔۔۔۔" وہ گویا ہوا

"ایسی جیون ساتھی تو خوش قسمتی سے ملتی ہے !! شہریار تم نے مجھے بہت مایوس کیا ہے تمہیں اس لڑکی کے قابل نہیں ہوں۔۔۔" ان کے لہجے میں بلا کا دکھ تھا

"شاہ بی بی !! آپ ایک دفعہ میرا نظریہ بھی تو دیکھیں کیا آپ کو نہیں لگتا کہ یہ بے جوڑ شادی میرے ساتھ ناانصافی ہے کم از کم جیون ساتھی تو انسان کی پسند کا ہونا چاہیے ؟؟ یا ساری زندگی انسان اپنے ناپسندیدہ شخصیت کے ساتھ گزار دے آپ ایک دفعہ میری بات کو تو سمجھیں میری اس سے نہیں بنتی نا ہی بنے گئی !!!" وہ زچ ہوا

"دیکھ شاہ !! دنیا میں میں نے ایسے بہت سے جوڑے دیکھے ہیں جن کی آپس میں نہیں بنتی ذہنی مطابقت نہیں ہوتی خیالات نہیں ملتے اور وہ الگ ہو جاتے ہیں رشتے ٹوٹ جاتے ہیں مگر تیری طرح بغیر جانے، بغیر دیکھے بغیر پرکھے کون اپنی بیوی کو چھوڑتا ہے ؟؟ نکاح ایک پاکیزہ رشتہ ہے اسے مذاق مت بنا !! میں تیری ہر بات مان لو گی لیکن پہلے تو سویرا کو جان تو لے پرکھ تو لے ایسے مفروضات کی بنا پر اسے چھوڑنا ظلم ہے اور اب وہ کوئی اتنی بھی بچی نہیں ہے آٹھ دس سال کا فرق تو کوئی فرق نہیں ہوتا ۔۔۔۔" انہوں نے سمجھداری سے بات آگے بڑھائی

"آپ کہنا کیا چاہتی ہیں ؟؟" وہ الجھا

" دیکھ ادھر پوری برادری کو پتا ہے کہ سویرا تیرے نکاح میں ہے اب اگر تو اسے ملے بغیر ہی چھوڑ دیتا ہے تو ہمارے خاندان کی بنیادیں ہل جائیں گی کوئی بھی پھر آپس میں رشتہ کرنے کی نہیں سوچے گا اس لئیے پتر تو واپس آ !! اسے رخصت کروا پھر سال بھر بعد بھی اگر تجھے وہ نا بھائے تو پھر تیرا کوئی انتہائی فیصلہ کرنا حق پر ہوگا !! سوچ لے اس طرح تیری سسکتی تڑپتی ماں بھی تجھ سے مل لیگی اور تیرے باپ کو بھی چین ملیگا ۔۔۔" شاہ بی بی نے سمجھایا

" آپ کہنا کیا چاہتی ہیں !! کے اگر ایک سال کے عرصے میں میری اس سے نہیں بنی تو میں اسے طلاق دے سکتا ہوں ؟؟ آپ اور بابا سائیں میرا ساتھ دینگے ؟؟ " اس نے بے یقینی سے پوچھا

" ہاں مانا کے ہمیں بہت دکھ ہوگا لیکن یہ اطمینان تو ہوگا کہ تو نے کوشش کی اس رشتے کو نبھانے کی !! میں مرنے کے بعد اپنے فاروق کو منھ تو دکھا سکونگی ۔۔۔۔" وہ سنجیدگی سے بولیں

" ٹھیک ہے شاہ بی بی !! مجھے منظور ہے لیکن آپ بھی یاد رکھئیے گا کہ بات صرف ایک سال کی ہے اس کے بعد میں آزاد ہونگا اپنی پسند سے شادی کرکے زندگی گزارنے کیلئے ۔۔۔" وہ توقف کر کے ٹہرے ہوئے لہجے میں بولا

"چل اب جلدی سے فلائٹ بک کروا اور آجا !! " انہوں نے پیار سے کہا

" میں ٹھیک تین بعد پاکستان میں ہونگا ۔۔۔"
_______________________________________

عروہ انتہائی حیرت سے شہر یار کو آفس کے سے باہر جاتا دیکھ رہی تھی !! آج پہلی دفعہ شہریار نے پیش قدمی کی تھی اسے چھوا تھا اور پھر صرف ایک فون کال کے لئے اسے بے دردی سے خود سے الگ کر کے چلا گیا تھا اسے حد سے زیادہ بےعزتی کا احساس ہو رہا تھا آنکھیں نم ہو رہی تھی اس نے سائیڈ پر پڑا اپنا پرس اٹھایا سن گلاسس آنکھوں پر لگائے اور باہر نکل آئی !! پارکنگ میں دور دور تک شہریار کی گاڑی کا نام و نشان تک نہیں تھا یعنی وہ اسے چھوڑ کر جاچکا تھا وہ پژمزدہ انداز میں چلتی ہوئی اپنی گاڑی تک آئی پرس سیٹ پر پھینکا اور خود سیٹ پر گرنے کے سے انداز میں بیٹھ کر سر سٹیئرنگ سے لگا کر رونے لگی ۔۔۔
کافی دیر بعد اس نے سر اٹھایا اس کی خوبصورت سبز آنکھیں رونے سے سرخ ہو چکی تھی ایک گہرا سانس بھر کر اس نے خود کو کمپوز کیا اور پاس پڑا فون اٹھایا
"چار گھنٹے !! مجھے ادھر بیٹھے چار گھنٹے ہو گئے اور اس ظالم نے ایک فون بھی نہیں کیا !!"وہ ٹائم دیکھتی ہوئی بڑبڑائی
کچھ سوچ کر اس نے شہریار کا نمبر ملایا جو مسلسل بزی جا رہا تھا

" شیری کال می !! " اس نے ٹیکسٹ کیا

کافی دیر تک کوئی جواب نہیں آیا تو اس نے سلگتے ہوئے گاڑی اسٹارٹ کی اور شہریار کے گھر کی جانب روانہ ہو گئی ۔۔۔
شہریار کے بڑے سے محل نما گھر کے ڈرائیو وے پر اس نے گاڑی پارک کی اور نیچے اتر کر سیڑھیاں چڑھتے ہوئے مین دروازے پر پہنچ گئی
بیل بجانے سے پہلے اس نے اپنی انگلیاں بالوں میں چلاتے ہوئے انہیں درست کیا ۔۔
بیل بجائی اور جلدی سے اپنی شرٹ کو کھینچ کر درست کیا سلوٹیں دور کی !! بیل کا جواب نہیں آیا اس نے لیونگ روم کی کھڑکی سے اندر جھانکنے کی کوشش مگر دبیز پردوں کی وجہ سے اسے کچھ نظر نہیں آیا وہ پلٹ کر گاڑی کی طرف گئی اور اپنے پرس سے گھر کی چابی نکالی اور واپس اوپر آئی اب وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہو چکی تھی پورا گھر سائیں سائیں کر رہا تھا

" ہیلو !! شیری کہاں ہو ؟؟؟ " وہ آوازیں دیتی ہوئی آگے بڑھی اندر ہی شہریار کا بیڈروم تھا جسکا دروازہ ہلکا سا وا تھا اندر سے اس کے بولنے کی آوازیں آ رہی تھی ۔۔۔۔

وہ دھیرے سے آگے بڑھی سامنے ہی شیری جینز پہنے بنا شرٹ کے کانوں میں ہیڈفون لگائے اپنے آفس اسٹاف کو ہدایات دے رہا تھا ساتھ ہی ساتھ بیڈ پر ایک سوٹ کیس کھلا پڑا تھا جس میں وہ کپڑے رکھ رہا تھا شاید کسی بزنس ٹرپ پر جا رہا تھا ۔۔۔
وہ غور سے اسے دیکھ رہی تھی لمبا چوڑا ورزشی جسامت والا شیری !! ایسے ہی تو وہ اس پر نہیں مر مٹی تھی بنا آواز کئیے وہ دھیرے سے آگے بڑھی اور شہریار کے برہنہ شانے سے سر ٹکا کر کھڑی ہو گئی ۔۔۔

شاہ بی بی سے بات کرنے کے بعد شہریار اپنا مائنڈ بنا چکا تھا اس نے سب سے پہلے استنبول جانا تھا اپنی ایک بہت اہم میٹنگ کو جلدی سے نپٹا کر وہی سے پاکستان روانہ ہونا تھا !! وہ بھی تڑپ رہا تھا اپنے ماں باپ سے ، اپنی بہن سے ، سب سے بڑھ کر اپنی جان سے پیاری دادی شاہ بی بی سے ملنے کے لئے ، سارے کاموں سے نپٹ کر سیٹ بک کروا کر وہ نہا کر نکلا کےاسے رات کی فلائٹ سے ترکی روانہ ہونا تھا بستر پر بیگ رکھے وہ اپنی پیکنگ کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی سیکریٹری کو ہدایات دے رہا تھا تب ہی اچانک کسی نے اس کے شانے پر سر رکھا وہ تیزی سے پیچھے مڑا۔۔۔
"تم !! تم اس وقت ادھر کیا کررہی ہو ؟؟ " فون بند کرکے وہ عروہ کی جانب پلٹا
" میں کب سے تمہیں کال کر رہی تھی میسجز بھی چھوڑے کیا تم نے چیک نہیں کیا۔۔۔" اس نے ٹھنک کر کہا
" کیسے میسجز میں مصروف تھا بہر حال کہو کیسے آنا ہوا ؟ " وہ ٹی شرٹ اٹھاتے ہوئے بولا

"رہنے دو نا !! میں ہی تو ہوں " وہ اس کے ہاتھ سے شرٹ لیتی ہوئی بولی

"اپنی لمٹ میں رہو مجھے شادی سے ایسی بےتکلفی پسند نہیں !! " یہ کہہ کر اس نے اپنی شرٹ اس کے ہاتھ سے چھینی اور پہن لی

" اوہ !! اور آج صبح آفس میں جو میرے ساتھ بےتکلفی کا مظاہرہ کیا اسے کس کھاتے میں ڈالو گئے مسٹر شہریار ؟؟ " وہ غرائی
" دیکھو عروہ !! سویٹ ہارٹ میں اس وقت بزی ہوں تین گھنٹے میں مجھے فلائٹ پکڑنی ہے ایک دو ہفتے میں میں واپس آجاونگا پھر کھل کر بات کرینگے ۔۔۔" اس نے سمجھایا

" شیری تم کدھر جا رہے ہو ؟؟ مجھے بتائے بنا ۔۔" وہ دو ہفتے کا سن کر حواس باختہ ہوئی

" میں ایک کام سے استنبول جا رہا ہوں وہاں تین دن ٹہر کر پاکستان جاؤنگا ۔۔۔"

" پاکستان !!!نہیں شیری ایسا مت کرو تم نے تو کہا تھا تم اپنے بابا سائیں کو یہی بلاوگے علاج کیلئے ۔۔۔۔"

" عروہ !!! میرا جانا ضروری ہے بس دو ویک کی تو بعد ہے پھر میں واپس ادھر آجاؤں گا تمہارے پاس ۔۔۔"
"نہیں شیری میں میں !!! " وہ کہتے کہتے رک گئی اور پلٹ کر جانے لگی
شہریار نے تیزی سے اس کی کلائی تھام کر اسے روکا
" کہا جا رہی ہو ؟؟ "

"میں گھر جا رہی ہوں !! "

"کیوں!! اپنی بات تو مکمل کرو ۔۔۔"

"شیری ہاتھ چھوڑو مجھے ابھی گھر جا کر پیکنگ کرنی ہے ڈیڈ سے بات کرکے سیٹ بک کرانی ہے !! "

" تم کہاں جا رہی ہو ؟؟ "

" تم نہیں ہم !! میں تمہارے ساتھ جا رہی ہوں پہلے استنبول پھر پاکستان ۔۔۔" وہ اس کی آنکھوں میں جھانک کر بولی

" دماغ درست ہے تمہارا ۔۔۔میں تمہیں ساتھ نہیں لے جاسکتا ۔۔۔" وہ تپ گیا

"مگر کیوں ؟؟؟ پیار کرتے ہو مجھ سے شادی کیلئے پرپوز تک کرچکے ہو !! تو پھر ساتھ لے جانے میں کیا قباحت ہے ؟؟ یا پھر میں یہ سمجھوں کہ تم مجھ سے اتنے عرصے سے فلرٹ کررہے تھے ؟؟ " وہ اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولی

" عروہ !! جاؤ جو کرنا ہے کرو ۔۔۔" وہ ضبط کرتے ہوئے اس کا ہاتھ جھٹک کر بولا

عروہ ایک نظر اس کے غصہ سے سرخ چہرے کو دیکھتے ہوئے باہر نکل گئی
________________________________________
جاری ہے

Address

Sargodha

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Fun and funy posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on LinkedIn
Share on Pinterest Share on Reddit Share via Email
Share on WhatsApp Share on Instagram Share on Telegram