17/11/2025
استنبول — تین سلطنتوں کا تاج، ایک شہر کی ہزار داستانیں۔
کہانی شروع ہوتی ہے ساتویں صدی قبلِ مسیح میں، جب یونانی دنیا کے ایک بادشاہ بائزس (Byzas) نے اپنے دیوتا سے مشورہ لیا کہ نئی سلطنت کہاں بسائے۔
دیوتا نے کہا:
"اس جگہ بساؤ جو اندھوں کے مقابل ہو۔"
بائزس نے سوچا، "اندھوں کے مقابل؟" اور تلاش شروع کر دی۔
جب وہ بحیرہٴ مرمرہ کے کنارے پہنچا، تو دیکھا کہ ایک طرف ایشیا ہے، دوسری طرف یورپ۔ ایک ایسی جگہ جہاں دو سمندری لہریں ایک دوسرے سے ملتی ہیں، اور ہوائیں خوشبو سے بھری ہیں۔
اس نے سمجھا، "وہ جو اس جگہ کو نہیں دیکھ سکے، وہ اندھے ہی تو ہیں !"
یوں بائزنٹیم (Byzantium) کی بنیاد پڑی — ایک چھوٹا سا مگر قدرتی حسن سے مالا مال شہر، جو رفتہ رفتہ تجارت، جہاز رانی اور سیاست کا مرکز بن گیا۔
یہ وہ وقت تھا جب رومی سلطنت دنیا پر چھا رہی تھی۔ وقت کے ساتھ بائزنٹیم نے رومی پرچم کے نیچے اپنی وفاداری قبول کی۔ لیکن اس شہر کی قسمت میں کچھ بڑا لکھا تھا — کچھ ایسا جو تاریخ کے دھارے بدل دے گا۔
چوتھی صدی عیسوی میں، رومی سلطنت مغرب سے زوال پذیر ہونے لگی۔ روم کی شان ماند پڑ گئی، جبکہ مشرق میں نئی روشنی ابھر رہی تھی۔
تب رومی شہنشاہ قسطنطین اعظم (Constantine the Great) نے ایک فیصلہ کیا —
"میں ایک نیا روم بناؤں گا، جو ایمان، حکمت، اور طاقت کا محور ہوگا۔"
330 عیسوی میں، اس نے بائزنٹیم کو اپنا دارالحکومت بنایا اور نام رکھا —
"نووا رُما" (Nova Roma) یعنی "نیا روم"۔
لیکن جلد ہی لوگ اسے قسطنطین کے نام سے پکارنے لگے — قسطنطنیہ (Constantinople)۔
یہاں دنیا کی سب سے عظیم عمارتیں بنیں۔
سنگِ مرمر کے محل، پتھر کے ستون، اور ایک ایسی عبادت گاہ — ہاجیا صوفیا (Hagia Sophia) — جو 537 عیسوی میں تعمیر ہوئی، اور صدیوں تک دنیا کی سب سے بڑی گنبد دار عمارت رہی۔
قسطنطنیہ روشنی کا مرکز بن گیا۔ یونانی فلسفہ، رومی قانون، اور مسیحی ایمان — تینوں یہاں ایک ساتھ پھلے پھولے۔
قسطنطنیہ کی خوشحالی نے دنیا بھر کے فاتحین کو اپنی طرف کھینچا۔
عربوں نے ساتویں صدی میں اس پر کئی بار حملہ کیا، لیکن شہر کے گرد موجود دیواریں — تھیوڈوسیئن والز (Theodosian Walls) — ناقابلِ تسخیر ثابت ہوئیں۔
یہ دیواریں تین تہوں پر مشتمل تھیں؛ ایک دنیا کا سب سے بڑا دفاعی نظام تھا۔
کہا جاتا ہے کہ ان کے پیچھے کھڑا ہر سپاہی، ہزار دشمنوں کے برابر تھا۔
پھر آیا 1204ء — صلیبی جنگوں کا زمانہ۔
جب عیسائی فوجیں، جو یروشلم کے لیے نکلی تھیں، خود قسطنطنیہ پر چڑھ دوڑیں۔
انہوں نے شہر کو لوٹا، عبادت گاہوں کو نذرِ آتش کیا، اور ہزار سال پرانی تہذیب کو راکھ کر دیا۔
یہ قسطنطنیہ کا سب سے اندھیرا دور تھا —
ایک ایسا زخم جو اگلی دو صدیوں تک نہیں بھرا۔
پھر مشرق سے ایک نئی طاقت ابھری — سلطنتِ عثمانیہ۔
ان کے جوان، ایمان اور جرأت میں ڈوبے ہوئے تھے۔ ان کے دل میں ایک خواب تھا —
"قسطنطنیہ فتح ہوگا۔"
یہ خواب نبی کریم ﷺ کے فرمان سے جڑا تھا:
“تم ضرور قسطنطنیہ فتح کرو گے، وہ بہترین سپہ سالار ہے جو اسے فتح کرے گا، اور بہترین لشکر ہے وہ جو اس پر حملہ کرے گا۔”
(حدیث: مسند احمد بن حنبل)
1453ء میں صرف 21 سالہ سلطان محمد ثانی، جو بعد میں محمد فاتح (Mehmed the Conqueror) کے نام سے مشہور ہوا، اپنے لشکر کے ساتھ شہر کے دروازے پر پہنچا۔
لشکر نے چھیالیس دن تک محاصرہ جاری رکھا۔
پھر 29 مئی 1453ء کو قسطنطنیہ فتح ہوگیا۔
جب سلطان شہر میں داخل ہوا تو وہ ہاجیا صوفیا گیا۔ وہاں زمین پر سجدہ ریز ہو کر بولا:
"الحمدللہ! وعدۂ رسول پورا ہوا۔"
قسطنطنیہ اب اسلامی دنیا کا تاج بن چکا تھا، اور اس کا نیا نام ہوا —
استنبول۔
استنبول اب سلطنتِ عثمانیہ کا دل تھا۔
یہاں علم و ادب، فنِ تعمیر، طب، فلسفہ، اور سیاست نے نئی شکل اختیار کی۔
سلطان سلیمان القانونی (1520–1566) کے دور میں یہ شہر اپنی انتہا کو پہنچا۔
اس دور میں تعمیر ہوئی:
نیلی مسجد (Sultan Ahmed Mosque) — نیلے ٹائلوں سے مزین آسمانی خوبصورتی۔
ٹوپ کاپی محل (Topkapi Palace) — جہاں سلطانوں کے خفیہ کمرے، خزانے، اور تاریخی تلواریں محفوظ تھیں۔
گرینڈ بازار (Kapalıçarşı) — دنیا کا پہلا اور سب سے بڑا ڈھکا ہوا بازار، جس میں خوشبو، قالین، زیورات اور قہوے کی مہک رچی تھی۔
یہ شہر صرف حکومت کا نہیں بلکہ روحانیت اور علم کا مرکز تھا۔
یہاں صوفیا، خطاط، معمار اور شاعر پیدا ہوئے جنہوں نے اسلام اور انسانیت دونوں کو یکجا کر دیا۔
انیسویں صدی میں، عثمانی سلطنت کمزور پڑنے لگی۔
یورپی طاقتیں — روس، برطانیہ، فرانس — اس کے حصے بخرے کرنے لگیں۔
پھر پہلی جنگِ عظیم نے آخری ضرب لگائی۔
1918ء میں اتحادی فوجیں استنبول میں داخل ہوئیں۔
شہر خاموش تھا، اور ترک قوم زخم خوردہ تھی۔
لیکن پھر ایک نیا سورج طلوع ہوا — مصطفیٰ کمال اتاترک۔
1923ء میں اس نے جدید جمہوریہ ترکی کی بنیاد رکھی۔
انقرہ نیا دارالحکومت بنا، مگر استنبول اب بھی ثقافت، تجارت اور روحانیت کا دل رہا۔
آج کا استنبول — جہاں ماضی اور حال ایک دوسرے سے گلے ملتے ہیں
آج استنبول وہ شہر ہے جہاں دنیا کی تین تہذیبیں سانس لیتی ہیں۔
یہاں ایک ہی گلی میں آپ کو چرچ کی گھنٹی، مسجد کی اذان، اور جہاز کا ہارن سنائی دیتا ہے۔
بوسفورس برج رات کو جگمگاتا ہے، تکسیم اسکوائر میں نوجوان ہلہ گلہ کرتے ہیں، اور ایوب سلطان مسجد میں بزرگ دعائیں مانگتے ہیں۔
یہ شہر اب بھی ایک راز ہے —
ایسا راز جو ہر سورج طلوع ہونے کے ساتھ نیا معنی اختیار کرتا ہے۔
یہ وہ شہر ہے جہاں:
ایشیا اور یورپ ایک دوسرے سے مصافحہ کرتے ہیں۔
ماضی اور حال ایک ہی لمحے میں زندہ ہیں۔
اور انسان کو احساس ہوتا ہے کہ تہذیب، ایمان اور فن دراصل ایک ہی شمع کے مختلف رنگ ہیں۔
استنبول آج بھی دنیا کے نقشے پر صرف ایک شہر نہیں —
یہ ایک زندہ داستان ہے،
جو بائزس کے خواب سے شروع ہوئی، قسطنطین کی شجاعت سے بڑھی، محمد فاتح کے ایمان سے نکھری، اور آج جدید ترکی کی دھڑکن کے ساتھ دھڑک رہی ہے۔
مستند حوالہ جات:
1. Cyril Mango, Byzantium: The Empire of New Rome, Oxford University Press, 1980.
2. Roger Crowley, 1453: The Holy War for Constantinople and the Clash of Islam and the West, Hyperion, 2005.
3. John Freely, Istanbul: The Imperial City, Penguin Books, 1996.
4. Suraiya Faroqhi, The Ottoman Empire and the World Around It, I.B. Tauris, 2004.
5. Caroline Finkel, Osman’s Dream: The History of the Ottoman Empire, Basic Books, 2005.
دلچسپ و عجیب تاریخ