Dr Subhan Ullah

Dr Subhan Ullah Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Dr Subhan Ullah, Mental Health Service, Toba Tek Singh.

ڈاکٹر سبحان انصاری
اسسٹنٹ پروفیسر سائیکائٹری/ ماہر نفسیات
(کلینک: فیصل آباد ،جھنگ گوجرہ، ٹوبہ ٹیک سنگھ)
رابطہ نمبر 03004489579
Psychiatry and Psychology Clinic

**ژانگ ہینگ کا سیسموگراف — زمین کی دھڑکن سننے والا موجد**قدیم چین کے ہان خاندان (Han Dynasty) کا دور تھا، جب سائنس اور ف...
19/11/2025

**ژانگ ہینگ کا سیسموگراف — زمین کی دھڑکن سننے والا موجد**

قدیم چین کے ہان خاندان (Han Dynasty) کا دور تھا، جب سائنس اور فلسفہ شاہی درباروں میں ایک نئی روشنی پھیلا رہے تھے۔ انہی دنوں میں ایک نابغہ روزگار شخصیت نے جنم لیا — **ژانگ ہینگ (Zhang Heng)**، جو نہ صرف فلکیات دان اور ریاضی دان تھے بلکہ شاعر، فلسفی اور سب سے بڑھ کر ایک عظیم موجد۔ 132 عیسوی میں انہوں نے ایک ایسا آلہ بنایا جس نے انسانی تاریخ کا رُخ بدل دیا — دنیا کا پہلا **زلزلہ پیما آلہ (Seismoscope)**۔

یہ آلہ ایک بڑا کانسی کا برتن تھا، تقریباً دو میٹر چوڑا، جس کے اردگرد آٹھ ڈریگن بنے ہوئے تھے، ہر ایک مختلف سمت کی نمائندگی کرتا تھا — شمال، جنوب، مشرق، مغرب اور چار درمیانی سمتیں۔ ہر ڈریگن کے منہ میں ایک کانسی کی گیند تھی، نیچے ایک مینڈک منہ کھولے بیٹھا تھا۔ جیسے ہی زمین ہلتی، اندر موجود لٹکا ہوا پینڈولم اس سمت حرکت کرتا جہاں سے جھٹکا آتا، اور متعلقہ ڈریگن کی گیند مینڈک کے منہ میں گر جاتی، ایک آواز کے ساتھ یہ اعلان کرتی کہ زلزلہ آیا ہے — اور کس سمت سے آیا ہے!

یہ محض ایک مشینی کمال نہیں تھا، بلکہ ایک ذہانت کی جیتی جاگتی علامت تھی۔ **تاریخی کتاب “ہو ہان شو” (Hou Han Shu)** کے مطابق ایک روز آلہ نے زلزلے کا اشارہ دیا، مگر دارالحکومت Luoyang میں کسی نے جھٹکا محسوس نہیں کیا۔ درباریوں نے مذاق اڑایا، مگر چند دن بعد خبر آئی کہ **Longxi** میں، جو 600 کلومیٹر دور تھا، زمین لرز چکی تھی۔ سب حیران رہ گئے — ژانگ ہینگ درست ثابت ہوئے!

ژانگ ہینگ نے صرف زمین ہی نہیں، آسمان کا بھی راز کھولا۔ انہوں نے **پانی سے چلنے والا آسمانی گلوب** بنایا جو ستاروں کی گردش دکھاتا تھا، **اوڈومیٹر** ایجاد کیا جو گاڑی کا فاصلہ ناپتا تھا، اور π (پائی) کی قدر 3.1466 تک درست حساب کی۔ وہ شاعر بھی تھے، جن کی نظمیں کائنات اور فطرت کی گہرائیوں سے جڑی تھیں۔

آج جب ہم جدید سیسمومیٹرز کی بات کرتے ہیں — وہ جو زمین کی معمولی ترین لرزش بھی GPS اور سیٹلائٹ کے ذریعے ریکارڈ کرتے ہیں — تو یہ سمجھنا چاہیے کہ ان کی جڑیں اسی ژانگ ہینگ کے ذہن سے پھوٹی تھیں۔

دو ہزار سال پہلے ایک چینی سائنسدان نے زمین کی خاموش چیخ سن لی تھی۔ اُس نے یہ دکھایا کہ فطرت کے اسرار کو سمجھنے کے لیے صرف آلات نہیں، **تجسس** درکار ہوتا ہے۔ ژانگ ہینگ نے ہمیں یہ سکھایا کہ علم جب جذبے سے ملتا ہے، تو انسان زمین کی دھڑکن بھی سن لیتا ہے۔










👉 اگر آپ کے پاس اس موضوع سے متعلق مزید معلومات ہوں تو ہمیں کمنٹس میں ضرور گائیڈ کریں اور شیئر کریں۔

19/11/2025

کھیوڑہ نمک کی کان، جو دنیا کی دوسری سب سے بڑی نمک کی کان ہے، اس کی کہانی کا آغاز ایک تاریخی اتفاق سے ہوتا ہے جو سکندر اعظم (Alexander the Great) سے جڑا ہے۔ 326 قبل مسیح میں، جب سکندر برصغیر کی مہم کے دوران جہلم اور میاں والی کے علاقے سے گزر رہا تھا، تو اس کی فوج نے کوہِ نمک کے دامن میں آرام کے لیے پڑاؤ ڈالا۔
اس دریافت کی سب سے دلچسپ اور مشہور روایت یہ ہے کہ نمک کو سکندر اعظم یا اس کے سپاہیوں نے نہیں، بلکہ اس کی فوج کے گھوڑوں نے دریافت کیا تھا۔ سپاہیوں نے دیکھا کہ تھکے ماندے اور بیمار گھوڑے پہاڑ کی چٹانوں کو چاٹ رہے ہیں۔ اس غیر معمولی رویے پر حیران ہو کر، سپاہیوں نے خود بھی ان چٹانوں کو چکھا اور یہ جان کر حیران رہ گئے کہ یہ خالص نمک ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ چٹانی نمک (Rock Salt) چاٹنے کے بعد ان کے بیمار گھوڑے بھی تازہ دم ہو گئے۔ اس طرح، اتفاقاً نمک کے ان عظیم ذخائر کا انکشاف ہوا، جو آج کھیوڑہ نمک کی کان کی بنیاد ہیں۔
ابتدائی طور پر، نمک نکالنے کا عمل سادہ اور چھوٹے پیمانے پر تھا۔ تاہم، مغل دور میں اس نمک نے ایک قیمتی شے کی حیثیت اختیار کر لی اور اسے دور دراز کی منڈیوں، جیسے کہ وسطی ایشیا، تک بھی بیچا جانے لگا۔ مغل سلطنت کے زوال کے بعد، اس کان پر سکھوں نے قبضہ کر لیا۔ آخر کار، 1872 میں، برطانوی دورِ حکومت میں ایک برطانوی مائننگ انجینئر، ڈاکٹر ایچ۔ وارتھ (Dr. H. Warth) نے کان کنی کو جدید اور منظم شکل دی۔ انہوں نے مرکزی سرنگ (main tunnel) تعمیر کی اور نمک نکالنے کا ایک محفوظ نظام وضع کیا، جو آج بھی اس کان کے کام کرنے کا بنیادی طریقہ ہے۔
کھیوڑہ کا یہ نمک آج دنیا بھر میں ہمالیائی پنک سالٹ (Himalayan Pink Salt) کے نام سے مشہور ہے اور یہ نہ صرف ایک صنعتی مرکز ہے بلکہ پاکستان میں سیاحوں کے لیے ایک بہت بڑا پرکشش مقام بھی ہے۔
کیا آپ کھیوڑہ نمک کی کان کی موجودہ سیاحتی اہمیت کے بارے میں مزید جاننا پسند کریں گے؟








خلیفہ ہارون الرشید کی بیوی ملکہ زبیدہ بنت جعفر فریضہ حج کی ادائیگی کے لئے مکہ مکرمہ آئیں۔ انہوں نے جب اہل مکہ اور حُجاج ...
19/11/2025

خلیفہ ہارون الرشید کی بیوی ملکہ زبیدہ بنت جعفر فریضہ حج کی ادائیگی کے لئے مکہ مکرمہ آئیں۔
انہوں نے جب اہل مکہ اور حُجاج کرام کو پانی کی دشواری اور مشکلات میں مبتلا دیکھا تو انہیں سخت افسوس ہوا۔ چنانچہ انہوں نے اپنے اخراجات سے ایک عظیم الشان نہر کھودنے کا حکم دے کر ایک ایسا فقید المثال کارنامہ انجام دیا جو رہتی دنیا تک یاد رہے گا۔

ملکہ زبیدہ کی خدمت کے لئے ایک سو نوکرانیاں تھیں جن کو قرآن کریم یاد تھا اور وہ ہر وقت قرآن پاک کی تلاوت کرتی رہتی تھیں۔ ان کے محل میں سے قرات کی آواز شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی طرح آتی رہتی تھی۔

ملکہ زبیدہ نے پانی کی قلت کے سبب حجاج کرام اور اہل مکہ کو درپیش مشکلات اور دشواریوں کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا تو انہوں نے مکہ میں ایک نہر نکلوانے کا ارادہ کیا۔ اب نہر کی کھدائی کا منصوبہ سامنے آیا تو مختلف علاقوں سے ماہر انجینئرز بلوائے گئے۔ مکہ مکرمہ سے 35 کلومیٹر شمال مشرق میں وادی حنین کے ” جبال طاد “ سے نہر نکالنے کا پروگرام بنایا گیا۔
اس عظیم منصوبے پر سترہ لاکھ ( 17,00,000 ) دینار خرچ ہوئے۔

جب نہر زبیدہ کی منصوبہ بندی شروع ہوئی تو اس منصوبہ کا منتظم انجینئر آیا اور کہنے لگا : آپ نے جس كام کا حکم دیا ہے اس کے لئے خاصے اخراجات درکار ہیں، کیونکہ اس کی تکمیل کے لئے بڑے بڑے پہاڑوں کو کاٹنا پڑے گا، چٹانوں کو توڑنا پڑے گا، نشیب و فراز کی مشکلات سے نمٹنا پڑے گا، سینکڑوں مزدوروں کو دن رات محنت کرنی پڑے گی۔ تب کہیں جا کر اس منصوبہ کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جا سکتا ہے۔

یہ سن کر ملکہ زبیدہ نے چیف انجینئر سے کہا : اس کام کو شروع کر دو، خواہ کلہاڑے کی ایک ضرب پر ایک دینار خرچ آتا ہو۔

اس طرح جب نہر کا منصوبہ تکمیل کو پہنچ گیا تو منتظمین اور نگران حضرات نے اخراجات کی تفصیلات ملکہ کی خدمت میں پیش کیں۔ اس وقت ملکہ دریائے دجلہ کے کنارے واقع اپنے محل میں تھیں۔ ملکہ نے وہ تمام کاغذات لئے اور انہیں کھول کر دیکھے بغیر دریا برد کر دیا اور کہنے لگیں :
” الٰہی! میں نے دنیا میں کوئی حساب کتاب نہیں لینا، تُو بھی مجھ سے قیامت کے دن کوئی حساب نہ لینا “

💞 البدایہ والنہایہ 💞

18/11/2025

5,000 سال پرانا حادثہ: ایک شہنشاہ نے چائے کیسے دریافت کی

تصور کیجیے قدیم چین کا، 2737 قبل مسیح (BC) کا دور۔ یہاں کے افسانوی شہنشاہ شین نُنگ کا ایک خاص اصول تھا: وہ صحت اور صفائی کو یقینی بنانے کے لیے اصرار کرتا تھا کہ پینے کے تمام پانی کو ابال کر استعمال کیا جائے۔ یہ احتیاطی عمل ہی چائے کی دریافت کا باعث بنا۔

ایک روز، شہنشاہ شین نُنگ ایک جنگلی چائے کے درخت کے نیچے بیٹھا تھا۔ اس کے خادم ایک تپائی پر رکھے برتن میں آگ جلا کر پانی اُبال رہے تھے۔ پانی جب زور سے کھَدَک رہا تھا، تو اوپر پہاڑیوں سے آئی ایک ہلکی ہوا نے درخت کے پتوں کو لرزا دیا۔ اس دوران، چند سوکھے، گہرے پتے ٹوٹ کر سیدھے اُبلتے ہوئے پانی کے برتن میں جا گرے۔ یہ ایک مکمل حادثہ تھا۔

پتے فوراً پانی میں شامل ہو گئے، اور اُبلتے ہوئے مائع کا رنگ تیزی سے بدلنے لگا۔ صاف پانی نے ایک دلکش، عنبر (Amber) رنگ کا مشروب بننا شروع کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی، ارد گرد ایک خوشبودار، مٹی کی سی مہک پھیل گئی—ایک ایسی خوشبو جسے شین نُنگ، جو خود جڑی بوٹیوں کا ماہر تھا، نے پہلے کبھی نہیں سونگھا تھا۔

ہمیشہ کی طرح ایک متجسس سائنسدان، شین نُنگ نے اس انوکھے عرق کو چکھنے کا فیصلہ کیا۔ پہلا گھونٹ لیتے ہی وہ حیران رہ گیا۔ یہ ہلکا کڑوا تھا مگر اس میں تازگی اور ایک میٹھا احساس شامل تھا۔ یہ اس پودے، کیمیلیا سینینسس (Camellia sinensis)، کا پہلا تجربہ تھا۔ اُس نے فوراً اس کی خصوصیات کو ریکارڈ کیا، خاص طور پر روح کو تروتازہ کرنے اور ذہن کو صاف کرنے کی اس کی صلاحیت کو۔

اُس معمولی، حادثاتی اُبال سے، چائے ایک اہم ضرورت بن گئی۔ جو پہلے چین میں ایک دواؤں کی ٹانک تھی، وہ ایک عالمی مشروب بن گئی۔ یہ سادہ پتا اب ٹوکیو سے لندن تک، صحت، ثقافت اور تجارت کی ایک وراثت کو جنم دے چکا ہے۔









’کراچی گرامر اسکول 1847 میں قائم ہوا تھا۔ یہ پاکستان کا سب سے قدیم نجی اسکول ہے اور پورے جنوبی ایشیا میں دوسرا سب سے پرا...
18/11/2025

’کراچی گرامر اسکول 1847 میں قائم ہوا تھا۔ یہ پاکستان کا سب سے قدیم نجی اسکول ہے اور پورے جنوبی ایشیا میں دوسرا سب سے پرانا اسکول مانا جاتا ہے۔ 1960 میں اسے کامن ویلتھ کے حصے کے طور پر لندن کے اخبار میں شائع بھی کیا گیا تھا۔‘‘

😭💔 ’’چھلّا مُڑ کے نہ آیا‘‘ — ایک دل رُلانے والی سچی کہانیکبھی پرانے وقتوں میں نہر کے کنارے ایک چھوٹا سا خاموش سا گاؤں ہو...
18/11/2025

😭💔 ’’چھلّا مُڑ کے نہ آیا‘‘ — ایک دل رُلانے والی سچی کہانی

کبھی پرانے وقتوں میں نہر کے کنارے ایک چھوٹا سا خاموش سا گاؤں ہوا کرتا تھا۔
اسی گاؤں میں ایک محنتی اور بھلائی سے بھرا کشتی بان رہتا تھا — جھَلّا۔
اس کی ہر صبح ایک ہی کام سے شروع ہوتی:
لوگوں کو اپنی کشتی میں بٹھا کر نہر کے دوسری طرف پہنچانا… یہی اس کی روزی، یہی اس کی زندگی۔

ایک دن جھلّا سخت بیمار پڑ گیا۔
جسم ٹوٹا ہوا، سانسیں بھاری… مگر گاؤں میں کشتی صرف اسی کے پاس تھی۔
تبھی گاؤں کا وڈیرہ دروازہ پیٹتا ہوا آیا:

"مجھے فوراً دوسری طرف جانا ہے، مجھے ابھی لے چلو!"

جھلّا نے بمشکل کہا:

"وڈیرے صاحب… میں تو کھڑا بھی نہیں ہو سکتا…"

سخت لہجے میں وڈیرہ بولا:

"تو نہ سہی، اپنے بیٹے چھلّا کو بھیج دے!"

یہ سن کر جھلّا کا دل جیسے رک گیا…
وہ اپنے بیٹے کو پانی پر نہیں بھیجنا چاہتا تھا۔
چھلّا ابھی ناتجربہ کار تھا اور نہر کا مزاج کبھی کسی پر رحم نہیں کرتا۔

مگر حالات نے باپ کو مجبور کر دیا۔
روکنا چاہ کر بھی نہ روک سکا۔
لرزتی آواز میں بولا:

"بیٹا… احتیاط کرنا… بہت احتیاط…"

چھلّا نے باپ کی طرف آخری بار دیکھا، مسکرایا… اور کشتی چل دی۔
وڈیرہ اور کچھ لوگ سوار ہوئے، کشتی بیچ دھار پہنچی…

اور پھر اچانک…
ایک خوفناک لہر نے سب کچھ لپیٹ میں لے لیا۔
ایک لمحہ… بس ایک لمحہ…
اور کشتی پانی میں ڈوب گئی۔

گاؤں میں صرف ایک آدمی زندہ واپس آیا۔
وہ روکتا سانس لیتا جھلّا کے گھر بھاگا اور چیختے ہوئے بولا:

"جھلّا… تیرے چھلّا کو پانی لے گیا…"

یہ سن کر جھلّا کی دنیا اندھیر ہو گئی۔
وہ دروازے کے سامنے گر پڑا…
آنسو رکے نہ سانس… بس ایک ہی لفظ اس کے ہونٹوں پر تھا:

"چھلّا… میرا چھلّا…"

اور یوں باپ کے اس ٹوٹے ہوئے دل کی آواز
آج بھی گیت میں گونجتی ہے:

"چھلّا مُڑ کے نہ آیا…"

📌 سَبَق:

اولاد سے بڑھ کر ماں باپ کے لیے کچھ بھی نہیں ہوتا۔
دوسروں کی مجبوریوں کے لیے اپنی اولاد کو خطرے میں مت ڈالو…
کیونکہ قسمت کا دھکا کبھی کبھی زندگی بھر کا روگ بن جاتا ہے۔

استنبول — تین سلطنتوں کا تاج، ایک شہر کی ہزار داستانیں۔کہانی شروع ہوتی ہے ساتویں صدی قبلِ مسیح میں، جب یونانی دنیا کے ای...
17/11/2025

استنبول — تین سلطنتوں کا تاج، ایک شہر کی ہزار داستانیں۔

کہانی شروع ہوتی ہے ساتویں صدی قبلِ مسیح میں، جب یونانی دنیا کے ایک بادشاہ بائزس (Byzas) نے اپنے دیوتا سے مشورہ لیا کہ نئی سلطنت کہاں بسائے۔
دیوتا نے کہا:
"اس جگہ بساؤ جو اندھوں کے مقابل ہو۔"

بائزس نے سوچا، "اندھوں کے مقابل؟" اور تلاش شروع کر دی۔

جب وہ بحیرہٴ مرمرہ کے کنارے پہنچا، تو دیکھا کہ ایک طرف ایشیا ہے، دوسری طرف یورپ۔ ایک ایسی جگہ جہاں دو سمندری لہریں ایک دوسرے سے ملتی ہیں، اور ہوائیں خوشبو سے بھری ہیں۔
اس نے سمجھا، "وہ جو اس جگہ کو نہیں دیکھ سکے، وہ اندھے ہی تو ہیں !"

یوں بائزنٹیم (Byzantium) کی بنیاد پڑی — ایک چھوٹا سا مگر قدرتی حسن سے مالا مال شہر، جو رفتہ رفتہ تجارت، جہاز رانی اور سیاست کا مرکز بن گیا۔

یہ وہ وقت تھا جب رومی سلطنت دنیا پر چھا رہی تھی۔ وقت کے ساتھ بائزنٹیم نے رومی پرچم کے نیچے اپنی وفاداری قبول کی۔ لیکن اس شہر کی قسمت میں کچھ بڑا لکھا تھا — کچھ ایسا جو تاریخ کے دھارے بدل دے گا۔

چوتھی صدی عیسوی میں، رومی سلطنت مغرب سے زوال پذیر ہونے لگی۔ روم کی شان ماند پڑ گئی، جبکہ مشرق میں نئی روشنی ابھر رہی تھی۔
تب رومی شہنشاہ قسطنطین اعظم (Constantine the Great) نے ایک فیصلہ کیا —

"میں ایک نیا روم بناؤں گا، جو ایمان، حکمت، اور طاقت کا محور ہوگا۔"

330 عیسوی میں، اس نے بائزنٹیم کو اپنا دارالحکومت بنایا اور نام رکھا —
"نووا رُما" (Nova Roma) یعنی "نیا روم"۔
لیکن جلد ہی لوگ اسے قسطنطین کے نام سے پکارنے لگے — قسطنطنیہ (Constantinople)۔

یہاں دنیا کی سب سے عظیم عمارتیں بنیں۔
سنگِ مرمر کے محل، پتھر کے ستون، اور ایک ایسی عبادت گاہ — ہاجیا صوفیا (Hagia Sophia) — جو 537 عیسوی میں تعمیر ہوئی، اور صدیوں تک دنیا کی سب سے بڑی گنبد دار عمارت رہی۔

قسطنطنیہ روشنی کا مرکز بن گیا۔ یونانی فلسفہ، رومی قانون، اور مسیحی ایمان — تینوں یہاں ایک ساتھ پھلے پھولے۔

قسطنطنیہ کی خوشحالی نے دنیا بھر کے فاتحین کو اپنی طرف کھینچا۔
عربوں نے ساتویں صدی میں اس پر کئی بار حملہ کیا، لیکن شہر کے گرد موجود دیواریں — تھیوڈوسیئن والز (Theodosian Walls) — ناقابلِ تسخیر ثابت ہوئیں۔

یہ دیواریں تین تہوں پر مشتمل تھیں؛ ایک دنیا کا سب سے بڑا دفاعی نظام تھا۔
کہا جاتا ہے کہ ان کے پیچھے کھڑا ہر سپاہی، ہزار دشمنوں کے برابر تھا۔

پھر آیا 1204ء — صلیبی جنگوں کا زمانہ۔
جب عیسائی فوجیں، جو یروشلم کے لیے نکلی تھیں، خود قسطنطنیہ پر چڑھ دوڑیں۔
انہوں نے شہر کو لوٹا، عبادت گاہوں کو نذرِ آتش کیا، اور ہزار سال پرانی تہذیب کو راکھ کر دیا۔

یہ قسطنطنیہ کا سب سے اندھیرا دور تھا —
ایک ایسا زخم جو اگلی دو صدیوں تک نہیں بھرا۔

پھر مشرق سے ایک نئی طاقت ابھری — سلطنتِ عثمانیہ۔
ان کے جوان، ایمان اور جرأت میں ڈوبے ہوئے تھے۔ ان کے دل میں ایک خواب تھا —
"قسطنطنیہ فتح ہوگا۔"

یہ خواب نبی کریم ﷺ کے فرمان سے جڑا تھا:

“تم ضرور قسطنطنیہ فتح کرو گے، وہ بہترین سپہ سالار ہے جو اسے فتح کرے گا، اور بہترین لشکر ہے وہ جو اس پر حملہ کرے گا۔”
(حدیث: مسند احمد بن حنبل)

1453ء میں صرف 21 سالہ سلطان محمد ثانی، جو بعد میں محمد فاتح (Mehmed the Conqueror) کے نام سے مشہور ہوا، اپنے لشکر کے ساتھ شہر کے دروازے پر پہنچا۔
لشکر نے چھیالیس دن تک محاصرہ جاری رکھا۔
پھر 29 مئی 1453ء کو قسطنطنیہ فتح ہوگیا۔

جب سلطان شہر میں داخل ہوا تو وہ ہاجیا صوفیا گیا۔ وہاں زمین پر سجدہ ریز ہو کر بولا:

"الحمدللہ! وعدۂ رسول پورا ہوا۔"

قسطنطنیہ اب اسلامی دنیا کا تاج بن چکا تھا، اور اس کا نیا نام ہوا —
استنبول۔

استنبول اب سلطنتِ عثمانیہ کا دل تھا۔
یہاں علم و ادب، فنِ تعمیر، طب، فلسفہ، اور سیاست نے نئی شکل اختیار کی۔

سلطان سلیمان القانونی (1520–1566) کے دور میں یہ شہر اپنی انتہا کو پہنچا۔
اس دور میں تعمیر ہوئی:

نیلی مسجد (Sultan Ahmed Mosque) — نیلے ٹائلوں سے مزین آسمانی خوبصورتی۔

ٹوپ کاپی محل (Topkapi Palace) — جہاں سلطانوں کے خفیہ کمرے، خزانے، اور تاریخی تلواریں محفوظ تھیں۔

گرینڈ بازار (Kapalıçarşı) — دنیا کا پہلا اور سب سے بڑا ڈھکا ہوا بازار، جس میں خوشبو، قالین، زیورات اور قہوے کی مہک رچی تھی۔

یہ شہر صرف حکومت کا نہیں بلکہ روحانیت اور علم کا مرکز تھا۔
یہاں صوفیا، خطاط، معمار اور شاعر پیدا ہوئے جنہوں نے اسلام اور انسانیت دونوں کو یکجا کر دیا۔

انیسویں صدی میں، عثمانی سلطنت کمزور پڑنے لگی۔
یورپی طاقتیں — روس، برطانیہ، فرانس — اس کے حصے بخرے کرنے لگیں۔
پھر پہلی جنگِ عظیم نے آخری ضرب لگائی۔

1918ء میں اتحادی فوجیں استنبول میں داخل ہوئیں۔
شہر خاموش تھا، اور ترک قوم زخم خوردہ تھی۔
لیکن پھر ایک نیا سورج طلوع ہوا — مصطفیٰ کمال اتاترک۔

1923ء میں اس نے جدید جمہوریہ ترکی کی بنیاد رکھی۔
انقرہ نیا دارالحکومت بنا، مگر استنبول اب بھی ثقافت، تجارت اور روحانیت کا دل رہا۔

آج کا استنبول — جہاں ماضی اور حال ایک دوسرے سے گلے ملتے ہیں

آج استنبول وہ شہر ہے جہاں دنیا کی تین تہذیبیں سانس لیتی ہیں۔
یہاں ایک ہی گلی میں آپ کو چرچ کی گھنٹی، مسجد کی اذان، اور جہاز کا ہارن سنائی دیتا ہے۔

بوسفورس برج رات کو جگمگاتا ہے، تکسیم اسکوائر میں نوجوان ہلہ گلہ کرتے ہیں، اور ایوب سلطان مسجد میں بزرگ دعائیں مانگتے ہیں۔
یہ شہر اب بھی ایک راز ہے —
ایسا راز جو ہر سورج طلوع ہونے کے ساتھ نیا معنی اختیار کرتا ہے۔

یہ وہ شہر ہے جہاں:

ایشیا اور یورپ ایک دوسرے سے مصافحہ کرتے ہیں۔

ماضی اور حال ایک ہی لمحے میں زندہ ہیں۔

اور انسان کو احساس ہوتا ہے کہ تہذیب، ایمان اور فن دراصل ایک ہی شمع کے مختلف رنگ ہیں۔

استنبول آج بھی دنیا کے نقشے پر صرف ایک شہر نہیں —
یہ ایک زندہ داستان ہے،
جو بائزس کے خواب سے شروع ہوئی، قسطنطین کی شجاعت سے بڑھی، محمد فاتح کے ایمان سے نکھری، اور آج جدید ترکی کی دھڑکن کے ساتھ دھڑک رہی ہے۔

مستند حوالہ جات:

1. Cyril Mango, Byzantium: The Empire of New Rome, Oxford University Press, 1980.

2. Roger Crowley, 1453: The Holy War for Constantinople and the Clash of Islam and the West, Hyperion, 2005.

3. John Freely, Istanbul: The Imperial City, Penguin Books, 1996.

4. Suraiya Faroqhi, The Ottoman Empire and the World Around It, I.B. Tauris, 2004.

5. Caroline Finkel, Osman’s Dream: The History of the Ottoman Empire, Basic Books, 2005.

دلچسپ و عجیب تاریخ

یہ نیو لیتھک دور تھا، تقریباً 2700 قبل مسیح، جب یلو ریور (دریائے زرد) وادی میں لیی کے گاؤں پر نم مٹی اور کچلے ہوئے شہتوت...
16/11/2025

یہ نیو لیتھک دور تھا، تقریباً 2700 قبل مسیح، جب یلو ریور (دریائے زرد) وادی میں لیی کے گاؤں پر نم مٹی اور کچلے ہوئے شہتوت کے پتوں کی خوشبو چھائی ہوئی تھی۔ لیی، ایک نوجوان خاتون جو کھڈی پر اپنی صبر آزما مہارت کی وجہ سے جانی جاتی تھی، نے شاخوں پر عجیب سفید گولے دیکھے—یہ Bombyx mori کیڑے کے کوکونز تھے۔ اگرچہ وہ پہلے موٹی رسّی بنانے کے لیے استعمال ہوتے تھے، لیکن کسی نے ان کی اصل صلاحیت کو نہیں پہچانا تھا۔

ایک دن، گرم پانی کے ایک برتن کے قریب کام کرتے ہوئے، لیی نے ایک دھوپ سے گرم کوکون کو اس میں گرتے دیکھا۔ جب اس نے نرم گولے کو پانی سے نکالا، تو اسے کوئی چپچپا ٹکڑا نہیں ملا، بلکہ ایک کھلا سرا—ایک واحد، ناقابل یقین حد تک باریک ریشہ۔ جیسے ہی اس نے آہستہ سے کھینچا، دھاگہ مسلسل نکلتا رہا، spool ہوتا ہوا ایک کلومیٹر کے قریب 3,000 فٹ تک کا مسلسل ریشہ بن گیا۔ لیی حادثاتی طور پر سیری کلچر (ریشم کیڑے پالنے)، یعنی ریشم کے کیڑے کی افزائش اور کاشت کے فن پر ٹھوکر کھا چکی تھی۔

یہ دھاگہ، جو سٹیل کے فائبر سے زیادہ مضبوط مگر ہوا جیسا ہلکا تھا، جلد ہی شاہی دربار کی حسد بن گیا۔ اس کی موروثی قدر کو تسلیم کرتے ہوئے، حکمران خاندان نے ریشم کی پیداوار کے راز کو ریاستی اجارہ داری قرار دیا، جس کی خلاف ورزی پر سزائے موت مقرر تھی۔ تقریباً تین ہزار سال تک، چین نے پالتو، اڑان سے قاصر ریشم کے کیڑوں کو پالنے اور ان کے کوکونز کو تیار کرنے کے پیچیدہ عمل کی کامیابی سے حفاظت کی، جس نے اس کپڑے کو باہر کی دنیا میں ایک قریب قریب افسانوی اور انمول حیثیت دی۔

جب بالآخر یہ راز باہر نکلنا شروع ہوا (جو اکثر جاسوسوں یا لباس یا سامان میں چھپے ہوئے مسافروں کے ذریعے لے جایا جاتا تھا)، تو اس نفیس کپڑے نے پہلے ہی دنیا کے سب سے وسیع تجارتی نیٹ ورک کو جنم دے دیا تھا: سِچو ژی لُو، یا شاہراہ ریشم (Silk Road)۔ ہان خاندان کے آس پاس شروع ہو کر، رنگین اور قیمتی ریشم کے تھانوں سے لدے قافلے ہزاروں میل کا سفر کرتے ہوئے بحیرہ روم تک پہنچے۔ رومن سینیٹرز اور ملکہیں اس کپڑے کے لیے سونے کی بھاری قیمت ادا کرتی تھیں، جو بعض اوقات مغرب سے دولت کے بڑے پیمانے پر نکل جانے کے بارے میں معاشی تشویش کا باعث بھی بنتا تھا۔

ریشم کی قدر نے صرف معاشیات کی حدود کو عبور کر لیا تھا۔ یہ سفارت کاری کا ایک طاقتور ذریعہ، اعلیٰ فیشن کی علامت، اور ایک کرنسی تھا جس نے سلطنتوں کو مالی امداد فراہم کی۔ اس چمکدار دھاگے کی پیروی کرتے ہوئے، تاجروں نے نہ صرف سامان کا تبادلہ کیا، بلکہ زبان، مذہب (جیسے بدھ مت)، فن، اور تکنیکی علم کا بھی، جس نے مشرق اور مغرب کی قسمتوں کو ہمیشہ کے لیے ایک ساتھ بُن دیا۔ 2700 قبل مسیح میں پالتو بنانے کے اس سادہ عمل نے واقعی ہزاروں سالوں تک عالمی ثقافتی تبادلے کو متاثر کیا۔



جنوبی کوریا کی سرکردہ یونیورسٹیوں نے اسکول کی غنڈہ گردی کے ریکارڈ والے طلباء کو داخلہ دینے سے انکار کرنے کے لیے ایک اہم ...
16/11/2025

جنوبی کوریا کی سرکردہ یونیورسٹیوں نے اسکول کی غنڈہ گردی کے ریکارڈ والے طلباء کو داخلہ دینے سے انکار کرنے کے لیے ایک اہم پالیسی متعارف کرائی ہے، جو ایک ایسے ملک میں ایک بڑی ثقافتی تبدیلی کا اشارہ ہے جہاں تعلیمی کامیابی کو طویل عرصے سے ذاتی رویے پر فوقیت حاصل ہے۔

2025 کے داخلوں کے چکر کے دوران، ملک کی ٹاپ ٹین یونیورسٹیوں نے اجتماعی طور پر 45 درخواست دہندگان کو مسترد کر دیا، جن میں سے کچھ کے تعلیمی اسکور بھی شامل ہیں، جن کی وجہ سے اسکول کے تشدد یا غنڈہ گردی کے واقعات میں ملوث ہونے کی تصدیق ہوئی ہے۔ یہ فیصلہ غنڈہ گردی پر بڑھتے ہوئے عوامی غم و غصے اور زیادہ احتساب اور کردار پر مبنی تعلیم کے لیے قومی دباؤ کی عکاسی کرتا ہے۔

تعلیمی حکام کا کہنا ہے کہ نئے طریقہ کار کا مقصد اسکول کے محفوظ ماحول کو فروغ دینا اور اس پیغام کو تقویت دینا ہے کہ تعلیمی فضیلت بدانتظامی کو معاف نہیں کرسکتی۔ اس اقدام کو والدین اور وکالت گروپوں کی طرف سے وسیع پیمانے پر حمایت حاصل ہے جو تعلیم میں مضبوط اخلاقی معیارات کا مطالبہ کرتے ہیں۔

تاہم، ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ یہ پالیسی طلباء اور خاندانوں کی طرف سے قانونی چیلنجز کا باعث بن سکتی ہے جو تادیبی ریکارڈ پر تنازعہ کرتے ہیں، ممکنہ طور پر منصفانہ، مناسب عمل، اور بحالی کے بارے میں سوالات اٹھا سکتے ہیں۔ پھر بھی، یہ اصلاحات جنوبی کوریا کے تعلیمی نظام میں ایک اہم موڑ کی نشاندہی کرتی ہے - جو کہ سالمیت اور ذمہ داری کو اتنا ہی اہمیت دیتا ہے جتنا کہ ٹیسٹ کے اسکور۔

🇬🇧 انگریز نے زمیندار اور گدی نشین کیوں پیدا کیے؟---🎯 بنیادی مقصد: عوام کو غلام بنانا — تلوار سے نہیں، نظام سے1857 کی جنگ...
14/11/2025

🇬🇧 انگریز نے زمیندار اور گدی نشین کیوں پیدا کیے؟

---

🎯 بنیادی مقصد: عوام کو غلام بنانا — تلوار سے نہیں، نظام سے

1857 کی جنگِ آزادی میں انگریزوں نے ایک تلخ حقیقت دیکھی:

> “مسلمانوں کے پاس دو طاقتیں ہیں —
✊ ایک سیاسی (جاگیردار، سپاہی، علما)
🕋 دوسری روحانی (اولیاء، علما، خانقاہیں)”

انگریز نے فیصلہ کیا کہ ان دونوں طاقتوں کو ختم نہیں کرنا،
بلکہ اپنے مفاد کے تابع کرنا ہے۔

اسی مقصد کے لیے اس نے دو نئے طبقے پیدا کیے:

> 1️⃣ زمیندار طبقہ → عوام کی معیشت کو قابو کرنے کے لیے
2️⃣ گدی نشین طبقہ → عوام کے ذہن اور عقیدے کو قابو کرنے کے لیے

---

🏡 1. زمیندار نظام (Landlord System): معاشی غلامی

📜 پس منظر:

1857 کے بعد انگریزوں نے پرانی "اسلامی زمین داری" (جہاں زمین عوامی ملکیت سمجھی جاتی تھی) ختم کر دی۔
انہوں نے Land Settlement Acts کے ذریعے زمین کو نئی ملکیتوں میں بانٹ دیا۔

⚙️ طریقہ:

وفادار سردار، نواب، یا مقامی چودھری کو زمین کے مالکانہ حقوق دے دیے گئے۔

عوام جو اصل میں کاشت کار تھے، اب مزدور بن گئے۔

زمیندار کا کام تھا:

> “پیداوار اکٹھی کرو، حصہ انگریز کو دو، عوام کو قابو میں رکھو۔”

💰 مقصد:

فائدہ وضاحت

محصولی نظام انگریز کو بغیر محنت کے ٹیکس ملتا تھا۔
سیاسی کنٹرول زمیندار انگریز کے وفادار رہتے تھے، بغاوت نہیں کرتے تھے۔
عوامی غلامی کسان زمیندار کے رحم و کرم پر رہ گئے۔

📉 نتیجہ:
عوام کے ہاتھ سے زمین، عزت، اور آزادی تینوں چھن گئیں۔

---

🕋 2. گدی نشینی نظام (Spiritual Control): فکری غلامی

📜 پس منظر:

پہلے زمانے میں اولیاء اللہ کی خانقاہیں اصلاحِ نفس، تعلیم، اور عدل کی علامت تھیں۔
انگریزوں کو یہ نظام خطرناک لگا کیونکہ یہی عوام میں بیداری پھیلاتا تھا۔

⚙️ طریقہ:

خانقاہوں کی زمینوں کو “وقف” قرار دے کر حکومت کے زیرِ نگرانی کر دیا گیا۔

“وارثانِ درگاہ” کو سرکاری سند (certificate) دے دی گئی کہ وہ “گدی نشین” ہیں۔

ان کو جاگیریں، تنخواہیں، اور سیاسی اثر دیا گیا۔

💰 مقصد:

فائدہ وضاحت

عقیدے پر کنٹرول عوام کو کہا گیا: “اولیاء سب کچھ کرتے ہیں، حکومت میں دخل نہ دو۔”
دینی قیادت کا انحراف دین عبادت تک محدود، سیاست و عدل سے جدا۔
وفاداری گدی نشین انگریز کے حق میں دعا کرتے، بغاوت کے خلاف فتویٰ دیتے۔

📉 نتیجہ:
عوام نے عمل و جہاد چھوڑ کر “نذر و نیاز” میں سکون تلاش کیا،
اور دین سے روح نکل گئی۔

---

⚖️ 3. دونوں نظاموں کا باہمی تعلق

پہلو زمیندار گدی نشین

کنٹرول کی نوعیت معاشی (روٹی، روزگار) روحانی (عقیدہ، دل)
وفاداری انگریز کے ساتھ سیاسی انگریز کے ساتھ مذہبی
عوام پر اثر زمیندار عوام کی زمین لیتا گدی نشین عوام کا ایمان
نتیجہ مالی غلامی ذہنی غلامی

> انگریز کا کمال یہ تھا کہ اس نے “تلوار کے بغیر غلامی” پیدا کر دی۔
عوام خود ہی ان طبقوں کے وفادار بن گئے۔

---

🧩 4. نتیجہ: امت کا ٹوٹا ہوا ڈھانچہ

1. زمین چند کے ہاتھ میں آ گئی۔

2. عوام علم سے محروم ہو گئے۔

3. دین اور سیاست الگ کر دیے گئے۔

4. روحانیت کاروبار بن گئی۔

5. غلامی نفسیات بن گئی، احساسِ حریت ختم ہو گیا۔

---

🌅 5. آج تک کے اثرات

آج بھی کئی علاقوں میں “گدی نشین” سیاسی خاندانوں کے سربراہ ہیں۔

جاگیردارانہ سیاست اب بھی عوامی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔

دین اور ریاست کی تقسیم اب بھی برصغیر کی فکری کمزوری ہے۔

📜 انگریز چلا گیا، لیکن اس کا نظام آج بھی زندہ ہے —
زمیندار و گدی نشین کے روپ میں۔

---

🧠 خلاصہ ایک جملے میں:

> انگریز نے زمیندار پیدا کیے تاکہ عوام کی “روٹی” پر قابو پائے،
اور گدی نشین پیدا کیے تاکہ عوام کی “روح” پر قابو پائے۔

شفیق الرحمن کی وال سے انتخاب
Sufi Media Services

منقول

14/11/2025

تم نے کبھی سوچا کہ مٹی بھی یاد رکھتی ہے؟ جیسے تم کسی کو بھولنے کی کوشش کرتے ہو، پر دل نہیں مانتا، ویسے ہی زمین بھی اپنے لوگ نہیں بھولتی۔ موئن جو دڑو کی مٹی نے اپنے شہر کو صدیوں تک سینے میں چھپائے رکھا، جب تک انسان نے خود جا کر اس کا راز نہ چھیڑا۔ وہ لمحہ جب پہلی اینٹ نکلی تھی، شاید زمین نے خود بھی ہلکا سا سانس چھوڑا ہوگا۔ ایک شہر، جو کبھی ہنستا، جیتا، محبت کرتا تھا، اب صرف خاموش اینٹوں میں چھپا ہے۔ کوئی سوچ بھی سکتا ہے کہ ان گلیوں سے کبھی ہنسی کی آوازیں آتی تھیں؟
وہاں ایک ماں تھی، جو شاید اپنے بچے کے بال بناتے وقت کچھ گنگنا رہی تھی۔ ایک لڑکی تھی، جو مٹی کے برتن پر کسی کا نام کندہ کر رہی تھی۔ ایک جوان، جو دریا کے کنارے بیٹھ کر کسی کے واپس آنے کا انتظار کرتا تھا۔ سب ختم۔ مگر شاید وہ سب کہیں نہ کہیں ابھی بھی وہیں ہیں، تمہارے لمس کے انتظار میں۔

کبھی کبھی لگتا ہے وقت بھی ظالم نہیں ہوتا، بس ہم ہی جلدی تھک جاتے ہیں۔ تم اگر کبھی ان اینٹوں کو غور سے دیکھو تو وہ تمہیں دیکھتی محسوس ہوں گی۔ تمہیں لگے گا کہ وہ تم سے کچھ کہنا چاہتی ہیں۔ کیا تم سن سکو گے؟

اگر تمہیں لگا کہ یہ شہر تم سے بات کر رہا ہے، تو اسے خود میں دفن مت ہونے دو۔ شئیر کرو۔ کسی کو بتاؤ کہ ہم سب کے اندر ایک موئن جو دڑو چھپا ہے۔ ایک ایسا حصہ جو مٹی میں دفن ہے مگر زندہ ہے، سانس لیتا ہے، بس کسی کے لمس کا منتظر ہے۔

“ریت نے کہا، وہ پلٹ کر آئے گا کبھی، میں نے کہا، میں تب تک خاک رہوں گا اُس کے انتظار میں”
عشق بسمل

12/11/2025

Projection of world's biggest economies in 2075.

🇨🇳 China: $57 trillion
🇮🇳 India: $52.5 trillion
🇺🇸 United States: $51.5 trillion
🇮🇩 Indonesia: $13.7 trillion
🇳🇬 Nigeria: $13.1 trillion
🇵🇰 Pakistan: $12.3 trillion
🇪🇬 Egypt: $10.4 trillion
🇧🇷 Brazil: $8.7 trillion
🇩🇪 Germany: $8.1 trillion
🇲🇽 Mexico: $7.6 trillion
🇬🇧 UK: $7.6 trillion
🇯🇵 Japan: $7.5 trillion
🇷🇺 Russia: $6.9 trillion
🇵🇭 Philippines: $6.6 trillion
🇫🇷 France: $6.5 trillion
🇧🇩 Bangladesh: $6.3 trillion
🇪🇹 Ethiopia: $6.2 trillion
🇸🇦 Saudi Arabia: $6.1 trillion
🇨🇦 Canada: $5.2 trillion
🇹🇷 Turkey: $5.2 trillion
🇦🇺 Australia: $4.3 trillion
🇮🇹 Italy: $3.8 trillion
🇲🇾 Malaysia: $3.5 trillion
🇰🇷 South Korea: $3.4 trillion
🇿🇦 South Africa: $3.3 trillion
🇹🇭 Thailand: $2.8 trillion
🇨🇴 Colombia: $2.6 trillion
🇵🇱 Poland: $2.5 trillion
🇦🇷 Argentina: $2.4 trillion

(Source: Goldman Sachs)

Address

Toba Tek Singh
36000

Opening Hours

Monday 16:00 - 20:00
Tuesday 16:00 - 20:00
Wednesday 16:00 - 20:00
Thursday 16:00 - 20:00
Friday 18:00 - 20:00

Telephone

+923004489579

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Dr Subhan Ullah posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Practice

Send a message to Dr Subhan Ullah:

Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on LinkedIn
Share on Pinterest Share on Reddit Share via Email
Share on WhatsApp Share on Instagram Share on Telegram