21/11/2025
Today's session…
مجھے روزانہ بے شمار پیغامات ملتے ہیں۔ سیشنز میں اکثر والدین یہ کہتے ہیں کہ ان کے بچے ضدی ہیں، کسی بھی فنکشن میں جائیں تو ایک جگہ بیٹھتے نہیں، ہر وقت کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں، انہیں سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے، اور وہ خود فنکشن انجوائے نہیں کر پاتے۔ ایسی بے شمار شکایات ہیں… اور وہ سب ایک جیسے دکھ اور تھکن میں ڈوبی ہوتی ہیں۔
آج ایک نوجوان، پڑھی لکھی ماں نے بڑے اضطراب کے ساتھ وقت لیا۔ کہنے لگیں، “میں اپنے بچے کے بارے میں بات کرنا چاہتی ہوں۔ مجھے لگتا ہے میرے بچے کو کوئی مسئلہ ہے۔ پلیز مجھے وقت دے دیں۔” میں نے آج ہی کا وقت دے دیا اور فون پر کچھ ابتدائی معلومات بھی لے لیں۔
جب وہ آنے والی تھیں تو میں گھر سے چند کتابیں اٹھا لایا اور میز پر سجا دیں۔ یہ سب عالمی ادب کی نوبل انعام یافتہ کتابیں تھیں۔ میں نے ان کے ٹائٹلز ایسے رکھے کہ میرے سامنے بیٹھنے والا کوئی بھی شخص انہیں آسانی سے دیکھ سکے۔
وہ اکیلی آئیں، بیٹھ گئیں، اور بچے کے بارے میں بات کرنے لگیں۔ لیکن بار بار اُن کا دھیان کتابوں پر جا رہا تھا۔ میں نے نرمی سے کہا، “آپ پہلے کتابیں دیکھ لیجیئے۔ میں پانچ دس منٹ بعد آتا ہوں، پھر بات شروع کرتے ہیں۔”
دس منٹ بعد میں آیا اور کہا، “اچھا، اب شروع سے بتائیں کہ مسئلہ کیا ہے؟”
وہ گویا ہوئیں،
“ڈاکٹر صاحب، کہیں بھی جاؤں، میرا بچہ ایک جگہ نہیں بیٹھتا… ہر چیز میں گھس جاتا ہے… مجھے بہت تنگ کرتا ہے۔”
پھر کچھ لمحے رکی اور بولیں، “اور سب سے زیادہ مجھے یہ فکر ستاتی ہے کہ وہ ہر بات پر رونے لگتا ہے، ضد کرتا ہے…”
میں نے مسکرا کر پوچھا،
“جب تک آپ نے میز پر رکھی کتابیں نہیں دیکھ لیں، کیا تب تک آپ کا دھیان بار بار ادھر جاتا رہا؟
ایسا ہی ہوا نا؟”
وہ شرمندہ سی ہنسی اور بولیں،
“جی بالکل۔ وہ کتابیں نئی تھیں، اس لئے تجسس روکنا مشکل تھا۔”
میں نے جواب دیا،
“بالکل ٹھیک۔ آپ نے بچہ پیدا کیا ہے نا، کوئی روبوٹ نہیں۔ بچے احساس رکھتے ہیں۔ ان میں تجسس — curiosity — آپ سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ وہ نئی چیزیں explore کرتے ہیں، نئے لوگوں کو observe کرتے ہیں، ماحول کو understand کرتے ہیں، سوشل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔”
پھر میں نے آہستگی سے کہا:
“اگر آپ کا بچہ فنکشن میں جا کر ایک ہی جگہ بیٹھا رہے، بچوں سے نہ ملے، لوگوں سے نہ گھلے، نئی چیزوں میں دلچسپی نہ لے… تب آپ کو پریشان ہو کر میرے پاس آنا چاہیے تھا۔”
وہ یہ بات سن کر مسکرا دیں۔ پھر میں نے بات کا دوسرا حصہ کھولا:
“اب آتے ہیں اس بات پر کہ وہ ہر بات پر روتا کیوں ہے。”
میں نے سمجھایا:
“دیکھیں، دو سال سے پانچ سال تک کے بچوں کو اپنی feelings express کرنا نہیں آتا۔
اس عمر میں بچے کے پاس صرف دو expressions ہوتے ہیں: خوش ہونا… اور رونا یا چیخنا۔
اسی ایک زبان میں وہ خوف بھی بتاتا ہے، درد بھی، تکلیف بھی، excitement بھی۔
یہ بالکل نارمل ہے۔
اسی لئے کہتے ہیں کہ بچوں کو خوشی کا اظہار کرنا، تکلیف کو handle کرنا، غصہ overcome کرنا، اور excitement کو express کرنا سکھایا جاتا ہے۔”
یہ سن کر نوجوان ماں نے ایک بہت گہرا سانس لیا۔ آنکھوں میں نمی ابھری مگر چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔
“الحمدللہ… میرے سر سے پہاڑ جیسا بوجھ ہٹ گیا۔”
Children do not misbehave; they communicate in the only language their little hearts know.
— Dr Irfan Iqbal