Mental Health - Psychiatry

Mental Health - Psychiatry Facing depression, anxiety, panic attacks, stress, or relationship challenges? You’re not alone. Reach out—we're here to help you heal and grow.

Compassionate, confidential support for mental health and marriage issues is just a message away.

21/11/2025

Today's session…

مجھے روزانہ بے شمار پیغامات ملتے ہیں۔ سیشنز میں اکثر والدین یہ کہتے ہیں کہ ان کے بچے ضدی ہیں، کسی بھی فنکشن میں جائیں تو ایک جگہ بیٹھتے نہیں، ہر وقت کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں، انہیں سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے، اور وہ خود فنکشن انجوائے نہیں کر پاتے۔ ایسی بے شمار شکایات ہیں… اور وہ سب ایک جیسے دکھ اور تھکن میں ڈوبی ہوتی ہیں۔

آج ایک نوجوان، پڑھی لکھی ماں نے بڑے اضطراب کے ساتھ وقت لیا۔ کہنے لگیں، “میں اپنے بچے کے بارے میں بات کرنا چاہتی ہوں۔ مجھے لگتا ہے میرے بچے کو کوئی مسئلہ ہے۔ پلیز مجھے وقت دے دیں۔” میں نے آج ہی کا وقت دے دیا اور فون پر کچھ ابتدائی معلومات بھی لے لیں۔

جب وہ آنے والی تھیں تو میں گھر سے چند کتابیں اٹھا لایا اور میز پر سجا دیں۔ یہ سب عالمی ادب کی نوبل انعام یافتہ کتابیں تھیں۔ میں نے ان کے ٹائٹلز ایسے رکھے کہ میرے سامنے بیٹھنے والا کوئی بھی شخص انہیں آسانی سے دیکھ سکے۔

وہ اکیلی آئیں، بیٹھ گئیں، اور بچے کے بارے میں بات کرنے لگیں۔ لیکن بار بار اُن کا دھیان کتابوں پر جا رہا تھا۔ میں نے نرمی سے کہا، “آپ پہلے کتابیں دیکھ لیجیئے۔ میں پانچ دس منٹ بعد آتا ہوں، پھر بات شروع کرتے ہیں۔”

دس منٹ بعد میں آیا اور کہا، “اچھا، اب شروع سے بتائیں کہ مسئلہ کیا ہے؟”

وہ گویا ہوئیں،
“ڈاکٹر صاحب، کہیں بھی جاؤں، میرا بچہ ایک جگہ نہیں بیٹھتا… ہر چیز میں گھس جاتا ہے… مجھے بہت تنگ کرتا ہے۔”
پھر کچھ لمحے رکی اور بولیں، “اور سب سے زیادہ مجھے یہ فکر ستاتی ہے کہ وہ ہر بات پر رونے لگتا ہے، ضد کرتا ہے…”

میں نے مسکرا کر پوچھا،
“جب تک آپ نے میز پر رکھی کتابیں نہیں دیکھ لیں، کیا تب تک آپ کا دھیان بار بار ادھر جاتا رہا؟
ایسا ہی ہوا نا؟”

وہ شرمندہ سی ہنسی اور بولیں،
“جی بالکل۔ وہ کتابیں نئی تھیں، اس لئے تجسس روکنا مشکل تھا۔”

میں نے جواب دیا،
“بالکل ٹھیک۔ آپ نے بچہ پیدا کیا ہے نا، کوئی روبوٹ نہیں۔ بچے احساس رکھتے ہیں۔ ان میں تجسس — curiosity — آپ سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ وہ نئی چیزیں explore کرتے ہیں، نئے لوگوں کو observe کرتے ہیں، ماحول کو understand کرتے ہیں، سوشل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔”

پھر میں نے آہستگی سے کہا:
“اگر آپ کا بچہ فنکشن میں جا کر ایک ہی جگہ بیٹھا رہے، بچوں سے نہ ملے، لوگوں سے نہ گھلے، نئی چیزوں میں دلچسپی نہ لے… تب آپ کو پریشان ہو کر میرے پاس آنا چاہیے تھا۔”

وہ یہ بات سن کر مسکرا دیں۔ پھر میں نے بات کا دوسرا حصہ کھولا:
“اب آتے ہیں اس بات پر کہ وہ ہر بات پر روتا کیوں ہے。”

میں نے سمجھایا:
“دیکھیں، دو سال سے پانچ سال تک کے بچوں کو اپنی feelings express کرنا نہیں آتا۔
اس عمر میں بچے کے پاس صرف دو expressions ہوتے ہیں: خوش ہونا… اور رونا یا چیخنا۔
اسی ایک زبان میں وہ خوف بھی بتاتا ہے، درد بھی، تکلیف بھی، excitement بھی۔
یہ بالکل نارمل ہے۔

اسی لئے کہتے ہیں کہ بچوں کو خوشی کا اظہار کرنا، تکلیف کو handle کرنا، غصہ overcome کرنا، اور excitement کو express کرنا سکھایا جاتا ہے۔”

یہ سن کر نوجوان ماں نے ایک بہت گہرا سانس لیا۔ آنکھوں میں نمی ابھری مگر چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔
“الحمدللہ… میرے سر سے پہاڑ جیسا بوجھ ہٹ گیا۔”


Children do not misbehave; they communicate in the only language their little hearts know.
— Dr Irfan Iqbal

21/11/2025

An old session…

حصہ دوم

دیکھیے، ماہواری کا آغاز ہونا ایک بالکل فطری عمل ہے، مگر ہمارے معاشرے میں والدین کا اپنی بیٹیوں کو اس بارے میں آگاہ نہ کرنا ایک ایسا خلا پیدا کر دیتا ہے جس کا بہترین حل صرف والدین کے پاس ہوتا ہے۔ جب ماں باپ خود محبت اور حکمت کے ساتھ ان مسائل کی وضاحت کرتے ہیں، اُن کا سامنا کیسے کرنا ہے بتاتے ہیں، تو بچیوں کے اندر ایک قدرتی “protection feeling” پیدا ہوتی ہے—وہ احساس جو شخصیت کو مضبوط کرتا ہے، اعتماد بڑھاتا ہے، اور زندگی کے آئندہ چیلنجز سے بہتر انداز میں نمٹنے میں مدد دیتا ہے۔

ایک ماں کو چاہیئے کہ وہ بیٹی کو اس عمر سے پہلے ہی، نہایت مؤثر اور مناسب طریقے سے سمجھائے کہ یہ ایک نارمل عمل ہے۔ گھبرانے، شرمانے یا ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ دنیا کی ہر عورت اس مرحلے سے گزرتی ہے، اور اس میں کسی طرح کی کمی یا غیر معمولی بات نہیں۔

بعض خواتین کو ماہواری سے چند دن قبل عجیب سی کیفیت محسوس ہوتی ہے—ڈپریشن، بےچینی، اسٹریس، دل کا ڈوبنا، اور رویے میں غیر معمولی تبدیلیاں۔ میڈیکل میں اسے Premenstrual Syndrome (PMS) کہا جاتا ہے۔ یہ ہارمونز کی تبدیلیوں کی وجہ سے ہوتا ہے، اور یہ بھی ایک عام اور قدرتی کیفیت ہے۔

کچھ خواتین کو ماہواری وقت پر نہیں آتی، یا کبھی رک کر آتی ہے، یا کئی دفعہ ایک ماہ آتی ہے اور دوسرے ماہ نہیں۔ اس کے پیچھے عموماً کئی عوامل ہوتے ہیں—سکول، کالج، یونیورسٹی یا جاب کا دباؤ، سسرال کا خوف، بچوں کی فکر، گھریلو تناؤ، یا کوئی بڑا ذہنی بوجھ۔ یہ سب جسم کے نظام میں تبدیلیاں پیدا کر سکتے ہیں۔

بدقسمتی سے ہمارے بعض “ڈاکٹرز، کوئیکس، میڈوائفز، نرسز یا لیڈی ہیلتھ ورکرز” فوری طور پر ہارمونز شروع کروا دیتے ہیں کہ بس بلیڈنگ ہو جائے۔ ہارمونز سے بلیڈنگ تو ہو جاتی ہے، مگر اگلے ماہ مسئلہ پھر وہیں کھڑا ہوتا ہے۔ پھر خواتین خود سے دوائیاں لینا شروع کر دیتی ہیں، اور آہستہ آہستہ جسم ان کا عادی ہو جاتا ہے، جس کے بغیر ماہواری آتی ہی نہیں۔

میری آپ سے درخواست ہے—اپنی صحت کو معمولی نہ سمجھیں۔ خود سے دوائیاں نہ لیں۔ کسی اچھے، مستند ڈاکٹر سے مکمل چیک اپ کروائیں تاکہ اصل مسئلے کی جڑ تک پہنچا جا سکے۔ علاج ہمیشہ علامت کا نہیں، وجہ کا ہونا چاہیئے۔


"When you understand your body with truth and tenderness, healing becomes easier, and fear slowly fades away."
— Dr Irfan Iqbal

21/11/2025

An Old Session…
حصہ اوّل

یہ سیشن والدین کے نام ہے۔ اسے دل کی آنکھ سے پڑھیئے گا، اور اپنے رشتے داروں، دوست احباب، ورک پلیس، اور سوشل کانٹیکٹس میں ضرور شیئر کیجیئے گا۔

جب والدین نے بیٹی کے لیے وقت لیا تو اُن کا پہلا جملہ یہی تھا کہ "وہ کسی ذہنی بیماری کا شکار ہو رہی ہے۔"

یہاں ایک بنیادی مشورہ، جو ڈاکٹرز، ماہرِ نفسیات، اور والدین تینوں کے لیے ہے، واضح طور پر بیان کرنا چاہوں گا:
جب بھی والدین اپنے بچے کے بارے میں بات کریں تو اُنہیں نرمی سے کہیے کہ "مثبت باتیں" بچے کے سامنے کریں، اور شکوے شکایات یا منفی گفتگو صرف اکیلے میں کریں۔
کیونکہ جب بچہ اپنے بارے میں منفی الفاظ سنتا ہے تو وہ اندر سے ٹوٹنے لگتا ہے، خود کو غلط سمجھنے لگتا ہے، اور چھوٹے چھوٹے مسائل بھی ذہنی بیماری جیسے محسوس ہونے لگتے ہیں۔

وہ لڑکی تیرہ سال کی تھی۔ گھبرائی ہوئی، اپنی ذات میں سمٹی ہوئی، سر جھکائے بیٹھی تھی۔ اُس کے چہرے پر وہ خاموش درد تھا جو اکثر کسی بڑے صدمے کے بعد رہ جاتا ہے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وقت رک گیا ہے اور وہ ابھی تک اُس صدمے کی گرفت سے آزاد نہیں ہو پائی۔

میں نے پہلے اسے ذہنی طور پر ریلیکس کرنے کے لیے ہلکی پھلکی، ادھر اُدھر کی باتیں کیں۔ اُس کے بارے میں پوچھا، فنی اور معلوماتی سوالات کیے تاکہ اس کی توجہ منتشر ہو اور دل کا بوجھ کچھ ہلکا ہو جائے۔
کچھ ہی دیر میں وہ گھبراہٹ سے نکل کر نسبتاً پُرسکون ہو گئی۔

پھر میں نے نرمی سے کہا:
"اب ہم دوست بن چکے ہیں نا؟ اور دوست تو ایک دوسرے سے اپنے چھوٹے چھوٹے سیکرٹس بھی شیئر کر لیتے ہیں…"

لڑکی خاموش ہو گئی۔ کچھ دیر سوچتی رہی۔
پھر آہستہ سے بولی:
"پچھلے تین ماہ سے مجھے ہر تین چار ہفتوں بعد عجیب سا محسوس ہوتا ہے۔ غصہ آتا ہے، ڈر لگتا ہے، کسی سے ملنے کا دل نہیں کرتا، بات کرنے کا دل نہیں ہوتا، بھوک نہیں لگتی، اور لگتا ہے لوگ مجھے عجیب نظروں سے دیکھ رہے ہیں…"

وہ کافی دیر تک دل ہلکا کرتی رہی۔
میں اس کی ہر بات پوری توجہ سے سنتا رہا۔
پھر جب وہ خاموش ہوئی تو میں نے نرمی سے کہا:

"دیکھیں بیٹا، میں آپ کا دوست بھی ہوں اور ڈاکٹر بھی۔ آج ہم کچھ باتیں مختلف انداز میں کریں گے۔ آپ اب بچی نہیں رہیں… آپ بڑی ہو گئی ہیں، سمجھدار ہو گئی ہیں، اور یہ سفر ایک نئے مرحلے میں داخل ہو رہا ہے۔"

اس نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور سر ہلا دیا۔

میں نے پوچھا:
"بیٹا، آپ کو periods کب سے ہو رہے ہیں؟ اگر میری بات سمجھ نہ آئی تو میں ابھی سمجھا دیتا ہوں۔
اس بارے میں کسی ڈاکٹر سے بات کرنے میں کبھی شرم محسوس نہ کریں۔ نہ یہ غلط بات ہے، نہ نامناسب، نہ ہی کوئی عیب۔"

لڑکی نے ذرا جھجکتے ہوئے مگر ہمت کر کے کہا:
"تین ماہ سے۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی یہ سب میرے ساتھ کیوں ہو رہا ہے۔ میرے ذہن میں بہت سوال ہیں۔ پوچھنا چاہتی تھی مگر کسی سے پتا نہیں کیسے پوچھوں۔ شرم آتی تھی… کسی ڈاکٹر نے بھی کبھی سمجھایا نہیں۔"

یہاں میرا کیس حل ہو چکا تھا۔
لڑکی کے تمام مسائل کی وجہ "ماہواری اور اس سے جڑے جسمانی و ذہنی تغیرات" تھے، جو اسے کسی نے سمجھائے ہی نہیں تھے۔

میں نے اُسے پیار سے ساری باتیں سمجھائیں—
ماہواری کب آتی ہے، کیا تبدیلیاں ہوتی ہیں، کس وقت کیا کرنا ہے، کن علامات پر فوراً مدد لینی ہے، اور کیسے باوقار انداز میں اس بارے میں بات کرنی ہے۔

میں نے اسے بتایا کہ یہ ایک بالکل "نیچرل فینامینا" ہے۔ قدرتی عمل ہے۔ اس میں نہ شرم ہے نہ کوئی عیب۔
اسے زندگی سے بھاگنے کی ضرورت نہیں، نہ لوگوں سے کترانے کی۔
یہ وہ جہان ہے جس سے ہر عورت گزرتی ہے۔
اور جب کبھی کوئی مسئلہ ہو، اپنی بڑی بہن، کزن، ماں یا ڈاکٹر سے بات ضرور کرنی چاہیئے۔

جو لڑکی گھبرائی ہوئی آئی تھی…
پریشانی سے بھری آنکھیں، لرزتی آواز…
وہی لڑکی جاتے وقت ایک مکمل، روشن اور جاندار مسکراہٹ کے ساتھ واپس گئی۔

:
Every misunderstood child carries a silent story—until someone listens with compassion.
—Dr Irfan Iqbal

21/11/2025

کیا آپ نے کبھی کسی بھی مقصد کے بغیر اپنے بہن بھائیوں کو کوئی تحفہ دیا ہے؟
کبھی والدین کو ایک چھوٹا سا سرپرائز دیا ہو؟
یا اپنے شوہر یا بیوی کے ہاتھ میں بنا کسی خاص دن کے، بنا کسی وجہ کے، بس محبت سے کوئی تحفہ تھمایا ہو؟

یاد رہے، یہاں “love birds” کی بات نہیں ہو رہی۔
یہ دل کی سخاوت ہے—وہ محبت جو روایتوں میں بھی تھی اور رشتوں کے سچے پن میں بھی۔


Sometimes the smallest unexpected gift becomes the biggest proof of love.
— Dr Irfan Iqbal

21/11/2025

Today’s session…

دیکھیے جی… ہم بدعائیں تو بڑے شوق سے دیتے ہیں، دل کی پوری بھڑاس نکال دیتے ہیں، مگر اپنے ہی اعمال کے انجام سے ذرا بھی نہیں گھبراتے۔
ہمیں لگتا ہے کہ زبان سے نکلے ہوئے سخت لفظ فوراً اثر کرتے ہیں… مگر دل سے اٹھنے والی خاموش بے عملی کا انجام کہیں زیادہ کڑوا ہوتا ہے۔
انسان کی زندگی تب ہی سنورتی ہے جب وہ اپنی نیت، اپنی زبان اور اپنے عمل—تینوں کی صفائی شروع کر دے۔
ورنہ بدعائیں دینا تو آسان ہے… اپنے کاموں کا بوجھ اُٹھانا سب سے مشکل۔

“Your actions echo louder than your curses.” — Dr Irfan Iqbal

21/11/2025

Today's Session…

دیکھیے جی، جب انسان اپنی زندگی کو، اپنی پریشانیوں کو، اور اپنے دل کے بوجھ کو سمجھنے لگتا ہے،
تو دوسروں کی خوشیوں سے نہ جلن ہوتی ہے،
نہ دل میں کوئی کڑواہٹ جنم لیتی ہے۔

جو بندہ اپنی ذات میں روشن ہو جائے،
وہ دوسرے کی روشنی سے کبھی اندھیرا محسوس نہیں کرتا۔

“A heart busy healing itself never envies the joy of others.”
— Dr Irfan Iqbal

21/11/2025

Today's session…

دیکھیں، جب ہم اپنی پرانی تصاویر دیکھ رہے ہوں اور خود کو اُس میں زیادہ خوش پائیں، تو ہمیں اپنی ذات پر دوگنا، رشتوں پر تین گنا، اور اپنے معاشی معاملات پر چار گنا زیادہ محنت بڑھا دینی چاہیے۔

"Sometimes the past whispers, reminding us to rise again."
— Dr Irfan Iqbal

21/11/2025

An old session…


آج صبح ایک سیشن تھا، اُس کا کچھ احوال بیان کرنا چاہتا ہوں… شاید ہمارے لہجوں میں بھی کچھ مٹھاس اُتر آئے، شاید ہمارے اندر بھی ادب و احترام جاگ اٹھے۔

“ڈاکٹر صاحب… آپ کی بات سننے اور ماننے کو دل کرتا ہے۔ میں نے آپ کو دیکھا نہیں، آج پہلی بار گفتگو ہو رہی ہے۔ مجھے اتنی عزت اور احترام تو میرے اپنے بچے بھی نہیں دیتے۔ آپ کے الفاظ اور آپ کے لہجے سے ادب ٹپکتا ہے۔”

یہ کہتے ہوئے وہ رونے لگے۔ ان کا لہجہ بے حد جذباتی تھا۔

یہ ایک والد کا سیشن تھا۔ ان کے بیٹے نے ہی ان سے میری بات کروائی تھی کہ گھر میں کچھ تنازعات ہیں، آپ مدد کر دیجیے۔

میں صبح پانچ بجے سے اسی بات میں گم ہوں کہ اگر وہ میرے ادب و احترام پر آبدیدہ ہو گئے… اگر وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ “آپ کی بات ماننے کو دل کر رہا ہے”… تو پھر اپنے ہی بچے اگر اپنی گفتگو، الفاظ اور لہجوں میں تھوڑا سا احترام، تھوڑی سی نرمی اور تھوڑا سا وقار شامل کر لیں… تو کیا والدین انکار کر دیں گے؟

اگر کر بھی دیں… تو چند دن کی محبت بھری ضد، میٹھے لہجے اور ادب کی نمی والدین کے دلوں کو نرم کر دیتی ہے۔ نہ بھی مانیں، تو کم از کم وہ بات سننے کے لیے تیار ضرور ہو جاتے ہیں۔

اپنے پیاروں سے بات کرنے کا گُر سیکھیں۔
الزام دینے سے پہلے اپنی زبان کو ادب کا پانی پلائیں۔
اپنے لہجوں کو ریشم جیسا نرم کریں۔
آنکھیں بچھا کر، سر جھکا کر، ادب سے، التجا سے، عاجزی سے، انکساری سے، تعاون اور مٹھاس کے ساتھ بات کیجیے… پھر کمال دیکھئے۔

میری جنت کے دروازے—میرے دوست، میرے عزیز، میرے بابا—جب بھی میں ان سے بات کرتا ہوں، سر جھکا کر، بے حد احترام اور التجا سے بات کرتا ہوں… اور وہ میری بات کبھی نہیں ٹالتے۔
میری غیر موجودگی میں بھی کہتے ہیں:
“میرا پُتر کدی بدتمیزی نئیں کر دا”
(میرا بیٹا کبھی بدتمیزی نہیں کرتا۔)

21/11/2025

Today's session…

دیکھیں جی، اگر کوئی انسان تکلیف میں ہے، درد محسوس کر رہا ہے، تو آپ اگر پیار اور درد مندی سے بات ہی نہیں کر سکتے، تو مجھے بتائیے… پھر آپ کے تعلق، آپ کے رشتے کا آخر فائدہ کیا رہ جاتا ہے؟

دکھ اور درد کے لمحات میں ہی انسان کو اپنے قریبی رشتوں کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔




❤️❤️
21/11/2025

❤️❤️

Aslam o alikum and very good morning everyone!!Have a little laugh and blessed day!! 😊😇💐
21/11/2025

Aslam o alikum and very good morning everyone!!
Have a little laugh and blessed day!! 😊😇💐

20/11/2025

Old Session
Part 3

(مناہل کی شفا کی کہانی — The Healing Journey)

تین ہفتے گزر چکے تھے۔
سردی اب مزید بڑھ چکی تھی۔
اسلام آباد کی فضا میں دھند اور نمی ایسے گھل رہی تھی
جیسے کسی اداس کہانی کا پرانا ورق۔

دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی—
میں نے “آئیں” کہا تو
مناہل اپنی خالہ کے ساتھ اندر داخل ہوئی۔

آج وہ پہلے سے مختلف تھی۔
بال سلیقے سے بندھے ہوئے،
آنکھوں میں خوف نہیں…
دھیرے دھیرے اعتماد کی کرنیں،
اور ہاتھ میں ایک چھوٹا سی گلابی نوٹ بک۔

میں نے مسکرا کر کہا:
“آؤ گڑیا… آج کیا نیا لائی ہو؟”

وہ میرے سامنے آکر بیٹھ گئی،
اپنی نوٹ بک کھولی
اور دھیمے لہجے میں کہنے لگی:

“انکل… میں نے آپ کے کہنے پر
اپنی Feelings Diary بنائی ہے…”

میرے دل نے بے اختیار کہا:
سوہنیا ربّا… یہ بچی ٹھیک ہو رہی ہے۔

میں نے نرمی سے پوچھا:
“اچھا… آج کیا لکھا گڑیا نے؟”

اس نے آہستہ آہستہ اپنی تحریر پڑھنا شروع کی:

Page 1 — “میں اچھی ہوں”

“آج میں نے صبح آئینے میں دیکھا،
اور پہلی بار خود کو برا نہیں لگا۔
میں مناہل ہوں…
ماما کی آنکھوں والی…
اور بابا کے دل والی۔”

میری آنکھوں کے پیچھے اک نمی سی اتر گئی۔
یہ وہ جملہ تھا

جب انسان خود میں لوٹ رہا ہوتا ہے جو سب اس سے چھن گیا ہو۔
میں نے ان کر اس سے کہا :
“شاباش… یہ بہت بہادری کی بات ہے۔”

مناہل نے ایک اور صفحہ کھولا۔

Page 4 — “خالہ میری دوست ہیں”

“خالہ نے میرے لئے چپس بنائے تھے۔
مجھے بہت مزہ آیا۔
میں نے اُنہیں بتایا کہ میں انکل سے بات کرتی ہوں
اور وہ ہنسی تھیں…
اچھی لگ رہی تھیں۔”

میں نے خالہ کی طرف دیکھا—
وہ ضبط کے باوجود مسکرا رہی تھیں۔

اس نے پھر صفحہ پلٹا۔

Page 7 — “میں روتی ہوں، تو ٹھیک ہے”

“میں کل بہت روئی تھی۔
انکل نے کہا تھا رونا برا نہیں ہوتا۔
میں رو رہی تھی تو بابا یاد آئے۔
میں نے رو کر اپنے دل کو ہلکا کیا۔
اور پھر مجھے نیند بھی اچھی آئی."

میں نے آہستہ سے سر ہلایا۔
Healing begins with tears—
اور یہ بچی اس راستے پر قدم رکھ چکی تھی۔

پھر اس نے آخری صفحہ کھولا۔

Page 11 — “میں بالک بھی غلط نہیں تھی”

“میں نے سوچا…
میں نے کچھ بھی غلط نہیں کیا تھا۔
ماما بابا نے جھگڑا کیا تھا…
میں نے نہیں۔
میں بری نہیں ہوں۔
میں بوجھ نہیں ہوں۔
میں مناہل ہوں۔
اور میں کسی کی غلطی نہیں ہوں۔”

یہ وہ جملے تھے
جو زخم کو بھر دیتے ہیں ، جو بچے برسوں تک پوچھتے رہتے ہیں
“میرا کیا قصور تھا؟”

اور آج—
اس نے خود جواب دے دیا تھا۔

میں نے مسکرا کر کہا:
“گڑیا، تم دنیا کی بہادر ترین بچیوں میں سے ایک ہو۔”

مناہل نے اپنی نوٹ بک بند کی
اور اچانک ایک معصوم سا سوال کیا:

“انکل…
اگر میں اتنی بہادر ہوں…
تو کیا کبھی میری ماما اور بابا کو بھی احساس ہو گا
کہ اُنہوں نے مجھے بہت یاد کروایا ہے؟”

میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھا اور کہنے لگا

“ہاں گڑیا… کبھی نہ کبھی۔
انسانوں کو اپنی غلطیوں کا احساس
بہت دیر سے ہوتا ہے…
مگر ہوتا ضرور ہے۔
اور جب وہ پچھتائیں گے—
تم تب تک
اتنی مضبوط ہو چکی ہو گی
کہ اُن کے پچھتاوے سے نہیں ٹوٹو گی۔”

وہ ہلکے سے مسکرائی،
ایسے جیسے اس نے بیتے کل کی نہیں، بلکہ آنے والے کل کے مظبوط دنوں کو بھانپ لیا ہو۔

خالہ نے کہا:
“ڈاکٹر صاحب، یہ اب اپنی عمر سے بڑی باتیں کرتی ہے۔
جیسے بچی نہیں…
بہت پرانی روح ہو کوئی …”

میں نے دل میں کہا:
زخم انسان کو جلد بڑا کر دیتے ہیں۔

مناہل نے جاتے ہوئے مجھ سے کہا:
“انکل… کیا میں کل بھی آ سکتی ہوں؟
مجھے آپ سے بات کر کے
اپنے سارے سوالوں میں…
تھوڑا سا سکون ملتا ہے۔”

میں نے اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھ کر کہا:
“ہاں گڑیا… جب تک دل چاہے آ سکتی ہو۔
جو ٹوٹ کر بکھرے ہوتے ہیں—
انہیں چھوڑا نہیں جاتا،
بس تھاما جاتا ہے۔”

وہ چلی گئی۔
دروازہ بند ہوا۔
اور کچھ دیر
کمرے کی خاموشی میں
میں نے دل ہی دل میں کہا:

اے سوہنے رب تیرا شکر ہے کہ
ایک معصوم پھول"
آج تھوڑا سا ٹھیک ہوا ہے۔”

Address

Grafton Street
Dublin

Telephone

+92518467276

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Mental Health - Psychiatry posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on LinkedIn
Share on Pinterest Share on Reddit Share via Email
Share on WhatsApp Share on Instagram Share on Telegram

Category