Sultan Hospital, Jauharabad

Sultan Hospital, Jauharabad medical specialist, child specialist, ultrasound specialist radiologist

02/10/2025
Happy follow-versary to my awesome followers. Thanks for all your support! Malik Yasir Abrar, عامر اقبال
02/10/2025

Happy follow-versary to my awesome followers. Thanks for all your support! Malik Yasir Abrar, عامر اقبال

02/10/2025

*بد دعا کیسے تباہی پھیرتی ہے۔؟*

اگر آپ اسلام آباد میں رہتے ہیں تو راول ٹاؤن چوک کو اچھی طرح ہوں گے۔ یہ چوک کلب روڈ پر سرینا ہوٹل سے فیض آباد کی طرف جاتے ہوئے آتا ہے۔ چوک میں ایک پٹرول پمپ اور ایک پرانی مسجد ہے۔ میں 1993ء میں اسلام آباد آیا تو مسجد کے ساتھ ایک چھوٹا سا گاؤں ہوتا تھا۔ گاؤں کی زمینیں ایکوائر ہو چکی تھیں، امیر لوگ زمینوں کی قیمتیں وصول کر کے بڑے بڑے سیکٹروں اور فارم ہاؤسز میں شفٹ ہو چکے تھے لیکن وہ غرباء پیچھے رہ گئے تھے جن کی زمینوں کے پیسے امراء کھا گئے یا پھر وہ جو گاؤں کے کمی کمین تھے اور ان کے نام پر کوئی زمین نہیں تھی، حکومت نے انہیں کوئی معاوضہ نہیں دیا۔

دنیا میں ان کا کوئی ٹھکانا نہیں تھا، لہٰذا وہ اپنے ٹوٹے پھوٹے گھروں میں مقیم تھے۔ سی ڈی اے اور ضلعی انتظامیہ نے ان کو بے شمار نوٹس دیے مگر مکینوں کا کہنا تھا ”ہم کہاں جائیں‘ آپ ہمیں بتا دیں ہم وہاں چلے جاتے ہیں“ حکومت ظاہر ہے ایک ٹھنڈی ٹھار مشین ہوتی ہے، اس کا دل ہوتا ہے اور نہ ہی جذبات، لہٰذا حکومت جواب میں ایک اور نوٹس بھجوا دیتی تھی۔ نوٹس بازی کے اس عمل کے دوران بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی حکومتیں آتی اور جاتی رہیں۔ ضلعی انتظامیہ نے جب بھی سویلین گورنمنٹ سے آپریشن کی اجازت مانگی، حکومت نے اجازت نہ دی۔ انتظامیہ ایک بار مشینری لے کر وہاں پہنچ گئی، چودھری شجاعت حسین اس وقت وزیر داخلہ تھے، ان کو اطلاع ملی تو وہ فوراً وہاں پہنچے اور ذاتی طور پر آپریشن رکوایا۔

لیکن پھر 1999ء آ گیا اورجنرل پرویز مشرف حکمران بن گئے۔ ان کا قافلہ روز اس چوک سے گزر کر وزیراعظم ہاؤس آتا تھا۔ جنرل مشرف کی طبع نازک پر غریبوں کی وہ جھونپڑیاں ناگوار گزرتی تھیں۔ وہ ایک دن گزرے، کھڑکی سے باہر دیکھا اور آپریشن کا حکم جاری کر دیا۔ میں ان دنوں شہزاد ٹاؤن میں رہتا تھا اور روزانہ راول چوک سے گزرتا تھا۔ میں نے دوپہر کو دفتر جاتے ہوئے اپنی آنکھوں سے وہ آپریشن دیکھا۔ وہ لوگ انتہائی غریب تھے، ان کے گھروں میں ٹوٹی چار پائیوں، پچکے ہوئے برتنوں اور پھٹی رضائیوں کے سوا کچھ نہیں تھا۔ انتظامیہ نے وہ بھی ضبط کر لئے۔ گاؤں چند گھنٹوں میں صاف ہو گیا۔ زمین کو فارم ہاؤسز میں تبدیل کر دیا گیا اور وہ فارم ہاؤسز امراء نے خرید لئے۔

صرف مسجد اور اس کے ساتھ چند قبریں بچ گئیں۔ وہ قبریں بھی اب کم ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ یہ کہانی یہاں پر ختم ہو گئی۔ 2007 ء میں اس کہانی کا ایک نیا پہلو میرے سامنے آیا۔ ملک میں اس وقت جنرل پرویز مشرف کے خلاف تحریک چل رہی تھی۔ ایک روز ایک صاحب وہیل چیئر پر میرے پاس تشریف لائے۔ وہ ٹانگوں سے معذور تھے اور چہرے سے بیمار دکھائی دیتے تھے، میں انہیں بڑی مشکل سے گھر کے اندر لا سکا۔ وہ مجھے اپنی کہانی سنانا چاہتے تھے، ان کا کہنا تھا "راول چوک کا وہ آپریشن انہوں نے کیا تھا، وہ اسے لیڈ کر رہے تھے"

میں خاموشی سے ان کی داستان سنتا رہا۔ ان کا کہنا تھا: ان کے تین بچے تھے، دو لڑکے اور ایک لڑکی، شادی پسند کی تھی۔ وہ سی ایس پی آفیسر تھے، کیریئر بہت برائیٹ تھا، سینئر اس کی کارکردگی سے بہت مطمئن تھے، ان کا اپنا خیال بھی تھا وہ بہت اوپر تک جائیں گے۔ وہ رٹ آف دی گورنمنٹ کے بہت بڑے حامی تھے‘ وہ سمجھتے تھے قانون پر سو فیصد عمل ہونا چاہیے اور جو شخص قانون کے راستے میں حائل ہو، ریاست کو اس کے اوپر بلڈوزر چلا دینا چاہیے چنانچہ جنرل مشرف نے جب راول چوک کے مکانات گرانے کا حکم دیا تو یہ ذمہ داری انہیں سونپی گئی۔ یہ فورس لے کر وہاں پہنچے اور گھر گرانا شروع کر دیے۔

لوگ مزاحم ہوئے، پولیس نے ڈنڈے برسائے، لوگوں کو گرفتار بھی کیا اور ایک آدھ موقع پر ہوائی فائرنگ بھی کرنا پڑی، بہرحال قصہ مختصر آپریشن مکمل ہو گیا اور انتظامیہ نے ملبہ اٹھانا شروع کر دیا۔ وہ رکے اور پھر بھولے: آپریشن کے بعد اینٹوں کے ایک ڈھیر پر درمیانی عمر کی ایک خاتون بیٹھی تھی، وہ ملبے سے نہیں اٹھ رہی تھی، اس کا صرف ایک مطالبہ تھا، وہ کہہ رہی تھی کہ وہ بس ایک بار آپریشن کرنے والے صاحب سے ملنا چاہتی ہے۔ انتظامیہ عموماً ایسے مواقع پر خواتین سے زبردستی نہیں کرتی چنانچہ اہلکاروں نے انہیں بتایا اور وہ خاتون کے پاس چلے گئے۔

خاتون نے ان کی طرف دیکھا اور کہا ”صاحب! یہ آپریشن آپ نے کیا؟“ میں نے جواب دیا ”ہاں“ اس نے جھولی پھیلائی، آسمان کی طرف دیکھا اور بولی ”یا پروردگار! اس شخص نے میرے اور میرے بچوں کے سر سے چھت چھینی، یا اللہ اسے اور اس کے بچوں کو برباد کر دے“ میں اس وقت جوان تھا، میں نے منہ دوسری طرف پھیر دیا۔ اس خاتون نے اس کے بعد کہا: ”یا اللہ! ہم سے ہمارے گھر چھیننے والے تمام لوگوں کو برباد کر دے“ اس نے اس کے بعد اپنی پوٹلی اٹھائی، اپنے بچے ساتھ لیے اور چلی گئی۔

وہ رکا، اس نے اپنے آنسو پونچھے اور بولا: جاوید صاحب! آپ یقین کریں، وہ دن ہے اور آج کا دن ہے، میں بحرانوں سے نہیں نکل سکا۔ میں اس پوٹلی والی کی بددعا کا نشانہ بن گیا۔ میرا ایکسیڈنٹ ہوا، میری بیوی اور میری بچی مر گئی، میری ٹانگیں کٹ گئیں۔ میرے دونوں بیٹے ایک ایک کر کے بیمار ہوئے، میں نے اپنی ساری جمع پونجی ان کے علاج پر لگا دی لیکن وہ فوت ہو گئے۔ مجھے سسرال سے گھر ملا تھا، وہ بک گیا۔ میں نے اپنا گھر بنایا تھا، وہ 2005ء کے زلزلے میں گر گیا۔

محکمے نے میرے اوپر الزام لگایا، میری انکوائری شروع ہوئی، میں ڈس مس ہوا اور بے گناہی کے باوجود آج تک بحال نہیں ہو سکا۔ میں مقدمے پر مقدمہ بھگت رہا ہوں، میں 38 سال کی عمر میں شوگر، بلڈ پریشر اور دل کا مریض بھی بن چکا ہوں اور میرے تمام رشتے دار اور دوست بھی میرا ساتھ چھوڑ چکے ہیں۔ میں دل سے سمجھتا ہوں مجھے اس عورت کی بددعا لگی تھی۔ حکومت، میرا محکمہ اور آرڈر دینے والے لوگ، تینوں پیچھے رہ گئے لیکن میں برباد ہو گیا۔میں آج سوچتا ہوں تو میں اپنے آپ سے پوچھتا ہوں‘میں کتنا بے وقوف تھا! میں نے جنرل مشرف کے حکم پر غریبوں کے سروں سے چھت چھین لی.

وہ رکا اور پھر بولا: آپ کو میری باتیں عجیب لگیں گی لیکن میں نے تحقیق کی ہے، اس آپریشن کا حکم دینے والا ہر شخص میری طرح ذلیل ہوا، ان میں سے آج کوئی شخص اپنے گھر میں آباد نہیں، وہ سب اولاد اور بیویوں کے بغیر عبرت ناک اور بیمار زندگی گزار رہے ہیں یہاں تک کہ اس وقت کے چیئرمین سی ڈی اے کی ساری پراپرٹی بھی بک گئی اور اس کی اولاد بھی دربدر ہو گئی، وہ بھی عبرت کا نشان بن کر آخری سانسیں لے رہا ہے۔ہم سب کو اس عورت کی آہ کھا گئی.

میرا تجربہ اور میرا مشاہدہ ہے دنیا کا ہر وہ شخص جو کسی کے سر سے چھت اور اس کا روزگار چھینتا ہے یا پھر کسی معزز شخص کو بے عزت کرنے کی کوشش کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس سے سب کچھ چھین لیتا ہے اور وہ شخص اس کے بعد روز مرتا اور روز جیتا ہے مگر اس کی سزا ختم نہیں ہوتی لہٰذا آپ جو دل چاہے کریں، لیکن کسی کی بددعا نہ لیں۔ دنیا کے تمام عہدے، کرسیاں اور تکبر عارضی ہوتے ہیں، یہ پیچھے رہ جاتے ہیں اور دنیا اور آخرت دونوں میں صرف پوٹلی والیوں کی دعائیں یا پھر بد دعائیں کام کر جاتی ہیں۔

۔۔جاوید چودھری۔۔

Thanks for being a top engager and making it on to my weekly engagement list! 🎉 Prince Burana, Muhammad Asif, Aziz Ur Re...
23/09/2025

Thanks for being a top engager and making it on to my weekly engagement list! 🎉 Prince Burana, Muhammad Asif, Aziz Ur Rehman, Hamza Aslam, Muhammad Fayyaz, Irfan Haider Sajan Kalera, Zafar Iqbal, Muhammad Abubakar, Mian Saad Mushtaq, Muhammad Zaid Langah

23/09/2025

I got over 100 reactions on one of my posts last week! Thanks everyone for your support! 🎉

23/09/2025

خفیہ ایجنٹ😅😅😅
ایک خفیہ ایجنسی میں ایک آسامی خالی ہوئی۔ خفیہ ای میل پر بڑی تعداد میں درخواستیں آئیں ۔

ایجینٹوں نے بہت تحقیق کے بعد صرف دو مرد اور ایک عورت کا انتخاب کیا۔ تینوں کے بہت سے امتحان لئے گئے اور انہیں یہ بات ذہن نشین کرائی گئی کہ انہیں جذبات سے یکسر عاری ہو کر کسی روبوٹ کی طرح احکام پر عمل کرنا ہوگا۔ کسی سوال کی کوئی گنجائش نہی‍ں نکلے گی۔

آخری امتحان کے لئے انہیں اپنے اپنے شریک حیات کے ساتھ طلب کیا گیا۔ جنہیں الگ کمرے میں بھیج دیا گیا ۔

ممتحن نے پہلے مرد امیدوار کو بتیس بور کا پستول تھما کر کہا،
”جاؤ اور اپنی بیوی کو گولی مار دو“

”یہ کیسا احمقانہ مذاق ہے۔ میں اپنی بیوی کو گولی نہیں مار سکتا“ امیدوار نے غصے سے کہا

”اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ تم مسترد کئے جاتے ہو۔ جاؤ چلے جاؤ“ ممتحن نے سرد اور حتمی لہجے میں کہا

دوسرے امیدوار کو بھی پستول تھما کر بند کمرے میں بھیجا۔ وہ پستول لے کر کمرے میں گیا۔ پانچ منٹ کمرے میں خاموشی رہی۔ پھر دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر نم دیدہ سے باہر آئے۔
مرد امیدوار نے کہا
”میں نے اپنا دل بہت مضبوط کیا مگر میں اپنی بیوی کو گولی نہیں مار سکتا۔“
وہ پستول واپس کر کے بیوی کے ساتھ چلا گیا۔

اب خاتون امیدوار کی باری تھی۔ وہ پستول لے کر اندر گئی۔ دروازہ بند ہوتے ہی فائر کی آوازیں آئیں۔ پھر خوب دھما چوکڑی اور چیخ و پکار کی آوازیں آنا شروع ہوگئیں۔ چند منٹ بعد سناٹا چھا گیا۔

تھوڑی دیر بعد وہ عورت بکھرے بالوں اور زخمی چہرے کے ساتھ باہر آئی اور آتے ہی غصے سے چیخی۔
”پستول میں ساری گولیاں نقلی تھیں۔ میں نے کرسی مار مار کر بہت مشکل سے کمینے کو ٹھکانے لگایا ہے“
😅😅😅




21/09/2025

*ایک دل چسپ کہانی*

ایک آدمی کی بیوی چالیس سال کی عمر میں انتقال کر گئی۔ جب اس کے دوستوں اور رشتہ داروں نے دوسری شادی کا مشورہ دیا تو اس نے جواب دیا کہ اس کی بیوی کا سب سے بڑا تحفہ ایک بیٹے کا ہونا ہے، اور وہ اس کے ساتھ اپنی زندگی گزارے گا۔
بیٹے کی تربیت
جب بیٹا بڑا ہوا، تو اس نے اپنے تمام کاروبار کی ذمہ داریاں بیٹے کو سونپ دیں۔ وہ اکثر اپنے دفتر میں یا دوست کے دفتر میں وقت گزارنے لگا۔
تنہائی کا احساس
بیٹے کی شادی کے بعد، وہ آدمی زیادہ تنہا محسوس کرنے لگا۔ اس نے اپنے گھر کا مکمل کنٹرول اپنی بہو کے حوالے کر دیا۔
ایک دن کا واقعہ
بیٹے کی شادی کے ایک سال بعد، وہ دوپہر کا کھانا کھا رہا تھا جب بیٹا بھی دفتر سے آیا۔ ہاتھ دھو کر کھانے کے لیے تیار ہو رہا تھا۔ بیٹے نے سنا کہ والد نے کھانے کے بعد دہی مانگی، تو بیوی نے جواب دیا کہ آج گھر میں دہی نہیں ہے۔
کھانا کھانے کے بعد، والد باہر چہل قدمی کے لیے نکل گیا۔ کچھ دیر بعد، بیٹا اپنی بیوی کے ساتھ کھانا کھانے بیٹھ گیا۔ کھانے کے برتن میں دہی موجود تھا، مگر بیٹے نے بغیر کسی ردعمل کے کھانا کھایا اور پھر دفتر چلا گیا۔
حیرت انگیز خبر
کچھ دنوں بعد، بیٹے نے اپنے والد سے کہا، "آج آپ کو عدالت جانا ہے اور آپ کی شادی ہو رہی ہے!" والد نے حیرت سے اپنے بیٹے کی طرف دیکھا اور کہا، "بیٹا! مجھے اب شادی کی ضرورت نہیں، اور میں تم سے اتنی محبت کرتا ہوں اور اب تمہیں بھی ماں کی ضرورت نہیں، تو پھر میری دوبارہ شادی کیوں؟"
حقیقت کا انکشاف
لڑکے نے جواب دیا، "بابا، میں اپنی ماں کو آپ کے لیے نہیں لا رہا، نہ ہی ایک ساس کو اپنی بیوی کے لیے لا رہا ہوں! میں صرف آپ کے لیے دہی کا انتظام کر رہا ہوں! کل سے میں آپ کی بہو کے ساتھ کرائے کے گھر میں رہوں گا اور آپ کے دفتر میں ایک ملازم کی حیثیت سے کام کروں گا تاکہ آپ کی بہو دہی کی قیمت جان سکے۔"
والدین کی اہمیت
یہ کہانی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ والدین ہمارے لیے اے ٹی ایم کارڈز ہو سکتے ہیں، لیکن وہ ہماری مرضی پر نہیں بلکہ ہم ان کی مرضی پر چلتے ہیں۔ دنیا کے تمام والدین کو زندہ باد! ہر گھر میں ایسے مثالی طرز عمل اپنائے جانے چاہئیے...

https://youtu.be/nJ1pdoIEbj0?si=r_VL88dEcf6keRY_HPV اور سروائیکل کینسر کے بارے بنیادی معلومات کیا بیماری کے خلاف لگائی ج...
16/09/2025

https://youtu.be/nJ1pdoIEbj0?si=r_VL88dEcf6keRY_

HPV اور سروائیکل کینسر کے بارے بنیادی معلومات
کیا بیماری کے خلاف لگائی جانے والی ویکسین کا بانجھ پن سے کوئی تعلق ہے ؟
یہ صرف 9 سے 13 سال کی عمر کی بچیوں کو کیوں لگائی جاتی ہے ؟
کیا یہ کسی عالمی سازش کا حصہ ہے؟

یہ جاننے کے لئے ہماری یہ ویڈیو ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔ 🫡🥰💐💝

مزید ایسی ویڈیوز دیکھنے, تحاریر پڑھنے کے لئے اور سب سے بڑھ کے ہمارے ساتھ جڑے رہنےکے لیے ہمارے یو ٹیوب چینل کو سبسکرائب کریں جس کا لنک یہ ہے

https://www.youtube.com/

ہمارے وٹس ایپ چینل کو یہاں فالو کریں

Follow the Sultan Hospital Jauharabad سلطان ہسپتال جوہرآباد channel on WhatsApp: https://whatsapp.com/channel/0029VannsNrAYlUSwubmbz2a

جب کہ ہمارے فیس بک پیج کو آپ یہاں جا کر لائک اور فالو کر سکتے ہیں

https://www.facebook.com/SultanHospital1985?mibextid=ZbWKwL

جب کہ ہمارے ٹک ٹاک اکاؤنٹ کو آپ یہاں فالو کر سکتے ہیں۔

tiktok.com/

ہیومن پیپلوما وائرس اور سروائیکل کینسر کے بارے بنیادی معلومات کیا بیماری کے خلاف لگائی جانے والی ویکسین کا بانجھ پن سے کوئی تعلق ہے ؟ یہ صرف 9 سے 13 سال کی ع...

12/09/2025

پاکستان کا راج اور اسرائیل کے اوقات۔۔۔تاریخ کی دہلیز پر کچھ قومیں آتی ہیں اور مٹ جاتی ہیں، لیکن کچھ ایسی بھی ہوتی ہیں جو اپنے لہو سے اوراقِ صفا ہستی لکھ کر امر ہو جاتی ہیں۔ پاکستان انہی میں سے ہے۔ یہ مٹی قربانیوں کی خوشبو سے بنی، یہ پرچم لہو سے رنگا، اور یہ قوم عہد و وفا کی داستان ہے۔

قائداعظم محمد علی جناحؒ نے صاف کہا تھا:
“اسرائیل ایک غاصب ریاست ہے، ہم اسے کبھی تسلیم نہیں کر سکتے۔”
یہ صرف ایک سیاسی اعلان نہیں تھا، بلکہ ایک نظریاتی فیصلہ تھا، جس نے پاکستان کی پالیسی ہمیشہ کے لیے طے کر دی۔ فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کی حمایت پاکستان کے ایمان کا حصہ بن گئی۔

یہی وجہ ہے کہ پاکستان اور اسرائیل کی دشمنی زمینی ٹکڑے پر نہیں، بلکہ حق و باطل کی بنیاد پر ہے۔
پاکستانی شاہینوں کا عالمی راج
دنیا جانتی ہے کہ بھارتی فضائیہ کو ہم نے ہمیشہ عبرت کا نشان بنایا، لیکن ہماری تاریخ صرف بھارت تک محدود نہیں۔ 1973 کی عرب – اسرائیل جنگ میں جب شام اور اردن کی فضاؤں میں پاکستانی پائلٹ داخل ہوئے، تو آسمان لرز گیا۔ چند منٹوں میں ہمارے شاہینوں نے اسرائیلی طیارے زمین بوس کر دیے۔

یہ وہ لمحہ تھا جب اسرائیلی جنرلوں نے خود کہا:
“Pakistani pilots are the only ones we fear in the skies.”
(ہم آسمان پر صرف پاکستانی پائلٹس سے خوف زدہ ہیں۔)

یہ اعتراف دنیا کی سب سے طاقتور فضائیہ کے منہ سے نکلا، اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان کے شاہینوں کا راج صرف خطے پر نہیں، بلکہ پوری دنیا پر ہے۔
ہم نے ہمیشہ دوسروں کے لیے نقصان اٹھایا لیکن جھکے نہیں۔ کشمیر کی آزادی کی جنگ ہو یا فلسطین کا مسئلہ — پاکستان نے کبھی اپنے مفاد کو ترجیح نہیں دی۔ ہم دنیا کی وہ واحد ریاست ہیں جس نے اصولوں کے لیے طاقتوروں کو للکارا۔ اور آج بھی ہم اسی روش پر قائم ہیں۔

آج اسرائیل پاکستان کو دھمکیاں دیتا ہے؟
یاد رکھو! یہ وہ قوم ہے جس کے شاہین زمین پر بھی اور فضاؤں میں بھی لرزانے آئے ہیں۔ ہمارا ریکارڈ تاریخ کے اوراق پر لکھا ہے۔ ہم نے بھارت کی بارہا بینڈ بجائی، لیکن ساتھ ہی اسرائیل کو بھی وہ گھاؤ دیے جنہیں وہ آج تک یاد کرتا ہے۔
یہ کالم ایک اعلان ہے:
پاکستان کا پرچم حق کی علامت ہے، پاکستانی قوم غیرت کا استعارہ ہے، اور ہمارے شاہینوں کا راج ہمیشہ سے دنیا پر ہے — اور ہمیشہ رہے گا۔

ان شاءاللہ ✌✌✌

10/09/2025

دو نوجوان سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی محفل میں داخل ہوتے ہی محفل میں بیٹھے ایک شخص کے سامنے جا کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اور اس کی طرف انگلی کر کے کہتے ہیں۔
"یا عمر ؓ یہ ہے وہ شخص!"

سیدنا عمر ؓ ان سے پوچھتے ہیں۔
"کیا کیا ہے اس شخص نے؟"

"یا امیر المؤمنین، اس شخص نے ہمارے باپ کو قتل کیا ہے۔"

"کیا کہہ رہے ہو، اس نے تمہارے باپ کو قتل کیا ہے؟"
سیدنا عمرؓ ان سے پوچھتے ہیں۔

سیدنا عمر ؓ پھر اس شخص سے مخاطب ہو کر پوچھتے ہیں۔
"کیا تو نے ان کے باپ کو قتل کیا ہے؟"

وہ شخص کہتا ہے :
"ہاں امیر المؤمنین، مجھ سے قتل ہو گیا ہے ان کا باپ۔"

"کس طرح قتل کیا ہے؟"
سیدنا عمرؓ پوچھتے ہیں۔

"یا عمرؓ، ان کا باپ اپنے اونٹ سمیت میرے کھیت میں داخل ہو گیا تھا، میں نے منع کیا، باز نہیں آیا تو میں نے ایک پتھر دے مارا۔ جو سیدھا اس کے سر میں لگا اور وہ موقع پر مر گیا۔"

"پھر تو قصاص دینا پڑے گا، موت ہے اس کی سزا۔"
سیدنا عمرؓ کہتے ہیں۔

نہ فیصلہ لکھنے کی ضرورت، اور فیصلہ بھی ایسا اٹل کہ جس پر کسی بحث و مباحثے کی بھی گنجائش نہیں۔ نہ ہی اس شخص سے اس کے کنبے کے بارے میں کوئی سوال کیا گیا ہے، نہ ہی یہ پوچھا گیا ہے کہ تعلق کس قدر شریف خاندان سے ہے؟ نہ ہی یہ پوچھنے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے کہ تعلق کسی معزز قبیلے سے تو نہیں؟ معاشرے میں کیا رتبہ یا مقام ہے؟ ان سب باتوں سے بھلا سیدنا عمر ؓ کو مطلب ہی کیا ہے؟؟؟ کیوں کہ معاملہ اللہ کے دین کا ہو تو عمر ؓپر کوئی بھی اثر انداز نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر عمرؓ کو روک سکتا ہے۔ حتی کہ سامنے عمرؓ کا اپنا بیٹا ہی کیوں نہ قاتل کی حیثیت سے آ کھڑا ہو، قصاص تو اس سے بھی لیا جائے گا۔

وہ شخص کہتا ہے۔
"اے امیر المؤمنین: اس کے نام پر جس کے حکم سے یہ زمین و آسمان قائم کھڑے ہیں۔ مجھے صحراء میں واپس اپنی بیوی بچوں کے پاس جانے دیجیئے تا کہ میں ان کو بتا آؤں کہ میں قتل کر دیا جاؤں گا۔ ان کا اللہ اور میرے سوا کوئی آسرا نہیں ہے، میں اس کے بعد واپس آ جاؤں گا۔"

سیدنا عمر ؓ کہتے ہیں:
"کون تیری ضمانت دے گا کہ تو صحراء میں جا کر واپس بھی آ جائے گا؟"

مجمع پر ایک خاموشی چھا جاتی ہے۔ کوئی بھی تو ایسا نہیں ہے جو اس کا نام تک بھی جانتا ہو۔ اس کے قبیلے، خیمے یا گھر وغیرہ کے بارے میں جاننے کا معاملہ تو بعد کی بات ہے۔

کون ضمانت دے اس کی؟ کیا یہ دس درہم کے ادھار یا زمین کے ٹکڑے یا کسی اونٹ کے سودے کی ضمانت کا معاملہ ہے؟ ادھر تو ایک گردن کی ضمانت دینے کی بات ہے، جسے تلوار سے اڑا دیا جانا ہے۔

اور کوئی ایسا بھی تو نہیں ہے جو اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر عمرؓ سے اعتراض کرے، یا پھر اس شخص کی سفارش کی لئے ہی کھڑا ہو جائے۔ اور کوئی ہو بھی نہیں سکتا جو سفارشی بننے کی سوچ سکے۔

محفل میں موجود صحابہ ؓ پر ایک خاموشی سی چھا گئی ہے، اس صورتحال سے خود حضرت عمر ؓ بھی متأثر ہیں۔ کیوں کہ اس شخص کی حالت نے سب کو ہی حیرت میں ڈال کر رکھ دیا ہے۔ کیا اس شخص کو واقعی قصاص کے طور پر قتل کر دیا جائے اور اس کے بچے بھوکوں مرنے کے لئے چھوڑ دیئے جائیں؟ یا پھر اس کو بغیر ضمانتی کے واپس جانے دیا جائے؟ واپس نہ آیا تو مقتول کا خون رائیگاں جائے گا!

خود سیدنا عمرؓ سر جھکائے افسردہ بیٹھے ہیں۔ اس صورتحال پر، سر اُٹھا کر التجا بھری نظروں سے نوجوانوں کی طرف دیکھتے ہیں،
"معاف کر دو اس شخص کو۔"

"نہیں امیر المؤمنین، جو ہمارے باپ کو قتل کرے، اس کو چھوڑ دیں، یہ تو ہو ہی نہیں سکتا"، نوجوان اپنا آخری فیصلہ بغیر کسی جھجھک کے سنا دیتے ہیں۔

حضرت عمرؓ ایک بار پھر مجمع کی طرف دیکھ کر بلند آواز سے پوچھتے ہیں۔
"اے لوگو ، ہے کوئی تم میں سے جو اس شخص کی ضمانت دے؟"

حضرت ابوذر غفاری ؓ اپنے زہد و صدق سے بھر پور بڑھاپے کے ساتھ کھڑے ہو کر کہتے ہیں۔
"میں ضمانت دیتا ہوں اس شخص کی!"

سیدنا عمرؓ کہتے ہیں۔
"ابوذر ، اس نے قتل کیا ہے۔"

"چاہے قتل ہی کیوں نہ کیا ہو"، ابوذر ؓ اپنا اٹل فیصلہ سناتے ہیں۔

عمرؓ: "جانتے ہو اسے؟"

ابوذرؓ: "نہیں جانتا اسے"

عمرؓ: "تو پھر کس طرح ضمانت دے رہے ہو؟"

ابوذرؓ: "میں نے اس کے چہرے پر مومنوں کی صفات دیکھی ہیں، اور مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ شخص جھوٹ نہیں بول رہا، انشاء اللہ یہ لوٹ کر واپس آ جائے گا۔"

عمرؓ: "ابوذرؓ دیکھ لو اگر یہ تین دن میں لوٹ کر نہ آیا تو مجھے تمہاری جدائی کا صدمہ دیکھنا پڑے گا۔"

"امیر المؤمنین، پھر اللہ مالک ہے۔ ابوذر اپنے فیصلے پر ڈٹے ہوئے جواب دیتے ہیں۔"
سیدنا عمرؓ سے تین دن کی مہلت پا کر وہ شخص رخصت ہو جاتا ہے، کچھ ضروری تیاریوں کے لئے، بیوی بچوں کو الوداع کہنے، اپنے بعد اُن کے لئے کوئی راہ دیکھنے، اور اس کے قصاص کی ادئیگی کیلئے قتل کئے جانے کی غرض سے لوٹ کر واپس آنے کیلئے۔
اور پھر تین راتوں کے بعد، عمر ؓ بھلا کیسے اس امر کو بھلا پاتے، انہوں نے تو ایک ایک لمحہ گن کر کاٹا تھا، عصر کے وقت شہر میں (الصلاۃ جامعہ) کی منادی پھر جاتی ہے، نوجوان اپنے باپ کا قصاص لینے کیلئے بے چین اور لوگوں کا مجمع اللہ کی شریعت کی تنفیذ دیکھنے کے لئے جمع ہو چکا ہے۔

حضرت ابوذرؓ بھی تشریف لاتے ہیں اور آ کر حضرت عمرؓ کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں۔

"کدھر ہے وہ آدمی؟"
سیدنا عمرؓ سوال کرتے ہیں۔

"مجھے کوئی پتہ نہیں ہے یا امیر المؤمنین"،
ابوذر ؓ مختصر جواب دیتے ہیں۔

ابوذرؓ آسمان کی طرف دیکھتے ہیں، جدھر سورج ڈوبنے کی جلدی میں آج معمول سے زیادہ تیزی کے ساتھ جاتا دکھائی دے رہا ہے۔

محفل میں ہو کا عالم ہے، اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ آج کیا ہونے جا رہا ہے؟

یہ سچ ہے کہ ابوذرؓ سیدنا عمرؓ کے دل میں بستے ہیں، عمرؓ سے ان کے جسم کا ٹکڑا مانگیں تو عمرؓ دیر نہ کریں، کاٹ کر ابوذرؓ کے حوالے کر دیں۔ لیکن ادھر معاملہ شریعت کا ہے، اللہ کے احکامات کی بجا آوری کا ہے، کوئی کھیل تماشہ نہیں ہونے جا رہا، نہ ہی کسی کی حیثیت یا صلاحیت کی پیمائش ہو رہی ہے، حالات و واقعات کے مطابق نہیں اور نہ ہی زمان و مکان کو بیچ میں لایا جانا ہے۔ قاتل نہیں آتا تو ضامن کی گردن جاتی نظر آ رہی ہے۔

مغرب سے چند لحظات پہلے وہ شخص آ جاتا ہے۔ بےساختہ حضرت عمرؓ کے منہ سے اللہ اکبر کی صدا نکلتی ہے، ساتھ ہی مجمع بھی اللہ اکبر کا ایک بھرپور نعرہ لگاتا ہے۔

حضرت عمرؓ اس شخص سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں۔
"اے شخص، اگر تو لوٹ کر نہ بھی آتا تو ہم نے تیرا کیا کر لینا تھا، نہ ہی تو کوئی تیرا گھر جانتا تھا اور نہ ہی کوئی تیرا پتہ جانتا تھا"

"امیر المؤمنین، اللہ کی قسم، بات آپ کی نہیں ہے، بات اس ذات کی ہے جو سب ظاہر و پوشیدہ کے بارے میں جانتا ہے، دیکھ لیجئے میں آ گیا ہوں، اپنے بچوں کو پرندوں کے چوزوں کی طرح صحراء میں تنہا چھوڑ کر، جدھر نہ درخت کا سایہ ہے اور نہ ہی پانی کا نام و نشان۔ میں قتل کر دیئے جانے کیلئے حاضر ہوں۔ مجھے بس یہ ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے وعدوں کا ایفاء ہی اُٹھ گیا ہے"۔

سیدنا عمرؓ نے ابوذرؓ کی طرف رخ کر کے پوچھا۔
"ابوذرؓ، تو نے کس بنا پر اس کی ضمانت دے دی تھی؟"

ابوذرؓ نے کہا،
"اے عمرؓ، مجھے اس بات کا ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں سے خیر ہی اٹھا لی گئی ہے۔"

سیدنا عمرؓ نے ایک لمحے کیلئے توقف کیا اور پھر ان دونوں نوجوانوں سے پوچھا۔
"کہ کیا کہتے ہو اب؟"

نوجوانوں نے روتے ہوئے جواب دیا،
"اے امیر المؤمنین، ہم اس شخص کی صداقت کی وجہ سے اسے معاف کرتے ہیں، ہمیں اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے عفو اور درگزر ہی اُٹھا لیا گیا ہے"۔

سیدنا عمرؓ اللہ اکبر پکار اُٹھے اور آنسو ان کی ڈاڑھی کو تر کرتے نیچے گر رہے تھے۔۔۔۔

"اے نوجوانو! تمہاری عفو و درگزر پر اللہ تمہیں جزائے خیر دے۔"

"اے ابوذرؓ! اللہ تجھے اس شخص کی مصیبت میں مدد پر جزائے خیر دے"۔

اور

"اے شخص، اللہ تجھے اس وفائے عہد و صداقت پر جزائے خیر دے"۔

اور اے امیر المؤمنین، اللہ تجھے تیرے عدل و رحمدلی پر جزائے خیر دے۔

محدثین میں سے ایک یوں کہتے ہیں،
"قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، اسلام اور ایمان کی سعادتیں تو عمرؓ کے کفن کے ساتھ ہی دفن ہو گئی تھیں"۔

اور اے اللہ، جزائے خیر دے اپنے بے کس بندے کو، جس نے ترجمہ کر کے اس پیغام کو اپنے احباب تک پہنچایا۔

اور اے اللہ، جزائے خیر دینا ان کو بھی، جن کو یہ پیغام اچھا لگے اور وہ اسے آگے اپنے دوستوں کو بھیجیں۔

آمین یا رب العالمین۔...
Copy ..

09/09/2025

بچوں کی ماں کو "بدمعاشی" کا موقع نہ دیں!

یہ بات شاید تلخ لگے لیکن حقیقت یہی ہے کہ اکثر گھروں میں سب سے زیادہ بچوں پر چیخنے چلانے والی، اور دوسروں رشتہ داروں کے بارے میں تلخ الفاظ استعمال کرنے والی شخصیت خود بچوں کی اپنی ماں ہوتی ہے۔ وہی ہستی جو بچوں کی پہلی پناہ گاہ ہونی چاہیے، کبھی کبھی نادانی یا غصے میں ان کے دل کو سب سے زیادہ زخمی کر دیتی ہے۔

ماں کا غصہ بعض اوقات بے جا ہوتا ہے۔ ذرا سی غلطی پر زور سے چیخ دینا، چھوٹی سی بات پر بچے کی شخصیت کو کچل دینے والے جملے بول دینا، یا اپنے ہی بھائی، بہن، دیور، نند، ساس، یا کسی اور رشتے دار کے بارے میں بچوں کے سامنے بار بار شکایتیں اور گالیاں دہرانا—یہ سب کچھ بچوں کے دل میں زہر گھول دیتا ہے۔ بچہ اپنی معصوم آنکھوں سے ماں کو دیکھتا ہے، اور یہ منظر اس کے اندر ایک ایسا خوف اور نفرت پیدا کر دیتا ہے جس سے وہ ساری زندگی لڑتا رہتا ہے۔

جب ایک ماں بچے سے کہتی ہے کہ "تم کبھی کچھ نہیں بنو گے"، "تم بالکل اپنے فلاں رشتہ دار کی طرح ہو"، "یہ رشتہ دار سب برے ہیں" یا "یہ تمہارے چچا/ماموں/خالہ/پھوپھی ایسے ہیں" تو بچہ نہ صرف اپنی شخصیت کو حقیر سمجھنے لگتا ہے بلکہ اپنے خاندان کے بڑے حصے کو دشمن سمجھنے لگتا ہے۔ یوں اس کا بچپن کدورتوں سے بھرنے لگتا ہے۔ وہ بچہ اعتماد کی بجائے خوف، محبت کی بجائے نفرت، اور عزت کی بجائے بداعتمادی کو سیکھتا ہے۔

ماں اگر روزانہ چیختی چلاتی رہے، ہر غلطی پر بچے کی عزتِ نفس توڑ دے، یا خاندان کے ہر رشتہ دار کو برا بھلا کہے، تو وہ صرف غصہ نکال رہی ہوتی ہے مگر بچے کے دل پر نقش اُبھرتے جاتے ہیں۔ بچے کے لیے یہ سب الفاظ مستقل "ریکارڈنگ" کی طرح ہیں۔ بعد میں وہ بڑے ہو کر اپنے آپ سے بھی نفرت کرنے لگتے ہیں، اپنے خاندان سے بھی دور ہو جاتے ہیں اور اکثر ایک تلخ مزاج یا بداعتماد شخصیت کے مالک بن جاتے ہیں۔

یاد رکھیں، بچے اپنے دل میں بہت کچھ دفن کر لیتے ہیں لیکن کچھ بھی بھولتے نہیں۔ ماں کے سخت جملے اور رشتہ داروں کے بارے میں نفرت انگیز باتیں ان کے لاشعور میں ہمیشہ کے لیے بیٹھ جاتی ہیں۔ ایک ایسا بچہ جو ہر وقت ڈانٹ اور نفرت سنتا ہے، وہ اپنے اندر خوشی اور سکون کی دنیا تعمیر نہیں کر سکتا۔

اس لیے ضروری ہے کہ ماں کو یہ باور کرایا جائے کہ اس کا سب سے بڑا کردار بچوں کو محبت، تحفظ اور اعتماد دینا ہے، نہ کہ انہیں چیخ چیخ کر خوفزدہ کرنا اور دوسروں کے بارے میں نفرت بھر دینا۔ ماں کو اپنے غصے اور زبان پر قابو پانا ہوگا۔ ورنہ وہ خود اپنی اولاد کے دل میں وہ زہر بو رہی ہے جو آنے والے کل میں خاندان کو توڑ دے گا اور بچے کو نفسیاتی مریض بنا دے گا۔

ماں کی عزت اپنی جگہ لیکن بچے کی معصومیت اور اس کی خود اعتمادی کا تحفظ اس سے کہیں زیادہ مقدم ہے۔ اس لیے بچوں کے باپ کو بھی چاہیے کہ وہ احترام کے ساتھ مگر واضح طور پر ماں کو روکیں کہ وہ اپنی زبان اور رویے سے بچوں کی نفسیات کو نہ کچلے۔ کیونکہ اصل ذمہ داری والدین دونوں پر ہے کہ بچے کا دل محبت سے بھرا ہوا ہو، نہ کہ چیخوں اور کدورتوں سے۔

آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے:
بچوں کی ماں کو بدمعاشی کا موقع نہ دیں، کیونکہ بچوں کا دل سب سے نرم ہوتا ہے، اور سب سے گہرا زخم بھی وہیں سے لگتا ہے جہاں سے اسے نرمی اور محبت کی سب سے زیادہ توقع ہوتی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پس تحریر :
یہ تحریر منصور ندیم صاحب کی تحریر "رشتہ داروں کو بدمعاشی کا موقع نہ دیں" کے اسلوب اور وزن پر بطور مشق لکھی گئی ہے۔ اس کا مقصد صرف یہ سمجھانا ہے کہ اسی طرز کا نفرت انگیز بیانیہ کسی بھی رشتے کے خلاف گھڑا جا سکتا ہے۔ لیکن اسلام کی اصل تعلیم یہ ہے کہ رشتوں کو جوڑا جائے، نفرت اور قطع تعلقی کو ہرگز فروغ نہ دیا جائے۔ اللہ کریم نے رحم کے رشتے کو خاص طور پر اپنی رحمت سے جوڑا ہے اور جو اسے توڑنے کی کوشش کرتا ہے وہ اللہ کی رحمت سے دور کر دیا جاتا ہے۔

حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"الرحم معلقة بالعرش تقول: من وصلني وصله الله، ومن قطعني قطعه الله"
(صحیح بخاری، حدیث 5988، صحیح مسلم، حدیث 2555)

ترجمہ:
رحم (رشتہ داری) عرش سے لٹکی ہوئی ہے اور کہتی ہے: جو مجھے جوڑے گا، اللہ اسے جوڑے گا، اور جو مجھے کاٹے گا، اللہ اسے کاٹے گا۔

Address

Civil Lines
Amadavad
42100

Telephone

+923036095691

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Sultan Hospital, Jauharabad posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Practice

Send a message to Sultan Hospital, Jauharabad:

Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on LinkedIn
Share on Pinterest Share on Reddit Share via Email
Share on WhatsApp Share on Instagram Share on Telegram