31/07/2024
اداریہ
ڈاکٹر تنویر گوہر
(ایڈیٹر - ہفت روزہ تنویر ادب, مظفر نگر)
بی جے پی کے دور میں امتیازی سلوک میں اضافہ !
'کانوڑ یاترا ' ہندوؤں کی مذہبی یاترا ہے ۔ اس یاترا میں کیا کچھ ہوتا ہے یہ کسی سے مخفی نہیں ہے ۔ برسراقتدار جماعت کے کارکنان اور زعفرانی تنظیموں کے رضا کار کانوڑیوں کو نشہ آور اشیاء فراہم کرتے ہیں ۔ نشہ کی حالت میں وہ اپنا آپا کھو بیٹھتے ہیں اور ذرا ذرا سی بات پر تشدد پر اتاؤلے ہوجاتے ہیں ۔ کانوڑیوں کے ہنگاموں ، جھگڑوں اور من مانیوں کی خبریں موصول ہوتی رہتی ہیں مگر ضلع انتظامیہ کبھی ان کے خلاف کوئی مؤثر اقدام نہیں کرتی ۔ اس کی بنیادی وجہ حکومت کا کانوڑیوں کو فراہم کیا گیا تحفظ ہے ۔ کانوڑیے جو چاہے کریں ان پر کسی طرح کی پابندی عائد نہیں ہوتی لیکن اگر کوئی ان کے شور شرابے ،اور جھگڑوں سے تنگ آکر کچھ کرتا ہے تو ضلع انتظامیہ جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے یک طرفہ کارروائی کرتی ہے ۔
میرٹھ میں جس طرح کانوڑیوں نے غنڈ ہ گردی کی اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے لیے قانون نام کی کوئی چیز نہیں ہے ۔
وہ خود کو قانون اور آئین سے بالا تر سمجھتے ہیں ۔
اس کا خمیازہ عام انسانوں کو بھگتنا پڑتا ہے ۔ جبکہ محرم میں روایتی جلوسوں اور پروگراموں کی بھی اس طرح نگرانی کی جاتی ہے کہ جیسے فساد کا اندیشہ صرف انہی جلوسوں میں ہے ۔ کالے پرچم اور علم لگانے پر پابندی عائد کردی جاتی ہے اور شاہ راہوں پر شور شرابے اور مائک کی اجازت نہیں ہوتی ۔ ایسا ہونا بھی جاہیے کہ عام شاہراہوں کو شور شرابے سے پاک رکھا جائے لیکن کیا یہ پابندی صرف مسلمانوں کے لیے ہیں ؟
کانوڑ یاترا میں مائک اور مذہبی نغموں کا شور پولیس کو سنائی نہیں دیتا ؟ یہ امتیازی سلوک ملک کے لیے خوش آئند نہیں ہے ۔جب سےبی جے پی اقتدار میں آئی ہے مسلسل مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک میں اضافہ ہوا ہے ۔ اس سے پہلے مسلمان سبزی فروشوں اور ٹھیلے والوں کو ہندو اکثریتی علاقہ میں داخل ہونے سے روکا گیا تھا ۔ اگرچہ اس وقت ایسے افراد سامنے آئے تھے جو جمہوری اور سیکولر قدروں میں یقین رکھتے تھے ۔ جس ملک میں سر عام دھرم سنسدوں میں گولی مارنے کی دھمکیاں دی جاتی ہوں اور انتظامیہ خاموش تماشائی بنی رہتی ہو ، وہاں امن کی پاسداری عوامی سطح پر ممکن نہیں ہے ۔