Medical Talks M Zaman

Medical Talks M Zaman All

16/07/2021
18/06/2021

Good afternoon

27/07/2020

دانت کا درد کے لیے دعا

11/05/2019

رمضان میں پانی کی کمی سے کیسے بچیں؟
گزشتہ چند سال سے ماہ صیام گرمیوں کے موسم میں آرہا ہے جس میں سب سے بڑا چیلنج جسم میں پانی کی کمی نہ ہونے دینا ہے تاکہ پورے ماہ خشوع وخضوع سے عبادت کی جاسکے۔ ماہرین طب کا کہنا ہے کہ سخت گرمی میں روزہ رکھنے کے باعث جسم میں پانی کی کمی واقع ہوسکتی ہے جس کے لیے سحر و افطار میں پانی کا استعمال بڑھا دینا چاہیئے۔ اس کے علاوہ پانی یا پھلوں کے رس زیادہ سے زیادہ پیئیں، اپنی غذا میں دودھ اور دہی کا استعمال بھی ضرور کریں۔رمضان المبارک میں سخت گرمی کے باعث جسم میں پانی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے ماہرین طب کے تجویز کردہ سات آسان طریقے مندرجہ ذیل ہیں۔

سحری میں کم از کم 2 گلاس پانی لازمی پیئیں جبکہ جوس اور کولڈ ڈرنک سے دور رہیں۔ یہ آپ کے وزن میں اضافہ کریں گی۔

ایسی غذاؤں کا استعمال کریں جن میں پانی کی مقدار زیادہ ہو جیسے تربوز، کھیرا، سلاد وغیرہ۔ یہ آپ کے جسم کی پانی کی ضرورت کو پورا کریں گے۔

افطار کے اوقات میں ایک ساتھ 7 یا 8 گلاس پانی پینا نہ صرف بے فائدہ ہے بلکہ صحت کے لیے نقصان دہ بھی ہوسکتا ہے۔

روزہ کے بعد کھجور اور 2 گلاس پانی کے ساتھ افطار کریں۔

رات میں نماز تراویح اور دوسری عبادات کے لیے جائیں تو پانی کی بوتل ساتھ لے کر جائیں۔

رات کو ایک پانی کی بوتل اپنے قریب رکھیں۔

کوشش کریں کہ گرم اور دھوپ والی جگہوں پر کم سے کم جائیں

آپ اس وقت کیسے پرسکون رہ سکتے ہیں اور چل پھر سکتے ہیں جب کوئی ناخن گوشت میں گھس جائے؟ایسا ہونے پر معمولات زندگی بری طرح ...
26/10/2018

آپ اس وقت کیسے پرسکون رہ سکتے ہیں اور چل پھر سکتے ہیں جب کوئی ناخن گوشت میں گھس جائے؟

ایسا ہونے پر معمولات زندگی بری طرح متاثر ہوتے ہیں جبکہ پیر میں انفیکشن کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔

اور یہ ایسا عام مسئلہ ہے جس کا سامنا ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد کو ہوتا ہے بلکہ برسوں تک ہوتا ہے حالانکہ اس سے نجات پانا اتنا زیادہ مشکل بھی نہیں۔

پاؤں کے ناخن کا گوشت میں گڑ جانا ایک انتہائی تکلیف دہ مگر پیروں کا بہت عام مسئلہ ہے جو ناخن کے ایک یا دونوں جانب ہوسکتا ہے۔

تحریر جاری ہے‎

تنگ جوتے، چوٹ، جینز اور غلط انداز سے ناخن کاٹنا اس کی وجہ بنتے ہیں اور ایسا ہونے پر درد، سوجن، سرخی یا انفیکشن کا سامنا بھی ہوتا ہے۔

تاہم اگر اس کا سامنا ہو تو یہ گھریلو ٹوٹکے آرام پہنچانے میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔

پودینے کا تیل
پہلے اپنے پیروں کو کچھ دیر کے لیے پانی میں بھگو دیں یا متاثرہ حصے کی جلد کو صاف کریں، جلد خشک ہونے کے بعد 2 سے تین قطرے پودینے کے تیل کے لیں اور انہیں متاثرہ حصے پر لگالیں۔ یہ عمل دن میں 2 بار دہرائیں۔ پودینے کے تیل میں موجود منتھول درد میں کمی لائے گا جبکہ جراثیم کش ہونے کی وجہ سے یہ مزید انفیکشن سے بھی تحفظ فراہم کرے گا۔

مزید پڑھیں : ناخن کی وہ علامات جو مختلف امراض کا خطرہ ظاہر کریں

بیکنگ سوڈا
بیکنگ سوڈا قدرتی طور پر جراثیم کش ہوتا ہے جو کہ ناخن گوشت میں دھنس جانے سے پیدا ہونے والے انفیکشن کا خطرہ کم کرتا ہے، آدھا چائے کا چمچ بیکنگ سوڈا لے کر اس پر چند قطرے پانی ڈال کر گاڑھا پیسٹ بنالیں۔ اس پیسٹ کو متاثرہ حصے اور ارگرد لگالیں، جس کے بعد بینڈیج سے ڈھک دیں۔

ناریل کا تیل
کچھ مقدار میں ناریل کا تیل لیں اور زخم اور ارگرد کے حصے میں لگائیں، اس عمل کو دن میں 2 بار دہرائیں۔ ناریل کے تیل میں موجود فیٹی ایسڈز فنگل کش اور ورم کش ہوتے ہیں جو کہ گوشت میں دھنس جانے والے ناخن کو باہر نکالنے کے ساتھ درد سے ریلیف فراہم کرتے ہیں۔

لہسن
لہسن کے 2 سے تین ٹکڑے پیس لیں اور پھر انہیں زخم پر لگائیں، اس کے بعد پیسٹ کو بینڈیج سے ڈھانپ کر رات بھر کے لیے چھوڑ دیں۔

پیاز
پیاز کو کاٹ لیں اور ایک ٹکڑے کو زخم پر رکھ دیں، جس کے بعد اس کے اوپر پٹی باندھ کر رات بھر کے لیے چھوڑ دیں۔ یہ عمل رات کو سونے سے قبل ہی کریں، پیاز میں موجود اجزاءاس مسئلے سے نجات دلانے کے ساتھ ساتھ فنگل سے بھی تحفظ فراہم کرتے ہیں۔

پانی میں بھگوئیں
متاثرہ پیر کو نیم گرم پانی میں ڈبو کر بھی سوجن اور درد میں کمی لانا ممکن ہے۔ اس مقصد کے لیے پیر کو نیم گرم صابن ملے پانی میں 20 منٹ کے لیے ڈبو دیں، یہ عمل دن میں تین بار کرنا اس مسئلے سے جلد نجات میں مدد دے گا۔

نمک
اپنے پیر کو اپسم نمک ملے پانی میں 15 سے 20 منٹ کے لیے روزانہ 2 مرتبہ ڈبو دیں، اگر ناخن میں انفیکشن نہیں ہوا ہوگا تو وہ باہر اگنے لگے گا اور پھر اسے اوپر سے مناسب طریقے سے کاٹ لیں۔

روئی
یہ اس حوالے سے مقبول ٹوٹیکا ہے جس میں روئی کا ایک ٹکڑا ناخن کے اندر اس جگہ رکھ دیتے ہیں جہاں وہ جلد میں گھستا ہے، اس کے بعد ناخن باہر کی جانب اگنے لگتا ہے اور آپ کو اسے ٹھیک طرح سے کترنے کا موقع مل جاتا ہے، انفیکشن سے بچنے کے لیے روئی کے ٹکڑے کو سیب کے سرکے میں ڈبو کر رکھیں اور روزانہ اسے بدل دیں۔

پاکستان میں ہیپاٹائٹس بی اور سی میں مبتلا افراد کی تعداد ایک کروڑ 80 لاکھ سے 2 کروڑ کے درمیان ہے اورروزانہ 120سے 150 افر...
29/07/2018

پاکستان میں ہیپاٹائٹس بی اور سی میں مبتلا افراد کی تعداد ایک کروڑ 80 لاکھ سے 2 کروڑ کے درمیان ہے اورروزانہ 120سے 150 افراد بیماری سے ہلاک ہوجاتے ہیں، جلد تشخیص کے ذریعے اس مہلک مرض کا علاج اور خاتمہ ممکن ہے، اگر آنے والی حکومتوں نے ہیپاٹائٹس کے علاج پرتوجہ نہیں دی تویہ مرض خطرناک صورتحال اختیارکرجائے گا،ملک کی ہرشہری کی ہیپاٹائٹس سی اورہیپاٹائٹس بی کاٹیسٹ کرایاجائے۔ان خیالات کا اظہارانھوں نے ورلڈ ہیپاٹائٹس ڈے کے موقع پر پریس کانفرنس سے خطاب میں کیا۔
کانفرنس سے قبل کراچی پریس کلب میں صحافیوںکی مفت اسکریننگ کی گئی اوربیماری سے متعلق آگہی کے لیے ایک ریلی بھی نکالی گئی ،پاکستان گیسٹرو انٹرالوجی اینڈ لیور ڈیزیزز سوسائٹی کے صدر ڈاکٹر سجاد جمیل کا کہنا تھا کہ پاکستان میں صرف 10سے 20فیصد لوگ اپنی بیماری سے آگاہ ہیں، 80فیصد افراد اس خاموش قاتل سے لا علم ہیں، پاکستان ہیپاٹائٹس سی میں چین کے بعد دوسرے نمبر پر اور دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں ہیپاٹائٹس سی تیزی سے پھیل رہا ہے۔

21/03/2018
10/03/2018

SHAKE WELL BEFOR USE
HAHAHA NOT THES POINT

ہمارے ملک میں چھاتی کے سرطان کی شرح میں روز بہ روز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ایک تحقیق کے مطابق ایشیائی ملکوں میں جس شہر میں چ...
26/02/2018

ہمارے ملک میں چھاتی کے سرطان کی شرح میں روز بہ روز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
ایک تحقیق کے مطابق ایشیائی ملکوں میں جس شہر میں چھاتی کے سرطان کی شرح سب سے بلند ہے، وہ کراچی ہے۔ ویسے تو اس شہر میں تعلیم یافتہ اور باخبر خواتین کی تعداد دیگر شہروں کے مقابلے میں زیادہ ہے، لیکن افسوس کہ وہ چھاتی کے سرطان کے متعلق اتنی باخبر نہیں ہیں جتنا انھیں ہونا چاہیے۔
یہ ایسا مہلک مرض ہے جس سے آگہی کے باعث ہی محفوظ رہا جاسکتا ہے، مگر مرض سے متعلق آگہی کا نہ ہونا، بے احتیاطی، شرم اور دیگر عناصر کے باعث خواتین کی اکثریت جانتے بوجھتے بھی اس موضوع پر نہ تو معلومات حاصل کرتی ہے اور نہ اس حوالے سے کوئی احتیاط برتتی ہے جس کے باعث ان میں بروقت مرض کی تشخیص نہیں ہو پاتی، حالاں کہ اگر ابتدائی مرحلے میں اس کی تشخیص ہوجائے تو مرض کو بڑھنے سے روکا جاسکتا ہے۔

26/01/2018

ڈی این اے ٹیسٹ کیا ہے اور کیسے کیا جاتا ہے؟

ہر انسان کا ڈی این اے مختلف ہوتا ہے. ڈی این اے ٹیسٹ کے مدد سے انسان کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں.

ڈی این اے کیا ہے؟

ڈی این اے یعنی کہ ڈی آکسی رائبو نیوکلیک ایسڈ انسانوں اور تمام جانداروں کے جسم میں پایا جانے والا وراثتی مادہ ہے۔ انسانی جسم کی اکائی سیل یونی خلیہ ہوتی ہے۔ اس خلیے کے درمیان میں نیوکلئیس پایا جاتا ہے جس کے اندر ڈی این اے ہوتا ہے۔ انسانی جسم کے تمام خلیوں میں ایک جیسا ہی ڈی این اے پایا جاتا ہے۔ ہر انسان کا ڈی این اے دوسرے انسان سے مختلف ہوتا ہے۔

ہر انسان اپنے ڈی این اے کا پچاس فیصد حصہ اپنی والدہ سے وصول کرتا ہے اور بقیہ پچاس فیصد والد سے۔ ان دونوں ڈی این اے کے مخصوص مرکب سے انسان کا اپنا ڈی این اے بنتا ہے۔ ڈی این اے میں انسان کے بارے میں سب معلومات ہوتی ہیں مثلاً اس کی جنس، بالوں کا رنگ، آنکھوں کا رنگ، سونے کے اوقات، عمر اور جسمانی ساخت وغیرہ۔ اس کے علاوہ اس انسان کو کون کون سی بیماریاں لاحق ہیں، یہ بھی اس کے ڈی این اے سے معلوم کیا جا سکتا ہے۔

ڈی این اے ٹیسٹ کیسے کیا جاتا ہے؟

جس شخص کا بھی ڈی این اے ٹیسٹ مقصود ہو اس کا بال،خون، ہڈی اور گوشت یا ان میں سے کسی ایک چیز کا نمونہ لیا جاتا ہے۔ سب سے پہلے انسانی خلیے میں سے ڈی این اے الگ کیا جاتا ہے اور پھر پولیمیریز چین ری ایکشن نامی طریقے کی مدد سے اس ڈی این اے کی لاکھوں کاپیاں بنا لی جاتی ہیں۔ ان لاکھوں کاپیوں کی مدد سے ڈی این اے کی جانچ بہتر طریقے سے ہو سکتی ہے۔ ڈی این اے کو جانچنے کے بعد ڈی این اے فنگر پرنٹ بنایا جاتا ہے۔ دو مختلف نمونوں کے ڈی این اے فنگر پرنٹ میں مماثلت دیکھ کر ان میں کسی تعلق کا تعین کیا جا سکتا ہے۔

حادثات کی صورت میں جب لاش کی شناخت بالکل نا ممکن ہو تب ڈی این کے ذریعے ہی شناخت عمل میں لائی جاتی ہے۔ ڈی این اے ٹیسٹ کی مدد سے جانچا جاتا ہے کہ اس لاش کا ڈی این اے کس خاندان سے مل رہا ہے۔ ڈی این اے میں موجود جینیٹک کوڈ کے تقابلی جانچ سے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ دو مختلف اشخاص میں کوئی خونی رشتہ ہے کہ نہیں ا۔سی لیے جھلسی ہوئی یا ناقابل شناخت لاشوں کے ڈی این اے نمونے لے کر دعویٰ دار لواحقین کے نمونوں سے ملائے جاتے ہیں۔ اگر جینیٹک کوڈ ایک جیسے ہوں تو خونی رشتہ ثابت ہو جاتا ہے اور لاش لواحقین کے حوالے کر دی جاتی ہے۔

ڈی این اے ٹیسٹ کے بعد ابہام کی بالکل گنجائش نہیں ہوتی۔ پاکستان میں فرانزک لیب، فرانزک سائنس دان اور ماہر عملے کی کمی کے باعث اس ٹیسٹ کو انجام دینے میں کافی مشکلات کا سامنا رہتا ہے اور اس کو مکمل ہونے میں ہفتہ بھی لگ جاتا ہے۔

ڈی این اے ٹیسٹ کیوں کیا جاتا ہے؟

ڈی این اے ٹیسٹ کے چند عام مقاصد درج ذیل ہیں۔

ولدیت ثابت کرنے کے لیے

اگر یہ جاننا ہو کہ کسی انسان کے حقیقی والدین کون ہیں تو اس انسان کا ولدیت کا دعویٰ کرنے والوں کے ساتھ ڈی این اے میچ کر کے دیکھا جاتا ہے۔ اگر دونوں کے ڈی این اے مماثلت ہو تو ولدیت کا دعویٰ درست قرار پاتا ہے۔

مجرم کی شناخت کے لیے

ڈی این اے کی مدد سے مجرم کی شناخت بھی آسانی سے کی جا سکتی ہے۔ اگر جائے وقوع سے مجرم کا بائیولوجیکل نمونہ ملے تو اس کا ڈی این اے حاصل کر کے مکمل رپورٹ مرتب کر لی جاتی ہے۔ اس ڈی این اے کو اس خاص کیس میں نامزد ملزمان کے ڈی این اے سے میچ کرکے مجرم کی نشاندہی کی جا سکتی ہے۔

جین تھیراپی

اگر کسی خاندان میں کوئی مخصوص بیماری ہو تو وہ اپنے بچوں کی پیدائش سے پہلے ڈی این اے ٹیسٹ کی مدد سے جان سکتے ہیں کہ ان کے بچے میں بھی یہ بیماری ہوگی یا نہیں۔

جینیٹک جینیالوجی

اگر کوئی اپنے آبائو اجداد کے متعلق معلومات حاصل کرنا چاہے تو وہ بھی ڈی این ٹیسٹ کے ذریعے ممکن ہے۔

Address

Village Chail Madyan Swat Pakistan
Mongora
5

Telephone

+923449631152

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Medical Talks M Zaman posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on LinkedIn
Share on Pinterest Share on Reddit Share via Email
Share on WhatsApp Share on Instagram Share on Telegram

Category