ARG software house in Dera Ghazi ARG SOFTWARE HOUSE IN DERA GHAZI KHAN . ARGSoftwareHouseDeraGhaziKhan

03/05/2025

ایک اندازے کے مطابق یونیورسٹی کے چار سالوں میں ہر لڑکی کو تقریبا 16 سے 17 پرپوزل آتے ہیں ان میں زیادہ تعداد ٹھرکیوں کی ہوتی ہے جو دور سے ہی پہچانے جاتے ہیں مگر دو چار ایسے ایکسٹریمسٹ بھی ہوتے ہیں جنہیں دیکھ کر لگتا ہیں انہیں میں نہ ملی تو یہ مر جائیں گے طوفان کھڑا کر دیں گے یا خود کو کچھ کر لیں گے پھر وہ ایسے ایسے سٹنٹ کرتے ہیں کی لڑکی کو یقین سا ہونے لگتا ہے یار یہ بندہ واقعی مخلص ہے میرے ساتھ , یونیورسٹی کی نئی طالبات یعنی پہلے دوسرے سال والی اس جھا نسے میں جلدی آجاتی ہے اگر اداکار زیادہ اچھا ہو تو وہ سینئرز کو بھی زیر کر لیتا ہے

اس کے بعد ایک تھوڑے ڈوریشن والا مگر حسین دور شروع ہو جاتا ہے جس میں لڑکیاں اپنے آپ کو خوش قسمت ترین تصور کرنے لگتی ہیں ادھر ادھرسے قصے بھی آتے ہیں بے وفائی کے مگر انہیں لگتا ہے ہمارے والا ایسا نہیں ہے وہ تو باقیوں سے الگ انسان ہے کچھ ہی عرصے بعد مطلوبہ شخص اپنے اہداف پورے کر کے دل بھرنے کے بعد اگلے شکار کی جانب روانہ ہوجاتا ہے جس کے بعد گھر سے پڑھنے آنے والی والدین کی لاڈلی تتلیاں کتابوں سمیت ہر چیز سے اپنا انٹرسٹ کھو بیٹھتی ہیں

ایسی ذہنی کیفیت ہو جاتی ہے انہیں لگتا ہے ہماری دنیا ختم ہوگئی اور ہر چیز بے مزہ بے رنگ کچھ ٹھرکی دو تین مہینے کے وقفے کے بعد دوبارہ واپس بھی آتے ہیں سبق نہ سیکھنے والی دوبارہ جھانسے میں آتی ہے مگر کچھ چا ل سمجھنے والی ٹھڈا مار دیتی ہیں اور سارا وقت اپنی فیس بک کی ٹائم لائن کو دکھوں کا قبرستان بناتی رہتی ہیں اور رہتی زندگی تک شادیوں کے بعد بھی یہ پچھتاوا ان کے دماغ میں رہتا ضرور ہے

حضور اس ساری تقریر کی بوٹم لائن یہ ہے ایک لڑکا ہونے کے ناطے میں یہ بات دعوی سے کہتا ہوں سو میں سے 98 بندے آپکو شادی کا جھوٹ بول کر صرف مخصوص دورانیا انجوائے کرنا چاہتے ہیں یہ آپ کے ہاتھ میں ہے اپنے آپ کو عزت بخشنی ہے یا کسی کے ہاتھوں استعمال ہونا ہے۔۔۔
اللّه پاک ہر بہن بیٹی کی عزت سلامت رکھے ہر بری نظر سے محفوظ رکھے ہر بری محفل سےمحفوظ رکھے آمین
الله پاک سب کے نیک نصیب کری سب کو نیک رشتہ عطاء کرے

08/04/2025

Amazing opportunity in dgkhan city ...

08/04/2025

join us today to secure you future ......

01/03/2025

میں بار بار سوچتا تھا کے ایسا کیوں ہوتا ہے کے کچھ غریب لوگ وقت کیساتھ ساتھ امیر ہوجاتے ہیں جبکہ باقی غریب، غریب تر۔ ایسا کیا ہے کے ہم اپنے بچوں کو کچھ سکھائیں کے کل کو وہ مالی مشکلات کا شکار نہ ہوں؟

یہ سوال میرے دماغ میں اس وقت آیا جب میں نے ایک آٹھ سالہ بچے کو دیکھا جو ایک پارک میں غبارے بیچ رہا تھا۔ وہ ماسٹر نہیں تھا، یونیورسٹی نہیں گیا تھا، لیکن کاروبار کے اصول جانتا تھا۔ اس کے پاس دس مختلف رنگوں کے غبارے تھے، اور وہ ان میں سب سے خوبصورت غبارے سب سے زیادہ قیمت پر بیچ رہا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا: "یہ خیال کہاں سے آیا کہ کچھ غبارے مہنگے ہونے چاہئیں اور کچھ سستے؟" وہ مسکرایا اور بولا: "صاحب، جو چیز زیادہ خوبصورت لگے، لوگ اسے زیادہ قیمت میں بھی خریدتے ہیں۔"

یہ بچہ وہی کر رہا تھا جو ایک بڑا برانڈ مارکیٹنگ میں کرتا ہے۔ لیکن افسوس! ہم اپنے بچوں کو ایسی بنیادی مالیاتی مہارتیں نہیں سکھاتے۔ ہم انہیں ایپل کا آئی فون دلوانے پر تو زور دیتے ہیں، لیکن انہیں نہیں سکھاتے کہ ایپل ایک کمپنی ہے جو اپنی مصنوعات ایموشنل مارکیٹنگ کے ذریعے مہنگے داموں بیچتی ہے۔

ہم اپنے بچوں کو سائنس اور ریاضی پڑھاتے ہیں، لیکن ان کے ہاتھ میں کبھی پانچ ہزار کا نوٹ دے کر نہیں پوچھتے: "بیٹا، اگر تمہیں یہ پانچ ہزار مل جائیں، تو تم اسے کہاں اور کیسے خرچ کرو گے؟" اگر وہ فوراً کہے کہ وہ نیا موبائل خریدے گا، تو سمجھ جائیں کہ ہم نے اسے صرف خرچ کرنا سکھایا ہے، کمانا اور بچانا نہیں۔

تو بچوں کو مالی، کاروباری اور مارکیٹنگ کی تربیت کیسے دی جائے؟

پہلا سبق: پیسہ کیسے کام کرتا ہے؟

بچوں کو پانچ یا دس سال کی عمر سے ہی پیسے کے بارے میں سکھائیں۔

ان کے لیے تین منی باکس یا لفافے رکھیں: ایک خرچ کرنے کے لیے، ایک بچانے کے لیے، اور ایک دوسروں کی مدد کرنے کے لیے۔

انہیں روزمرہ کی زندگی میں پیسہ سنبھالنے کی مشق کروائیں، جیسے انہیں کہیں کہ "یہ 500 روپے ہیں، تمہیں ان میں سے جو چاہیے خرید لو، لیکن یہ اگلے ہفتے تک کافی ہونے چاہئیں۔"

انہیں دکھائیں کہ چیزوں کی قیمت کیوں مختلف ہوتی ہے اور کیوں بعض چیزیں زیادہ قیمتی سمجھی جاتی ہیں۔

دوسرا سبق: کاروباری ذہنیت پیدا کرنا

مجھے وارن بفیٹ کی بات یاد آتی ہے، جو دنیا کے امیر ترین لوگوں میں سے ایک ہیں۔ وہ کہتے ہیں: "اگر آپ کو پیسہ سنبھالنا نہیں آتا، تو جتنا بھی کما لیں، سب ختم ہو جائے گا!" یہی فرق ہوتا ہے غریب اور امیر آدمی کی سوچ میں۔

اپنے بچوں کو کسی نہ کسی چھوٹے کاروبار کا تجربہ دیں، چاہے وہ لیمونیڈ بیچنا ہو، چاکلیٹ فروخت کرنا ہو یا کوئی چھوٹی سی آن لائن شاپ چلانا ہو۔

ان سے کہیں کہ وہ خود سے کوئی چیز فروخت کریں اور نفع و نقصان کا حساب کریں۔

انہیں پروفٹ، لاگت، اور سرمایہ کاری کے بارے میں آسان الفاظ میں سمجھائیں۔

انہیں مارکیٹ میں لے جائیں اور مختلف دکانوں کی قیمتوں کا موازنہ کروائیں، تاکہ وہ سمجھیں کہ مختلف برانڈز ایک ہی چیز کو مختلف قیمتوں پر کیوں بیچتے ہیں۔

تیسرا سبق: مارکیٹنگ کا جادو

آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ ایک عام 200 روپے والی ٹی شرٹ اگر کسی بڑے برانڈ کی اسٹیمپ لگ جائے تو 2000 روپے میں کیوں بکتی ہے؟ اس کا جواب مارکیٹنگ ہے! اور ہمارے بچے، جو دن رات اشتہارات دیکھتے ہیں، وہ اکثر یہ نہیں سمجھتے کہ وہ کیسے ان پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔

بچوں کو اشتہارات کو سمجھنے اور ان پر سوالات اٹھانے کی عادت ڈالیں۔

ان سے پوچھیں: "یہ اشتہار تمہیں کیا احساس دلانے کی کوشش کر رہا ہے؟"

انہیں اپنا ایک چھوٹا سا اشتہار بنانے کو کہیں اور دیکھیں کہ وہ کیسے دوسرے لوگوں کو قائل کرتے ہیں۔

انہیں سکھائیں کہ برانڈنگ اور جذباتی اپیل کیسے کام کرتی ہے۔

چوتھا سبق: ایک کامیاب کیریئر کیسے بنایا جائے؟

ہم سب نے بچوں کو یہ کہتے سنا ہے: "مجھے پتہ نہیں میں بڑا ہو کر کیا بنوں گا!" اور یہ ہمارے تعلیمی نظام کی سب سے بڑی ناکامی ہے کہ ہمارے بچے پندرہ، سولہ سال کی عمر تک بھی نہیں جانتے کہ وہ کون سی مہارتیں سیکھیں جو انہیں زندگی میں کامیاب بنائیں گی۔

بچوں کو اسکول کے ساتھ ساتھ پریکٹیکل مہارتیں سکھائیں۔

انہیں کم از کم ایک ڈیجیٹل مہارت (ویب ڈیزائن، ویڈیو ایڈیٹنگ، کوڈنگ، یا ڈیجیٹل مارکیٹنگ) سیکھنے کی ترغیب دیں۔

انہیں مختلف فیلڈز میں کام کرنے والے لوگوں سے ملائیں، تاکہ وہ جان سکیں کہ حقیقی دنیا میں کام کیسے ہوتا ہے۔
ان کے لیے لِنکڈ اِن پروفائل بنائیں اور انہیں سکھائیں کہ نیٹ ورکنگ کتنی ضروری ہے۔

کیا ہم اپنے بچوں کو صحیح سمت دے رہے ہیں؟

آپ مانیں یا نہ مانیں، اس دنیا میں دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں: ایک وہ جو مواقع پیدا کرتے ہیں اور دوسرے وہ جو موقع کا انتظار کرتے ہیں۔ ہم نے اپنے بچوں کو موقع کا انتظار کرنے والا بنا دیا ہے۔ ہم انہیں بچپن میں سکھاتے ہیں: "اچھے نمبر لو، اچھی نوکری ملے گی!" جبکہ دنیا میں کامیاب لوگ وہ ہوتے ہیں جو نوکریوں پر نہیں، اپنے آئیڈیاز پر کام کرتے ہیں۔

آپ بل گیٹس کی مثال لے لیں، اسٹیو جابز کی زندگی پڑھ لیں، یا مارک زکربرگ کو دیکھ لیں۔ یہ لوگ بچپن سے ہی ایک چیز جانتے تھے: "پیسہ بنانے کے لیے پہلے پیسے کو سمجھنا ضروری ہے!" لیکن ہم اپنے بچوں کو بس رٹا لگوانے میں لگے ہوئے ہیں۔

اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا بچہ بھی کسی دن اپنی کمپنی کا سی ای او بنے، تو آپ کو آج ہی اس کی مالی تربیت شروع کرنی ہوگی۔ بچپن میں اسے پیسے کی قدر سکھائیں۔ اسے کاروبار کے چھوٹے چھوٹے تجربات کروائیں۔ اسے مارکیٹنگ کے اصول سکھائیں۔ اور سب سے بڑھ کر، اسے پیسہ بنانے اور بڑھانے کا فن سکھائیں۔

کیونکہ یاد رکھیں، دنیا میں صرف دو طرح کے لوگ کامیاب ہوتے ہیں: ایک وہ جو اپنے خوابوں پر کام کرتے ہیں، اور دوسرے وہ جو دوسروں کے خواب پورے کرنے کے لیے نوکری کرتے ہیں۔ آپ کا بچہ کس کیٹیگری میں ہوگا؟ اس کا فیصلہ آپ آج کریں گے!

شہزاد احمد مرزا

28/02/2025
15/12/2024

Lets be part of freelancer in dg.khan .

09/09/2024
lets be the part of our team and earn online with us .......we are going to provide you best online earning environment ...
29/08/2024

lets be the part of our team and earn online with us .......we are going to provide you best online earning environment in dera ghazi khan to learn and earn online . its much easy just come and join us to discuss . how it is possible . ..........

let learn to make your own android app  and lets learn  how to publish it on playstore  ...its easy  but consistent work...
12/08/2024

let learn to make your own android app and lets learn how to publish it on playstore ...its easy but consistent work ....

registration have been started ......join us
12/08/2024

registration have been started ......join us

Address

ARG SOFTWARE HOUSE AND MEDIA STODIO
Dera Ghazi Khan
32200

Telephone

03336407818

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when ARG posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Practice

Send a message to ARG:

Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on LinkedIn
Share on Pinterest Share on Reddit Share via Email
Share on WhatsApp Share on Instagram Share on Telegram