𝐒.𝐀 𝐇𝐞𝐫𝐛𝐚𝐥 𝐂𝐥𝐢𝐧𝐢𝐜

𝐒.𝐀 𝐇𝐞𝐫𝐛𝐚𝐥 𝐂𝐥𝐢𝐧𝐢𝐜 PURE HERBS 🌿 HEALTHY LIFE🏃🏼‍➡️
Hello Everyone! MEDIACOM PLAZA KOH-NOOR FAISALABAD!! National Council for Tibb Islamabad QH-41821-A

We are introducing The History & Purity of Tibb Unan and right way to get Natural Health!🫀

👩🏼‍🎓QUALIFIED (Ms/Ds) Punjab Health Care.

↪️ADDRESS!

26/10/2025

مشک و عنبر

مشک یعنی کستوری اور عنبر دو اجزاء جو طب یونان میں بہت زیادہ مشہور تھے اور سنیاس کا مقابلہ کرنے کے لیئے ان دو اجزاء کا استعمال ھوتا تھا
جہاں سنیاسی ککھ دیئے جاتے تھے وہاں مشک و عنبر کا مرکب بنا کر چاول برابر مقدار دی جاتی تھی اور اس طرح طب کی افادیت سنیاسی علم کے برابر مانا جاتا تھا کیونکہ سنیاس میں کشتہ جات پہ انحصار کیا جاتا تھا جس میں مختلف دھاتوں اور قیمتی پتھروں کے کشتہ جات بنائے جاتے تھے !
https://www.facebook.com/share/19zHUrvbEJ/?mibextid=wwXIfr
اب ان دو چیزوں کی افادیت مختصر الفاظ میں بیان کر دیتا ھوں تاکہ احباب انکی قدر و قیمت اور افادیت و اہمیت سمجھ سکیں !
مشک !
مشک حضرت آدم علیہ السلام کے وقت سے بنی نوع کے استعمال میں ھے جو اللہ پاک نے فلاح انسانیت کے لیئے عطاء کی اور ایک خاص قسم کے ہرن سے حاصل ھوتی ھے اسکا رنگ ہلکا سیاہ اور ذائقہ و خوشبو تیز ھوتی ھے
مشک کی خاصیت یہ ھے کہ انسان کے بنیادی (DNA) کو ازسرنو تعمیر کرتی ھے اور مضبوط کرتی ھے اور یہ خاصیت باقی دنیا کی کسی چیز میں اب تک دریافت نہیں ھوئی دوسری خوبی یہ کہ تمام اعضاء پہ کام کرتی ھے جس سے قوت مدافعت میں اضافہ ھوتا ھے اور اعصاب مضبوط ھوتے ہیں دوران خون کو بہتر کرتی ھے اور چہرے پہ نور لاتی ھے ، بزرگوں کے مطابق چونکہ یہ انسان کے بنیادی جینز کے لیئے مفید ھے اسلیئے اسکا اثر تین نسلوں تک رہتا ھے !
https://www.facebook.com/share/19zHUrvbEJ/?mibextid=wwXIfr
عنبر
اسکا رنگ مٹیالا ھوتا ھےبے ذائقہ چیز ھے اور جسامت کی نسبت وزن میں ہلکا ھوتا ھے جسکی وجہ سے یہ سمندر کی تہہ پہ تیرتا ھے
یہ سمندر کی ایک خاص مچھلی سے حاصل ھوتا ھے اور خاص دل کی طاقت کے لیئے طب میں اسکو مستقل و کامل علاج مانا جاتا تھا اور سنیاسی یاقوتی کشتہ کے مقابلے میں عنبر کو نعم البدل تصور کیا جاتا تھا
یہ دل کو طاقت دیتا ھے سوداء کو اعتدال پہ لاتا ھے اور ایک خاص مرض اختلاج قلب کا حتمی علاج مانا جاتا تھا اور عارضہ قلب کی کامل دوا تصور کیا جاتا تھا اور گئے گزرے دل کے مریض کو اگر خالص عنبر کے دو چاول مقدار چالیس دن دے دیں تو دل کا عارضہ کبھی لاحق نہیں ھوتا ، یہ دل و دماغ کی پیغام رسانی میں بہتری لاتا ھے اور بزرگ کہتے تھے کہ روح کی بے چینی دور کرتا ھے یعنی آج کی بات کریں تو پھر خوشی کے ہارمونز پیدا کرتا ھے مگر المیہ یہ ھے کہ اس ملک میں ایک تو خالص چیز ملنا محال ھے دوسری بات عوام تین لاکھ ڈاکٹر کو دے دیتی ھے مگر طبیب کا ایک لاکھ مانگنا بھی گالی کے مترادف مانا جاتا ھے
https://www.facebook.com/share/19zHUrvbEJ/?mibextid=wwXIfr
اب کچھ ناقص العلم افراد جند بیدستر اور ریگ ماہی کو قدرت کی اس نعمت کا نعم البدل مان کر لوگوں کو خباثت بھری معجون بنا کر کھلا رہے ہیں اور لوگ سستے کے چکر میں کھا رہے ہیں
ایک دن جدید میڈیکل سائنس سے وابستہ دوست کلینک آئے اور طب و ایلوپیتھی پہ بحث ھوئی تو انہوں نے سوال کیا کہ طبیب کے پاس ہارٹ اٹیک کے لیئے ایمرجنسی کیا کوئی دوا ھے ؟
میں نے انہیں بتایا کہ جی ہاں طب میں ایک ایسی دو ھے جو ہارٹ اٹیک کی صورت میں زبان کے نیچے رکھی جاتی ھے اور دس سیکنڈ میں اثر کرتی ھے اور آج کی جدید سائنس کی دوا بھی اسی نظریہ کے مطابق بنائی گئی ھے تب دوست نے سوال کیا کہ پھر آپ لوگ یہ دوا تیار کیوں نہیں رکھتے ؟؟؟
میں نے انتہائی افسردہ لہجہ میں بتایا کہ اگر ڈاکٹر کے علاج سے مریض نہ بچ سکے تو کوئی بات نہیں مگر طبیب نے دوا دی اور مریض جانبر نہ ھو سکا تو کہرام مچ جائے گا اسلیئے ہم آج کے دور میں ایمرجنسی دوا تیار نہیں رکھتے اور نہ یہ رسک لیتے ہیں !
https://www.facebook.com/share/19zHUrvbEJ/?mibextid=wwXIfr
المختصر طب یونان سب سے زیادہ دوسرے ممالک میں ایک بہترین اور محفوظ طریقہ علاج مانا جاتا ھے مگر پاکستان میں ڈرگ مافیا نے ایسی ذہن سازی کی کہ اس علاج کو پھکی چورن مانا جاتا ھے اور طبیب کو حقیر سمجھا جاتا ھے !
بے شک طب ایک سمندر ھے اور ہم شاید قطرہ برابر بھی نہیں اور بے شک شفاء منجانب اللہ اسلیئے یقین صرف اللہ پاک کی ذات پہ رکھا کریں نہ کہ طبیب اور اسکی دوا پہ !
https://www.facebook.com/share/19zHUrvbEJ/?mibextid=wwXIfr
علاج ہمیشہ مستند معالج سے کروائیں اور خود ساختہ علاج معالجہ و دوا سازی سے گریز کریں !

26/10/2025

ازدواجی زندگی !

اگر آپ بھی بڑھتی عمر یا شوگر جیسے امراض کی وجہ سے پریشان ہیں اور ازدواجی زندگی کے لطف سے محروم ہیں تو آج ہی مستقل علاج کے لیئے رابطہ کریں !
بڑھتی عمر ، شوگر ، مشت زنی ، کثرت ج**ع یا کثرت اح**ام و جریان سے بہت سے پیچیدہ مسائل پیدا ھوتے ہیں جن میں ٹیسٹوسٹیران کی کمی ضعف قلب ، ضعف باہ ، سرعت انزال وغیرہ
الحمدللہ ہم پورے معیار سے نایاب مرکبات تیار کرتے ہیں جو قلیل مدتی علاج ھوتا ھے مریض کی مایوسی دور ھوجاتی ھے اور ازدواجی زندگی بحال ھوجاتی ھے
سستے اور وقتی علاج سے فائدہ کی بجائے نقصان ھوتا ھے اور مذید پیچیدہ مسائل پیدا ھوتے ہیں !
اگر آپ بھی علاج معالجہ کروا کے تھک چکے ہیں مایوس ھو چکے ہیں تو رابطہ کریں !

علاج معالجہ ہمیشہ مستند معالج سے کروائیں اور خود ساختہ علاج معالجہ و دوا سازی سے گریز کریں !

بیشک!
26/10/2025

بیشک!

بیشک
24/10/2025

بیشک

23/10/2025

کاش میں نے طب کی بجائے ٹماٹر 🍅 کے کاروبار پہ توجہ دی ھوتی …😊

23/10/2025

کشتہ فولاد (ثمری )

ہم روز مرہ زندگی میں اپنی صحت اور زندگی سے خود کھیلتے ہیں اور ہمیں خبر ہی نہیں ھوتی کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔
الحمدللہ ہم اپنے طبی سفر میں سب سے زیادہ آگاہی کے لیئے کام کر رہے ہیں، نہ میں ارسطو ھوں نہ عقل کل بہرحال جتنی میری بساط ھے کوشش کرتا ھوں کہ عوام تک معلومات پہنچ سکیں۔
بہت سے اہل علم اور اہل ظرف دوست ہیں جو اس کاوش کو سراہتے ہیں باقی کچھ دوست اپنی تربیت اور ظرف کمنٹس میں ظاہر کرتے ہیں ، بہرحال ہم اپنے سفر پہ قائم ہیں انشاءاللہ
دوستو پاکستان کی نصف سے زیادہ آبادی ریگولر ڈرگ یوزر ھے مطلب ہر شخص روزانہ کی بنیادوں پہ کوئی نہ کوئی دوا استعمال کر کے سوتا ھے اور یقین کریں یہ اپنی زندگی کے ساتھ ظلم ھے اور وجہ یہ ھے کہ ہمیں ادویات کے نقصانات کا اندازہ ہی نہیں، بس جس دوا سے فوری آفاقہ ھوتا ھے وہ ہم خود ساختہ طریقہ علاج سے لینا شروع کر دیتے ہیں۔
ڈرگ مافیا نے ہماری قوم میں ایک نئی چیز متعارف کروا دی اور وہ ھے ملٹی وٹامنز کا گھناونا کھیل جو سراسر ظلم ھے۔
آپ اندازہ کریں کہ ایک انتہائی ہائی پوٹینسی وٹامن ڈی کا کیپسول جو ہم دودھ میں ملا کر پیتے ہیں یکدم ہمارے جگر اور گردہ کی تباہی کا سبب بنتا ھے بلکہ ایک دوست کے گردے فیل بھی ھو چکے ہیں، اب یہ ٹوٹل Synthetic طریقہ سے تیار دوائیں ہیں جو انسانی وجود کو تباہ کر دیتی ہیں۔
المختصر اپنے اصل ٹاپک کی طرف آئیں تو بچپن میں دادا حضور مجھے مکھن میں کشتہ فولاد دیتے تھے اور آج ہم اسکی افادیت پہ مختصر لکھیں گے تو آپ حیران ھونگے۔
مکھن ایک بہترین غذائی علاج ھے اور جب اس میں کشتہ فولاد ملا دیا جاتا ھے تو اسکی افادیت دس گنا بڑھ جاتی ھے
یہ انسان کو فوری طور پر چست کرتا ھے آئرن کی کمی دور ھوتی ھے ، نظام تنفس میں بہتی آتی ھے آکسیجن کی روانی میں بہتری آتی ھے اور دماغی بوجھ کم ھوتا ھے ، چونکہ مکھن میں وٹامن ڈی ھوتا ھے اسلیئے معدہ اور آنتوں کی کارکردگی بہتر ھوتی ھے، اسکے ساتھ ساتھ Serotonin ہارمونز میں بہتری آتی ھے جس سے ڈپریشن ختم ھوتا ھے اور موڈ اچھا ھوتا ھے باقی سوداء کا غلبہ ختم ھوتا ھے دماغی صلاحیت میں بہتری آتی ھے اور یادداشت میں بہتری آتی ھے ۔
خون میں سرخ ذرات کی افزائش ھوتی ھے جس سے خون کی کمی نہیں ھوتی اور جسمانی تھکاوٹ دور ھوتی ھے اعصابی نظام بہتر ھوتا ھے اور قوت مدافعت بہتر ھوتی ھے۔
اعصابی نظام کا تناو ختم ھوتا ھے اور جسمانی و اعصابی درد میں افاقہ ھوتا ھے ، جسمانی کمزوری دور ھوتی ھے اور گرمی کا احساس ختم ھوتا ھے ۔
پورے وجود میں نظام دوران خون میں بہتری آتی ھے جس سے دل کی دھڑکن اعتدال پر آتی ھے۔ صفراوی مادے کو بتدریج اعتدال پر لاتی ھے، جگر کی کارکردگی بہتر ھوتی ھے اور بھوک میں اضافہ ھوتا ھے
بچوں میں پاپڑ نمکو وغیرہ کا رواج عام ھے جسکی وجہ سے بچوں کا جگر ڈسٹرب ھو جاتا ھے اور بھوک کی کمی ھوتی ھے بچہ زرد رنگت اور کمزوری کا شکار ھو جاتا ھے جس سے اکثر مائیں پریشان رہتی ہیں تو یہ کشتہ بچوں کے لیئے اکسیر دوا ھے۔
سب سے اہم بات یہ کہ اگر ایسی خوراک یا علاج ہفتہ عشرہ ہی کیا جائے تو اسکا اثر سالوں تک رہتا ھے اور پورا نظام اعتدال پر رہتا ھے اور اسکے برعکس مصنوعی ادویات جتنی لیں گے اتنا نقصان ھوگا اور عادت پڑتی جائے گی۔
پہلے بھی بتا چکے ہیں کہ طب کے بہت سے مرکبات ہیں جنکی افادیت کو مانتے ھوئے ایلوپیتھی میں ادویات تیار کی گئی ہیں مثال کے طور پر کشتہ فولاد کی بجائے آئرن آکسائیڈ شربت اور کیپسول Synthetic طریقہ سے تیار کیئے گئے جو کہ قطعی طبیب کے بنے کشتہ کا متبادل نہیں ھو سکتے کیونکہ طبیب ایک کلو کشتہ میں کلو کے حساب سے جامن کا رس، تربوز کا پانی اور کئی پھلوں کا رس جذب کرتا ھے اور پھر دو سال بعد مکمل ثمری کشتہ تیار ھوتا ھے اور فارما والے ایک گھنٹہ میں من کے حساب سے تیار کر دیتے ہیں۔
افسوس کہ آج حقیقی علاج پہ تنقید ھوتی ھے اور ڈرگ مافیا پہ یقین رکھا جاتا ھے ، ہزاروں مریض روزانہ کی بنیادوں پہ ہسپتالوں میں مر رہے ہیں مگر کسی کو نظر نہیں آتے اور تنقید طبیب پہ کی جاتی ھے اسکی وجہ صرف علم اور شعور کی کمی ھے ۔
ہمیں بچپن سے ہی اسی خوراک اور دیسی علاج کا عادی بنایا گیا ھے اور الحمدللہ آج بھی ہم یہی استعمال کرتے ہیں نہ تو گردے فیل ھوئے اور نہ خاندان میں دیسی علاج سے کسی کی موت واقع ھوئی !!!!

خود ساختہ علاج معالجہ سے گریز کریں اور ہمیشہ علاج کسی مستند معالج سے کروائیں۔

کمنٹس میں قیمت پوچھنے سے گریز کریں اور علاج کے لیئے شام کو کال کریں، ہیلو ہائے والے لوگوں کو رپلائی نہیں دیا جاتا۔ معذرت

23/10/2025

تاریخ طب یونانی۔

خلیفہ ﺍﻟﻤﻨﺼﻮﺭ ﮐﮯ ﻋﮩﺪ ﺧﻼﻓﺖ ﺳﮯ ﺑﻐﺪﺍﺩ ﻣﯿﮟ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﺳﮯ ﻭﯾﺪﻭﮞ ﮐﯽ ﺍٓﻣﺪ ﮐﺎ ﺳﻠﺴﻠﮧ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺟﺲ ﮐﺎ ﻣﻘﺼﺪ ﺍٓﯾﻮﺭﻭﯾﺪ ﮐﯽ ﻣﻌﻠﻮﻣﺎﺕ ﮐﻮ ﻋﺮﺑﻮﮞ ﺗﮏ پہچانا ﺗﮭﺎ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﮨﺎﺭﻭﻥ ﺍﻟﺮﺷﯿﺪﮐﮯ ﻋﻼﺝ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﺳﮯ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﮨﻨﺪﯼ ﻃﺒﯿﺐ ﻣﻨﮑﮧ ﮐﻮ ﺑﻐﺪﺍﺩﻣﺪﻋﻮ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﺟﻮ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﮐﯽ شفاء ﮐﺎ ﺫﺭﯾﻌﮧ ﺑﻨﺎ.

ﺧﻠﯿﻔﮧ ﮨﺎﺭﻭﻥ ﮐﯽ ﻋﻠﻢ ﺩﻭﺳﺘﯽ ﺍﻭﺭ ﺳﺨﺎﻭﺕ ﮐﮯ ﭼﺮﭼﮯ ﺳُﻦ ﮐﺮ ﮨﻨﺪﯼ ﻭﯾﺪﻭﮞ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺑﮍﯼ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﺑﻐﺪﺍﺩ ﻣﯿﮟ ﺟﻤﻊ ﮨﻮﮔﺌﯽ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﺤﮑﻤﺖ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﻭﯾﺪ ﻣﺎﻣﻮﺭ ﮐﺌﮯ ﮔﺌﮯ ﺗﮭﮯ ﻭﮦ ﺳﻨﺴﮑﺮﺕ ﺍﻭﺭ ﻋﺮﺑﯽ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺯﺑﺎﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﮨﺮ ﺗﮭﮯ.

ﻣﻨﮑﮧ ﺍﻟﮩﻨﺪﯼ ﻧﮯ ﺍٓﯾﻮﺭﻭﯾﺪ ﮐﯽ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﮐﺘﺎﺏ ﭼﺮﮎ ﺳﻨﮩﺘﺎ ﮐﺎ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺳﺸﺮﺕ ﺳﻨﮩﺘﺎ ﮐﺎﻋﺮﺑﯽ ﻣﯿﮟ ﺗﺮﺟﻤﮧ ﮐﯿﺎ

ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﻋﺮﺑﻮﮞ ﻧﮯ ﮨﻨﺪﯼ ﻃﺐ ﺳﮯ ﺑﮭﺮﭘﻮﺭ ﺍﺳﺘﻔﺎﺩﮦ ﮐﯿﺎ.

ﯾﮩﯽ ﻭﺟﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺭﺍﺯﯼ ﺍﺑﻦ ﺑﯿﻄﺎﺭ ﺭﺑﻦ ﻃﺒﺮﯼ ﻧﻮﺡ ﺍﻟﻘﻤﺮﯼ ﺟﯿﺴﮯ ﻋﻈﯿﻢ ﺍﻃﺒﺎﺀ ﮐﯽ ﮐﺘﺐ ﻣﯿﮟ ﮨﻨﺪﯼ ﻃﺐ ﮐﮯ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﮐﺜﺮﺕ ﺳﮯ ﻧﻈﺮ ﺍٓﺗﮯ ﮨﯿﮟ.

ﻋﻠﻢ ﺍﻻﺩﻭﯾﮧ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺧﺎﺹ ﺍﺛﺮ ﺩﮐﮭﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻃﺮﯾﻔﻞ ﺳﺎﻡ ﭘُﭧ ﮔﺠﺮ ﭘُﭧ ﺟﯿﺴﯽ ﺍﺻﻄﻼﺣﺎﺕ ﮨﻨﺪﯼ ﻃﺐ ﮨﯽ ﺳﮯ ﻣﺎﺧﻮﺫ ﮨﯿﮟ.

ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺍﺧﺬ ﻭ ﺍﺳﺘﻔﺎﺩﮦ ﮐﺎ ﺳﻠﺴﻠﮧ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﺟﺎﺭﯼ ﺭﮨﺎ ﺑﮩﺖ ﺳﯽ ﯾﻮﻧﺎﻧﯽ ﺩﻭﺍﺋﯿﮟ ﺍٓﯾﻮﺭﻭﯾﺪ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺷﺎﻣﻞ ﮐﯽ ﮔﺌﯿﮟ.

ﯾﻮﻧﺎﻧﯽ ﻃﺐ ﺟﺎﻣﻊ ﮐﻤﺎﻻﺕ ﮐﺎ ﻣﺠﻤﻮﻋﮧ ﮨﻨﺪﯼ ﺍﻃﺒﺎﺀ ﮐﮯ ﺭﺑﻂ ﻣﯿﮟ ﺍٓﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯽ ﺗﮭﺎ

ﺍﺗﻨﺎ ضرور ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍٓﯾﻮﺭﻭﯾﺪ ﮐﮯ ﺍﺿﺎﻓﮧ ﺳﮯ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﭼﺎﺭ ﭼﺎﻧﺪ ﻟﮓ ﮔﺌﮯ

ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺳﻤﺮﻗﻨﺪ اﺻﻔﮩﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﺩﻣﺸﻖ ﻣﯿﮟ ﻧﺌﮯ ﻋﻠﻤﯽ ﺍﺩﺍﺭﮮ ﺍﺑﮭﺮﮮ ﺍﻭﺭ ﭘﺮﻭﺍﻥ ﭼﮍﮬﻨﮯ ﻟﮕﮯ.

ﺍﻥ ﻋﻠﻤﯽ ﺩﺭﺳﮕﺎﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺩﻭﺭ ﺩﻭﺭ ﮐﮯ ﻃﻠﺒﺎﺀ ﻃﺐ ﮐﯽ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍٓﻧﮯ ﻟﮕﮯ.

ﺍٓﻏﺎﺯ ﻣﯿﮟ ﺩﺭﺳﯽ ﮐﺘﺐ ﺑﺎﻟﮑﻠﯿﮧ ﻭﮨﯽ ﮐﺘﺎﺑﯿﮟ ﺗﮭﯿﮟ ﺟﻮ ﯾﻮﻧﺎﻧﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﺳﮯ ﻋﺮﺑﯽ ﻣﯿﮟ ﺗﺮﺟﻤﮧ ﮐﯽ ﮔﺌﯿﮟ

ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﻃﺐ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺸﺮﻗﯽ ﺧﻄﻮﻁ ﭘﺮ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺑﻘﺮﺍﻃﯽ ﺑﻦ ﮔﺌﯽ ﺟﺲ ﮐﯽ ﺑﻨﯿﺎﺩ ﺗﺠﺮﺑﺎﺕ ﺍﻭﺭ ﻣﻨﻄﻖ ﭘﺮ ﺭﮐﮭﯽ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ.

ﺍﻥ ﻣﺴﻠﻢ ﺍﻃﺒﺎﺀ ﻧﮯ ﯾﻮﻧﺎﻧﯽ ﺷﮧ ﭘﺎﺭﻭﮞ ﮐﻮ ﺧُﺮﺩ ﺑُﺮﺩ ﻭ ﺿﯿﺎﻉ ﺳﮯ ﺑﭽﺎﻟﯿﺎ ﻭﺭﻧﮧ ﻣﻐﺮﺏ ﺗﮏ ﯾﮧ ﻋﻠﻮﻡ ﮨﺮﮔﺰ ﻧﮧ پھنچ ﭘﺎﺗﮯ ﺍﻭﺭ ﺩﻧﯿﺎ ﺍﯾﮏ ﺑﮩﺖ ﺑﮍﮮ ﻋﻠﻤﯽ ﺫﺧﯿﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﻣﺤﺮﻭﻡ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﯽ.

ﺍﺳﻼﻡ ﮐﯽ ﺑﮍﮬﺘﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﻃﺎﻗﺖ ﮐﯽ ﺑﺪﻭﻟﺖ ﻋﺮﺑﯽ ﻋﻠﻢ ﻭ ﺣﮑﻤﺖ ﮐﮯ ﻋﻠﻢ ﺑﺮﺩﺍﺭ ﻧﮩﺎﯾﺖ ﺍٓﺏ ﻭﺗﺎﺏ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﭙﯿﻦ پھنچے ﺟﮩﺎﮞ ﺗﯿﺰﯼ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻧﺌﮯ ﻣﺪﺍﺭﺱ ﺗﺸﮑﯿﻞ ﭘﺎﻧﮯ ﻟﮕﮯ ﺑﺎﻟﺨﺼﻮﺹ ﻗﺮﻃﺒﮧ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺟﻠﺪ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﺎ ﻋﻈﯿﻢ ﺍﻟﺸﺎﻥ ﮐﺘﺐ ﺧﺎﻧﮧ ﻗﺎﺋﻢ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺗﻘﺮﯾﺒﺎً ۳ ﻻﮐﮫ ﮐﺘﺎﺑﯿﮟ ﺗﮭﯿﮟ. ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺳﺴﻠﯽ ﻃﻼﻃﻠﮧ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻋﻠﻤﯽ ﺍﺩﺍﺭﮮ ﻗﺎﺋﻢ ﮨﻮۓ.

ﺍﺱ ﻋﮩﺪ ﻣﯿﮟ ﻃﺐ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﺷﻌﺒﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺗﺮﻗﯽ ﮐﺮﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﻋﺮﺏ ﻋﻠﻤﺎﺀ ﻓﻦ ﻗﺪﯾﻢ ﻃﺒﯽ ﺧﺰﺍﺋﻦ ﮐﮯ ﺩﯾﺎﻧﺖ ﺩﺍﺭ ﺍﻭﺭ ﻣﺤﺎﻓﻆ ﺑﻦ ﮔﺌﮯ.

ﻋﺮﺑﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﯾﺴﮯ ﻧﻤﺎﯾﺎﮞ ﺍﻭﺭ ﻗﺎﺑﻞ ﯾﺎﺩﮔﺎﺭ ﻧﻘﻮﺵ ﻭ ﺍﺛﺮﺍﺕ ﭼﮭﻮﮌﮮ ﺟﻮ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﻣﻤﺘﺎﺯ ﺣﯿﺜﯿﺖ ﺳﮯ ﺍﺏ ﺗﮏ ﺑﺎﻗﯽ ﺭﮐﮭﮯ ﮨﻮﺋﮯ ہیں.

ﻋﺮﺑﻮﮞ ﻧﮯ ﯾﻮﻧﺎﻧﯽ ﻃﺐ ﮐﯽ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﺑﮭﯽ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﮔﺮﺍں قدر ﺍﺿﺎﻓﮯ ﺑﮭﯽ ﮐﺌﮯ.

ﻃﺐ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﺴﺎﺏ ﺍﻥ ﻗﻮﻣﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﮐﯿﺎ ﺟﻦ ﺳﮯ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺣﺎﺻﻞ. ﮐﯿﺎ

ﯾﮧ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺍﯾﻤﺎﻧﺪﺍﺭﯼ ﻭ ﺩﯾﺎﻧﺖ ﮐﯽ ﺍﻋﻠﯽٰ ﻣﺜﺎﻝ ﮨﮯ ﺟﺲ ﮐﮯ ﻣﻌﺘﺮﻑ. ﻣﻐﺮﺑﯽ ﺍﻗﻮﺍﻡ ﺑﮭﯽ ﮨﯿﮟ

ﯾﮩﯽ ﻭﺟﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍٓ ﺝ ﺑﮭﯽ ﯾﮧ ﻃﺐ ﻃﺐ ﯾﻮﻧﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﺟﺎﻧﺎ ﺟﺎﺗﺎ .ہے

ﺍﺱ ﺍﯾﮏ ﺻﺪﯼ ﻣﯿﮟ ﺍﺗﻨﺎ ﻋﻠﻤﯽ ﺫﺧﯿﺮﮦ ﻭﺟﻮﺩ ﻣﯿﮟ ﺍٓﯾﺎ ﺟﻮ ﮐﺌﯽ ﺻﺪﯾﻮﮞ ﭘﺮ ﺑﮭﺎﺭﯼ ﮨﮯ.

ﺍٓﭨﮭﻮﯾﮟ ﺻﺪﯼ ﺳﮯ ﺑﺎﺭﮨﻮﯾﮟ ﺻﺪﯼ ﺗﮏ ﭘﻮﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﻋﺮﺑﻮﮞ ﮐﺎ ﻋﻠﻤﯽ ﺩﺑﺪﺑﮧ ﻗﺎﺋﻢ ﺭﮨﺎ.

ﻋﻤﻞ ﺟﺮﺍﺣﯽ ﻓﺼﺪ ﺣﺠﺎﻣﺖ ﺗﻌﻠﯿﻖ ﻋﻤﻞ ﮐﺌﯽ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﮐﻮ ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﻧﮧ ﺻﺮﻑ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﯿﺎ ﺑﻠﮑﮧ ﺟﺪﯾﺪ ﺍﺿﺎﻓﮯ ﺑﮭﯽ ﮐﺌﮯ.

ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺧﻮﻥ ﮐﯽ ﺩﺭﯾﺎﻓﺖ ﮐﺎ ﺳﮩﺮﺍ ﺍﯾﮏ ﻋﺮﺏ ﻃﺒﯿﺐ ﺍﺑﻦ ﻧﻔﯿﺲ ﮐﮯ. ﺳﺮ ﮨﮯ ﺟﺲ ﮐﮯ ﭼﮫ ﺳﻮ ﺳﺎﻝ ﺑﻌﺪ ﻭﻟﯿﻢ ﮨﺎﺭﻭﮮ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﭘﯿﺶ ﮐﯿﺎ

ﭼﯿﭽﮏ ﮐﺎ ﭨﯿﮑﮧ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺮﺍﺽ ﻣﯿﮟ ﺗﻌﻔﻦ ﮐﺎ ﺗﺼﻮﺭ ﺭﺍﺯﯼ ﻧﮯ ﺩﯾﺎ.

ﻣﺸﮩﻮﺭ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺷﻔﺎ ﺧﺎﻧﮧ ﮐﯽ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺻﺤﺘﻤﻨﺪ ﺟﮕﮧ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﺨﺎﺏ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﺭﺍﺯﯼ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﮐﮯ ﮔﻮﺷﺖ ﮐﮯ ﭨﮑﮍﮮ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺷﮩﺮ ﮐﮯ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﻣﻘﺎﻣﺎﺕ ﭘﺮ ﻟﭩﮑﻮﺍﺩﯾﺌﮯ ﭘﮭﺮ ﺟﺲ ﻣﻘﺎﻡ ﮐﺎ ﭨﮑﮍﺍ. ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﻣﺘﻌﻔﻦ ﮨﻮﺍ

ﺍﺳﯽ ﻣﻘﺎﻡ ﮐﯽ ﺍٓﺏ ﻭ ﮨﻮﺍ ﮐﻮ ﺷﻔﺎ ﺧﺎﻧﮧ ﮐﯽ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺑﮩﺘﺮﯾﻦ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﺎ

ﺭﺍﺯﯼ ﮐﯽ ﯾﮧ ﺣﮑﻤﺖ ﻋﻤﻠﯽ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﮐﺎ ﺛﺒﻮﺕ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﻣﺎﺣﻮﻝ ﻣﯿﮟ ﺟﺮﺍﺛﯿﻢ ﮐﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩﮔﯽ ﮐﮯ ﻓﻠﺴﻔﮧ ﺳﮯ ﻭﺍﻗﻒ ﺗﮭﺎ.

ﺍﻣﺮﺍﺽ ﭼﺸﻢ ﭘﺮ ﺧﺼﻮﺻﯽ ﺗﻮﺟﮧ ﺩﯼ ﮔﺌﯽ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﻃﺒﯽ ﻣﻮﺿﻮﻋﺎﺕ ﭘﺮ ﺑﮑﺜﺮﺕ ﮐﺘﺎﺑﯿﮟ ﻟﮑﮭﯽ گٸی

ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﯾﻮﺭﭖ ﺗﺎﺭﯾﮏ ﺩﻭﺭ ﺳﮯ ﮔزﺭ رﮨﺎ ﺗﮭﺎ.

ﺟﺐ ﮐﮧ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﻋﻠﻢ ﺩﯾﻦ ﮐﯽ ﺷﻤﻌﯿﮟ ﺭﻭﺷﻦ ﮨﻮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﺍﺱ ﻋﮩﺪ ﮐﯽ ﺗﺼﻨﯿﻔﺎﺕ ﺳﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﯾﻮﺭﭖ ﻧﮯ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﺍﭨﮭﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﺜﺮﺕ ﺳﮯ ﻋﺮﺑﯽ ﺗﺼﺎﻧﯿﻒ ﮐﮯ ﻻﻃﯿﻨﯽ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﮕﺮ ﺯﺑﺎﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺗﺮﺟﻤﮯ ﮐﺌﮯ ﮔﺌﮯ.

ﺍﺑﻦ ﺳﯿﻨﺎ ﮐﯽ ﺍﻟﻘﺎﻧﻮﻥ ﺭﺍﺯﯼ ﮐﯽ ﺍﻟﺤﺎﻭﯼ ﻣﺠﻮﺳﯽ ﮐﯽ ﮐﺎﻣﻞ ﺍﻟﺼﻨﺎﻋۃ ﺯﮬﺮﺍﻭﯼ ﮐﯽ ﺍﻟﺘﺼﺮﯾﻒ ﺟﯿﺴﯽ ﺑﮩﺖ ﺳﯽ تصانیف ﮐﺎ ﻣﻐﺮﺑﯽ ﺯﺑﺎﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺗﺮﺟﻤﮧ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺳﺘﺮہوﯾﮟ ﺻﺪﯼ ﻋﯿﺴﻮﯼ ﺗﮏ ﯾﻮﺭﭖ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﻧﺼﺎﺏ ﺭﮨﯿﮟ

ﻟﮩﺬﺍ ﯾﮧ ﮐﮩﻨﺎ ﮐﮧ ﺍٓﯾﻮﺭﻭﯾﺪ ﺳﮯ ﺍﮨﻞ ﯾﻮﺭﭖ ﻧﮯ ﺗﺮﺍﺟﻢ ﮐﺌﮯ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﻮ ﺟﮭﭩﻼﻧﮯ ﮐﮯ ﻣﺘﺮﺍﺩﻑ ﮨﮯ.

ﺟﻨﺎﺏ ﺣﮑﯿﻢ ﺳﯿﺪ ﻇﻞ ﺍﻟﺮﺣﻤﻦ
ﻣﺤﺘﺮﻡ ﺟﻨﺎﺏ ﺣﮑﯿﻢ ﺳﯿﺪ ﻇﻞ ﺍﻟﺮﺣﻤﻦ ﻧﮯ ﺣﯿﺪﺭﺍٓﺑﺎﺩ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻣﻮﻗﻊ ﭘﺮ ﺧﻄﺎﺏ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ کہ

ﻃﺐ ﯾﻮﻧﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﻣﺴﻠﻤﮧ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺳﺐ ﺳﮯ ﻗﺪﯾﻢ ﻃﺐ ﮨﮯ

ﺟﺲ ﮐﺎ ﺳﻠﺴﻠﮧ ﺑﺎﺑﻠﯽ ﺗﮩﺬﯾﺐ ﺳﮯ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺯﻧﺪﮦ ﺷﮑﻞ ﻣﯿﮟ ﺍٓﺝ ﺑﮭﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﮯ

ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﻃﻠﺒﮧ ﻭ ﺍﺳﺎﺗﺬﮦ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺫﮨﻦ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺭکھنی ﭼﺎﮨﯿﮯ

اﻭﺭ ﯾﮧ ﻃﺐ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ کی ﺗﮩﺬﯾﺐ ﻭ ﺛﻘﺎﻓﺖ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺋﻨﺪﮔﯽ ﺑﮭﯽ ﮐﺮتی ﮨﮯ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﮨﻤﯿﮟ ﯾﻮﻧﺎﻧﯽ ﻃﺐ ﺳﮯ ﺧﺎﺹ ﻟﮕﺎٶ ﺍﻭﺭ ﻣﺤﺒﺖ ﮨﮯ۔ ﻃﺐ ﯾﻮﻧﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﺑﻨﯿﺎﺩﯼ ﻧﻈﺮﯾﺎﺕ ﺍﺗﻨﮯ ﺳﺎﺋﻨﭩﻔﮏ ﺍﺗﻨﮯ ﺟﺎﻥ ﺩﺍﺭ ﺍﻭﺭ ﺍﺗﻨﮯ ﺷﺎﻧﺪﺍﺭ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ

ﺍﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺗﺌﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﺩﻭﺳﺮی ﻃﺐ ﺳﮯ ﻣﻼﻧﮯ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ

ﺟﯿﺴﺎ کہ ﮐﭽﮫ ﺳﺎﺩﮦ ﻟﻮﺡ ﻃﺒﯿﺒﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﺎﺿﯽ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ

ﻃﺐ ﯾﻮﻧﺎﻧﯽ ﮐﺎ ﻋﺎﻟﻤﯽ ﻃﺐ ﭘﺮ ﺑﮍﺍ ﺍﺣﺴﺎﻥ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺩﻭﺍﺋﯿﮟ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﻧﻈﺎﻡ ﮨﺎﺋﮯ ﻃﺐ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﯽ ﺟﺎﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ

ﻃﺐ ﯾﻮﻧﺎﻧﯽ ﮨﻨﺪ ﻣﯿﮟ

ﻋﺮﺏ ﻭ ﺍﯾﺮﺍﻥ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻃﺐ ﯾﻮﻧﺎﻧﯽ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ پہنچ ﭼﮑﯽ ﺗﮭی ﺑﺎﺭﮨﻮﯾﮟ ﺻﺪﯼ ﻋﯿﺴﻮﯼ ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﺑﺎﻗﺎﻋﺪﮦ ﻣﺴﻠﻢ ﺳﻠﻄﻨﺘﯿﮟ ﻗﺎﺋﻢ ﮨﻮﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﻃﺐ ﯾﻮﻧﺎﻧﯽ ﮐﻮ ﺍﺳﺘﺤﮑﺎﻡ ﻣﻼ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺣﮑﻤﺮﺍﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﺎﺗﮫ ﻋﻮﺍﻡ ﮐﺎ ﺑﮭﯽ ﻭﺍﻓﺮ ﺗﻌﺎﻭﻥ ﺭﮨﺎ

ﺭﻓﺘﮧ ﺭﻓﺘﮧ ﯾﻮﻧﺎﻥ ﻋﺮﺏ ﺍﻭﺭ ﻋﺠﻢ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﻃﺐ ﯾﻮﻧﺎﻧﯽ ﮐﺎ ﻧﮧ ﺻﺮﻑ ﻭﺍﺭﺙ ﺑﻠﮑﮧ ﻣﺮﮐﺰ ﺑﻦ ﮔﯿﺎ

ﺍﺱ ﮐﺎ ﺗﺴﻠﺴﻞ ﻋﮩﺪ ﻏﺰﻧﯽ ﺳﮯ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮ ﮐﺮ ﻋﮩﺪ ﻏﻮﺭﯼ ﻋﮩﺪ ﻏﻼﻣﺎﻥ ﺧﻠﺠﯽ ﻟﻮﺩﮬﯽ ﺗﻐﻠﻖ ﺍﻭﺭ ﻋﮩﺪ ﻣﻐﻠﯿﮧ ﺗﮏ ﺟﺎﺭﯼ ﺭﮨﺎ

ﺟﻨﻮﺑﯽ ﮨﻨﺪﻭ ﺩﮐﻦ ﻣﯿﮟ بھﻤﻨﯽ ﺳﻠﻄﻨﺖ ﻗﻄﺐ ﺷﺎﮨﯽ ﻋﺎﺩﻝ ﺷﺎﮨﯽ ﻧﻈﺎﻡ ﺷﺎﮨﯽ ﺍﻭﺭ ﺍٓﺻﻒ شاﮨﯽ ﺳﻠﻄﻨﺘﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﻃﺐ ﮐﮯ ﻓﺮﻭﻍ ﻣﯿﮟ ﻧﻤﺎﯾﺎﮞ ﮐﺮﺩﺍﺭ ﺍﺩﺍ ﮐﯿﺎ

ﺑﺮﻃﺎﻧﻮﯼ ﻋﮩﺪ ﻣﯿﮟ ﻃﺐ ﯾﻮﻧﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﺗﺮﻗﯽ ﻣﺘﺎﺛﺮ ﮨﻮﺋﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﭼﻮﻧﮑﮧ ﻋﻮﺍﻡ ﮐﮯ ﺩﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻃﺐ ﯾﻮﻧﺎﻧﯽ ﮔﮭﺮ ﮐﺮ ﭼﮑﯽ ﺗﮭﯽ

ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﻃﺒﯽ ﺧﺎﻧﻮﺍﺩﻭﮞ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﻓﻌﺎﻝ ﻭ ﻣﺘﺤﺮﮎ ﺑﻨﺎﺋﮯ ﺭﮐﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻃﺐ ﮐﻮ ﺯﻭﺍﻝ ﺳﮯ ﺑﭽﺎﻟﯿﺎ

ﺑﺮﻃﺎﻧﻮﯼ ﻋﮩﺪ ﮐﮯ ﻏﺮﻭﺏ ﮐﮯ ﺍﯾﺎﻡ ﻣﯿﮟ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﻣﺠﺎﮨﺪ ﺍٓﺯﺍﺩﯼ ﻭ ﻣﺴﯿﺤﺎﺋﮯ ﻗﻮﻡ ﺣﮑﯿﻢ ﺍﺟﻤﻞ ﺧﺎﻥ ﮐﮯ ﻣﺠﺎﮨﺪﺍﻧﮧ ﮐﺎﺭﻧﺎﻣﻮﮞ ﻧﮯ ﻃﺐ ﯾﻮﻧﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﻣﯿﮟ ﺍﮨﻢ ﺭﻭﻝ ﺍﺩﺍ ﮐﯿﺎ

ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﻃﺐ ﯾﻮﻧﺎﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﺭﯾﺴﺮﭺ ﺍﻭﺭ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﮐﺎ ﺍٓﻏﺎﺯ ﮐﺮ ﮐﮯ ﻋﺼﺮﯼ ﻋﻠﻮﻡ ﺳﮯ ﺩﯾﺴﯽ ﻃﺒﻮﮞ ﮐﻮ ﮨﻢ ﺍٓﮨﻨﮓ ﮐﯿﺎ

ﺍٓﺯﺍﺩ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﮕﺮ ﮨﻨﺪﯼ ﻃﺒﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻃﺐ ﯾﻮﻧﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﺑﻘﺎ ﻭ ﻓﺮﻭﻍ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺑﮭﯽ ﻣﻨﺎﺳﺐ ﻗﺪﻡ ﺍﭨﮭﺎﺋﮯ ﮔﺌﮯ

ﺟﺲ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻃﺐ ﯾﻮﻧﺎﻧﯽ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﺟﺎﺋﺰ ﻣﻘﺎﻡ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﺍٓﺝ ﺻﻮﺭﺕ ﺣﺎﻝ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﭘﻮﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﻭﺍﺣﺪ ﻣﻠﮏ ﮨﮯ

ﺟﮩﺎﮞ ﭘﺮ ﻃﺐ ﯾﻮﻧﺎﻧﯽ ﮐﻮ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﮐﯽ ﺳﺮ ﭘﺮﺳﺘﯽ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﮯ

ﻓﺮﻧﮕﯽ ﻃﺐ ﺟﺪﯾﺪ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﻃﺐ ﯾﻮﻧﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﻭﺍﺑﺴﺘﮧ ﺍﻓﺮﺍﺩ ﺍﺟﺘﻤﺎﻋﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﺳﮩﻮﻟﯿﺎﺕ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﺳﮯ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﯾﮟ

ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺍﮨﻞ ﺛﺎﺑﺖ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺟﮩﺪ ﻣﺴﻠﺴﻞ ﺟﺎﻧﻔﺸﺎﻧﯽ ﻋﻤﻞ پیھم ﺍﻭﺭ ﺟﺪﯾﺪ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﺳﮯ ﮨﻢ ﺍٓﮨﻨﮓ ﮐﺮﺗﮯ ﺭﮨﯿﮟ

ﺗﺎﮐﮧ ﻃﺐ ﯾﻮﻧﺎﻧﯽ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺗﺮﻗﯽ ﮐﺮتی چلی ﺟﺎﺋﮯ.

علم طب میں مسلمانوں کی خدمات

آپ صلی الله علیہ وسلم کے زمانے میں بڑے بڑے طبیب موجود تھے، جو لوگوں کو طب کی تعلیم دیتے تھے.

حارث بن کلدہ ثقفی عرب کے بڑے طبیبوں میں شمار ہوتے ہیں، انہوں نے فارس کے علاقے جندی شاپور میں طب کی تعلیم حاصل کی تھی،کئی صحابہ کو آپ نے حارث بن کلدہ سے علاج ومعالجہ کا مشورہ دیا تھا،انہوں نے آپ کے دست حق پر اسلام قبول کرلیا تھا، ضماد بن ثعلبہ الازدی رضی اللہ عنہ مشہور صحابی ہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے بعد اپنے معالج ہونے کا تذکرہ بھی کیا تھا، خود آپﷺ صلی الله علیہ وسلم روحانی طبیب ہونے کے ساتھ جسمانی طبیب بھی تھے،آپ صلی الله علیہ وسلم کے طبی ارشادات بڑی اہمیت کے حامل ہیں،آپ صلی الله علیہ وسلم سے نظری اور عملی دونوں طرح کے علاج مروی ہیں، احادیث اور سیرت کی کتابوں میں باقاعدہ ”کتاب الطب“ موجود ہے، طب نبویﷺ کے موضوع پر بہت سی کتابیں لکھی گئیں، جس میں مفردات اور مرکبات سے علاج کی تفصیل موجود ہے.

علامہ ابن القیم (751-691ء) کی ”الطب النبویﷺ“

اور علامہ جلال الدین سیوطی کی”الطب النبوی للسیوطی“ اس سلسلے میں بصیرت افروزہے۔

اسلام میں طب کی اہمیت کا ا ندازہ اس سے لگا یا جاسکتا ہے کہ اسلامی نظام حکومت کے ابتدائی عہد میں، جب کہ اسلامی حکومت کا کوئی محکمہ اور دفتر نہیں تھا، مسجد نبوی کے صحن میں ایک شفا خانہ موجود تھا اور ایک انصاری خاتون حضرت رفیدہ رضی اللہ عنہا اس شفاخانہ کی نگراں تھیں، جو بلا عوض خدمت کیا کرتی تھیں، غزوہٴ خندق کے موقعہ پر حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ زخمی ہوئے تو آپ نے فرمایا، اس کو رفیدہ کے خیمہ میں پہنچا دو، حضرت رفیدہ کے تذکرہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عہدِ نبوی میں عورتیں بھی فن طب میں خاص مہارت رکھتی تھیں۔

تاریخ الاسلام للذہبی میں حضرت عروہ بن زبیر کا قول ہے کہ ”میں نے حضرت عائشہ سے بڑا طب میں کوئی عالم نہیں دیکھا“مختلف کتب حدیث میں ہے کہ حضرات صحابیات جنگوں میں زخمیوں کی مرہم پٹی کیا کرتی تھیں۔

جوں جوں علم کی روشنی بڑھتی اور پھیلتی گئی تمام بڑے بڑے اسلامی مرکزوں میں طبی مدارس اور ہسپتال قائم ہوتے چلے گئے، تقی الدین مقریزی نے لکھا ہے کہ باضابطہ سب سے پہلا شفا خانہ اموی خلیفہ ولید بن عبد الملک نے بنایا تھا، جس میں بالخصوص نابیناوٴں اور جذامیوں کا علاج ہوتا تھا اور اطباء کو معقول وظیفہ دیا جاتا ۔

عباسی دور حکومت میں بغداد، دمشق اور قاہرہ میں بڑے بڑے ہسپتال بنائے گئے، اس وقت اہلِ مغرب کی ناواقفیت کا یہ عالم تھا کہ وہ پاگلوں کو لوہے کی زنجیروں میں جکڑتے اور مارتے تھے، جب کہ اہل عرب اپنے ہسپتالوں میں ایسے مریضوں کا باقاعدہ علاج کرتے تھے۔رفتہ رفتہ سینکڑوں طبی کتابیں بھی منظر عام پر آتی چلی گئیں، خلیفہ متوکل کے درباری طبیب علی الطبری نے یونان وہند کے ماخذوں کی مدد سے 850ء میں ایک طبی رسالہ قلمبند کیا، اسی صدی میں ایک دوسرے مصنف احمد الطبری نے سب سے پہلی مرتبہ خارشی کیڑے کی تفصیل پیش کی، مسلمانوں کی بعض طبی تصنیفات کا لاطینی اور دیگر یورپی زبانوں میں ترجمہ ہوا، انہی کتابوں کی مدد سے یورپ نے طبی دنیا میں ترقی کے مراحل طے کیے، اس سلسلہ میں جوستاف لوبون کا کہنا ہے کہ ”عرب موٴلفین کی کتابیں یورپ کی یونیورسٹیوں میں پانچ سو سال تک مطالعہ وتحقیق کا واحد مرجع تھیں۔“

طب سے مسلمانوں کی گہری وابستگی کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اموی دور کے آغاز ہی میں جب ترجمہ نگاری کا رواج ہوا اور مختلف علوم وفنون کی کتابوں میں یونانی،عبرانی،سریانی، سنسکرت زبانوں سے عربی قالب میں ڈھالی گئیں تو طب اور فلسفہ کی سب سے زیادہ کتابیں ترجمہ کرائی گئیں، عباسی دور بالخصوص مامون کے عہد میں بے شمار یونانی کتابوں نے عربی کا لباس زیب تن کیا، اس طرح مسلمانوں کی طب سے دلچسپی بڑھنے لگی، آج جو یونانی اطباء کی کتابوں میں ان کے اقوال اور ان کے تجربات موجود ہیں وہ سب مسلمانوں کے رہین منت ہیں کہ مسلمانوں نے اس کو عربی جامہ پہنا کر اور اس میں اضافہ وترمیم کر کے اسے زندہ جاوید بنادیا، ورنہ حکمائے یونان کے فلسفے اور طبی کارنامے دفتر گم گشتہ ہوچکے ہوتے،دولت امویہ اور عباسیہ میں بالخصوص بقراط اور جالینوس جیسے یونانی اطباء کی بہت سی کتابوں کے ترجمے ہوئے۔

ابو بکر محمد بن زکریا رازی(953-854ء)
اسلامی دنیا میں طب کا باقاعدہ آغاز ابو بکر محمد بن زکریا رازی(953-854ء) سے ہوتا ہے، انہیں نے تمام طبی کتابیں پڑھیں اوراپنے والد کے ساتھ ایک ہسپتال میں طب کا عملی تجربہ بھی کیا، کہتے ہیں کہ اپنی تحریروں اور نوشتوں کی ضخامت میں وہ جالینوس سے بھی سبقت لے گئے تھے،انہوں نے دو سو سے زائد کتابیں لکھیں، جس میں نصف کتابیں طب پر ہیں، ایڈورڈ۔ جی۔براوٴن نے ان کے متعلق یہ رائے ظاہر کی ہے کہ :

”وہ مسلم اطباء میں سب سے زیادہ عظیم المرتبت گزرے ہیں اور ان کا شمار سب سے زیادہ سیر حاصل لکھنے والوں میں ہوتا ہے۔“ (عربیین میڈیسن، ص: 44،بحوالہ مسلمانوں کے افکار )

رازی کو تجرباتی طب کا بانی قرار دیا جاتا ہے، وہ اپنے تجربات حیوانات پر کرتے تھے اور اس کے نتائج کو بڑی توجہ سے ایک دفتر میں لکھ لیا کرتے تھے ، انہوں نے سب سے پہلے چیچک اور خسرہ کی علامتیں بیان کیں، رازی بالاتفاق مسلمان اطباء میں قرون وسطیٰ کے عظیم ترین معالج تھے۔

ابن سینا (370ھ /980ء- 428ھ/1037ء)
رازی (925-864ء)کے بعد مشہور مسلم اطباء میں ابن سینا (370ھ /980ء- 428ھ/1037ء) کا شمار ہوتا ہے، یہ” الشیخ الرئیس“کے نام سے مشہور تھے، انہوں نے سب سے پہلے دماغ کی جھلی میں ہونے والی سوزش کا صحیح ترین نظریہ پیش کیا، نیز ذات الجنب، گردہ اور مثانہ کی پتھری کی علامتیں بتائیں، دنیا کے تمام طبی کالجز اور یونیورسٹیوں میں سترہویں صدی تک ان کی کتابوں کی تعلیم ضروری تھی، ان کی کتابوں کے ترجمے لاطینی، عبرانی، روسی، انگریزی اور فرانسیسی زبانوں میں ہوئے، ابن سینا پہلا مسلم طبیب ہے جس نے نفسیات کو علم طب میں داخل کیا اور یہ واضح کیا کہ انسان کی نفسیاتی کیفیات کا اثر اس کے معدہ پر پڑتا ہے۔

ابن الہیثم(1031-959ء)
ابن الہیثم(1031-959ء) نے بصریات پر زبردست کام کیا ہے، وہ امراض چشم کا سب سے بڑے طبیب مانے گیے ہیں ، ابن الہیثم کی علم بصارت پر خدمات کو بنیاد پر بنا کر اہل مغرب نے علم بصارت کو ترقی کی راہ پر گام زن کیا، انہوں نے بتایا کہ آنکھ کا بیرونی حصہ دبیز پردے پر مشتمل ہوتا ہے، جسے صلبیہ کہا جاتا ہے ،اس کے سامنے کا حصہ صاف شفاف ہوتا ہے، اسے قرنیہ کہتے ہیں، روشنی کی کرنیں اسی حصہ سے اندر داخل ہوتی ہیں، علم بصارت کے موضوع پر ابن الہیثم کی مشہور تصنیف ”کتاب المناظر“ایک بڑا کارنامہ ہے، سائنس دانوں اور ڈاکٹروں نے آنکھ اور روشنی سے متعلق بیشتر معلومات اسی کتاب سے حاصل کی ہیں۔

ابو مروان عبد الملک بن عبد العلاء زہر (1162-1091ء)
تجرباتی طب کی دنیا میں ایک اہم نام ابو مروان عبد الملک بن عبد العلاء زہر (1162-1091ء) کا ہے ،جنہیں ابن زہر کے نام سے یاد کیاجاتا ہے، انہوں نے ابن رشد کی فرمائش پر ”التیسیر فی المداوات والتدبیر“ لکھی، جس میں ان بیماریوں اور علاج کا تذکرہ کیا، جس کے بارے میں پہلے کچھ نہیں لکھا گیا تھا، ابن زہر کی اس کتاب کے کئی زبانوں میں ترجمے ہوئے اور صدیوں تک لوگ اس سے استفادہ کرتے رہے، ابن رشد نے انہیں جالینوس کے بعد سب سے بڑا طبیب کہا ہے۔ (مسلمان اور سائنس 293)

ابن رشد (1198-1126ء)
ابن رشد (1198-1126ء)نے بھی طب کی دنیا میں بڑا تحقیقی کام کیے ہیں ، ان کی مایہ ناز کتاب ”الکلیات فی الطب“ طبی تحقیقات ومعلومات کا انسائیکلوپیڈیا ہے، یہ کتاب کئی سو سال تک یورپ کی یونیورسٹیوں میں ٹکسٹ بک کے طور پڑھائی جاتی رہی، ابن رشد نے چیچک کے مرض پر بھر پور تحقیق کی اور دنیا کو اس مرض سے نجات کا طریقہ بتایا اور بصریات پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ آنکھ کی پتلی کس طرح کام کرتی ہے۔

علی بن عیسیٰ(864ء)
علی بن عیسیٰ(864ء) نے امراض چشم پر تحقیق کی، اس موضوع پر ان کی مشہور کتاب ”تذکرہ“ہے، جس میں انہوں نے آنکھوں کے ایک سو تیس امراض اور ایک سو سینتالیس دواوٴں کا تذکرہ کیا ہے، یہ کتاب یورپ میں اٹھارہویں صدی تک مستند ماخذ کی حیثیت سے مقبول

ابو القاسم عمار موصلی(1005ء)
ابو القاسم عمار موصلی(1005ء) نے بھی آنکھوں کی بیماریوں اور ان کے علاج پر بے مثل کام کیا ہے، ان کی تصنیف ”الکتاب المنتخب فی علاج العین“ امراض چشم پر بیش قیمت تحریر ہے، اس میں انہوں نے آنکھوں کی بیماری اور اس کے علاج پر تفصیل سے گفتگو کرتے ہوئے موتیا بند کے آپریشن کا ذکر کیا ہے۔

ابن خطیب (1374-1313ء)
ابن خطیب (1374-1313ء)نے طاعون کے بارے میں ثابت کیا ہے کہ یہ متعدی مرض ہے، جو مریض کے ملبوسات، ظروف اور زیورات سے دوسرے لوگوں تک پہنچتا ہے، بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ خوردبین کی ایجاد سے پہلے مسلم اطباء امراض کے تعدیہ کا سراغ لگا چکے تھے اور یقینی طور پر تعدیہ کے قائل تھے، اسپین کے ابن خطیب نے اس سے آگے بڑھ کر اپنی تحقیق پیش کی کہ طاعون کے مرض سے تعلق رکھنے والا شخص فوراً طاعون کا شکار ہوجاتا ہے۔

مسلم اطباء نے طب کے دوسرے میدانوں کی طرح سرجری اور آپریشن کے باب میں بھی گراں قدر کارنامہ انجام دیا ہے، زکریا رازی کی کتاب ”المنصوری“ میں سرجری پر سیر حاصل بحث موجود ہے، اسی طرح ان کی دو اہم تصنیف ”کتاب العمل بالحدید“اور ”مقالة فی الحضی فی الکلی والمثانة“ اس باب میں اہمیت کی حامل ہے، یہ پہلا طبیب ہیں جنہوں نے مرہم میں رصاص کے مرکبات کا استعمال کیا، اسی طرح اس سلسلے میں اولیت کا سہرہ انہیں کے سر جاتا ہے کہ انہوں نے جانوروں کی آنتوں سے بنے دھاگوں کو زخم کے سینے میں استعمال کیا، باوجود کہ رازی نے سرجری اور اس کے متعلقات پر تفصیل سے لکھا ہے؛ لیکن انہوں نے اپنے کیے ہوئے سرجری آپریشنوں کے بارے میں وافر معلومات مہیا نہیں کی ہیں۔

ابو القاسم خلف بن عباس الزہراوی
زہراوی(1013-936ء) نے اپنے تجربات کی روشنی میں سرجری کے بارے میں اہم معلومات فراہم کی ہیں، زہراوی اس سلسلے میں سب آگے ہیں کہ انہوں نے آپریشن کے ذریعہ علاج کو فروغ دیا، زہراوی نے طب اور آپریشن کے سلسلے میں بہت سی کتابیں لکھی ہیں، جس میں سب سے اہم ”التصریف‘ ہے، علی بن عباس نے بھی سرجری پر بھر پور روشنی ڈالی ہے، اس سرجن نے سب سے پہلے مرقاة(لہو روک آلہ) کا استعمال کیا، یہ ایک ایسا آلہ ہے جس کو سرجری کے وقت خون بہنے سے روکنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، ابن سینا نے بھی ”القانون“ میں سرجری کے مختلف مراحل کا تذکرہ کیا ہے۔

علم ادویہ کے سلسلہ میں بھی مسلمان اطباء نے تحقیقاتی کارنامہ انجام دیا ہے، انہوں نے کافور، صندل، دارچینی اور قرنفل وغیرہ جڑی بوٹیوں کے خواص اور تاثیر معلوم کیے اور انہیں اپنی قرابادین میں شامل کیا، انہوں نے سب سے پہلے دواسازی کی دکانیں اور گشتی بیمار خانے قائم کئے، قید خانوں کا روزانہ طبی معائنہ کرنا اور طبی امتحانات منعقد کرنے کے طریقے سب سے پہلے عربوں نے ہی رائج کیے، چوں کہ مسلمان اعلیٰ درجہ کے ملاح تھے، اس لیے جہاز رانی کے ذریعہ انہیں مختلف ممالک میں پہنچ کر نئی نئی جڑی بوٹیوں کے دریافت کا موقع ملا، چناں چہ انہوں نے طبی دنیا کو ایسی جڑی بوٹیوں سے متعارف کرایا جن سے یونان کے اطباء ناواقف تھے، مسلمان اطباء نے طبی دنیا کو”الکحل“ سے روشناس کرایا، انہوں نے قدیم علم کیمیا کے نظریات پر تنقید کی، اس کے فرسودہ تصورات کو غلط قرار دیا اور جدید علم کیمیا کی بنیاد رکھی، جس کی ابتدا
ابو اسحاق یعقوب الکندی نے کی اور

جابر بن حیان
جابر بن حیان نے علم کیمیا اور دواسازی کے فن کو بام عروج تک پہنچا دیا، اسی علم کیمیا کی مدد سے انہوں نے نئی نئی داوئیں تیار کیں اور نئے نئے مرکبات دریافت کئے، جابر نے داوٴوں کو قلمانے کا طریقہ ایجاد کیا اور بہت سی دواوٴوں کو قلما کر انہیں نہایت موٴثر اور مفید بنایا، انہوں نے بالوں کو کالا کرنے کے لیے خضاب تیار کیا، جو آج تک استعمال کیا جاتا ہے۔

مسلمان اطباء نے یونانی، ایرانی اور قدیم مصری طب سے استفادہ کے ساتھ ہندوستانی طب سے بھی استفادہ کیا، سنسکرت کی بے شمار کتابیں عربی زبان میں ترجمہ کی گئیں، خصوصاً مامون رشید کے دور میں ہندوستانی طب پر غور وخوض اور نقد وجرح کے بعد ہندوستانی طب کی مفید معلومات کو عربی طب میں شامل کیا گیا، چناں چہ زکریا رازی، بو علی سینا، علی بن عباس، علی بن سہل الطبری کی کتابوں میں ہمیں بہت سی مفید ہندوستانی طبی معلومات ملتی ہیں۔

یہ تمام باتیں اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ مسلمانوں نے تبلیغ دین کے ساتھ ساتھ علم کے مختلف میدانوں میں فاتحانہ کردار ادا کیا ہے اور علم طب کے ارتقاء میں نمایاں کارنامہ انجام دیا ہے، انہوں نے خالص علمی اور تجرباتی مطالعہ اور تحقیق کی بدولت جدید طب اور اس سے متعلق تمام علوم پر گہری چھاپ چھوڑی ہے، بلا شبہ اس میدان میں انہیں ہادی اور راہ بر کا مقام حاصل ہے، اس لیے یہ کہنا مبالغہ سے خالی ہے کہ مسلمانوں کے طبی کارنامے نہ ہوتے تو علم طب ترقی کی موجودہ منزل تک ہر گز نہ پہنچ پاتا۔

ایس اے ہربل کلینک
میڈیا کوم پلازہ ۔ کوہ نور فیصل آباد
WhatsApp. 0345 76647

بیشک !
23/10/2025

بیشک !

طب مفرد آعضاء    شاید میرے بہت سے دوست نہیں جانتے کہ طب مفرد اعضاء فرد واحد کی ایجاد کردہ ایک طبی شاخ ھے جو کہ طب یونانک...
22/10/2025

طب مفرد آعضاء

شاید میرے بہت سے دوست نہیں جانتے کہ طب مفرد اعضاء فرد واحد کی ایجاد کردہ ایک طبی شاخ ھے جو کہ طب یونان
کے فلسفہ کے برعکس ھے !
طب یونان صدیوں قدیم طریقہ علاج ھے جبکہ طب۔ مفرد اعضاء انیس سو چون میں ایک صاحب نے خود ایجاد کی اور آج مفرد اعضاء والے طبیبوں کی بھرمار ھے جبکہ یہ طب دنیا کے کسی ملک میں نہیں ھے !
بہرحال پاکستان میں اب شاید تین چار قسم کی طب ھے اور ہر شخص کا اپنا نظریہ ھے جیسے ہر پیر کا اپنا نظریہ پاکستان میں بہترین کاروبار ھے !
صرف قابل غور بات اہل ظرف کے لیئے یہ ھے کہ صدیوں پہلے طبیب الخوارزمی، الرازی، بوعلی سینا ، یعقوب الکندی ، ابن رشد ، جالینوس ، طبیب کبیرالدین ، طبیب اجمل خان طبیب عمر خاں وغیرہ سب طب یونان کے فلسفہ پہ قائم رہے مگر حکیم دوست محمد ملتانی (شاگرد حکیم اجمل خان مرحوم) ان سب سے قابل نکلے جنہوں نے طب کے پہلے نظریات کو رد کرتے ھوئے طب کی نئی شاخ ایجاد کردی ۔
زیر نظر تصویر میں آپ کو سرد تر مزاج نظر ہی نہیں آئے گا اور پھر ایک انسان کے اندر مشینی تحریک بھی ایجاد کر ڈالی ☺️
انتہائی معذرت کے ساتھ یہ تصویر میری ایجاد کردہ نہیں ھے بلکہ ایک مفرد اعضاء کے دوست کی پروفائل سے لی ھے !
اب دوسری بات کہ انسانی وجود کے حصے بنا کر واضح کیا گیا ھے کہ کونسا حصہ کس مزاج میں ھوتا ھے حالانکہ خون تو پورے وجود میں پھیلا ھوتا ھے رطوبات بدنیہ تو پورے وجود میں ھوتی ہیں مگر اللہ جانے یہ مشینی فلسفہ کہاں سے آگیا ۔
اب میں زیادہ نہیں لکھوں گا کیونکہ میرے بہت سے دوست ناراض ھوتے ہیں اور پھر بات تو تکرار تک پہنچ جاتی ھے
میرا سفر چونکہ سچ کا سفر ھے اور میری کوشش ھوتی ھے آگاہی فراہم کرنا تو عرض یہ کرنا تھی کہ بہت سے دوست اس بات سے واقف نہیں ھوتے کہ طب یونان اور طب مفرد اعضا میں دن رات کا فرق ھے !
اگر بات کی جائے طب کے زوال کی تو لگ بھگ اسی کی دھائی کے بعد طب پہ زوال آیا اور فرنگی مافیا نے پاکستان میں پنجے گاڑھے اور آج ہر شخص دوا کھا کر سوتا ھے اور صرف اومیپرا زول کی اربوں روپے کی روزانہ کی سیل ھے !
المختصر طب یونان ایک قدیم اور کامل طرز علاج ھے جو حکیم لقمان سے لیکر آج تک ایک ہی اصول علاج پہ قائم ھے اور دنیا کے تمام طبیب اسی پہ کاربند رہے !
میں کسی طبیب کے خلاف نہیں ہاں مگر میں اس نظریہ کو قطعی نہیں مانتا، اب یہ حقیقت و دلائل میں نے اپنے احباب کی نظر کردی ھے اب آپ دوست ہی اسکا فیصلہ کر سکتے ہیں !

لبوب کبیر خاص!   مقوی اعضاء رئیسہ ، مقوی باہ ، مقوی اعصاب جتنے پیسوں میں نوسرباز لبوب کبیر دے رہے ہیں اس سے چار گنا زیاد...
22/10/2025

لبوب کبیر خاص!
مقوی اعضاء رئیسہ ، مقوی باہ ، مقوی اعصاب

جتنے پیسوں میں نوسرباز لبوب کبیر دے رہے ہیں اس سے چار گنا زیادہ پیسوں کا تو ہم صرف ورق سونا ڈالتے ہیں
الحمدللہ پہلی خوراک ہی اپنا ذائقہ اور خالص پن واضح کردیتی ھے ، انتہائی خوش ذائقہ اور خالص شہد کی تاثر طبیعت پہ مثبت اثر ڈالتی ھے !
احباب خالص سونا چار لاکھ ساٹھ ہزار کا ھے جبکہ ملاوٹ شدہ تین لاکھ کا بھی مل جاتا ھے !
اسلیئے اس بات کو مدنظر رکھا کریں اور سچ یہی ھے کہ دس بارہ ہزار میں خالص لبوب کبیر نہیں بنتا !
ہم محنت کرتے ہیں ایک ایک چیز خالص تلاش کرتے ہیں اور پھر چند احباب کے لیئے یہ چیزیں تیار کرتے ہیں !
ایک بات واضح کردوں کہ ہماری پیکنک تقریبا ایک پاؤ کی ھوتی ھے اور کورس میں تین قسم کی دوا ھوتی ھے صرف معجون نہیں ھوتا اور قیمت مکمل کورس کی بتائی جاتی ھے جو کہ تشخیص کے بعد بمطابق عمر و کیفیت دیا جاتا ھے !

゚viralシalシ

صبح بخیر
22/10/2025

صبح بخیر

ایک بات واضح کرنا چاہتا ھوں کہ ہم طب یونان کے تحت علاج معالجہ کرتے ہیں جو صدیوں سے رائج کامل طریقہ علاج ھے ! ゚viralシalシ ...
21/10/2025

ایک بات واضح کرنا چاہتا ھوں کہ ہم طب یونان کے تحت علاج معالجہ کرتے ہیں جو صدیوں سے رائج کامل طریقہ علاج ھے !

゚viralシalシ

Address

Faisalabad

Opening Hours

Monday 10:00 - 15:00
Tuesday 10:00 - 15:00
Wednesday 10:00 - 15:00
Thursday 10:00 - 15:00
Saturday 10:00 - 15:00
Sunday 10:00 - 15:00

Telephone

+923457664719

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when 𝐒.𝐀 𝐇𝐞𝐫𝐛𝐚𝐥 𝐂𝐥𝐢𝐧𝐢𝐜 posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Practice

Send a message to 𝐒.𝐀 𝐇𝐞𝐫𝐛𝐚𝐥 𝐂𝐥𝐢𝐧𝐢𝐜:

Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on LinkedIn
Share on Pinterest Share on Reddit Share via Email
Share on WhatsApp Share on Instagram Share on Telegram