Educational Psychology -Ajmal Amin

Educational Psychology -Ajmal Amin والدین کا اپنا طرز عمل بچوں کے لیے سب سے بڑا استاد ہے۔۔

20/08/2025

زمانہ بدل چکا ہے۔ زندگی کی رفتار بہت تیز ہو گئی ہے، سہولتیں بڑھ گئی ہیں، اور دنیا انگلی کی ایک جنبش پر سمٹ آئی ہے۔ لیکن ان تمام ترقیوں کے بیچ بچپن کی معصومیت، سادگی اور قدرت سے جڑا وہ رشتہ کہیں پیچھے رہ گیا ہے۔ آج کے بچے روشنیوں، اسکرینوں اور مصنوعی سرگرمیوں کے درمیان پل رہے ہیں، جہاں نیچر، جذبے اور تعلق کا وہ رنگ نظر نہیں آتا جو کبھی بچپن کا خاصہ ہوا کرتا تھا۔

ایک وقت تھا جب بچے کھلے میدانوں میں دوڑا کرتے، مٹی سے کھیلتے، بارش میں نہاتے اور تتلیاں پکڑتے۔ اب ان کا زیادہ تر وقت موبائل، ٹی وی اور گیجٹس کی دنیا میں گزر رہا ہے۔ وہ حقیقی تجربات سے زیادہ ورچوئل مناظر کے عادی ہو چکے ہیں۔ کہانیوں کا وقت، نانی دادی کی گود اور محبت سے بھرپور نصیحتیں اب اینیمیشنز اور شور شرابے والے کارٹونز نے لے لی ہیں، جن میں جذبات کی گہرائی کم اور مصنوعی تاثر زیادہ ہوتا ہے۔

آج کا بچہ باہر کی دنیا کو محسوس کرنے سے پہلے اسکرین پر دیکھی جانے والی دنیا کو سچ ماننے لگا ہے۔ قدرتی مناظر، درختوں کی سرسراہٹ، پرندوں کی چہچہاہٹ اور ریت میں قدموں کے نشان اب اس کی روزمرہ کی زندگی سے نکلتے جا رہے ہیں۔ اسے اندازہ بھی نہیں ہو پاتا کہ وہ کس قیمتی لمس، خوشبو اور احساس سے محروم ہو رہا ہے۔

تعلیمی دباؤ، والدین کی مصروفیت، اور سماجی میڈیا کے بڑھتے اثر نے بچوں کو ظاہری کامیابیوں کی دوڑ میں لگا دیا ہے، مگر ان کے اندر کی خاموشی، حساسیت، سوال کرنے کی خواہش، اور اپنے پن کا جذبہ آہستہ آہستہ دبنے لگا ہے۔

ایسا نہیں کہ ماڈرن دور صرف نقصان دہ ہے، مگر جب سہولتیں فطرت کا نعم البدل بننے لگیں تو نقصان یقینی ہے۔ ہمیں چاہیئے کہ ہم توازن قائم کریں۔ بچوں کو سہولتوں کے ساتھ ساتھ قدرت کے قریب لائیں، ان کے ساتھ وقت گزاریں، انہیں کھلی فضا میں کھیلنے دیں، ان سے باتیں کریں، سوال سنیں، اور ان کے دل کے قریب رہیں۔

کیونکہ بچپن صرف عمر کا ایک دور نہیں، بلکہ ایک بنیاد ہے۔ اگر وہ فطری اور محبت بھرا ہو تو شخصیت مضبوط بنتی ہے۔ لیکن اگر بچہ صرف مشینوں اور مصروف لمحوں میں پروان چڑھے، تو اس کے اندر کی دنیا ادھوری رہ جاتی ہے۔
وقت ہے کہ ہم رُک کر سوچیں کہ کیا ہم اپنے بچوں کو ترقی دے رہے ہیں، یا ان سے ان کا اصل چھین رہے ہیں؟
معزز قارئین۔۔
اگر میری تحریری و دیگر کاوشیں آپ کو مفید لگیں،
اور آپ انہیں کاپی پیسٹ کریں تو میری گذارش ہے "Parenting with DrZ" کا حوالہ ضرور دیں، کیونکہ علم کو اس کے اصل ماخذ کے ساتھ پھیلانا ایک اچھی روایت ہے۔

آپ کی محبت اور حوصلہ افزائی میرے لئے قیمتی ہے!

18/03/2025

ہر پڑھا لکھا شخص استاد نہیں ہوتا، کیونکہ تدریس صرف علم کی منتقلی کا نام نہیں بلکہ ایک فن ہے۔ استاد وہ ہوتا ہے جو مشکل ترین تصورات کو آسان الفاظ میں بیان کر سکے، اپنے شاگردوں کی نفسیات کو سمجھے، اور ان میں سیکھنے کا شوق پیدا کرے۔ محض کتابی علم رکھنے والا شخص اگر طلبہ کی ذہنی سطح تک نہ پہنچ سکے تو وہ بہترین استاد نہیں بن سکتا۔

استاد کا زیادہ پڑھا لکھا ہونا بھی ضروری نہیں، بلکہ اصل ضرورت اس کی تدریسی صلاحیت اور تجربے کی ہوتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ کئی عظیم استاد رسمی ڈگریوں سے زیادہ اپنی عملی دانش اور فہم و فراست کی بدولت جانے گئے۔ استاد کا اصل کمال اس کی رہنمائی اور شخصیت سازی میں پوشیدہ ہوتا ہے، جو صرف ڈگریوں سے ممکن نہیں بلکہ حقیقی قابلیت اور اخلاص سے جنم لیتی ہے۔
تاریخ میں کئی ایسے اساتذہ گزرے ہیں جو رسمی تعلیم میں زیادہ آگے نہیں تھے، لیکن ان کی تدریسی صلاحیتوں نے نسلوں کو متاثر کیا۔ کچھ نمایاں مثالیں درج ذیل ہیں:
1. سقراط (Socrates) – یونانی فلسفی سقراط کے پاس کوئی باقاعدہ تعلیمی ڈگری نہیں تھی، لیکن اس کی سوچنے اور سوال کرنے کی تکنیک (Socratic Method) آج بھی تدریس میں استعمال ہوتی ہے۔ وہ ایک عظیم استاد تھا، جس نے اپنے شاگردوں جیسے افلاطون کو متاثر کیا۔
2. رابندر ناتھ ٹیگور – نوبل انعام یافتہ بنگالی شاعر اور مفکر ٹیگور نے رسمی تعلیم مکمل نہیں کی تھی، لیکن ان کی تعلیمی فکر نے "شانتی نکیتن" جیسے ادارے کو جنم دیا، جو آج بھی جدید تعلیمی نظریات کے لیے مشہور ہے۔
3. عبدالستار ایدھی – وہ کوئی روایتی استاد نہیں تھے، لیکن ان کی عملی تربیت اور سادگی نے لاکھوں لوگوں کو خدمتِ خلق کا درس دیا۔ ان کی باتیں اور عمل دوسروں کے لیے رہنمائی کا ذریعہ بنے۔
4. بابا بلھے شاہ – ایک عظیم صوفی شاعر، جو رسمی تعلیم میں زیادہ آگے نہیں تھے، لیکن ان کے اشعار اور فلسفے نے لاکھوں لوگوں کو زندگی اور محبت کا درس دیا۔
5. مولوی عبد الحق – اردو کے بڑے محسن تھے، رسمی طور پر بہت زیادہ تعلیم یافتہ نہیں تھے، لیکن ان کی تدریسی صلاحیت اور اردو کے لیے خدمات نے انہیں "بابائے اردو" بنا دیا۔
یہ مثالیں ثابت کرتی ہیں کہ تعلیم کی ڈگری سے زیادہ ضروری تدریسی صلاحیت، تجربہ، اور طلبہ کو سکھانے کا جذبہ ہے۔

15/03/2025

والدین کے لیے اہم پیغام

اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کو اولین ترجیح دیں۔ سوشل میڈیا (Facebook, WhatsApp, Messenger وغیرہ) کا استعمال اس وقت کریں جب بچے آپ کے پاس نہ ہوں۔ بچوں کے ساتھ بیٹھ کر فون میں مصروف رہنا ان کی شخصیت پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔

بچوں کو بھرپور وقت دیں، ان سے بات کریں، ان کی باتیں سنیں اور ان کے ساتھ تعمیری سرگرمیاں کریں۔ آپ کی توجہ اور محبت ہی ان کے روشن مستقبل کی ضمانت ہے۔ یاد رکھیں! بچے دیکھ کر سیکھتے ہیں، لہٰذا جو مثال آپ ان کے سامنے رکھیں گے، وہی ان کی زندگی کا حصہ بنے گی۔

13/10/2024
05/10/2024

استاد کا احترام مہذب قوموں کا شیوہ ھے.
جو عِلم کا عَلم ہے، استاد کی عطا ہے

ہاتھوں میں جو قلم ہے، استاد کی عطا ہے

جو فکر تازہ دم ہے، استاد کی عطا ہے

جو کچھ کیا رقم ہے، استاد کی عطا ہے

اُن کی عطا سے چمکا، حاطبؔ کا نام، کہنا

استادِ محترم کو میرا سلام کہنا
#ایکمی
#

Address

Gam Kotli

Telephone

+923466951593

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Educational Psychology -Ajmal Amin posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Practice

Send a message to Educational Psychology -Ajmal Amin:

Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on LinkedIn
Share on Pinterest Share on Reddit Share via Email
Share on WhatsApp Share on Instagram Share on Telegram

Category