Dr Abrar Umar and Counselling

Dr Abrar Umar and Counselling Dr Abrar Umar, Consultant Psychologist, Certified Cognitive Behavioral Therapist. Cognitive problems must be dealt with counselling . DR ABRAR UMAR

He is a mentor, personality coach and specialized in all kind of mental disorders.

15/11/2025

اماں جی نے نوے سال کی عمر میں اٹھاٸیس اکتوبر 2025 کو اپنی اگلی زندگی کا اغاز کیا - ابتدائی زندگی کے اٹھارہ سال میں نے اپنی اماں جی کے ساتھ سیالکوٹ میں گزارے- اس کے بعد تعلیم اور نوکری کے سلسلے نے مجھے در بدر رکھا- اماں جی کی قبل از تقسیم اور بعد از تقسیم کی بتائی ہوئی سرحدی کہانیاں, جنگی واقعات اور ننھیال اور ددھیال پر پھیلی ہوئی زندگی میری ابتدائی تربیت میں شامل ہیں- اپنے عزیز و اقارب سے طے پایا ہے کہ اماں جی کی جدائی کا عنوان باقی زندگی سورہ رعد کی تیٸسویں ایت کے سہارے گزاری جائے گی
﴿ جَنّٰتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا وَمَنْ صَلَحَ مِنْ آبَائِهِمْ وَأَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ ۖ وَالْمَلَائِكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِمْ مِنْ كُلِّ بَابٍ ﴾

"ہمیشہ رہنے والے باغاتِ عدن، جن میں وہ داخل ہوں گے، اور ان کے باپ دادا، بیویاں اور اولاد میں سے جو نیک ہوں گے وہ بھی ان کے ساتھ داخل ہوں گے، اور فرشتے ہر دروازے سے ان پر داخل ہوں گے۔"
درج ذیل مضمون اماں جی باتوں سےمتاثرہو کر لکھا گیا

تقسیم کی دھول سے لپٹی یادیں
تصویر کا دوسرا رخ
ڈاکٹر ابرار عمر

تقسیمِ ہند کے باب میں جب مسلم، ہندو اور سکھ فسادات کا ذکر آتا ہے تو ہمارے خطے کی اجتماعی یادداشت عموماً یک رُخی بیان پر اکتفا کرتی ہے؛ ایک طرف کے مقتول اور دوسری طرف کے قاتل۔ مگر تاریخ کی روشنی میں یہ ادھورا بیان ہے۔ خون جب رگوں میں انتقام کی صورت دوڑتا تھا تو مذہب اور مسلک کے نام پر حدِّ فاصل دھندلا جاتی تھی، اور مسلمان اپنی ہی تہذیب کے آفاقی اصول بھلا بیٹھتا تھا اس تلخ سچائی سے انکار ممکن نہیں کہ قتل و غارت ہر جانب ہوئی؛ جہاں موقع اور طاقت ملی، وہاں ہاتھ آلودہ ہوئے۔ اس سے ایک بنیادی نکتہ کھلتا ہے کہ مسلمانوں کی سیاسی قیادت اگرچہ دو قومی نظریے کی فکری و سیاسی پیشکش میں سرگرم تھی، مگر اجتماعی تہذیبی تربیت کا وہ داخلی ڈھانچہ جو انسان کو غضب کے لمحے میں بھی عدل، عفو اور ضبطِ نفس کی رسی سے باندھے رکھتا ہے کمزور تھا، اور کمزور ہی رہا۔ مذہبی نعروں کی طنابیں گونجتی رہیں، مگر ان نعروں کو اخلاقی ریاضت اور سماجی نظم کی روح نہ ملی، اسی لیے بڑے المیے کے لمحے میں مذہبی شناخت راکھ اڑاتی رہی اور اخلاقی جوہر پسِ منظر میں چلا گیا۔
اس خطے میں اسلام کی آمد قرون کی داستان ہے؛ صوفیانہ خانقاہیں، مدارس، بازار، قلعے، عدالتی روایتیں، اور فارسی و اردو کی تہذیبی آمیزشیں یہ سب ہماری اجتماعی ورثہ ہیں۔ مگر جسے تہذیب کی “عمودی جڑ” کہا جاتا ہے، یعنی روزمرہ زندگی میں صلہ رحمی، ہمسایہ داری، کمزور کے حق کی حفاظت، اختلاف کے باوجود پرامن بقائے باہمی، اور اجتماعی نظم کے احترام کی مسلسل مشق وہ معاشرتی سطح پر اتنی گہری نہ ہو سکی کہ آزمائش کے وقت لہو کی گرمی پر غالب آ جاتی۔ سیاسی شعار اور مذہبی شناخت تو علم بردار بن گئے مگر ان کو اخلاقی ضبط میں ڈھالنے والی تربیت نہ ہو پائی۔ یہی وجہ ہے کہ جب تاریخ نے کڑا موڑ لیا تو محض نعرہ کافی نہ رہا؛ ایک مربی کی ضرورت تھی، جو ہاتھ روکنے، زبان تھامنے، پڑوسی کے گھر کی حرمت پہچاننے، عورتوں اور بچوں کی بےکسی دیکھ کر آنکھ جھکانے اور دشمن سمجھنے والوں کے دکھ میں بھی انسانیت ڈھونڈنے کی تعلیم دیتا۔ بدقسمتی کہ ہم میں یہ مربی کم تھا، یا خاموش۔

تقسیم کے ہنگام میں ہندو اور سکھ جماعتوں کی جانب سے درندگی، لوٹ مار اور قتل و غارت کے پہاڑ توڑے گئے؛ ان کی داخلی سماجی ساخت، ذات پات کے جبر اور قبائلی شیخی نے اس سفاکی کو مزید تیز کیا۔ مگر اصل سوال ہمارے اپنے در پر دستک دیتا ہے کہ مسلمان کون سی شریعت اور کس تہذیبی ضابطے سے یہ جواز لائے کہ اگر بمبئی سے آتے کارواں پر حملہ ہو تو جواب میں سیالکوٹ سے گزرتے قافلے کے معصوموں کا خون بہایا جائے؟ اسلام جنگ کے بھی آداب ٹھہراتا ہے: بےگناہ، عورت، بچہ، بوڑھا، راہگیر اور اسیر محفوظ؛ عبادت گاہیں محفوظ؛ لاشوں کی بے حرمتی حرام؛ بھاگتے دشمن پر وار ممنوع۔ پھر یہ کیسے ہوا کہ نعرہ تو دین کا تھا مگر تیور ہجوم کے تھے، اور غیرتِ ایمانی کے نام پر سفاکی نے ضمیرِ کو قید کر لیا؟ یہاں اصل خطا یہی تھی کہ ہم نے اپنی تہذیب کے داعیے کو طاقت کے جوش میں گُم کیا، عدل اور عفو کو انتقام کے شور میں ڈبو دیا، اور اخلاقی ریاضت کی جگہ قبیلوی غیرت کو میزان بنا لیا۔ مخالف ظالم تھا تو اس کی ظلم پر ہماری دلیل یہ کیسے بن گئی کہ ہم بھی ویسے ہی ہو جائیں؟ یہی وہ لمحہ تھا جہاں مسلمان تہذیب اپنی تاریخی اور دینی حیثیت کے برخلاف برتاؤ میں آئی؛ یہی وہ انحراف ہے جسے مان کر سدھارنا ہوگا، ورنہ یہ دوئی ہمیشہ ہمیں رسوا کرتی رہے گی۔
تقسیم کا موسم محض جغرافیہ کی لکیروں کا موسم نہ تھا؛ یہ صحنوں، کھیتوں, دریاٶں، اور کوچہ و بازار کی آوازوں کی شکست و ریخت کا موسم بھی تھا۔
فساد کے دنوں میں سب سے پہلے زبان بے مہار ہوتی ہے۔ اگر محلہ کمیٹی، مسجد کے خطیب، استاد، مستری، دوکاندار اور چوک کی بیٹھک اخلاقی میثاق پر قائم ہوںں کہ عورت کی عزت حرام ہے، بزرگ کا اعتبار امانت ہے، بچے کی جان حدود سے ماورا ہے، بھاگتے دُشمن کی پیٹھ پر نیزہ نہیں مارا جاتا، آتش زنی عبادت گاہوں کی توہین ہے تو نفرت کے موسم میں یہی میثاق سب سے مضبوط بند باندھتا ہے۔ مگر جب میثاق معدوم ہو تو ہجوم کی نفسیات غالب آتی ہے، جس میں فرد اپنی ذمے داری بھول کر “سب کر رہے ہیں” کی آڑ میں اپنا ضمیر گروی رکھ دیتا ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ اس عہد کی قیادت کے پاس ایک بڑا سیاسی بیانیہ ضرور تھا: اکثریت و اقلیت کے تناؤ میں شناخت کی حفاظت، اقتدار میں منصفانہ شرکت، اور آئینی ضمانتوں کے مطالبات۔ لیکن سیاسی بیانیہ جب تہذیبی ریاضت کے سانچے میں نہ ڈھلے تو اس کی حدود جلد کھل جاتی ہیں۔ قیادت نے جلسہ گاہوں میں جذبات کو منظم کیا، لیکن گلی کوچوں میں اخلاقی نظم قائم کرنے کے لیے جو مسلسل اجتماعی تعلیم درکار تھی وہ موجود نہ تھی- محلّہ، مدرسہ، مسجد،سنگت، پنچایت اور بازار کے کرداروں کی تربیت کمزور رہی۔ عوام کے حصے میں نعرہ آیا، ضبط نہ آیا؛ محبت کا وعظ آیا، مگر نفرت کے طوفان کے سامنے کچھ بھی ڈھال نہ بنا- مذہب کے نام پر غرور آیا ، مگر رحم کی قرأت نہ ہوئی۔ یہی خلا تھا جس نے بیان اور برتاؤ کے درمیان ایسی دراڑ ڈالی کہ وقت نے اسے خوںچکاں بنا دیا
ہمارے لیے اصل محاسبہ یہی ہے کہ ہم اپنے نام لیوا ہونے پر قانع نہ رہیں بلکہ اپنے اخلاقی جوہر کا حساب دیں۔ مسلمان تہذیب کا بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ طاقت انصاف کے تابع ہو، ردِّعمل اصول کے تابع ہو، اور غصہ قانون کے تابع ہو۔ اگر کسی سمت سے ظلم نے آ گھیرا ہے تو اس کا جواب بھی قانون، نظم اور عدل کے سانچے میں ڈھل کر دیا جائے؛ قافلے کے معصوموں پر ہاتھ اٹھانا ہماری شریعت، ہماری تاریخ اور ہمارے داعیے کے عین خلاف ہے۔ یہ سوال آج بھی ویسا ہی زندہ ہے جیسا کل تھا: کیا ہم اپنے اجتماعی کردار میں دین کے آدابِ جنگ، آدابِ اختلاف اور آدابِ معاشرت کو فعّال کر پائیں گے، یا پھر ہر بحران میں ہجوم کی نفسیات کے ہاتھوں اپنی ہی شناخت کی لاش اٹھائیں گے؟
یہ سب تحریر کرتے ہوئے دل ایک ذاتی گواہی کی طرف کھنچ جاتا ہے۔ امّاں جی جن کی تازہ رخصتی نے گھر کے صحن کو سنّاٹا بخش دیا ہے ان سرحدی بستیوں کی چشم دید گواہ تھیں جہاں تقسیم کے دنوں میں آگ کی لپٹیں اور چیخوں کی بازگشت ہوا کے کانوں میں چبھتی تھی۔ پنڈی بھاگو جیسے گاؤں، جموں کی سمت کھلتے راستے، مشرقی پنجاب کی جانب پھیلی ہوئی سرحدی پٹّی یہ سب ان کے حافظے کی جلدوں میں بند تھے۔ ان کی زبان پر ایسے قصے آتے جن میں ایک طرف لٹے قافلوں کی دھول اڑتی نظر آتی اور دوسری طرف مخالف گروہوں کی سنگدلی اور قتل و غارت کا دل دہلا دینے والا سماں۔ وہ بتاتیں کہ دونوں طرف آگ بھڑکی ہوئی تھی، بازارِ ظلم گرم تھا، اور انسانیت لہو لہان۔ امّاں جی کی گواہی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ تاریخ محض حوالہ نہیں، ذمہ داری بھی ہے۔ اس ذمہ داری کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی آئندہ نسلوں کو صرف تقسیم کے زخم نہ سنائیں، بلکہ اخلاقی مرہم کی ترکیب بھی سکھائیں -
اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دشمن کے ظلم کو اپنی درندگی کا جواز نہ بنائیں۔

07/09/2025
07/09/2025
07/09/2025
07/09/2025

Address

Salma Kafeel Medical Services
Islamabad

Telephone

+923335184747

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Dr Abrar Umar and Counselling posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Practice

Send a message to Dr Abrar Umar and Counselling:

Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on LinkedIn
Share on Pinterest Share on Reddit Share via Email
Share on WhatsApp Share on Instagram Share on Telegram