22/10/2025
*🌷السَّـلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُاللهِ وَبَرَكاتُهُ🌷*
*🌷صبــــــح شــــــام بخیــــــرزندگى🌷*
•┈•❀❁❀•┈•
*28 ربیع الثانی 1447 ھِجْرِیْ*
*22 اکتوبر 2025 عِیسَـوی*
•┈•❀❁❀•┈•
*أَعوذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجيم*
*بِسْـــــــــمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ*
•┈•❀❁❀•┈•
*میں پناہ میں آتا ہوں اللہﷻ کی شیطان مردود کے شر سے بچنے کیلئے۔*
*اللہﷻ کے نام سے شروع جو سب سے زیادہ مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے.*
•┈•❀❁❀•┈•
*🌹سُبْحَانَ اللّٰهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللّٰهِ الْعَظِيْم🌹*
•┈•❀❁❀•┈•
*🌸اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلىٰ مُـحَمَّدٍ وَّ عَليٰٓ اٰلِ مُـحَمَّدٍ كَمَا صَلَّــيْتَ عَليٰٓ اِبْـرَاهِيْمَ وَ عَليٰٓ اٰلِ اِبْـرَاهِيْمَ اِنَّكَ حَمِيْدٌ مَّـجِيْدٌ*
*اَللّٰهُمَّ بَارِكْ عَلىٰ مُـحَمَّدٍ وَّ عَليٰٓ اٰلِ مُـحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَليٰٓ اِبْـرَاهِيْمَ وَ عَليٰٓ اٰلِ اِبْـرَاهِيْمَ اِنَّكَ حَمِيْدٌ مَّـجِيْدٌ*
*صلی اللّٰه علیه وآلهٖ واصحابه وسلم🌸*
•┈•❀❁❀•┈
*📕سورة الْكَهْف آیت 60-61-62*
*وَاِذْ قَالَ مُوْسٰى لِفَتَاهُ لَآ اَبْـرَحُ حَتّــٰٓى اَبْلُـغَ مَجْـمَعَ الْبَحْرَيْنِ اَوْ اَمْضِىَ حُقُبًا (60)*
*فَلَمَّا بَلَغَا مَجْـمَعَ بَيْنِهِمَا نَسِيَا حُوْتَهُمَا فَاتَّخَذَ سَبِيْلَـهٝ فِى الْبَحْرِ سَرَبًا (61)*
*فَلَمَّا جَاوَزَا قَالَ لِفَتَاهُ اٰتِنَا غَدَآءَنَاۖ لَقَدْ لَقِيْنَا مِنْ سَفَرِنَا هٰذَا نَصَبًا (62)*
*📜ترجمہ:*
*﴿ ذرا ان کو وہ قصہ سناؤ جو موسیٰ ( علیہ السلام ) کو پیش آیا تھا﴾ جب کہ موسیٰ ( علیہ السلام ) نے اپنے خادم سے کہا تھا کہ میں اپنا سفر ختم نہ کروں گا جب تک کہ دونوں دریاؤں کے سنگم پر نہ پہنچ جاؤں ، ورنہ میں ایک زمانہ دراز تک چلتا ہی رہوں گا ۔ 57*
*پس جب وہ ان کے سنگم پر پہنچے تو اپنی مچھلی سے غافل ہوگئے اور وہ نکل کر اس طرح دریامیں چلی گئی جیسے کہ کوئی سرنگ لگی ہو ۔*
*آگے جا کر موسیٰ ( علیہ السلام ) نے اپنے خادم سے کہا لاؤ ہمارا ناشتہ ، آج کے سفر میں تو ہم بری طرح تھک گئے ہیں ۔*
*📜English Translation:*
*(And recount to them the story of Moses) when Moses said to his servant: ""I will journey on until I reach the point where the two rivers meet though I may march on for ages."".*
*But when they reached the point where the two rivers meet they forgot their fish and it took its way into the sea as if through a tunnel.*
*When they had journeyed further on Moses said to his servant: ""Bring us our repast. We are surely fatigued by today''s journey.""*
•┈•❀❁❀•┈•
*🌹🤲🏼دعاء🤲🏼🌹*
*🤲🏿 یارب العالمین، ہمیں اپنے پسندیدہ راستوں پر چلا اور پیغمبروں کی سنت میں حصول مقاصد کے لیے قوت ارادی ،استقامت اور ثابت قدمی نصیب فرما۔ پیغمبروں کی سنت میں طے شدہ اہداف کے ساتھ پیشی قدم کرنے والا بنا۔ یارب تیری خوشنودی کے حصول میں کسی مشکل کو خاطر میں لانے والا نہ بنا اور ہمارے لیے آسانیاں پیدا فرما۔یااللہ تیری جانب سفر میں اگر تھکاوٹ ہونے لگے، دل اچاٹ ہونے لگے تو ایک گھڑی آرام سے بیٹھ کر اپنا محاسبہ کرنے والا بنا کہ کہیں ہم اپنے مقام اور مرتبے سے آگے تو نہیں بڑھ گئے اور مقصد سفر سے بھٹک تو نہیں گئے۔ یارب العالمین، ایسے مقامات، ایسی صحبتیں نصیب فرما جہاں حضرت موسی علیہ السلام کی مچھلی کی مانند ہمارے مردہ دل زندہ ہو جائیں، تھکاوٹ کے مارے تازہ دم ہو جائیں اور ہمارے ظاہر اور باطن تیرے علم کے نور سے منور ہو جائیں۔ اے ہمارے پروردگار ہمیں بخش دے اور ہم سے راضی ہو جا اور ہمیں اپنے اور اپنے حبیبﷺ کے قرب سے ہمکنار فرما۔آمِیْن یَارَبَّ الْعَالَمِیْنَ🤲🏿*
•┈•❀❁❀•┈•
*🌹🤲🏻Prayer🤲🏼🌹*
*🤲🏿O Almighty ALLAH, guide us on the paths You love, and grant us the willpower, steadfastness, and determination to follow the way of the prophets in achieving our goals. Make us among those who strive towards Your path with set objectives. Oh ALLAH, may the journey to Your pleasure is not distracted by the difficulties and make our journey easy. Oh ALLAH, when traveling towards You, if fatigue sets in and our hearts feel disheartened, grant us the ability to pause, reflect, and introspect, lest we overstep our bounds or stray from the purpose of our journey. Oh ALLAH of the Universe, grant us the company of people and places of sacredness where our dead hearts can be revived like the fish of Prophet Moses (peace be upon him), and our inner and outer selves can be illuminated with the light of Your knowledge. Oh ourAllah, forgive us, be pleased with us, and grant us the nearness to You and Your beloved Prophet (peace be upon him)."Ameen."🤲🏿*
•┈•❀❁❀•┈•
*🔎📖تفہیم القرآن📖🔎*
*«سورة الْكَهْف» حاشیہ نمبر :57* *اس مرحلے پر یہ قصہ سنانے سے مقصود کفار اور مومنین دونوں کو ایک اہم حقیقت پر متنبہ کرنا ہے ، اور وہ یہ ہے کہ ظاہر بین نگاہ دنیا میں بظاہر جو کچھ ہوتے دیکھتی ہے ، اس سے بالکل غلط نتائج اخذ کر لیتی ہے ، کیونکہ اس کے سامنے اللہ تعالیٰ کی وہ مصلحتیں نہیں ہوتیں جنہیں ملحوظ رکھ کر وہ کام کرتا ہے ۔ ظالموں کا پھلنا پھولنا اور بے گناہوں کا تکلیفوں میں مبتلا ہونا ، نافرمانوں پر انعامات کی بارش اور فرمانبرداروں پر مصائب کا ہجوم ، بدکاروں کا عیش اور نیکوکاروں کی خستہ حالی ، یہ وہ مناظر ہیں جو آئے دن انسانوں کے سامنے آتے رہتے ہیں ، اور محض اس لیے کہ لوگ ان کی کنَہ کو نہیں سمجھتے،ان سے عام طور پر ذہنوں میں الجھنیں ، بلکہ غلط فہمیاں تک پیدا ہو جاتی ہیں* *کافر اور ظالم ان سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ یہ دنیا اندھیر نگری ہے، کوئی اس کا راجہ نہیں ، اور ہے تو چوپٹ ہے ۔ یہاں جس کا جو کچھ جی چاہے کرتا رہے ، کوئی پوچھنے والا نہیں مومن اس طرح کے واقعات کو دیکھ کر دل شکستہ ہوتے ہیں ، اور بسا اوقات سخت آزمائشوں کے مواقع پر ان کے ایمان تک متزلزل ہو جاتے ہیں۔ایسے ہی حالات میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنے کارخانہ مشیت کا پردہ اٹھا کر ذرا اس کی ایک جھلک دکھائی تھی، تاکہ انہیں معلوم ہو جائے کہ یہاں شب و روز جو کچھ ہو رہا ہے، کیسے اور کن مصلحتوں سے ہو رہا ہے اور کس طرح واقعات کا ظاہر ان کے باطن سے مختلف ہوتا ہے۔ حضرت موسیٰ ؑ کو یہ واقعہ کب اور کہاں پیش آیا ؟ اس کی کوئی تصریح قرآن نے نہیں کی ہے۔ حدیث میں عوفی کی ایک روایت ہمیں ضرور ملتی ہے جس میں وہ ابن عباس ؓ کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا تھا جب فرعون کی ہلاکت کے بعد حضرت موسیٰ نے مصر میں اپنی قوم کو آباد کیا تھا ۔ لیکن ابن عباس ؓ سے جو قوی تر روایات بخاری اور دوسری کتب حدیث میں منقول ہیں ، وہ اس بیان کی تائید نہیں کرتیں، اور نہ کسی دوسرے ذریعے سے ہی یہ ثابت ہوتا ہے کہ فرعون کی ہلاکت کے بعد حضرت موسیٰ کبھی مصر میں رہے تھے۔ بلکہ قرآن اس کی تصریح کرتا ہے کہ مصر سے خروج کے بعد ان کا سارا زمانہ سینا اور تَیہ میں گزرا۔ اس لیے یہ روایت تو قابل قبول نہیں ہے۔البتہ جب ہم خود اس قصے کی تفصیلات پر غور کرتے ہیں تو دو باتیں صاف سمجھ میں آتی ہیں*:
*ایک,یہ کہ یہ مشاہدات حضرت موسیٰ ؑ کو ان کی نبوت کے ابتدائی دور میں کرائے گئے ہوں گے،کیونکہ آغاز نبوت ہی میں انبیاء علیہم السلام کو اس طرح کی تعلیم و تربیت درکار ہوا کرتی ہے۔دوسرے,یہ کہ حضرت موسیٰ ؑ کو ان مشاہدات کی ضرورت اس زمانے میں پیش آئی ہو گی جبکہ بنی اسرائیل کو بھی اسی طرح کے حالات سے سابقہ پیش آ رہا تھا جن سے مسلمان مکہ معظمہ میں دو چار تھے۔ ان دو وجوہ سے ہمارا قیاس یہ ہے «( والعلم عند اللہ )» کہ اس واقعے کا تعلق اس دور سے ہے جب کہ مصر میں بنی اسرائیل پر فرعون کے مظالم کا سلسلہ جاری تھا اور سرداران قریش کی طرح فرعون اور اس کے درباری بھی عذاب میں تاخیر دیکھ کر یہ سمجھ رہے تھے کہ اوپر کوئی نہیں ہے جو اس سے بازپرس کرنے والا ہو ، اور مکے کے مظلوم مسلمانوں کی طرح مصر کے مظلوم مسلمان بھی بے چین ہو ہو کر پوچھ رہے تھے کہ خدایا ! ان ظالموں پر انعامات کی اور ہم پر مصائب کی یہ بارش کب تک ؟ حتیٰ کہ خود حضرت موسیٰ ؑ یہ پکار اٹھے تھے کہ «رَبَّنَآ اِنَّکَ اٰتَیْتَ فِرْعَونَ وَ مَلَاَہ زِیْنَۃً وَّ اَمْوَالاً فِی الْحَیٰوۃِ الدُّ نْیَا رَبَّنَا لِیُضِلُّوْا عَنْ سَبِیْلِکَ» ’’ اے پروردگار ! تو نے فرعون اور اس کے درباریوں کو دنیا کی زندگی میں بڑی شان و شوکت اور مال و دولت دے رکھی ہے ، اے پروردگار ! کیا یہ اس لیے ہے کہ وہ دنیا کو تیرے راستے سے بھٹکا دیں ؟‘‘ «( تفہیم القرآن ، ج 2 ، ص 308 )» ۔:: اگر ہمارا یہ قیاس درست ہو تو پھر یہ گمان کیا جا سکتا ہے کہ غالباً حضرت موسیٰ ؑ کا یہ سفر سوڈان کی جانب تھا ،اور مجمع البحرین سے مراد وہ مقام ہے جہاں موجودہ شہر خرطوم کے قریب دریائے نیل کی دو بڑی شاخیں «البحرالابیض» اور «البحر الْاَزْرَق» آ کر ملتی ہیں ۔ ( ملاحظہ ہو : نقشہ 1 ، صفحہ 34 ) حضرت موسیٰ ؑ نے اپنی پوری زندگی جن علاقوں میں گزاری ہے ، ان میں اس ایک مقام کے سوا اور کوئی مجمع البحرین نہیں پایا جاتا۔ بائیبل اس واقعے کے باب میں بالکل خاموش ہے ۔ البتہ «تَلْمُود» میں اس کا ذکر موجود ہے ، مگر وہ اسے حضرت موسیٰ ؑ کے بجائے ربی یہوحا نان بن لادی کی طرف منسوب کرتی ہے اور اس کا بیان یہ ہے کہ ربی مذکور کو یہ واقعہ حضرت الیاس ؑ کے ساتھ پیش آیا تھا جو دنیا سے زندہ اٹھائے جانے کے بعد فرشتوں میں شامل کر لیے گئے ہیں اور دنیا کے انتظام پر مامور ہیں ۔ ( The Talmud Selections By H. Polano, pp. 313-316 ) ممکن ہے کہ خروج سے پہلے کے بہت سے واقعات کی طرح یہ واقعہ بھی بنی اسرائیل کے ہاں اپنی صحیح صورت میں محفوظ نہ رہا ہو ، اور صدیوں بعد انہوں نے قصے کی کڑیاں کہیں سے کہیں لے جا کر جوڑ دی ہوں ۔ تلمود کی اسی روایت سے متاثر ہو کر مسلمانوں میں سے بعض لوگوں نے یہ کہہ دیا کہ قرآن میں اس مقام پر موسیٰ سے مراد حضرت موسیٰ علیہ السلام نہیں بلکہ کوئی اور موسیٰ ہیں ۔ لیکن نہ تو تلمود کی ہر روایت لازماً صحیح تاریخ قرار دی جا سکتی ہے ، نہ ہمارے لیے یہ گمان کرنے کی کوئی معقول وجہ ہے کہ قرآن میں کسی اور مجہول الحال موسیٰ کا ذکر اس طریقے سے کیا گیا ہو گا ، اور پھر جب کہ معتبر احادیث میں حضرت ابی بن کعب کی یہ روایت موجود ہے کہ خود نبی ﷺ نے اس قصے کی تشریح فرماتے ہوئے موسیٰ سے مراد حضرت موسیٰ پیغمبر بنی اسرائیل کو بتایا ہے تو کسی مسلمان کے لیے تلمود کا بیان لائق التفات نہیں رہتا۔ مستشرقین مغرب نے اپنے معمول کے مطابق قرآن مجید کے اس قصے کے بھی مآخذ کا کھوج لگانے کی کوشش کی ہے ، اور تین قصوں پر انگلی رکھ دی ہے کہ یہ ہیں وہ مقامات جہاں سے محمد ( ﷺ ) نے نقل کر کے یہ قصہ بنا لیا اور پھر دعویٰ کر دیا کہ یہ تو میرے اوپر بذریعہ وحی نازل ہوا ہے ۔ ایک داستان گلگا میش ، دوسرے ، سکندر نامۂ سریانی ، اور تیسرے ، وہ یہودی روایت جس کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے ۔ لیکن یہ بدطینت لوگ علم کے نام سے جو تحقیقات کرتے ہیں ، اس میں پہلے اپنی جگہ یہ طے کر لیتے ہیں کہ قرآن کو بہرحال منزل من اللہ تو نہیں ماننا ہے ، اب کہیں نہ کہیں سے اس امر کا ثبوت بہم پہنچانا ضروری ہے کہ جو کچھ محمد ( ﷺ ) نے اس میں پیش کیا ہے ، یہ فلاں فلاں مقامات سے چرائے ہوئے مضامین اور معلومات ہیں ۔ اس طرز تحقیق میں یہ لوگ اس قدر بے شرمی کے ساتھ کھینچ تان کر زمین آسمان کے قلابے ملاتے ہیں کہ بے اختیار گھن آنے لگتی ہے اور آدمی کو مجبوراً کہنا پڑتا ہے کہ اگر اسی کا نام علمی تحقیق ہے تو لعنت ہے اس علم پر اور اس تحقیق پر ۔ ان کی اس متعصبانہ افترا پردازی کا پردہ بالکل چاک ہو جائے اگر کوئی طالب علم ان سے صرف چار باتوں کا جواب طلب کرے : اول ، یہ کہ آپ کے پاس وہ کیا دلیل ہے جس کی بنا پر آپ دو چار قدیم کتابوں میں قرآن کے کسی بیان سے ملتا جلتا مضمون پا کر یہ دعویٰ کر دیتے ہیں کہ قرآن کا بیان لازماً انہی کتابوں سے ماخوذ ہے ؟ دوسرے ، یہ کہ مختلف زبانوں کی جتنی کتابیں آپ لوگوں نے قرآن مجید کے قصوں اور دوسرے بیانات کی ماخذ قرار دی ہیں ، اگر ان کی فہرست بنائی جائے تو اچھے خاصے ایک کتب خانے کی فہرست بن جائے ۔ کیا ایسا کوئی کتب خانہ مکے میں اس وقت موجود تھا اور مختلف زبانوں کے مترجمین بیٹھے ہوئے محمد ﷺ کے لیے مواد فراہم کر رہے تھے ؟ اگر ایسا نہیں ہے اور آپ کا سارا انحصار ان دو تین سفروں پر ہے جو نبی ﷺ نے نبوت سے کئی سال پہلے عرب سے باہر کیے تھے ، تو سوال یہ ہے کہ آخر ان تجارتی سفروں میں آنحضرت ﷺ کتنے کتب خانے نقل یا حفظ کر لائے تھے ؟ اور اعلان نبوت سے ایک دن پہلے تک بھی آنحضرت ﷺ کی ایسی معلومات کا کوئی نشان آپ ﷺ کی بات چیت میں نہ پاۓ جانے کی کیا معقول وجہ ہے*؟
*تیسرے ، یہ کہ کفار مکہ اور یہودی اور نصرانی ، سب آپ ہی لوگوں کی طرح اس تلاش میں تھے کہ محمد ﷺ یہ مضامین کہاں سے لاتے ہیں ۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے معاصرین کو اس سرقے کا پتہ نہ چلنے کی کیا وجہ ہے ؟ انہیں تو بار بار تحدّی کی جا رہی تھی کہ یہ قرآن منزل من اللہ ہے ، وحی کے سوا اس کا کوئی ماخذ نہیں ہے ، اگر تم اسے بشر کا کلام کہتے ہو تو ثابت کرو کہ بشر ایسا کلام کہہ سکتا ہے ۔ اس چیلنج نے آنحضرت ﷺ کے معاصر دشمنان اسلام کی کمر توڑ کر رکھ دی ، مگر وہ ایک ماخذ کی بھی نشان دہی نہ کر سکے ، جس سے قرآن کے ماخوذ ہونے کا کوئی معقول آدمی یقین تو درکنار ، شک ہی کر سکتا ۔ سوال یہ ہے کہ معاصرین اس سراغ رسانی میں ناکام کیوں ہوئے اور ہزار بارہ سو برس کے بعد آج معاندین کو اس میں کیسے کامیابی نصیب ہو رہی ہے*؟
*آخری اور سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اس بات کا امکان تو بہرحال ہے نا کہ قرآن منزل من اللہ ہو اور وہ پچھلی تاریخ کے انہی واقعات کی صحیح خبریں دے رہا ہو جو دوسرے لوگوں تک صدیوں کے دوران میں زبانی روایات سے مسخ ہوتی ہوئی پہنچی ہوں اور افسانوں میں جگہ پا گئی ہوں ۔ اس امکان کو کس معقول دلیل کی بنا پر بالکل ہی خارج از بحث کر دیا گیا ، اور کیوں صرف اسی ایک امکان کو بنائے بحث و تحقیق بنا لیا گیا کہ قرآن ان قصوں ہی سے ماخوذ ہو جو لوگوں کے پاس زبانی روایات اور افسانوں کی شکل میں موجود تھے؟*
*کیا مذہبی تعصب اور عناد کے سوا اس ترجیح کی کوئی دوسری وجہ بیان کی جا سکتی ہے ؟ ان سوالات پر جو شخص بھی غور کرے گا ، وہ اس نتیجے تک پہنچے بغیر نہ رہ سکے گا کہ مستشرقین نے ’’ علم ‘‘ کے نام سے جو کچھ پیش کیا ہے ، وہ درحقیقت کسی سنجیدہ طالب علم کے لیے قابل التفات نہیں ہے۔*
•┈•❀❁❀•┈•
*📿نماز نیند سے بہتــــــــــر ہے📿*
*📕قرآن سیکھئے اور سکھائیے📕*
•┈•❀❁❀•┈•