10/10/2025
کابل کی رات اور ایک انجام کی کہانی
9 اکتوبر 2025 کی رات، کابل کی خاموش فضا میں ایک دھماکے کی گونج ابھری۔
یہ کوئی عام دھماکہ نہیں تھا — یہ ایک دوراہے کی صدا تھی۔
افغان دارالحکومت کے پوش علاقے میں اچانک آگ کے شعلے اٹھے، اور چند ہی لمحوں میں خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی:
تحریکِ طالبان پاکستان (TTP) کا سربراہ نور ولی محسود مارا گیا ہے۔
ابتدائی اطلاعات کے مطابق، یہ حملہ پاکستانی خفیہ معلومات پر مبنی ایک ٹارگٹڈ اسٹرائیک تھی۔
افغان طالبان حکومت نے تصدیق سے گریز کیا، مگر عینی شاہدین نے کہا کہ “دھماکہ انتہائی درستگی سے کیا گیا۔”
دوسری جانب، ٹی ٹی پی کے ذرائع پہلے خاموش رہے، پھر ایک آڈیو پیغام میں “نور ولی کی شہادت” کی تردید کی —
مگر ابھی تک کوئی ثبوت ایسا نہیں آیا جو یہ بتا سکے کہ وہ زندہ ہے یا نہیں۔
یہ واقعہ محض ایک دھماکہ نہیں، ایک علامت ہے —
اس سوچ کے خلاف جو اسلام کے نام پر ریاستِ پاکستان کے خلاف بندوق اٹھائے بیٹھی تھی۔
وہ نظریہ جو امن، علم اور عدل کی راہ چھوڑ کر تباہی، خودکشی اور خون کا راستہ بن گیا۔
پاکستان کے صبر کا پیمانہ اس وقت لبریز ہوا جب پاک فوج کے میجر سبطین حیدر سرحد پار ایک حملے میں شہید ہوئے۔
اس کے بعد وہی ہوا جو تاریخ کے صفحات پر ہمیشہ طاقتور فیصلے کی طرح لکھا جاتا ہے۔
کابل کی فضا پہلی بار پاکستانی بمباری سے لرزی۔
پاک فضائیہ کے جنگی طیارے اور مسلح ڈرونز نے نور ولی محسود کے ٹھکانے کو نشانہ بنایا۔
یہ حملہ نہ انتقام تھا، نہ سیاست — بلکہ ایک پیغام تھا کہ پاکستان اپنے خون کا حساب رکھتا ہے۔
آج دوپہر 2:30 بجے ڈی جی آئی ایس پی آر قوم کو تفصیلات سے آگاہ کریں گے۔
جبکہ افغان حکومت، جو ہمیشہ “طالبان کو پناہ دینے” سے انکار کرتی آئی ہے، اب سفارتی دباؤ میں ہے۔
چند روز قبل پاکستان، ایران، روس اور چین کے وزرائے خارجہ نے افغان حکومت کو متنبہ کیا تھا کہ
“افغان سرزمین کسی پڑوسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہیے۔”
اب، اس دھماکے کے بعد خطے میں ہوا کا رخ بدل چکا ہے۔
ٹی ٹی پی کے باقی رہنما پاکستان میں خودکش حملوں کی دھمکیاں دے رہے ہیں —
مگر شاید وہ بھول گئے ہیں کہ قومیں ڈر سے نہیں، قربانی سے زندہ رہتی ہیں۔
فقیر سوچتا ہے —
یہ کہانی صرف ایک شخص کے انجام کی نہیں،
یہ اس نظریے کے زوال کی داستان ہے جو دین کے نام پر فساد برپا کرنے نکلا۔
اب وقت یہ فیصلہ کر چکا ہے کہ ظلم، انتہا پسندی اور دھوکے کے نام پر اٹھنے والی ہر بندوق آخرکار خاموش ہو جاتی ہے۔
اب اس خطے میں دو ہی راستے بچے ہیں:
یا امن... یا انجام۔