20/10/2025
مومن اپنے گناہوں کو ایسا محسوس کرتا ہے جیسے وہ کسی پہاڑ کے نیچے بیٹھا ہے اور ڈرتا ہے کہ کہیں وہ اس کے اوپر نہ گر جائے اور بدکار اپنے گناہوں کو مکھی کی طرح ہلکا سمجھتا ہے کہ وہ اس کے ناک کے پاس سے گزری اور اس نے اپنے ہاتھ سے یوں اس طرف اشارہ کیا۔
[صحيح البخاري حدیث: 6308]
اس حدیث میں آپ ﷺ نے مومن اور فاجر کے درمیان نظریات کے فرق کو واضح فرمایا۔
نیک مومن کے سامنے گناہ کا ذکر کیا جائے اور اس سے گناہ کرنے کا کہا جائے تو اس پر خوف کاغلبہ طاری ہوجاتا ہے۔ وہ اس گناہ کو کرنے سے رکتا ہے۔
اس کے بر عکس فاجر کے لیے گناہ کرنا بہت آسان ہوتا ہے۔ اس کو گناہ پر اصرار کرنے کی عادت ہوتی ہے۔ اس کےلیے اس گناہ کی کوئی اہمیت نہیں رہتی۔
جب انسان نیکی کے راستے پر چل رہا ہوتا ہے۔ اس کے دل میں اللہ کا خوف بہت ہوتا ہے وہ اللہ کےلیے زندگی گزار نے کو ترجیح دیتا ہے ۔ جب اس کا سامنا گناہ کے کام سے ہواور وہ شیطان کے بہکاوے میں آکر اس کو اہم سمجھ کر انجام دیتا ہے تو اس کا برائی کا راستہ کھل جاتا ہے۔ پہلے پہل اسے کافی ڈر لگتا ہے لیکن جب اس کو انجام دینے کا عادی ہوجاتا ہے تو اس کا ڈر نکل جاتا ہے۔ وہ بےخوف گناہ کو انجام دینے لگتا ہے۔
کیا ہم اچھےمومن ہیں یا برے اس کا اندازہ ہمیں گناہوں کے موقع پر معلوم ہوگا۔ اگر ہم گناہ کے اعمال کرنے سے رکتے ہیں اور خوف محسوس کرتے ہیں کہ اللہ ناراض ہوجائے گا تو یہ اچھے مومن کی صفت ہے۔ لیکن اگر بے خوف و خطر گناہ کے امور میں مشغولیت ہے تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔