Treatment Tips Online

Treatment Tips Online Order us for purchasing medicine. We believe on customers satisfaction.

01/09/2021

Attached Toilet

24/02/2021
Jo log damaghe oljhano ka shikar haiDr. Sayed Ajmal Kazmi say rabta karayFee Rs. 2500 ziyada hai per elaj bhe acha karta...
24/02/2021

Jo log damaghe oljhano ka shikar hai
Dr. Sayed Ajmal Kazmi say rabta karay
Fee Rs. 2500 ziyada hai per elaj bhe acha kartay hai

19/07/2020
23/05/2020
21/05/2020

یہ معلومات پڑھ کر آپ کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔
وہم اور خوف سے دنیا میں پھیلائے گئے باطل نظریات کو " کرونا وائرس" کہا جاتا ہے. کیا آپ جانتے ہیں یہ لفظ "کرونا" یہودیوں کی مذھبی کتاب "تلمود" میں بھی بڑے معنی خیز انداز میں موجود ہے.

کرونا کو عبرانی میں קרא נא ایسے لکھا جاتا ہے اسکی معنی ہے "پکارنا یا آواز لگانا"

کس کو پکارنا ؟

اسکا جواب ہے یہودیوں کا مسیحا
آرتھوڈوکس یہودیت کے مطابق مسیحا جسے انگلش میں Moshiach یا Hashem کہتے ہیں، دجال نہیں بلکہ ایک ایسا لبرل یہودی النسل رہنماء ہوگا جو مسجد اقصی کو شہید کرکے اسکی جگہ دجال کیلیے " ہیکل سلیمانی" تعمیر کرے گا یہودیت کے مطابق جب وہ مسیحا آئے گا تو اس وقت سب لوگ گھروں میں چھپے ہوئے ہوں گے، اسے پکار رہے ہوں گے یعنی ہر کوئی اسے ان الفاظ سے پکار رہا ہوگا کہ کرونا کرونا کرونا....... یعنی اے ہمارے مسیحا آجاؤ، آجاؤ، اب آجاؤ.....!!

اسکے علاوہ نئے کرونا وائرس کو (COVID-19) کا نام بھی یہودیوں نے دیا ہے اور آپ اسے بھی ہرگز اتفاق نہ سمجھیں.

میں ہمیشہ قارئین کو سمجھاتا رہا ہوں کہ یہودی ہمیشہ ذو معنی الفاظ ایجاد کرتے ہیں جن کا ظاہری مطلب کچھ اور جبکہ اصل مطلب کچھ اور ہی ہوتا ہے.

لفظ COVID یہودی مذھبی کتاب "تلمود" کے پانچویں باپ masechet Berachot کے پہلے پیراگراف میں کچھ اس موجود ہے

אין עומדין להתפלל אלא מתוך כובד דראש

اسکی معنی ہے کہ "کسی شخص کو اس وقت تک نماز کے لئے نہیں اٹھنا چاہئے جب تک کہ اس کو کووڈ COVID نہ ہو۔

کووڈ کیا ہے؟

یہودی علماء اسکی تشریح کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اس کا مطلب ہے عاجزی، یعنی آپ کا اس بات پر ایمان ہو کہ ہم کچھ بھی نہیں ہیں اور ہاشم (مسیحا) کے بغیر ہم کچھ کر بھی نہیں سکتے اس لیے ہمیں اس کو کووڈ COVID کے ساتھ پکارنا ہوگا، عاجزی سے اسے آواز دینی ہوگی۔

اور کیا آواز دینی ہوگی؟ اسکا جواب ہے 19.

اب یہ 19 کیا ہے؟

19. Sim Shalom ("Grant Peace") - asks God for peace, goodness, blessings, kindness and compassion.

یہاں 19 کا مطلب تلمود میں موجود یہودی نماز کا انیسواں کلمہ ہے. یعنی ہمیں کرونا کے ساتھ 19 واں کلمہ دہراتے رہنا ہوگا جب ہی ہمارا مسیحا آکر مسجد اقصی گرا کر وہاں دجال کے لیے ہیکل سلیمانی تعمیر کرے گا۔

اب آپ کو سمجھ آگئی ہوگی کہ صیہونی اپنے پلانز کو کس طرح خفیہ "ذو معنی الفاظ" بناکر پیش کرتے ہیں.

اب آپ اسرائیلی وزیر صحت اور وزیر دفاع کے بیانات ذہن میں لاکر ان پر غور کریں جس میں ایک کہتا ہے کہ ہمیں کرونا سے کوئی پریشانی نہیں اور دوسرا کہتا ہے کہ ہمیں نجات دلانے والا
" مسیحا " جلد آنے والا ہے. اسکے علاوہ اسرائیل کے چیف ربی نے بھی اعلان کیا ہے کہ مسیحا اسی سال آئے گا پچھلے دنوں آپ نے ٹویٹر پر اسکا ٹرینڈ بھی دیکھا ہوگا جو پاکستان میں قادیانیوں نے بنایا تھا اور یہودیوں کے وہ نظریاتی باطل غلام جو اس وقت پاکستان میں موجود ہیں انہوں نے اس پر خوب محنت کی تھی۔

جی ہاں 100% بالکل ٹھیک سمجھ رہے ہیں آپ اسی لئے سب کو گھروں میں قید کروا کے ہر جگہ کرونا کرونا کروایا جارہا ہے۔
یہ محض اتفاق نہیں ڈیجیٹل دور کے آغاز میں اس کرونا کے نام پر آپ کے لئے جو ویکسین تیار کی گئی ہے اس سے آپ کے دماغ سے حقیقی معبود کا خیال نکال کر آپ کو دجال کی پیروی پر آمادہ کیا جارہا ہے لہذا اس لفظ کو بھی استعمال کرنے سے روکیں کیوں کہ کرونا وائرس نہیں صرف یہودیوں کا پیدا کیا گیا ایک باطل نظریاتی وہم ہے۔
بشکریہ : مولانا ابو تحیہ صاحب
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
عرضِ ناشر : اس چشم کشا تحریر کو ضرور فارورڈ کیجئے۔اور ہر مسلمان کو اپنے ایمان وعقائد کے تحفظ کی طرف متوجہ کیجئے۔
امان علی امان

21/05/2020

اسلام کے موذنِ اوّل حضرت بلالِ حبشیؓ کی حیات مبارکہ۔۔۔
ابو عبداللہ حضرت بلال حبشی ؓ، افریقی نسل کے اوّلین مسلمانوں میں سے ہیں جومحسن انسانیت کے دست مبارک پرمشرف بہ اسلام ہوئے اور سابقون الاولون اصحاب ؓمیں ان کا شمارہوا۔آپؓ کے والدکا نام رباح اور والدہ محترمہ حمامہ تھیں۔ آپؓ کے والدین بنیادی طور پرافریقہ کے خطے حبشہ جسے آج کل ایتھوپیاکا ملک کہا جاتا ہے وہاں کے رہنے والے تھے۔ حضرت بلال ؓ کی پیدائش مکہ مکرمہ میں ہی ہوئی۔ امت مسلمہ میں موذن اسلام ان کی اول وآخر شناخت ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے خریدکر آزاد کیا اور پھر ساری عمر جوار نبوی میں بسرکی۔ حضرت بلال ؓ کو محسن انسانیت کا اس قدر قرب میسر آیا کہ جملہ ضروریات نبوی حضرت بلال ؓ کی ہی ذمہ داری تھی۔ آپ ؓکا شمار اصحاب صفہ میں بھی ہوتا ہے، محسن انسانیت نے حضرت بلال ؓکو اوّلین موذن اسلام بنایا، انہیں اذان سکھائی، الفاظ و حروف کی صحیح ادائیگی کا طریقہ سمجھایا اور پھر انہیں سیرالموذنین کا لقب بھی مرحمت فرمایا۔
قریش کا ایک نامور سردار امیہ بن خلف اسلام کا بدترین دشمن تھا، اس کے غلاموں میں سے حضرت بلال ؓ نے جب اسلام کی تعلیمات سے آگاہی حاصل کی اوردولت ایمان سے قلب مبارک منور ہوا۔ تاہم ایک مختصر مدت تک اپنے ایمان کو پردہ اخفا میں رکھا، لیکن آخرکب تک؟ نور ایمان کی روشنی نے ان کے آقا امیہ بن خلف کی آنکھوں کو اندھا کردیا اور مصائب و آلام اور ابتلاءوآزمائش کا ایک پہاڑ ان پر ٹوٹ گرا۔ صحرائے عرب کی تپتی ریت روزانہ کی بنیاد پر ان کی میزبان تھی، عشق نبی سے بھر پور سینے پر بھاری بھرکم پتھرکا وزن اس آزمائش کی بھٹی میں حضرت بلال ؓ کوکندن بناتا تھا اور زنجیروں میں جکڑی ہوئی رات ’احد، احد‘ کے سبق کو پختہ ترکرتی چلی جاتی تھی۔کوڑے مارنے والے تھک جاتے اور باریاں بدل لیتے تھے،کبھی امیہ بن خلف اور ابوجہل اور پھرکوئی اور لیکن حضرت بلال ؓ کی پشت سے دروں کی آشنائی دم توڑنے والے نہ تھی، خون اور پسینہ باہم اختلاط سے جذب ریگزار ہوتے گئے یہاں تک کہ محسن انسانیت تک کسی مہربان نے داستان عزم وہمت روایت کرڈالی۔ محسن انسانیت نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو روانہ کیا، آپؓ نے امیہ بن خلف کو شرم دلانے کی ناکام کوشش کی اور پھر ایک مشرک حبشی لیکن صحت مند غلام کے عوض حضرت بلال ؓکو خرید کر آزادکردیا۔
مدنی زندگی کے آغاز میں ہی جب ایک موذن کی ضرورت پیش آئی تو محسن انسانیتکی نگاہ انتخاب سیاہ رنگت کی حامل اس ہستی پر پڑی جس کے چہرے سے پھوٹنے والی حب نبوی کی کرنوں سے آفتاب بھی ماند پڑجاتا تھا۔ حضرت بلال ؓ فجرکی اذان سے پہلے ہی مسجد نبوی کے پڑوسی مکان، جو بنی نجارکی ایک خاتون کی ملکیت تھا، کی چھت پر بیٹھ جاتے اور وقت کے آغاز پر اذان دیتے، جس کے بعد سب مسلمان مسجد میں جمع ہوجاتے تھے۔ حضرت بلال ؓ کا سارا دن رسول کریم کے ساتھ ہی گزرتا تھا، خاص طور پر جب مسجد قبا جانا ہوتا تو وہاں بھی حضرت بلال ؓ ہی اذان دیتے جس قبا کے مکینوں کو رسول کریم کی آمدکی اطلاع ہوجاتی تھی۔ قربت نبوی کے فیض نے حضرت بلال ؓ کو خازن نبوی بھی بنادیا تھا چنانچہ جب کبھی کوئی سائل دست سوال درازکرتا تو اس کو موذن اسلام ؓ کی طرف بھیج دیا جاتا اور حضرت بلال ؓ رسول اللہ کے ایما پر حسب ضرورت و حسب توفیق سائل کی معاونت فرمادیتے تھے۔ کچھ لوگوں نے حضرت بلال ؓ کے تلفظ پر اعتراض کیاکہ وہ ”شین“ کو ”سین“ کہ کر ادا کرتے ہیں لیکن ان کا اعتراض بارگاہ رسالت کی جانب سے مستردکردیا گیا۔ ایک بار رسول اللہ نے پوچھا ”بلال ایسا کیا عمل کرتے ہوکہ میں نے جنت میں تمہارے قدموں کی چاپ سنی ہے؟“ حضرت بلال ؓ نے جواب دیاکہ جب بھی وضوکرتا ہوں دو رکعت ”تحیةالوضو“ کے ضرور پڑھ لیتا ہوں۔
ہجرت کے بعد حضرت بلال ؓ نے رفاقت نبوی کا حق ادا کیا اور ہرغزوہ میں شامل رہے خاص طور پرغزوہ بدر میں اپنے سابق آقا امیہ بن خلف کو قتل کیا۔ دربار رسالت میں اس سے بڑھ کر اورکیا پذیرائی ہوسکتی ہے کہ فتح مکہ کے موقع پرکبار اصحاب رسول اور سرداران قریش کے درمیان سے آپ ؓکو ہی حکم اذان ملا اورآپ ؓ نے خانہ کعبہ کی چت پر چڑھ کر اذان دی جو اس شہر اور اس گھر میں طلوع اسلام کے بعد پہلی اذان ہی نہ تھی بلکہ اعلان فتح تھا۔ ایک پسے ہوئے طبقے کے فردکی محض تقوی کی بنیاد پر اس قدر عزت افزائی صرف دین اسلام کاہی خاصہ ہے۔
وصال نبوی کا سانحہ کل اصحابؓ کے لیے بالعموم جبکہ حضرت بلال ؓ کے لیے بالخصوص جاں بہ لب تھا۔ مدینہ شہرکا گوشہ گوشہ آپؓ کو رسول کریم کی یاد لاتا تھا چنانچہ آپؓ اسلامی لشکرکے ساتھ ملک شام کی طرف سدھارگئے اور اذان دینا بندکردی۔ ایک بار جب حضرت عمر ؓ نے بیت المقدس فتح کیا تو ساتھیوں کے بے حد اسرار پر امیرالمومنین ؓنے حضرت بلال ؓسے اذان کی درخواست کی جس کو آپؓ نے قبول فرمایا۔ ایک بارآپ ؓدمشق میں محو استراحت تھے کہ خواب میں زیارت رسول ہوئی، استفسارکیا کہ بلال ہمیں ملنے کیوں نہیں آتے! بیدار ہوتے ہی آقائے دو جہاں کے شہر کا قصد کیا اور روضہ رسول کی زیارت کی ۔ مدینہ طیبہ میں حسنین کریمینؓ سے ملاقات ہوئی تو انہیں بے حد پیارکیا۔ حسنین کریمین ؓ نے اذان کی فرمائش کی تو یہ کیسے ممکن تھاکہ آقا کے نور نظرلخت جگرکی فرمائش کو حضرت بلال ؓ جیسے عاشق رسول پوری نہ کرتے۔ جب اذان کی دوسری شہادت پر پہنچے اور حسب عادت ممبر کی طرف نظر اٹھائی تو رسول اللہ عنقا تھے، روتے روتے بے ہوش ہوگئے۔ دوسری جانب جس جس کے کانوں میں بلال ؓ کی اذان کی صدا پہنچی ، مسلمان ٹرپ اٹھے اور مرد و زن اپنے گھروں سے نکل نکل کر آنسوئوں کی لڑیوں کے ساتھ مسجد کی طرف ایسے کھچے چلے آئے چلے مقناطیس کی طرف لوہے کے ذرات چلے آتے ہیں۔ یہ حضرت بلال ؓ کی زندگی کی آخری اذان تھی۔
20 محرم، ہجرت کے بیسویں سال ماہتاب عشق نبوی غروب ہوگیا۔
دمشق کے محلہ باب الصغیر میں آپ ؓ نے وفات پائی، اس وقت عمر عزیز، بمطابق سنت، خاص تریسٹھ برس تھی۔ دو مزارات آپؓ سے منسوب ہیں، ایک تو دمشق میں ہے اورایک اردن کے بدر نامی گائوں میں ہے۔ آقائے دوجہاں ؓ کے اعلان نبوت کے وقت حضرت بلالؓ تیس برس کے تھے، بقیہ تینتیس برس کچھ نہ کیا سوائے صحبت نبوی کے ۔ رسول کریم کے ساتھ چلتے رہتے تھے اورجب آپ اپنے گھر تشریف لے جاتے توحضرت بلال ؓ باہر بیٹھ جاتے۔ انتظارکے لمحات طویل ہوتے یا مختصر، آپ جب گھر سے باہر نکلتے تو حضرت بلال ؓآپ کی معیت میں پھر پیچھے پیچھے چل پڑتے۔
حضرت بلال ؓ قرآن مجیدکی اس آیت کی عملی تصویر ہیں”اللہ تعالی کے نزدیک زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ تقوی والا ہے“۔کہنے کو سب مذاہب انسانیت کے مذاہب ہیں لیکن ہندئوں نے انسانیت کو چار ذاتوں میں تقسیم کر رکھا ہے، یہودی کسی دوسرے کو اپنے مذاہب میں داخل نہیں ہونے دیتے، عیسائیت دنیا کا سب سے بڑا مذہب ہے اور اس مذہب کے ماننے والوں کی اکثریت افریقہ اور ایشیا سے تعلق رکھتی ہے لیکن گزشتہ دو ہزار سالوں میں عیسائیوں کے سب فرقوں کے پوپ صرف یورپ سے ہی وارد ہوئے ہیں، ان کے نزدیک صرف گورے ہی اس منصب کے اہل ہیں جب کہ انسانیت کا دین صرف اسلام ہی ہے جس کے پہلے موذن افریقہ جیسے پسماندہ خطہ اراضی کے بھی انتہائی غربت وافلاس اور قحط زدہ علاقے ایتھوپیا سے تعلق رکھتے تھے اور مروجہ معیارات شرف و برتری کو بالائے طاق رکھتے ہوئے رسول اللہ نے آپ ؓ کی عزت افزائی کی انتہا میں انسانوں کو درس انسانیت یاد دلایا ہے کہ کل انسان ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں۔

Ramadan Gifts For All
17/05/2020

Ramadan Gifts For All

Address

Karachi
75950

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Treatment Tips Online posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Practice

Send a message to Treatment Tips Online:

Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on LinkedIn
Share on Pinterest Share on Reddit Share via Email
Share on WhatsApp Share on Instagram Share on Telegram