28/09/2025
اسلام آباد میں ہمارے گھر میں ایک ملازمہ کام کرتی تھیں۔ جو گھر کے قریب ایک کچی بستی سے آتی تھیں۔
جب پہلی بار وہ آئیں تو والدہ نے اُنکی تعلیم پوچھی تو اُنہوں نے پانچویں پاس بتائی۔ لیکن اگر وہ ماسٹرز ڈگری بتاتیں تو ہم پھر بھی یقین کر لیتے۔
انتہائی سُلجھی ہوئی شُستہ اُردو میں بات کرنے والی صارفین سے ہم سب کو بہت پیار ہو گیا تھا۔
ہمارے گھر کے بڑے آپس میں پنجابی میں اور ہمارے ساتھ اُردو میں بات کرتے تھے اور صارفین نے گھر کا طریقہ دیکھ لیا تو وہی اپلائی کیا۔ کبھی والدہ کے ساتھ بات کر رہی ہوتی تھیں بیچ میں ہم کوئی سوال کرتے تو اُتنی ہی سُرعت سے اُردو میں جواب دیتی تھیں۔
ایک چھوٹی سی بات حوالے کے لئے بتاتی ہوں۔
والدہ نے چھوٹے بھائی کو آواز دی تو اُس نے “ہاں” کہہ کر جواب دیا۔
صارفین پاس کام کر رہی تھیں بھائی کو بابو بولتی تھیں۔ فورا اپنے پاس بٹھا کر کہتیں بابو دیکھو جب آپ “ہاں” کہتے ہو تو آواز گلے سے نکلتی ہے جب آپ “جی” کہتے تو آواز زبان سے ادا ہوتی۔ گلے سے نکلنے والے الفاظ میں سختی ہوتی اور زبان سے نکلنے والے الفاظ نرم ہوتے ہیں۔
اور اُنہوں نے بتایا کہ وہ اسی لئے اپنے بچوں کے ساتھ اُردو میں بات کرتی ہیں کیونکہ اُردو “زبان” سے ادا ہوتی اور پنجابی گلے سے۔
ہم اُنکی ایسی سمجھداری والی باتوں سے بہت متاثر ہوتے تھے۔
میں نے ایک بار پوچھا کہ آپکو اتنی اچھی باتیں کون بتاتا ہے تو کہتیں “باجی! دماغ بتاتا ہے”۔ جس سے اندازہ ہؤا سوچنے والی خاتون تھیں۔
سب سے زیادہ حیرت کی بات ہمارے لئے تھی کہ اُنکے شوہر اُن سے نہ صرف بہت پیار کرتے تھے بلکہ کبھی ہاتھ تک نہیں اُٹھایا تھا بچے بھی دو تھے۔
جبکہ ان سے پہلے جتنی ملازمائیں کام کرتی تھیں سب کے بچوں کی لائن لگی ہوئی تھی کیونکہ غربت میں اینٹرٹینمنٹ کا ایک ہی ذریعہ ہوتا۔ اور شوہر بے دردی سے عورتوں پر ہاتھ اُٹھاتے اور بچاری سارا سارا دن ہڈیاں گھولتی تھیں گھروں میں کام کر کر کے۔
میں نے ایک دن اُن سے بہت تجسس سے سوال کیا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ آپکے شوہر آپ کی عزت کرتے ہیں اور آپ پر ہاتھ بھی نہیں اُٹھاتے۔
تو کہنے لگیں “باجی! جب دو لوگوں میں لڑائی ہوتی ہے تو ایک بیوقوف ہوتا اور دوسرا عقل والا”۔ میں نے پوچھا کہ آپ کیا کرتی ہیں پھر؟
کہتیں باجی! مرد غصے میں عقل کھو بیٹھتا دماغ کام کرنا بند ہو جاتا اُس وقت میں یہی سوچتی کہ یہ تو اسوقت بیوقوفی کر رہا کیا مجھ پر بھی یہ بیوقوفی فرض ہو چُکی؟ نہیں، میں خاموش ہو جاتی ہوں۔ لیکن اسکا مطلب یہ نہیں کہ مرد کو اُسکی غلطی کا احساس بھی نہ دلاؤ بلکہ غصہ ٹھنڈا ہو تو خوب سُناؤ بے شک۔
میں نے کہا لیکن صارفین قربانی ہمیشہ عورت ہی کیوں دے ؟
تو اُنکے جواب نے لاجواب کر دیا۔ پہلے تو کہتیں کہ میں نے کب کہا عورت ہی خاموش رہے، میں نے کہا جس کو عقل وہ خاموش رہے۔ اور باجی آپ جس کو “قربانی” کہتی ہو میں اُسکو “سمجھداری” بولتی ہوں۔ قربانی اُسکو وہ بولے گا جس کو خاموشی مُشکل لگتی ہو اور چخ چخ آسان۔
اور بڑا رازداری سے کہنے لگی “باجی صیح بتاؤں مرد کی عقل واقعی غصے میں بند ہوجاتی ہے۔ اسلئے زیادہ حالات میں سمجھداری عورت کو دکھانی پڑتی۔
جب میری شادی ہوئی تو جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ صارفین نے ایک انمول بات بتائی تھی، لڑائی میں دُو بدُو لڑنے، ایک دوسرے کو زلیل کرنے اور غصے میں جھاگ اُڑانے سے ہزار درجہ بہتر خاموشی ہے۔
لیکن بات وہی کہ اسکا مطلب یہ نہیں کہ بتایا نہ جائے کہ غلطی کی تھی۔
بہرحال صارفین کے بارے میں ہم کہتے تھے، گُدڑی میں لعل چھُپا ہے۔
ایسی میلی کُچیلی بستی سے آنے والی صارفین خود بھی صاف سُتھری رہتی تھیں اور باتیں موتیوں میں پرونے والی کرتی تھیں۔
کُچھ دیر قبل پاکستان دوست سے بات ہوئی صارفین بہت یاد آئیں دوست سے پوچھا تو اُس نے بتایا اُنکی تو کافی سال پہلے وفات ہو چُکی۔ بہت دل اُداس ہؤا۔ اُنکی میٹھی میٹھی موتی میں پروئی باتیں اور شدت سے یاد آئیں۔
سوچا کیوں ناں لکھ کر Tribute پیش کیا جائے۔
اسی لیے میں کہتی ہوں کہ شعور کا تعلیم سے کوئی تعلق نہیں۔ میں نے سفید لیب کوٹ میں لپٹے ایسے جاہل زومبی بھی دیکھے ہیں جو صرف ڈگری کے خ*ل میں قید ہیں۔ اور دوسری طرف صارفین جیسے گُدڑی کے لعل بھی دیکھے ہیں، جو اپنے لفظوں سے روشنی بانٹتے تھے۔ میں نے تھڑوں پر بیٹھے وہ لوگ بھی دیکھے ہیں جو حقیقی دانش کے پھول بکھیرتے ہیں، اور ایسے خودساختہ پی ایچ ڈی حضرات بھی ملے ہیں جن کے ساتھ چند منٹ گزارنے کے بعد ہی سر پیٹنے کو دل چاہے۔
ایک دفعہ ایک رکشے کے پیچھے لکھا دیکھا
“گاڑی دھیان سے چلاؤ آگے کوئی جنت ونت نہیں”۔
میں حیران ہوئی اس رکشے پر جس نے لکھا، یا رکشے والا ماسٹرز یا پی ایچ ڈی تو ہو نہیں سکتا لیکن شعور رکشے پر بھی بول رہا ہے۔
یہ حقیقت آپ اکثر دیکھیں گے کہ ہمارے ہاں بڑے بڑے پڑھے لکھے لوگوں کے ساتھ بیٹھنے کے بعد بھی سخت مایوسی کا سامنا ہوتا ہے۔ اُن کی سوچ اتنی گھسی پٹی اور بوسیدہ ہوتی ہے کہ اس میں جدّت یا تخلیقی زاویہ ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا۔ اکثر وہی رٹے رٹائے جملے دہراتے ہیں، جیسے چلتے پھرتے زومبیز۔ افسوس کہ پاکستان میں اکثریت کی ذہنیت کچھ ایسی ہی ہے کہ بات چیت کے بعد اُمید کی بجائے مزید مایوسی ہاتھ آتی ہے۔
اسی لیے میں کہتی ہوں: “شعور کا تعلق تعلیم سے ہرگز نہیں ہے
منقول