06/09/2021
اسلم ماں باپ کا اکلوتا سپوت ایک زمیندار تھا ۔۔۔ باپ ٹانگ تڑوا کے کھیتی باڑی سے سبک دوش ہوگیا تو اسلم کے جوان خون پسینے سے کھیتیاں سینچی جانے لگی ۔ گاؤں بھر میں اسکے جیسے لہلہاتے کھیت کسی کے نہ تھے ۔ فصل کی بوائی اور کٹائی کے زمانے میں دیوانہ سا ہوجاتا ۔۔۔ تمام کسان , زمیندار کھیتی اور مال ڈنگر کو لیکر بہت حساس ہوتے ہیں لیکن اسلم کی فکریں سب سے الگ ہوتیں گھر سے تربیت یافتہ تھا کھیتی باڑی کے تمام اصول رگوں میں خون کی طرح دوڑتے تھے اور تربیت میں عمل بن کے شامل تھے ۔۔۔
ماں پوتا پوتی کھلانے کی آرزو میں بیس برس کی عمر میں بیٹا بیاہ لائی ۔۔۔ شادی کے پہلے دن سے بہو کے دن گننے لگی پر ہر مہینے اسکی آس ٹوٹ جاتی ۔۔ اور تیسرے مہینے سے بہو کی شامت , طعن تشنہ ہونے لگا ۔ وہ نمانی تو خالہ کو ماں سمجھتی تھی لیکن کہتے ہیں ناں کہ ساس بن کے خالہ کی رگوں میں زہر پھنکاریں مارتا ہے بہن سے کھلے پرانے کھاتے بہن کی بیٹی کو چکاتی ہے ۔ بہو بیچاری اپنے ساتھ ساتھ اپنی ماں کے حساب بھی اپنے چَم سے چکانے لگی ۔۔
زمیندار کی عورت جب تک زمینداری میں شوہر کا ہاتھ نہ بٹائے زمیندارہ نہیں چل سکتا ۔۔۔ ڈیرے پہ ہر روز جانا مال ڈنگر سنبھالنا ۔۔ کھیتوں کو دیکھنا ۔۔ گھر والوں کے روٹی بھتے کی فکر ۔۔ فصلوں کے بیج سنبھالنا گاہے گاہے انہیں دھوپ لگوانا ۔ بالن جمع کرنا , نئے پرانے گڑ , اچار دیکھنا بھالنا , فصل کے لئے پَلیّاں تیار کرنا ۔۔غرض اتنے رپھڑ کہ سر کھجانے کی بھی فرصت نہیں ملتی ۔۔
اسلم کا باپ تو ٹانگ تڑوا کے ویلا ہوا تھا ماں خود ہی گھر داری سے سبکدوش ہوگئی کہ ضعف آڑے آتا ہے ۔ لیکن اسکی توانائی کا زہر اسکی آنکھوں اور زبان میں جمع ہوگیا تھا ۔ بہو کو تنگ کرنے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہ جانے دیتی ۔ بہو بیچاری نازک سی شہر کی پلی بڑھی لڑکی تھی جہاں روٹیاں بھی گن گن کے پکائی جاتی تھیں گیس کے چولہے تھے ہلکا پھلکا کام کاج تھا ۔۔ یہاں روٹیاں ہی پکانے بیٹھتی تو چولہے کے آگے بیٹھے بیٹھے گٹھنے جم جاتے ۔ کتے کی روٹی , گدھے کی روٹی , بلی کی روٹی پھر گھر والوں کی باری آتی ۔ صحانک بھر آٹا گندھتا اور روٹیوں کا تھبہ پکتا کہ دیہات میں رواج تھا کھانے کے وقت پہ کوئی بھی آجائے تو روٹی کم نہ پڑے یا بیچ میں اٹھ کے پکانا انتہائی رذیلوں کا شیوہ سمجھا جاتا ۔ شروع میں وہ چیں بجبیں ہوئی اماں تیوری کے بل گننے کی ماہر تھی ایک بل پہ سو سو سناتی اور پورا دن بڑبڑاتی ۔ بہو کا جی کام کے بوجھ اور ٹینشن سے ماندہ رہتا سو اس نے چپ چاپ ہار مان لی اور مشقت میں دل لگانے میں عافیت جانی ۔۔
تمام دن کی مشقت کے بعد اسلم اپنی کھیتی بھی سینچ رہا تھا ماہر تخم ریز تھا لیکن بیج بار آور نہ ہوتا ۔ ہوتا بھی کیسے جب تک کھیتی تیار نہ ہو بیج ثمر آور نہیں ہوتا ۔۔ کوئی امید کی کرن نہ پھوٹی ۔۔۔ اسلم چند بیلیوں سے مشورے بھی لے آیا اماں چپکے چپکے دو بار حکیم غلام رسول کو بھی دکھا لائی ۔ حکیم جی نے نازک سی بہو کی کلائی پکڑی نظر بھر کر دیکھا یہ تو معلوم ہی تھا کہ بہو شہر سے آئی ہے کام کاج کی روٹین پوچھی اور مرض پکڑ لیا احتیاط بتائی کہ بچی کافی کمزور ہے اتنی مشقت سے ثمر بار نہیں ہوگی ۔ پھول اٹھانے کے لئے بدن کی ڈالی مضبوط ہوگی تو تخم ریزی اثر پذیر ہوگی ۔۔۔ بیج پھوٹے گا تو پھول بننے تک نوبت آئے گی ۔۔۔ چند مربّے تجویز کئے ۔۔ کچھ نسخے کھرل کئے اور پڑیاں باندھ دیں ۔
اماں پوتے کے چاؤ میں مربّے بھی لے آئی ۔ بھاری شیرے میں لت پت مربّے زبردستی بہو کو ٹھونس دیتی ۔۔ پڑیاں بھی پَھنکوا دیتی لیکن مہر کا پانی دیتے اس کے گلے میں کڑواہٹ گھل جاتی مغلظات ابل پڑتے ۔ بیج تو سیپ کی طرح ہوتا ہے جب تک مینہ کا پوتر و مصّفا قطرہ نہ پڑے سیپ کا منہ نہیں کھلتا ۔۔ ٹینشن کی دھوپ میں بنا مہر و محبت کے چٹختی دھوپ میں بدن کی کھیتی کیسے پھوٹتی ۔۔
اس روز ڈیرے پہ کھیتی کے کام کاج دیکھتے دن چڑھ آیا ۔ قطار میں لگے مالٹوں کی آخری فصل کب سے اتر چکی تھی ۔ چاچے شیر نے دس سال پہلے دو سو پودے سرگودھے سے سوغات بھیجے تھے اسلم دس برس کا تھا بڑے ہی کوئی نسلی نکلے تھے ۔ ابے نے جوش اور یار سے محبت کی وجہ سے پودوں کی خوب خوب خدمت کی تھی ۔ آس پاس کے ڈیروں والے کہتے تھے ترشاوے پھل کے لئے سرگودھے اور گردا گرد کی زینویں (زمین ) بہترین ہے ادھر کدھر ہونے ہیں یار اکبر تو ویلا تے محنت ونجا رہا ہے لیکن ابے کو اس سوغات سے ایسی کوئی محبت ہوئی بلکہ اسے لگن ہی لگ گئی کہ پودے پیڑ بنیں اور پھل بھی اٹھائیں سو انکے گرد سیوا میں بیٹھا رہتا ۔۔حقے پانی والا منجا بھی انہیں نوخیز رکھوں کے ساتھ بچھا لیا ۔ سال ہونے سے پہلے پہلے پودوں نے اسلم پتر کے قد کو مات دے دی ۔ اور سر اٹھا کے لہلہانے لگے ۔۔۔ اس نے پودوں کے گرد دور ( پیالے , دائرے ) بنوا دئیے گِٹھ گِٹھ ڈونگی گوڈی کرکے کھاد ڈالی اور پانی چھوڑ دیا ۔۔ دو تین پانیوں کے بعد ہرے ہرے بوٹوں پہ سفید کلیوں نے مندھی مندھی آنکھیں کھولیں تو ابے کا جوش دیدنی تھا ۔۔۔ اسلم پتر ہن پانی نئیں لانا تے بوٹیاں نوں ہتھ وی لانا کولوں چپ کر کےلنگ جائیں ۔ نئیں تے کلیاں ڈگ پینیاں نیں ۔ ساڈا کم مک گیا اے کہ
ہاری دا کم پانی لانا بھر بھر مشکاں لاوے
مالک دا کم پَھل پُھل لانا لاوے یا نہ لاوے ۔۔
پہلے سال تھوڑے سے پھول اور کچھ پھل لگا ۔ سال بعد سے کنو فروٹر اور ریڈ بلڈ نے ڈھیروں پھول اٹھانے شروع کر دئیے اور پھر ہر سال پہلے سے بڑھ کے پھل اٹھاتے ۔۔ ابا دو سو پیڑوں کا ٹھیکہ پھل اترنے تک صابر کو دے دیتا جو روز کا تازہ پھل ٹوکرے بھر بھر اتارتا اور منڈی لے جاتا ۔۔۔ ابے کو ڈھیروں منافع ملنے لگا ۔ کئی یار بیلی ابے کی دیکھا دیکھی سرگودھے سے بوٹے لے آئے لیکن ابے کے ترشاوے جیسا رنگ , خوشبو اور ذائقہ کسی کے پھلوں میں نہ تھا وہ پودے شائد اسی زمین کے لیے اگے تھے ۔ ابا انکی دیکھ ریکھ بھی بچوں سے بڑھ کے کرتا تھا ۔۔
فروری کا آخری ہفتہ تھا صابر کنو اور ریڈ بلڈ کا آخری دانہ تک چن چکا تھا ۔ اس سال بیوی اور سسرال کی ذمہ داریاں نبھاتے پیڑوں کی کٹائی چھٹائی کو کئی دن اوپر چڑھ گئے تھے پیڑوں کی گوڈی ہوئی نہ کھاد ڈلی ۔۔ ڈھنڈار ڈالیاں بھی مرجھائی مرجھائی معلوم پڑتی تھیں ۔ کام کی زیادتی میں اسلم وقت پہ توجہ نہیں دے سکا ۔۔۔ درختوں نے بے دلی سے چند پھول اٹھائے ان میں سے بھی بہت کم پھل بننے کے عمل تک پہنچے دانہ بھی چھوٹا پڑا اور وہ تازگی اور صحت مندی بھی مفقود رہی جو ابے کے درختوں کا خاصہ تھی اور جس کی دھوم مچتی تھی ۔ ابے کا سارا نزلہ اسلم پہ گرا اور اماں کا بہو پہ کیسی سیاہ بخت تھی کہ ہرا بھرا باغ تک جلا ڈالا ۔ تب اسلم کو اپنی کوتاہی پر پچھتاوا ہونے لگا ۔۔ سال بھر وہ پچھتاوے کی سولی پہ ٹنگا رہا اب وہ انتظار میں تھا کہ پھل چنا جائے تو درختوں کی سنبھال کرے ۔ جنوری فروری گزرے تو درختوں کو جھاڑ جھپاڑ کے فارغ کر دیا ۔ بندے لگا کے سوکھی اور مردہ ٹہنیاں کٹر سے تراش دیں ۔ اسلم نے پکا ارادہ باندھا تھا کہ اس سال یہ کوتاہی نہیں کرنی ۔ بدلتی رت نے تاپ چڑھا دیا تھا لیکن پھر بھی کام ضروری تھا سو اس نے احتیاط سے لنگوٹا کسا اور مزدورں کے ساتھ مل کے دھیرے دھیرے پیڑوں کے گرد دور بنانے لگا ۔۔ ان کو گوڈتے دس دن لگے ۔۔۔ کام مکمل ہوگیا تو کھاد ڈال کے کھالے کا رخ ادھر موڑ دیا ۔۔ تب اس کا تاپ اترا ۔۔
اگلے آٹھ دنوں میں درختوں نے پھول اٹھا لئے ۔ تمام دن بھونرے اور شہد کی مکھیاں پھولوں پہ منڈلاتی رہتیں اور دائرے میں کچا پھولوں سے بھرا رہتا ۔ پھول اتنے نازک ہوتے کہ ہلکی ہوا سے جھڑنے لگتے ۔ قطعہ پھولوں کی ناز بھری خوشبو سے مہکتا رہتا ۔۔۔ اور شرمائی شرمائی ڈالیاں خود میں سمٹتی رہتیں اسلم محبت آنکھوں میں رکھ کے پاس سے گزرتا ۔ سانس لینے کی بھی احتیاط رکھتا ۔
بیس پچیس دنوں میں پھول ہرے موتی بننے لگے ۔ ڈالیاں زمردیں موتیوں کی مالا پہن کر اٹھلائی اٹھلائی پھرتیں ۔ ان کو سہلاتے ان پہ محبت بھری نگاہیں ڈالتے اسلم پہ عقدہ کھلا کہ بیوی کیوں پھول نہیں اٹھا رہی ۔۔ اس نے پرنے سے پسینہ پونچھا اور بیوی کے تصور کو آنکھ میں رکھ کے گھر کو چل دیا ۔ اسے درختوں نے سبق سکھا دیا تھا کہ بیوی سے پھل کیسے لینا ہے
بشکریہ 👇
زارـⷶــⷢــᷧــᷧــᷦـــ ا مظہــⷢــⷽــⷩــᷦــⷶــⷨـــر
٥ ستمبر ٢٠٢١ء