Dil ki Baat Shumaila k sath

Dil ki Baat Shumaila k sath اگر آپ بھی چاہتے ہیں
کہ کوئی بغیر ججمنٹ،
خاموشی سے آپ کی بات سنے...

تو مجھے انباکس کریں 💬

میں ایک Emotional Listener ہوں —
آپ کا درد صرف سننے کے لیے 💫

14/09/2025

کاش خوابوں کو بھی چھٹی کا دن ملے، جہاں کوئی نہ جگائے اور وہ پورے ہو جائیں

آج سنڈے ہے اور اذان کی چھٹی ہے۔ چھٹی والے دن وہ
ہمیشہ دیر تک سوتے ہیں کیونکہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ ماما نہیں جگائیں گی۔ میں صبح جلدی اٹھ گئی ہوں، کافی دیر انتظار کرتی ہوں لیکن اذان گہری نیند میں ہیں۔ آخرکار تقریباً 11 بجے میں جا کے کہتی ہوں،
"بیٹا اب اٹھ جاؤ۔"

وہ آنکھیں ملتے ہوئے اٹھتے ہیں اور ناراض لہجے میں کہتے ہیں،
"میں آپ سے ناراض ہوں… آپ نے میرا خواب خراب کر دیا۔"

میں ایک لمحے کو رُکتی ہوں، پھر مسکرا کے کہتی ہوں،
"سوری، مجھے تو نہیں پتہ تھا آپ خواب دیکھ رہے ہیں۔"
اور اسی وقت مجھے اپنا بچپن یاد آ جاتا ہے۔

ہم بھی تو ایسے ہی تھے۔ کوئی میٹھا خواب چل رہا ہوتا اور اچانک کوئی جگا دیتا، تو دل دکھتا ہے۔ ہم پھر آنکھیں زور سے بند کر لیتے کہ شاید وہ خواب دوبارہ شروع ہو جائے۔ لیکن اکثر ایسا نہیں ہوتا۔ تب دل چاہتا ہے کہ کاش کوئی ہمیں تھوڑا سا اور سونے دے دے۔

بچپن کے خواب کتنے معصوم اور خوبصورت ہوتے ہیں۔ کبھی کھیل، کبھی ہنسی، کبھی اڑان… سب کچھ ایسا لگتا ہے جیسے حقیقت ہو۔ شاید اسی لیے وہ آج بھی دل میں ایک چھوٹی سی خواہش چھوڑ جاتے ہیں کہ کاش ہم پھر ایک بار ان خوابوں میں جا سکیں۔

خواب چاہے چھوٹے ہوں یا بڑے، دل ہمیشہ چاہتا ہے وہ ادھورے نہ رہیں۔

: تحریر :شمائلہ یوسف

30/08/2025

ہم نے اپنے غزہ کے بہن بھائیوں کو مرتے ہوئے چھوڑا وہ ہمیں اوازیں دیتے رہے روتے رہے بلاتے رہے کہتے رہے کہ ہماری مدد کرو لیکن ہم نہیں اٹھے ہماری قوم نہیں اٹھی باتیں تو کی تھوڑا سا ادھر ادھر لیکن مکمل طور پر کچھ عمل نہیں تھا اور شاید ہم کمزور بھی تھے۔ اس لیے بھی ہماری حکومت نے بھی کوئی ایکشن نہیں لیا لیکن بات تو یہ ہے کہ مرنا ہم نے ویسے بھی تھا اگر ہم اواز اٹھاتے اور مر ہم اب بھی رہیں چاہے مہنگائی سے مر رہے ہیں سیلاب سے مر رہے ہیں لیکن مر رہے ہیں۔

شمائلہ یوسف

30/08/2025

مجھے یاد ہے جب میں چھوٹی تھی تو جب بہت شدید بارش ہوتی تھی یا ایسے حالات پیدا ہوتے تھے تو لوگ اپنے گھروں کی چھتوں پہ کھڑے ہو کے اذانیں دیا کرتے تھے اور مسلسل دیتے رہتے تھے اور اسے واقعی فرق پڑتا تھا لیکن اج مجھے نہیں لگ رہا میں نے نہیں ابھی تک دیکھا کہ کسی بھی شخص نے ایسا کچھ کیا ہو۔؟

30/08/2025

سیلاب اور بارش ۔ کتنی تباہی ہے۔ میرے بہن بھائی جو بے آسرا ہیں ۔ سوچ کے دل عجیب ہو رہا ہے ۔ گھر نہیں ہے اور گھروں کے بغیر جو لوگ سڑکوں پہ ہیں یا کہیں بھی ہیں پھنسے ہوئے ہیں۔ بارشیں ہو رہی ہیں۔سوچ کے دل اداس ہے۔کیسے اس وقت سے لڑ رہے ہیں

30/08/2025

حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ایک واقعہ ہے کہ ایک زمانے میں بارش نہیں ہو رہی تھی۔ آپ اپنی قوم کو لے کر دعا کے لیے نکلے مگر دعا قبول نہ ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تمہاری قوم میں ایک ایسا گناہگار شخص ہے جس کی وجہ سے بارش رکی ہوئی ہے۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اعلان کیا تو وہ شخص وہاں سے نہ نکلا، بلکہ دل ہی دل میں اللہ سے عرض کیا:

“یا اللہ! میں نے برسوں تیری نافرمانی کی ہے، مگر اب توبہ کرتا ہوں، میری پردہ پوشی فرما اور مجھے معاف کر دے۔”

اسی وقت اللہ تعالیٰ نے اس کی توبہ قبول فرمائی اور بارش برسنے لگی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا: “یا اللہ! وہ بندہ کون ہے؟” تو جواب ملا: “جس وقت وہ گناہ کر رہا تھا تو میں نے اس کا پردہ رکھا، اب جب اس نے توبہ کر لی ہے تو میں اس کا پردہ کیسے نہ رکھوں؟”

یہ واقعہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ ایک انسان کی برائی یا گناہ کی وجہ سے پورا معاشرہ بھی متاثر ہو سکتا ہے۔ اور جب وہی انسان سچے دل سے توبہ کر لے تو اس کی برکت سب کو پہنچتی ہے۔

اگر ہم آج اپنے معاشرے پر نظر ڈالیں تو بدقسمتی سے ہمیں اخلاقی زوال، قتل و غارت، بے حیائی، ناانصافی اور ہر طرح کی برائیاں عام نظر آتی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اچھے اور برے سب کو ہی اس کے اثرات بھگتنا پڑتے ہیں۔

آج پاکستان مہنگائی، بدامنی، سیلابوں اور طرح طرح کی مشکلات میں گھرا ہوا ہے۔ عوام ذہنی اور نفسیاتی دباؤ میں ہیں۔ یہ حالات ہمیں اس طرف متوجہ کرتے ہیں کہ:

ہم سب اپنی کوتاہیوں اور گناہوں پر غور کریں۔

اللہ تعالیٰ سے دل سے معافی مانگیں۔

اپنی اصلاح کریں اور دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کریں۔

برائیوں سے بچیں اور معاشرے کو سدھارنے میں اپنا کردار ادا کریں۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کی خطاؤں کو معاف فرمائے، ہمارے ملک کو اپنی رحمت کے سائے میں لے، ہمیں صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری آنے والی نسلوں کو بھی ان مشکلات سے محفوظ رکھے۔ آمین۔

یا اللہ! اپنی رحمت کے دروازے ہم سب پر کھول دے ہمارے دلوں کو توبہ کی طرف موڑ دے، ہمارے گھروں میں سکون، ہمارے ملک میں امن اور ہماری زندگیوں میں برکت عطا فرما۔

تحریر شمائلہ یوسف

اس واقعے نے دل کو بہت دکھ دیا ہے صبح یہ خبر پڑی اور اتنا دل اداس ہو گیا ہے۔  موسم اتنا اچھا ہے لیکن دل اداس ہے اور معاشر...
25/08/2025

اس واقعے نے دل کو بہت دکھ دیا ہے صبح یہ خبر پڑی اور اتنا دل اداس ہو گیا ہے۔ موسم اتنا اچھا ہے لیکن دل اداس ہے اور معاشرے کی بے حسی دیکھ کر حیران ہوں ایک مجمع جو چاہتے تو روک بھی سکتے تھے جو چاہتے تو یہ نوبت ہی نہ اتی لیکن میں اتنی حیران ہوں کہ کسی ایک کا دل بھی نہیں اس واقعے کو دیکھ کے دہلا کہ ہم رو کے لیں کتنی افسوس ناک بات ہے ۔

23/08/2025

ہم سب چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے اور شاگرد زندگی میں بہترین انسان بنیں۔ لیکن یہ کیسے ممکن ہے؟ آئیے پڑھیں ارکسن کی تھیوری، جانیں اس کا مقصد، دنیا میں مقام اور
اسے کیسے عملی طور پر اپنایا جا سکتا ہے۔

ارکسن کی نفسیاتی ترقی کی تھیوری: ایک مکمل رہنما

ارکسن کی تھیوری کیا ہے؟
ارکسن کی تھیوری، جسے Psychosocial Theory of Development کہا جاتا ہے، انسانی شخصیت کی نشوونما کو زندگی کے مختلف مراحل میں بیان کرتی ہے۔ ہر عمر میں ایک خاص سماجی اور نفسیاتی چیلنج ہوتا ہے۔ اگر بچے اسے کامیابی سے حل کریں تو مضبوط اور خوداعتماد شخصیت بنتی ہے، اور ناکامی کی صورت میں مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔

مین پرپس (Main Purpose):
بچوں اور نوجوانوں کی نشوونما اور شخصیت کی بہتر سمجھ حاصل کرنا۔
والدین اور اساتذہ کو رہنمائی دینا کہ کس عمر میں بچے کو کس قسم کی مدد یا سپورٹ کی ضرورت ہے۔
انسانی زندگی کے ہر مرحلے پر رویے اور تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کرنا۔

دنیا میں اس کا مقام:

یہ دنیا بھر میں Developmental Psychology میں بنیادی اور معتبر تھیوری کے طور پر مانا جاتا ہے۔
اسکولوں، کالجوں اور کاؤنسلنگ میں بچوں کی زندگی بھر کی نشوونما کو سمجھنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
والدین، اساتذہ اور ماہرین نفسیات اسے بچوں کی شخصیت سازی میں رہنمائی کا اہم ذریعہ سمجھتے ہیں۔

ارکسن تھیوری کے مراحل اور پروسیس (تفصیل کے ساتھ):

1. اعتماد بمقابلہ شک (پیدائش تا ایک سال)

پروسیس: بچے دنیا کو محفوظ اور قابل اعتماد سمجھنا یا اسے غیر محفوظ محسوس کرنا سیکھتے ہیں۔

اہمیت: اگر والدین وقت پر دودھ، محبت اور توجہ دیں، بچے میں اعتماد پیدا ہوگا۔ اگر لاپرواہی ہو تو بچے میں شک اور خوف پیدا ہو سکتا ہے۔

2. خودمختاری بمقابلہ شرمندگی (ایک سال تا تین سال)

پروسیس: بچے چھوٹے کام جیسے خود کھانا کھانا، بات کرنا، یا کپڑے پہننا خود سیکھنا چاہتے ہیں۔

اہمیت: حوصلہ افزائی سے بچے میں خوداعتمادی اور خودمختاری پیدا ہوتی ہے، جبکہ تنقید سے شرمندگی اور شک پیدا ہو سکتا ہے۔

3. پہل بمقابلہ جرم کا احساس (تین سال تا چھ سال)

پروسیس: بچے کھیل اور چھوٹے منصوبے شروع کرتے ہیں اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہیں۔

اہمیت: اگر والدین اور اساتذہ ان کی پہل کی تعریف کریں، بچے میں پُرجوشی اور پہل کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے، ورنہ وہ گناہ یا غلطی کا احساس کرنے لگتے ہیں۔

4. مہارت بمقابلہ کمزوری (چھ سال تا بارہ سال)

پروسیس: بچے اسکول، کھیل اور ہنر میں محنت اور کامیابی یا ناکامی کا تجربہ کرتے ہیں۔

اہمیت: کامیابی اور تعریف سے محنت اور اعتماد بڑھتا ہے، جبکہ ناکامی یا زیادہ تنقید سے بچہ کمزور یا نااہل محسوس کرتا ہے۔

5. شناخت بمقابلہ کردار کی الجھن (بارہ سال تا اٹھارہ سال)

پروسیس: نوجوان اپنی شناخت تلاش کرتے ہیں، یہ سوچتے ہیں کہ وہ کون ہیں اور مستقبل میں کیا کرنا چاہتے ہیں۔

اہمیت: مثبت رہنمائی سے نوجوان میں مضبوط شناخت پیدا ہوتی ہے، ورنہ وہ الجھن اور کم اعتماد کا شکار ہو سکتے ہیں۔

6. قریبی تعلقات بمقابلہ تنہائی (جوانی)

پروسیس: جوان دوستیاں، محبت اور قریبی تعلقات بناتے ہیں۔

اہمیت: کامیاب تعلقات سے اعتماد اور محبت بھری شخصیت بنتی ہے، جبکہ ناکامی سے وہ تنہائی یا الگ تھلگ محسوس کر سکتے ہیں۔

7. پیداواریت بمقابلہ رکاؤٹ (بالغی)

پروسیس: بالغ لوگ اپنے خاندان، معاشرہ یا کام میں کردار ادا کرتے ہیں۔

اہمیت: مثبت حصہ ڈالنے سے فائدہ مند اور معنی خیز زندگی بنتی ہے، ناکامی سے وہ رکاؤٹ یا بے کار محسوس کرتے ہیں۔

8. اطمینان بمقابلہ پچھتاوا (بڑھاپا)

پروسیس: عمر بڑھنے پر انسان اپنی زندگی پر غور کرتا ہے۔

اہمیت: اطمینان محسوس کرنے والا شخص خوش اور مطمئن رہتا ہے، جبکہ پچھتاوا یا افسوس والا شخص مایوس اور اداس رہتا ہے۔

والدین کے لیے رہنمائی:
بچے کے ہر مرحلے کو سمجھیں اور حوصلہ افزائی کریں۔
چھوٹے کام کرنے کی اجازت دیں، تعریف کریں اور ناکامی پر تنقید کم کریں۔
محبت اور اعتماد دیں تاکہ بچے میں مضبوط اور محفوظ شخصیت پیدا ہو۔

اساتذہ کے لیے رہنمائی:
کلاس روم میں بچوں کی مہارتوں اور پہل کی تعریف کریں۔
ہر بچے کی نشوونما کی رفتار کے مطابق رہنمائی فراہم کریں۔
کامیابیوں کو سراہیں اور ناکامی پر سپورٹ دیں تاکہ بچے کمزور محسوس نہ کریں۔

خلاصہ:
ارکسن کی تھیوری والدین اور اساتذہ دونوں کے لیے ایک رہنمائی کا آلہ ہے۔ یہ بچوں اور نوجوانوں کی زندگی کے مختلف مراحل کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے اور انہیں مضبوط، خوداعتماد اور متوازن شخصیت بنانے میں رہنمائی کرتی ہے۔

تحریر شمائلہ یوسف

21/08/2025

کبھی آپ نے سوچا ہے کہ…
‎باہر سے سب ٹھیک لگ رہا ہو لیکن اندر سے انسان ٹوٹ رہا ہو؟
‎ہنستے کھیلتے لوگ بھی تنہائی میں آنکھوں سے آنسو بہاتے ہیں۔
‎یہی ہے ڈپریشن کی خاموش حقیقت۔
‎زیادہ تر لوگ اسے "موڈ خراب ہونا" سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں،
‎لیکن نفسیات کے مطابق یہ ایک
mental health disorder
ہے
‎جو زندگی، رشتے اور مستقبل سب کچھ بدل سکتا ہے۔

‎اس پوسٹ میں آپ کو ملے گا:
‎ ڈپریشن کی اصل علامات
‎ Mild, Moderate اور Severe میں فرق
‎ علاج اور حل
‎ اور وہ راستے جن سے آپ اس اندھیرے سے نکل سکتے ہیں
‎اس کو آخر تک ضرور پڑھیں — ہو سکتا ہے یہ تحریر
‎آپ کی نہیں تو کسی اپنے کی زندگی بدل دے۔

‎ڈپریشن کے بارے میں عام سوالات
‎ ڈپریشن کی علامات کیا ہیں؟

‎ڈپریشن صرف اداسی نہیں بلکہ ایک ذہنی کیفیت ہے جو سوچ، احساسات اور رویوں پر اثر ڈالتی ہے۔
‎عام علامات:

‎مسلسل اداسی یا خالی پن کا احساس۔
‎بھوک اور نیند کے معمولات میں تبدیلی۔
‎تھکن اور توانائی کی کمی۔
‎کسی بھی کام میں دلچسپی نہ رہنا۔
‎توجہ اور فیصلے کرنے میں مشکل۔
‎خود اعتمادی میں کمی۔
‎منفی یا مایوس کن خیالات۔

‎ Mild, Moderate اور Severe ڈپریشن میں کیا فرق ہے؟

‎Mild (ہلکا):
صرف موڈ خراب ہونا، دل کا نہ لگنا، ہلکی نیند یا بھوک کے مسائل۔

‎Moderate (درمیانی):
روزمرہ زندگی متاثر ہونا، کام اور رشتوں میں دلچسپی کم ہونا، مستقل اداسی۔

‎Severe (شدید):
شدید ناامیدی، اپنی دیکھ بھال چھوڑ دینا، زندگی بےمعنی لگنا، منفی اور خطرناک خیالات آنا۔

‎ ڈپریشن کا علاج اور حل کیا ہے؟

‎سائیکو تھراپی (Psychotherapy):
بات چیت کے ذریعے سوچ اور رویے کو بہتر بنانا۔

‎ادویات (Medication):
اگر ڈاکٹر ضرورت سمجھے تو اینٹی ڈپریسنٹ ادویات۔

‎لائف اسٹائل چینجز: ورزش، بہتر خوراک، سلیپ سائیکل درست کرنا، سوشل سپورٹ بڑھانا۔
‎مائنڈفلنیس اور ریلیکسشن: ذہن کو پرسکون رکھنے کی مشقیں۔


‎ ڈپریشن سے بغیر دوائی کے کیسے نکلا جا سکتا ہے؟
‎روزانہ کم از کم 20-30 منٹ واک یا ورزش۔
‎نیند کا باقاعدہ شیڈول بنانا۔
‎نیگیٹو تھنکنگ پر قابو پانے کے لیے پازیٹیو تھنکنگ پریکٹس کرنا۔

‎سوشل سپورٹ: اپنے جذبات قریبی لوگوں سے شیئر کرنا۔
‎ریلیکسیشن ٹیکنیکس: ڈیپ بریتھنگ، یوگا، یا میڈیٹیشن۔
‎(نوٹ: اگر ڈپریشن شدید ہو تو پروفیشنل مدد کے بغیر صرف لائف اسٹائل کافی نہیں ہوتا۔)

‎ خلاصہ
‎ڈپریشن ایک عام مگر سنجیدہ نفسیاتی مسئلہ ہے۔ اگر یہ ہلکی سطح پر ہے تو وقت پر دھیان دے کر بہتر بنایا جا سکتا ہے، لیکن اگر یہ درمیانی یا شدید سطح پر پہنچ جائے تو فوراً کسی ماہرِ نفسیات یا سائیکالوجسٹ سے مدد لینی چاہیے۔

‎تحریر شمائلہ یوسف

‎کبھی دل نے بوجھ ہلکا کرنے کو کہا اور آپ نے خود کو روک لیا؟‎‎شاید یہی وجہ ہے کہ آپ کے اندر کا درد بڑھ رہا ہے…‎رونا کمزور...
20/08/2025

‎کبھی دل نے بوجھ ہلکا کرنے کو کہا اور آپ نے خود کو روک لیا؟

‎شاید یہی وجہ ہے کہ آپ کے اندر کا درد بڑھ رہا ہے…
‎رونا کمزوری نہیں، سکون ہے۔
‎پڑھیے کہ رونے کے نفسیاتی فائدے اور نہ رونے کے
‎نقصانات کیا ہیں 👇

‎رونا بھی اچھا ہوتا ہے، رونا آپ کے اندر کے دکھ اور تکلیف کو کم کر دیتا ہے۔ آنسو نکلنے سے دل کو ہلکا پن اور ایک سکون (پیس) ملتا ہے۔
‎اگر آپ رونے کو روکیں گے تو زیادہ دباؤ اور پریشر بڑھے گا، جسم میں کورٹیسول (اسٹریس ہارمون) جمع ہوگا جو آہستہ آہستہ آپ کو اندر ہی اندر کھاتا جائے گا۔

‎اس لیے جب دل کرے چاہے اکیلے میں رو لیں، سجدے میں رونا، یا کسی کے کندھے پر سر رکھ کر رو لینا—لیکن جذبات کو دبائیں نہیں۔

‎---
‎رونے کے نفسیاتی فائدے

‎دل اور دماغ کا بوجھ ہلکا ہوتا ہے

‎اسٹریس اور پریشر کم ہوتا ہے

‎موڈ بہتر ہوتا ہے

‎نیند آسانی سے آتی ہے

‎دل کو سکون اور ریلیکس ملتا ہے

‎---
‎نہ رونے کے نقصانات

‎ذہنی دباؤ اور ٹینشن بڑھتی ہے

‎دل بھاری اور بے سکون رہتا ہے

‎اسٹریس ہارمون جسم کو نقصان پہنچاتا ہے

‎ڈپریشن اور اینگزائٹی کے امکانات بڑھتے ہیں

‎جسمانی صحت پر منفی اثر پڑتا ہے

‎تحریر۔شمائلہ یوسف


‎ #رونا #دلکاسکون #نفسیات #احساسات #دلکیبات #خودکوسمجھو

12/08/2025

میں جو آواز دوں۔۔ کوئی پلٹ کے دیکھے
ایسا ہجوم تو میں نے رکھا نہیں
تجھ کو ہی سمجھا تھا میں نے
سب سے قریب اپنے۔
افسوس کہ ۔۔۔تو نے بھی بھرم رکھا نہیں

تحریر شمائلہ یوسف

12/08/2025

قدر وہیں کرو، جہاں دل کی قدر ہو"

زندگی میں اپنے ایموشنز اور فیلنگز کو ایکسپریس کرنا بہت ضروری ہے۔ اگر آپ کو کوئی اچھا نہیں لگتا تو صاف اور احترام کے ساتھ بتائیں، اور اگر کوئی آپ کو پیارا لگتا ہے تو یہ بھی ضرور کہیں۔
لیکن اگر کوئی آپ کی قدر نہیں کرتا، آپ کی فیلنگز کی ویلیو نہیں سمجھتا، تو اسے جانے دیں۔ خاموشی سے۔

میرا سادہ سا نظریہ ہے: زندگی صرف دو لوگوں کے لیے ہے—آپ اور آپ کا آپ۔
زندگی اتنی قیمتی ہے کہ اسے دوسروں کو خوش کرنے یا ان کی خوشنودی حاصل کرنے میں برباد نہ کریں۔
"نہیں" کہنا سیکھیں۔ خود سے محبت کریں۔ اپنی عزت کریں۔
یہ Self Respect ایک بہت ضروری چیز ہے۔

جو رہنا چاہتا ہے، خوشی سے رہے۔
جو جانا چاہتا ہے، اسے جانے دیں۔
اس کے بعد نہ روئیں، نہ شکایت کریں، نہ خود کو کمزور محسوس کریں۔

خود کو اتنا مضبوط بنائیں کہ اگر کوئی آپ کے ساتھ نہ بھی ہو، تب بھی آپ پرسکون رہیں۔ کسی کے جانے کے بعد آپ کی زندگی رُک نہ جائے۔
ہم میں سے بہت سے لوگ یہ حقیقت سمجھ ہی نہیں پاتے کہ زندگی میں آخرکار کوئی نہ کوئی ہم سے جدا ہو گا۔ یہ زندگی کا ایک چکر ہے: لوگ آتے ہیں، وقت گزارتے ہیں، اور پھر چلے جاتے ہیں۔
چاہے وہ اپنی مرضی سے جائے یا حالات اُسے لے جائیں، جانا اُس کا نصیب ہے۔

ہم اکثر اس حقیقت کو ایکسیپٹ نہیں کرتے اور اپنے دل و دماغ کو اُن چیزوں کے لیے تھکا دیتے ہیں جو شاید کبھی ہماری تھیں ہی نہیں۔
یاد رکھیں:
جو رہنے کے لیے ہے، وہ رکے گا۔
جو جانے کے لیے ہے، وہ رُکے گا نہیں۔
اپنی زندگی اپنے لیے جئیں، اپنی قدر پہچانیں، اور خود کو بوجھ سے آزاد کریں۔

تحریر شمائلہ یوسف

07/08/2025

جب دل اداس ہو جائے، تو خود کو تھوڑا سا پیار دے دیں…"

ایک سادہ مگر مؤثر طریقہ، جو دل کو ٹھہراؤ دے، روح کو سکون دے — اور جسے سائنس بھی مانتی ہے۔

کبھی کبھی دل بس خاموش ہو جاتا ہے…
نہ کچھ بولنے کو دل چاہتا ہے، نہ کوئی سمجھنے والا ملتا ہے۔
ایسے لمحوں میں، میں کیا کرتی ہوں؟
بس… خود سے دوستی کر لیتی ہوں۔

---

اداسی کا وہ لمحہ، جب میں کچھ نہیں کرتی… صرف خاموش ہو جاتی ہوں

جب میں اداس ہوتی ہوں، تو خود پر زور نہیں ڈالتی۔
خاموش ہو جاتی ہوں۔
نہ سوچتی ہوں، نہ بولتی ہوں — بس خاموشی کو اپنا لیتی ہوں۔
کچھ دیر وہ خاموشی میرے ساتھ بیٹھتی ہے… جیسے کوئی پرانا دوست۔

پھر آہستہ آہستہ، میں اُٹھتی ہوں۔
اور اپنے لیے کوئی ایک مزیدار سی ڈش بناتی ہوں۔ وہی جو دل کو سکون دیتی ہے، جو اندر کچھ ہلکا کر دیتی ہے۔

پھر اسے مزے سے، آرام سے، خود کے ساتھ بیٹھ کر کھاتی ہوں۔
اور تب دل کہتا ہے:
"ہاں، تھوڑا سکون آ رہا ہے۔ تھوڑا ہلکا سا محسوس ہو رہا ہے۔"

---

یہ صرف احساس نہیں، سائنس بھی یہی کہتی ہے!

خاموشی – Mindfulness

جب ہم خاموش بیٹھتے ہیں، بغیر کسی سوچ یا فیصلے کے… تو دماغ کو سکون ملتا ہے۔ یہ
Mindfulness
ہے، جو ڈپریشن کم کرتی ہے۔

خود کو ہلانا – Behavioral Activation

اداسی میں اُٹھ کر صرف ایک چھوٹا سا کام کرنا — جیسے کچھ پکانا — ذہن کو دوبارہ زندگی کی طرف لے آتا ہے۔ یہ ڈپریشن تھراپی کا مؤثر ہتھیار ہے۔

اپنے لیے کچھ کرنا – Self-Compassion

جب ہم دوسروں کے بجائے خود کو اہمیت دیتے ہیں، تو دل کو تسلی ملتی ہے۔ یہ خود سے محبت کی شروعات ہوتی ہے۔

ذائقہ، خوشبو، لمس – Sensory Grounding

خوشبو، ذائقہ، گرمائش… یہ سب چیزیں ہمیں اپنے جسم سے جوڑتی ہیں، اور اندر کی ہلچل کو تھامتی ہیں۔

---
یہ کوئی بڑی تھراپی نہیں — بس ایک چھوٹا سا "دل کا Ritual"
ہے

جب دل اداس ہو، تو اس سے بھاگنے کے بجائے…
خاموشی سے اس کے پاس بیٹھ جائیے۔
پھر خود کو تھوڑا سا پیار دیجئے۔
اپنے ہاتھ سے کچھ مزیدار بنائیے…
اور وہ لمحہ جیتیے، بس خود کے ساتھ۔

اداسی چلی جائے گی…
اور پیچھے رہ جائے گا: ایک ہلکا دل، ایک مسکراتا وجود۔

آپ بھی آزما کر دیکھیں

اگر آپ آج اداس ہیں، تو یہ میرا طریقہ اپنا کر دیکھیں۔
خاموشی، تھوڑا سا کھانا، اور خود سے تھوڑی سی محبت —
یہ سب مل کر شاید آپ کو وہ دے جائیں جس کی آپ کو تلاش ہے…
سکون۔

تحریر شمائلہ یوسف

Address

Lahore

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Dil ki Baat Shumaila k sath posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on LinkedIn
Share on Pinterest Share on Reddit Share via Email
Share on WhatsApp Share on Instagram Share on Telegram