14/09/2025
کاش خوابوں کو بھی چھٹی کا دن ملے، جہاں کوئی نہ جگائے اور وہ پورے ہو جائیں
آج سنڈے ہے اور اذان کی چھٹی ہے۔ چھٹی والے دن وہ
ہمیشہ دیر تک سوتے ہیں کیونکہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ ماما نہیں جگائیں گی۔ میں صبح جلدی اٹھ گئی ہوں، کافی دیر انتظار کرتی ہوں لیکن اذان گہری نیند میں ہیں۔ آخرکار تقریباً 11 بجے میں جا کے کہتی ہوں،
"بیٹا اب اٹھ جاؤ۔"
وہ آنکھیں ملتے ہوئے اٹھتے ہیں اور ناراض لہجے میں کہتے ہیں،
"میں آپ سے ناراض ہوں… آپ نے میرا خواب خراب کر دیا۔"
میں ایک لمحے کو رُکتی ہوں، پھر مسکرا کے کہتی ہوں،
"سوری، مجھے تو نہیں پتہ تھا آپ خواب دیکھ رہے ہیں۔"
اور اسی وقت مجھے اپنا بچپن یاد آ جاتا ہے۔
ہم بھی تو ایسے ہی تھے۔ کوئی میٹھا خواب چل رہا ہوتا اور اچانک کوئی جگا دیتا، تو دل دکھتا ہے۔ ہم پھر آنکھیں زور سے بند کر لیتے کہ شاید وہ خواب دوبارہ شروع ہو جائے۔ لیکن اکثر ایسا نہیں ہوتا۔ تب دل چاہتا ہے کہ کاش کوئی ہمیں تھوڑا سا اور سونے دے دے۔
بچپن کے خواب کتنے معصوم اور خوبصورت ہوتے ہیں۔ کبھی کھیل، کبھی ہنسی، کبھی اڑان… سب کچھ ایسا لگتا ہے جیسے حقیقت ہو۔ شاید اسی لیے وہ آج بھی دل میں ایک چھوٹی سی خواہش چھوڑ جاتے ہیں کہ کاش ہم پھر ایک بار ان خوابوں میں جا سکیں۔
خواب چاہے چھوٹے ہوں یا بڑے، دل ہمیشہ چاہتا ہے وہ ادھورے نہ رہیں۔
: تحریر :شمائلہ یوسف