30/08/2025
“ہماری گڑیا رانی”
جب گڑیا 16 سال کی ہوئی تو امی نے کہا:
“ابھی بچی چھوٹی ہے، ابھی تو گڑیوں سے کھیلتی ہے، شادی کیا خاک کرے گی!”
17 کی ہوئی تو ابو نے کہا:
“پہلے ایف ایس سی کرلے، پھر دیکھیں گے، ابھی پڑھائی ضروری ہے۔”
18 پر پہنچی تو خالہ نے رشتہ کروایا، لیکن امی نے ناک سکوڑ لی:
“لڑکا بی کام ہے، ہماری گڑیا تو انجنئیرنگ کرے گی، کیسے بنے گا جوڑا؟”
20 کی ہوئی تو ایک رشتہ آیا، لڑکا خوبرو مگر نوکری نئی نئی ملی تھی۔ ابو بولے:
“نوکری کا کیا ہے، آج ہے کل نہیں، ہم بیٹی کو رسک میں نہیں ڈال سکتے۔”
21 کی ہوئی تو کزن نے پسند کا اظہار کیا، پر ذات کا مسئلہ نکل آیا۔
“ہم تو صدیوں سے زمیندار ہیں، یہ تو دکان دار ہیں!”
22 پر خالہ نے پھر کزن کی طرف اشارہ کیا، امی بولیں:
“ہونہہ! گندمی رنگ کا ہے، ہماری بیٹی تو چاند کی پری لگتی ہے!”
23 کی عمر میں گڑیا خود بھی راضی ہو گئی، مگر لڑکا کرائے کے گھر میں رہتا تھا،
امی نے کہا:
“ہماری بیٹی نے محل میں پلنا ہے، یہ تو ڈیڑھ مرلے کا خواب ہے!”
25 کی ہوئی تو ایک لڑکا آیا جو سب میں فِٹ تھا، مگر عمر میں چار سال بڑا تھا۔
ابو بولے:
“ہمیں ہم عمر چاہیے، ایسا نہ ہو کہ لوگ باپ بیٹی سمجھ بیٹھیں!”
28 پر ایک بیوہ کا رشتہ آیا، مالدار تھا، کاروبار چلتا تھا،
امی: “ہم رنڈوے کو کیوں دیں بیٹی؟ کہیں یہ پہلے والی کی طرح…”
30 پر گڑیا کے ماتھے کی لکیریں گہری ہو گئیں،
ابو پیر صاحب کے آستانے پر: “بابا جی دعا کریں، رشتے تو آتے ہیں مگر دل نہیں لگتا!”
35 کی ہوئی تو لوگ پوچھنے لگے:
“ابھی تک بیٹی کو رخصت نہیں کیا؟ کوئی مسئلہ ہے؟”
امی نے پردہ ڈالنے کو کہا: “خود ہی نہیں مانتی، ہر رشتہ ٹھکرا دیتی ہے!”
38 پر رشتہ آیا، ساٹھ سال کا چوہدری صاحب، چار بچے، تین پوتے، ایک چھوٹی والی بیوی بھی،
امی بولیں:
“چلو جی اللہ نے موقع دیا ہے، آخری رشتہ ہے، ویسے بھی بیٹی کو کون سا گھر چاہیے، بس آسرا ہو!”
40 پر گڑیا نے سب کو حیران کر دیا:
“میں نے شادی نہیں کرنی، اب میں گڑیا نہیں، میں خود کی ماں بن چکی ہوں!”
سبق:
اگر بیٹی کو کھلونا سمجھ کر شوکیس میں رکھو گے تو وقت گزرنے پر وہ خود ہی اپنی قیمت طے کرنا سیکھ جائے گی۔ رشتے آسمان سے نہیں اُترتے، اور قسمت کا دروازہ ہر وقت کھلا نہیں رہتا۔ بیٹی کو بوجھ نہ بنائیں، اُس کی زندگی سنوارنے میں اپنا فرض نبھائیں، ورنہ… انجام آپ نے پڑھ ہی لیا!