30/11/2025
*منقول*
ڈیوٹی ڈاکٹرز سے کہہ دیجیے ، مریضہ کی حالت دیکھ کر زیادہ شور نہ مچائیں!
ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
———————-
آپ لوگ غلط سیزیرین کرتے ہیں ، کمائی کے لیے ___ ایک ڈاکٹر دوست کا الزام ۔
نہیں ایسا نہیں ہے، سرکاری ہسپتالوں میں تو صرف ضرورت کے تحت کیا جاتا ہے لیکن پرائیویٹ ہسپتالوں کا مفاد اور سہولیات کی کمی ایک علیحدہ مسلہ ہے___ ہمارا جواب۔
یہ تو بہانے ہیں محض ….ہمارے دوست کی بیگم کا اپنا ہسپتال اور ان کی پورے علاقے میں شہرت ہی یہ ہے کہ وہ نارمل ڈلیوری کرواتی ہیں اور شازونادر ہی کسی کو سیزیرین کی ضرورت پڑتی ہے۔ لوگ دور دور سے ان کے ہسپتال میں آتے ہیں ۔
کتنی ڈلیوریاں کرواتیں ہیں وہ مہینے کی ؟ ہم نے پوچھا ۔
تقریباً چار سو سے پانچ سو ___
اور ان میں سیزیرین کی شرح ؟ ہمارا سوال ۔
تقریباً ایک فیصد ___ جواب۔
یعنی چار سو میں سے چار …. کیسے ممکن ہے یہ ؟ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق کم سے کم شرح بیس فیصد ہونی چاہئے وہ بھی پوری سہولیات اور ٹیم کے ساتھ …. اور اب تو زیادہ تر ممالک میں یہ تیس سے پینتیس فیصد ہے جن میں امریکہ بھی شامل ہے۔
ایک ڈاکٹر اکیلی اپنے ہسپتال میں ایک فیصد سیزیرین کے ساتھ کام کر رہی ہیں… کیا آپ کو یقین ہے کہ وہاں صحیح کام ہو رہا ہے ۔
سو فیصد ___
پھر یہ بتائیے کہ جن کیسسز میں آنول نیچے ہوتی ہے، بچہ الٹا یا ترچھا ہوتا ہے، بچے دانی کا منہ کھلنے میں بہت تاخیر ہوتی ہے، بچے کے دل کی دھڑکن خراب ہو جاتی ہے ، آنول پھٹ جاتی ہے یا بچے دانی …. وہ کیا کرتی ہیں ؟ اور اگر ان چار سو عورتوں میں ایسا کچھ نہیں ہوتا تو یہ ناقابل یقین ہے … میڈیکل جرنل میں رپورٹ ہونا چاہیے اسے …
یہ گفتگو ایک دوست ڈاکٹر کے ساتھ ہوئی جو ایک اور ڈاکٹر کی تعریف میں رطب اللسان تھے ۔ شدید حیرت اور ان گنت سوالوں نے ہمیں گھیر لیا تھا ۔
خیر قدرت کو کچھ اور منظور تھا ۔ ہمیں جواب ملنا ہی تھا ۔
کچھ مدت کے بعد ہم اس شہر جا پہنچے جہاں کے نواحی علاقے میں ان کا ہسپتال تھا۔ ہماری پوسٹنگ شہر کے ٹیچنگ ہسپتال میں تھی ۔ دوست ڈاکٹر کی وساطت سے تھوڑا بہت ملنا جلنا ہوا ، ہم انہیں ویسے بھی جانتے تھے کہ میڈیکل کالج میں ہماری سینئیر رہ چکی تھیں ۔
ہسپتال میں جب کچھ مہینے گزر گئے تو باتوں باتوں میں ساتھی ڈاکٹرز سے علم ہوا کہ نواحی علاقوں کے پرائیویٹ ہسپتالوں سے جو مریض ادھ موئی کیفیت میں ریفر ہو کر ہمارے ہسپتال پہنچتے ہیں ان میں ان ڈاکٹر کا ہسپتال سر فہرست تھا جن کی نارمل ڈلیوری کی شہرت اور مہارت کے چرچے ہم تک پہلے سے پہنچ چکے تھے ۔ ہائیں … ہمارا دل بند ہوتے ہوتے بچا ۔
خیر بعض اوقات ٹیچنگ ہسپتالوں میں کام کرنے والے رائی کا پہاڑ بھی بنا لیتے ہیں ، ہم نے اپنے آپ کو تسلی دی ۔
کچھ اور ماہ گزر گئے ۔
ایک شام ان لیڈی ڈاکٹر کے شوہر کا فون آیا کہ ہم ایک مریضہ ریفر کرنا چاہتے ہیں جو باوجود کوشش کے ڈلیور نہیں ہو رہی … پہلا بچہ ہے…
کر دیجیے… ایمرجنسی لینے سے تو کوئی بھی ہسپتال انکار نہیں کرتا ۔
ریفر تو ہم کر رہے ہیں لیکن …. وہ کہتے کہتے رک گئے۔
جی… جی … فرمائیے ؟
وہ آپ سے ایک فیور چاہئے تھی …
وہ کیا ؟
آپ ڈیوٹی پہ موجود ڈاکٹرز سے کہہ دیجیے کہ مریضہ کی حالت دیکھ کر زیادہ شور نہ مچائیں ۔ جونئیر ڈاکٹرز گھر والوں کو خوب سناتے ہیں کہ یہ کس حالت میں لے کر آئے ہو؟ پھر گھر والے ہم سے لڑنے آ جاتے ہیں۔
اوہ …. یقیننا مریضہ کی حالت زیادہ خراب ہے … ہم نے دل میں سوچا ۔
آپ مریض فورا بھیجیے ہم ہسپتال کال کرتے ہیں ابھی ..
ہسپتال کال کی اور اپنے ڈیوٹی ڈاکٹرز سے کہا کہ ایک مریضہ آ رہی ہے فلاں ہسپتال سے … لے کر فورا ہمیں بتانا، اور جو بھی کرنا ہو فورا کرنا…. اور دیکھو رشتے داروں کے سامنے زیادہ شور مت مچانا۔
آپ کو بتایا تھا نا ہم نے اس ہسپتال کے بارے میں …
ہاں ٹھیک ہے لیکن ابھی ایک عورت کی زندگی کا سوال ہے ۔
اپنے سٹاف سے بات کر کے ہم نے انہیں گرین سگنل دے دیا ۔
ہمارا خیال تھا کہ آدھے گھنٹے کے اندر ہماری ڈاکٹر فون پہ ہم سے رابطہ کریں گی ۔
ایک گھنٹہ … ڈیڑھ … دو گھنٹے … ڈھائی … آخر ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور ہم نے ڈیوٹی ڈاکٹر کو پھر سے فون کیا ___
آپ نے مریض کے متعلق ہمیں بتایا ہی نہیں , ہم انتظار میں بیٹھے ہیں تب سے …
جی بتا دیتے اگر مریض پہنچ جاتی …ڈاکٹر کا جواب ۔
کیا مطلب ؟ ہم نے حیرانی سے پوچھا ۔
جی مریضہ آئی ہی نہیں ، ہم تو انتظار میں بیٹھے ہیں ۔
ہمیں سن کر شدید حیرت اور پریشانی ہوئی کہ مریضہ کہاں گئی ؟ ان کے مطابق تو وہ مریضہ کو ایمبولینس میں لٹانے ہی والے تھے ۔
خیر اس اضطراب میں ہم نے انہیں فون کیا ۔ دو تین بار تو انہوں نے اٹھایا نہیں ، پھر ہم کہاں چپ رہنے والے تھے ۔ فون گھماتے رہے جب تک انہوں نے اٹھا نہیں لیا ۔
وہ آپ کی مریضہ پہنچی نہیں … سٹاف انتظار میں بیٹھا ہے ۔ ہم نے بے چینی سے پوچھا ۔
وہ … اصل میں … وہ … انہیں جواب دینا مشکل تھا ۔
کیا ہوا؟
وہ … وہ … راستے میں ہی ایکسپائر کر گئی … وہ انتہائی دھیمی آواز میں بولے ۔
کیا ؟ …. نہیں … کیوں ؟ … کیسے ؟
وہ بلیڈنگ ہوئی بہت زیادہ … تو بس راستے میں ہی چل بسی …
لیکن راستہ تو بیس پچیس منٹ سے زیادہ نہیں …
جی بس …
اس سے زیادہ کی ہمت ہم میں نہیں تھی ۔ ہم ساری رات سو نہ سکے ۔ وہ مریضہ جسے ہم نے دیکھا تک نہیں تھا اس کی چیخیں کانوں میں گونجتی رہیں ، جو پہلا بچہ ڈلیور کروانے گئی تھی ۔
ہمیں نارمل ڈلیوری کے متعلق وہ ساری بحث یاد آ گئی جس کے مطابق وہ ڈاکٹر سب کو نارمل ڈلیور کرواتی ہیں ۔ لیکن یہ کوئی نہیں جانتا کہ ان میں سے کتنی عورتیں موت کو گلے لگا لیتی ہیں ۔
اس میں قصور ان لوگوں کا بھی ہے جو نارمل ڈلیوری کو حرف آخر سمجھتے ہوئے سیزیرین کو پیسے کمانے کا ذریعہ سمجھتے ہیں ۔
چلیے مان لیا …. ہے یہ ایک پیسے کمانے کا ذریعہ … لیکن جہاں ضرورت ہو اور جہاں ماں بچے کی سیفٹی کا کچھ بھی انتظام نہ ہو ، وہاں ایسا خطرہ مول کیوں لیا جائے ؟
اگر کچھ پیسوں کے عوض آپ کی بیٹی ، بہو ، بہن یا بیٹی بچے سمیت گھر زندہ سلامت آ جائے تو کیا برا سودا ہے یہ ؟