30/12/2024
کزنز کے درمیان ہونے والی شادیاں ان کی اولاد کے لیے کئی پیدائشی مسائل اور معذوری کا باعث بن سکتی ہیں۔ بہت سے لوگ اس کا انکار کرتے ہیں اور غیر منطقی دلائل دیتے ہیں۔
اس بات کو آسان الفاظ میں ایسے سمجھیے کہ اگر کسی شخص کی جینیات میں کوئی چھوٹی سی خرابی موجود ہے تو وہ خرابی اس کے لیے کوئی مسئلہ پیدا نہیں کرے گی لیکن وہ خرابی اس سے اولاد کو ضرور منتقل ہو جائے گی۔ ہم اس شخص کا فرضی نام منیب رکھ لیتے ہیں اور اس کی اولاد کے نام عابد اور ساجد رکھ لیتے ہیں۔
اب منیب کی جینیاتی خرابی عابد اور ساجد میں منتقل ہو جائے گی لیکن وہ خرابی معمولی ہونے کی وجہ سے ان کے لیے کوئی مسئلہ نہیں بنائے گی لیکن جب عابد اور ساجد کے بچے آپس میں کزن میرج کریں گے تو ان دونوں کو اپنے والدین کی طرف سے وہ جینیاتی خرابی ملے گی۔ اب وہ معمولی جینیاتی خرابی جب دونوں والدین کی طرف سے آئے گی تو مل کر بڑی جینیاتی خرابی کا باعث بن سکتی ہے۔
البتہ اگر وہ بچے خاندان سے باہر شادی کریں گے تو دوسرے خاندان کے فرد میں اس جینیاتی خرابی کے ہونے کے امکانات بہت ہی کم ہوں گے۔
اس طرح بچوں کو والدین میں سے صرف ایک طرف سے متعلقہ خراب جین ملے گی اور دوسری طرف سے تندرست جین۔ اور ان بچوں میں کوئی جسمانی نقص یا معذوری آنے کے امکان نہ ہونے کے برابر ہوں گے۔
دوسری طرف اگر ان بچوں کو دونوں والدین سے ہی متعلقہ خراب جین ملے گی تو یہ امکان بڑھ جائیں گے کہ بچوں میں سے کسی میں معذوری یا جسمانی نقص پیدا ہو۔
اس لیے کرنا یہ چاہیے کہ کزن میرج نہ کریں۔ دوسرے خاندانوں میں رشتے کریں تاکہ اگلی نسل میں جینیاتی خرابی آنے کے امکانات کم سے کم ہوں۔ البتہ اگر کزن میرج کرنا بہت ضروری ہو اور اس کے بغیر کوئی چارہ نہ رہے تو شادی سے پہلے دونوں کزنز کے کچھ ٹیسٹ ضرور کروا لینے چاہئیں۔
ان میں سے اکثر جینیاتی یا کروموسومل ٹیسٹ تو بہت مہنگے یا عام عوام کی رسائی میں نہیں ہوتے البتہ ایک اہم ٹیسٹ تھیلیسیمیا کا ٹیسٹ ہے ، جو کروا لینا چاہیے۔ اس کے علاوہ خاندان میں اگر کوئی بیماری چل رہی ہو خون کی، دل کی ، جگر کی تو اس سے متعلقہ ٹیسٹ بھی ضروری ہیں۔
یاد رہے کہ ضروری نہیں کہ ہر کزن میرج میں بچے معذوری کا شکار ہوں لیکن کزن میرج کی وجہ سے بچوں کا معذوری کے ساتھ پیدا ہونے کا امکان کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ اس لیے اپنی اگلی نسل کو عمر بھر کا روگ، عمر بھر کی تکلیف دینے کے امکان کم سے کم رکھتے ہوئے کزن میرج سے تب تک اجتناب ہی کرنا چاہیے