11/01/2023
اینستھیٹیسٹ کی ڈائری سے۔۔
بے ہوشی کی ادویات اور مسل ریلیکسنٹ دینے کے ساتھ ہی مریض کےحواس اور اعصاب نیند کی آغوش میں جانا شروع ہو جاتے ہیں اور جسم کے سارے پٹھے یہاں تک کہ سانس لینے والے پٹھے بھی ڈھیلے پڑنا شروع ہو جاتے ہیں۔ مریض اپنی سانسیں اینستھیٹیسٹ کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیتا ہے۔ اس وقت کے دوران مریض کو وینٹیلیٹ کرنا پڑتا ہے اور اگر ائیروے مشکل ہو تو آکسیجن کی مقدار گرنے لگتی ہے۔ اور بہر صورت اسکی سانس کی نال میں ٹیوب ڈال کر آکسیجن مہیا کرنا ہوتی ہے کیونکہ تھوڑی سی دیر تک اگر آکسیجن دماغ کے خلیوں کو مہیا نہ ہو تو وہ مرنا شروع کر دیتے ہیں ۔ اس دوران دل کی دھڑکن کی روانی اور اتنا بلڈ پریشر کہ خون کی گردش دماغ اور دیگر اعضاء تک ہوتی رہے کا یقینی بنانا انتہائ اہم ہوتا ہے ۔ جس کیلئے جان بچانے والی ادویات ایڈرینالین ،ایٹراپین ، فنائل افرین اور ایسی ہی دیگر ادویات کا سہارا لیا جاتا ہے ۔ یوں مریض کو ایک متوازن سٹیٹ میں مصنوعی سانس والی مشین یعنی وینٹیلیٹر پر ڈال دیا جاتا ہے۔ مریض آئسوفلورین اور سیوو فلورین کے نشے میں نیند کی گہری وادیوں میں جا پہنچتا ہے ۔اسکے بعد سرجن جب مریض کے جسم کو کاٹتا ہے اور اسکے بیمار عضو کے حصوں کو چیر کر ڈائسیکشن کرتا ہے تو اس درد کی شدت کو جو مریض بتا نہیں پاتا ,ادویات کی مدد سے کنٹرول کیا جاتا ہے ۔
مانیٹر کا الارم مریض کے دل کی ترتیب اور سانسوں کی روانی سے اینستھیٹیسٹ کو ہمہ تن گوش رکھتا ہے ۔ اگر مریض پہلے سے شوگر ،بلڈ پریشر ،دمہ ،ہارٹ فیلیر ، مرگی تھائرائیڈ،جگر اور گردوں کی بیماری میں مبتلا ہے تو ان کو بھی ساتھ ساتھ مینج کرنا اینستھیٹیسٹ کا بڑا چیلنج ہوتا ہے۔ بہت کم وقت میں بہت ساری چیزیں سوچنا ہوتی ہیں جس میں ذرا سی تاخیر کا نتیجہ مریض کو مکمل نیند سلا سکتا ہے۔
پھر سرجن ٹانکے لگا کر جب سرجری مکمل کرتا ہے تو مریض کو آہستہ آہستہ واپس واپس ہوش میں لایا جاتا ہے۔ یہ سب مریض کیلئے ایک حسین خواب سا ہوتا ہے اور اینستھیٹیسٹ کیلئے اعصاب کی کڑی جنگ۔ آپریشن تھیٹر سے نکلتے ہی مریض ادویات کے زیر اثر یہ سب بھول جاتا ہے کہ اسکی زندگی کے سب سے نازک لمحات میں اسکا انجان ساتھی کون تھا جسے اللّٰہ نے وسیلہ بنا کر اسکی سانسوں اور دھڑکنوں کا امین کر دیا تھا ۔۔۔۔