03/11/2025
سب سے پہلے سب سے اہم سوال آپ اسکی وجہ سے کیوں تنقید کی زد میں آتے ہیں ؟
بالکل اسی وجہ سے جس وجہ سے علی امین گنڈاپور پر کورکمانڈر پشاور کے ساتھ بیٹھنے سے تنقید ہوتی تھی۔ محسن نقوی کو مسکرا مسکرا جپھیاں ڈالنے پر تنقید ہوتی تھی۔ اب عوام ہر اس شخص کو شک کی نگاہ سے دیکھنا شروع کردیتے ہیں جو فوج کے لیے نرم گوشہ رکھتا ہے اور اسے بھی نہیں چھوڑتے جو نرم گوشہ رکھنے والوں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا نظر آتا ہے۔
یہی مینا خان آفریدی ، یہی شفیع جان ، یہی سہیل آفریدی گنڈاپور حکومت میں تنقید کی زد میں ہوتے تھے کہ یہ لوگ اس شخص کیساتھ دکھائی دیتے ہیں جو فوج کیساتھ دکھائی دیتا ہے۔ اب کچھ دن نہیں گزرے کہ یہی لوگ عوام کے ہیرو ہیں۔ بالکل ویسے ہی جب عوام آپ کو ایک ایسے شخص کیساتھ کھڑا دیکھتے ہیں جو انہیں فوج کیساتھ کھڑا دکھائی دیتا ہے تو وہ لوگ آپکی طرف سے بھی مشکوک ہوجاتے ہیں۔
اب آگے چلتے ہیں ۔۔۔۔
اگر صرف سکول کے دوستوں کی بات کروں تو ایک کلاس فیلو ایک مشہور زمانہ کرپٹ افسر ہے۔ ایک قتل میں عمر قید ہے۔ میرے بچپن کا سب سے اچھا دوست اور اسکے تین بچے ایک مغربی ملک میں ڈرگ ڈیلر ہیں ۔ نہیں نہیں میرا اٹھنا بیٹھنا شرفاء کیساتھ ہی تھا۔ بات کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بچپن کا دوست ہے۔ کوئی آپ کا احساس کرتا ہے۔ کوئی آپ سے زیادہ اٹیچڈ ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ کسی قومی و ملکی تحریک میں یا پھر کسی کاز میں اسکی ہر خطا معاف ہے۔
لوگوں کی اپنی اپنی رائے میرے خیال میں اگر کوئی شخص جیل سے اس لیے رہا ہوجاتا ہے کہ اسے ایک مخصعص وکیل کرنا ہے یا کوئی شخص اس لیے ضمانت حاصل کرلیتا ہے کہ اس کا وکیل فلاں آدمی ہے تو اسے یہ چانس ضرور لینا چاہیے۔ خواتین ، سیاسی کارکن ، صحافی کوئی جنگجو نہیں ہیں۔ یہ نسیم حجازی کے ناولوں کے ہیرو بھی نہیں کہ جسم کا ریشہ ریشہ ادھڑ جائے اور حق پر ڈٹے رہیں۔ جہاں گنجائش نکلتی ہے وہاں گنجائش نکالنی چاہیے۔
اگر یہ شخص صرف وکالت سے اٹیچڈ ہوتا یا رہتا یا پھر اپنی فیس کے لیے یا پھر مان لیتے ہیں کہ جذبہ انسانیت کے تحت ہی دو طرفہ معاملات طے کرواتا رہتا تو میری رائے میں اس میں کوئی ہرج نہیں تھا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ موصوف اب ایک ڈیل بریکر وکیل نہیں ہے۔ اب یہ ایک اوپینین رکھنے اور اوپینین دینے والا آدمی ہے۔ جنگ کے ایام میں ہمیں پتہ چلا کہ یہ بندہ تو نہایت زیرک دفاعی و عسکری تجزیہ کار بھی ہے۔
پھر ہمیں پتہ چلا کہ یہ نیویگیشن کا بھی بندہ ہے۔ کس ملک کا کونسا بحری بیڑہ پاکستان کی مدد کو کب روانہ ہوا یہ اس کے علم میں تھا۔ پھر ہمیں پتہ چلا کہ اس آدمی کو انتہائی حساس نوعیت کے دفاعی فیصلوں تک بھی رسائی ہے۔ اسے پتہ ہوتا ہے کہ پاکستان بھارت پر کس وقت کونسا میزائل پھینکے گا۔ اس کا رخ کدھر ہوگا۔ آج رات کیا ہوگا اور کل رات کیا ہوگا سب خبر تھی۔
اندازہ یہ ہوا کہ موصوف بھی اسی نیٹ ورک کا حصہ ہیں جس کی کسی اور برانچ کا نام شاید آرمی آگاہی نیٹ ورک ہے اور مدر آرگنائزیشن کا نام ڈی جی آئی ایس پی آر۔ مقاصد وہی۔ فوج کی ناکامیوں پر پردے ڈالنا۔ ان کی جھوٹی کامیابیوں کی تشہیر کرنا۔ عوام کو الجھا کر رکھنا اور وہ لالی پاپ وقتا فوقتا عوام کو چٹواتے رہنا جو عسکری فیکٹری میں تیار ہوتے ہیں۔ جیسے کہ برف پگھل رہی ہے۔ ٹھنڈی ہوا چلنے والی ہے۔ سیز فائز ہونے والا ہے اور وغیرہ وغیرہ۔ تاکہ فوج کے خلاف عوامی نفرت کسی حد سے آگے نہ بڑھے۔
اسی طرح اس آدمی نے جو خود کو ایک بہت بڑا وکیل پروجیکٹ کرتا ہے جو فوج کی حمایت میں دو دو سو گز لمبےجھوٹ چھاپ رہا تھا اس نےفوجی عدالتوں کو جائز قرار دینے کے فیصلے پر صرف ڈیڑھ سطر لکھی۔ اسکے بعد کسی قسم کی گنجائش نہ بچی تھی کہ یہ اللہ کا بندہ کن کا بندہ بن چکا ہے۔
نوٹ: تحریر چوری شدہ ہے اس میں کچھ تبدیلیاں اپنے خیالات کے ساتھ اپڈیٹ کر کے پوسٹ کر دی ہیں