Homeopathic Treatment For All Critical Diseases.

Homeopathic Treatment For All Critical Diseases. Homeopathy treatment safe and permanent. No steroids no side effects. Free consultation also facilit

05/01/2022
ھر وقت قبض کی شکایت رہے تو اس کا کیا مطلب ہو تا ہے اور یہ کس سنگین خرابی کا باعث بن سکتا ہے ؟قبض اور امراض مہدہ کا شافی ...
07/10/2018

ھر وقت قبض کی شکایت رہے تو اس کا کیا مطلب ہو تا ہے اور یہ کس سنگین خرابی کا باعث بن سکتا ہے ؟
قبض اور امراض مہدہ کا شافی ھومیوپیتھک علاج. ڈاکٹر سید انجم رضا. کوالیفائیڈ ھومیوپیتھک فیذشن. مکمل کیس ٹیکنگ کے بعد میڈسن گھر بھجنے کی سہولت. السید ہومیوپیتھک کلینک جی ٹی روڈ مری. 03145386092.
قبض ایک عام پایا جانے والا مسئلہ ہے، جو کئی اور مسائل کو بھی جنم دیتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ یہ بیماری اس بات کا اشارہ بھی ہے کہ آپ کے جسم میں کوئی اور سنگین خرابی ہے، اور قبض تو محض اس خرابی کا اشارہ دینے والی ایک اہم وارننگ ہو سکتی ہے۔ویب سائٹ Healthista کی ایک رپورٹ میں ماہرین غذائیات نے بتایا
ہے کہ بہت سے لوگوں کو کھانا کھانے کے بعد پیٹ پھولا ہوا محسوس ہوتا ہے، جسے کچھ لوگ گیس کا نام بھی دیتے ہیں، اور اسے طب یونانی میں اپھارہ بھی کہا جاتا ہے۔ قبض کے ساتھ یہ کیفیات عموماً محسوس ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ تقریباً 70 فیصد لوگوں کو کبھی نہ کبھی ان مسائل کا سامنا کرناپڑجاتا ہے۔یہ کیفیت دراصل اس بات کا اشارہ ہوتا ہے کہ آپ خوراک کو بہتر طو رپر ہضم نہیں کرپارہے، یا جس قسم کی خوراک آپ کھارہے ہیں آپ کا جسم اسے پوری طرح قبول نہیں کر رہا، یا پھر اس خوراک سے آپ کو الرجی ہے۔اس کے علاوہ اگر آپ ہارمون کی گڑبڑ کا سامنا کررہے ہیں، میٹھے کا بہت زیادہ استعمال کررہے ہیں، ذہنی دباؤ کا شکار ہیں تو بھی آپ کو قبض ہو سکتی ہے اور پیٹ پھولا ہوا یا اس میں گیس بھری محسوس ہوسکتی ہے۔ اگر آپ کھانا ضرورت سے زیادہ کھاتے ہیں تو دیگر کوئی مسئلہ نہ ہونے کے باوجود بھی یقینا آپ کو اپنا پیٹ سخت اورپھولا ہوا محسوس ہوگا۔ بہرحال، قبض اکثر رہتی ہے تو یہ معاملہ ہرگز نظر انداز کرنے والا نہیں۔ بغیر وقت ضائع کئے آپ کو ڈاکٹر سے رابطہ کرنا چاہیے تا کہ اصل مسئلے کا سراغ لگا کر اسے حل کیا جا سکے، اس کے
نتیجے میں قبض خود ہی ختم ہو جائے گی۔

پارکنسن : بڑھاپے کا مرض.DrSyed Anjum raza Qualified Homeopathic Physician. Specialist in Critical diseases. For consulta...
02/10/2018

پارکنسن : بڑھاپے کا مرض.
DrSyed Anjum raza Qualified Homeopathic Physician. Specialist in Critical diseases. For consultation WhatsApp or text message. 03145386092.
پارکنسن دماغ کے اعصابی خلیوں کو متاثر کرتی ہے۔ اس کی وجہ سے ایک اعصابی کیمیکل ڈوپامائین کی کمی ہوتی ہے۔ یہ بیماری مختلف مراحل سے گزر کر شدت اختیار کرتی ہے۔بیماری کے ابتدائی دور میں سب سے نمایاں ہونے والی خرابیوں میں ہاتھوں کا بلاوجہ تھرتھرانا، سختی آنا، چال کا سست اور نا ہموار ہوجانا اور گفتار میں تبدیلی ہے۔ بیماری کے ابتدائی دور میں علامات کے ذریعے اس کی نشان دہی کرنا دشوار ہوتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ چلتے ہوئے بازو اس طرح حرکت نہ کریں جس طرح انہیں کرنی چاہیے یا بولتے ہوئے آواز سست ہو جائے یا الفاظ آپس میں گڈ مڈ ہونے لگیں۔ جوں جوں بیماری بڑھتی جاتی ہے، علامات کی شدت میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ بیماری کے اثرات انسانی شعور یا عقل پر ظاہر ہونے لگتے ہیں۔ یہ بیماری ادھیڑ عمر افراد میں زیادہ عام ہے۔ علاج سے اس کی علامات کم ہو جاتی ہیں لیکن تاحال اس کا علاج دریافت نہیں ہو سکا ۔ دوران علاج سرجری کی بھی ضرورت پیش آ سکتی ہے جس سے علامات میں کمی واقع ہوتی ہے۔ پارکنسن کی وجوہ کے بارے میں یقینی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے اور فی الحال یہ ایک معمہ ہیں۔ اسی وجہ سے اس سے بچاؤ کے بارے میں بھی یقینی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ چند تحقیقات کے مطابق تنفس کی ورزشیں بیماری کے امکان کو کم کرتی ہیں۔ چند تحقیقات کے مطابق جو افراد چائے اور کافی جیسے کیفین والے مشروبات استعمال کرتے ہیں ان میں پارکنسن کی بیماری کم ہوتی ہے۔ یہی خیال سبز چائے کے بارے میں بھی ہے۔ ان تحقیقات کو بہت سے ماہرین حتمی نہیں مانتے۔ تاہم بعض شواہد کی بنیاد پر یہ قوی رائے قائم کی گئی ہے کہ پارکنسن کی وجہ جینز اور ماحول دونوں ہو سکتے ہیں۔ محققین کو معلوم ہو اہے کہ ایک خاص جینیاتی میوٹیشن سے پارکنسن کا مرض ہو سکتا ہے۔ لیکن عموماً صرف جینز میں ہونے والی تبدیلیوں سے اس مرض کے ہونے کا امکان کم ہوتا ہے۔ جینز کی وجہ سے اس مرض کے لاحق ہونے کا امکان بعض خاندانوں میں زیادہ ہوتا ہے۔ ماحولیاتی عناصر اس بیماری کی دوسری اہم وجہ ہیں۔ بعض اقسام کے زہریلے مادے (ٹاکسنز) اس کے بیماری کے امکان کوبڑھا دیتے ہیں۔ یہ مرض جوانی میں خال خال ہی لاحق ہوتا ہے۔ یہ عموماً 60 برس یا اس سے زائد عمر میں ہوتا ہے۔ عورتوں کی نسبت مردوں میں اس کے ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ اس سے مندرجہ ذیل مسائل پیدا ہوتے ہیں: سوچنے اور ادراک میں دشواری ہوتی ہے۔ یہ مسئلہ بیماری کے بڑھنے کے وقت پیدا ہوتا ہے۔ ادویات سے اس مسئلے کو زیادہ تر حل نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے علاوہ یاسیت یا ڈپریشن شروع ہو جاتا ہے۔ اگر یاسیت کا مناسب علاج کیا جائے تو بیماری سے نپٹنا نسبتاً آسان ہو جاتا ہے۔ اس سے جذباتی تبدیلیاں بھی وقوع پذیر ہوتی ہیں، مثال کے طور پر خوف یا تشویش پیدا ہو سکتی ہے یا جذبہ کم پڑ سکتا ہے۔ اس علامات کی صورت میں ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔ مرض کی صورت میں نگلنے میں دشواری کا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے۔ زیادہ آہستہ نگلنے سے منہ میں تھوک زیادہ مقدار میں جمع ہو سکتی ہے۔ آخری مرحلے میں بیماری کی وجہ سے کھانا چبانے اور کھانے میں دشواری ہو سکتی ہے۔ اس کا نتیجہ کم غذا لینے اور جسمانی کمزوری کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ پارکنسن کے شکار افراد کو عام طور پر سونے میں دشواری ہوتی ہے۔ وہ رات کو بار بار اٹھتے ہیں۔ وہ صبح جلدی جاگ جاتے ہیں ، اور انہیں دن کے کسی وقت نیند بھی آ سکتی ہے۔ بیماری سے مثانہ بھی متاثر ہوتا ہے۔ اس سے پیشاب پر کنٹرول کم ہو جاتا ہے۔ نظام انہضام کے کمزور ہونے سے بہت سے مریض قبض کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بعض اوقات کھڑے ہونے سے اچانک فشار خون یا بلڈ پریشر کم ہو جاتا ہے جس سے چکر آنے کا احساس ہوتا ہے۔ پارکنسن سے جسمانی توانائی میں کمی اور تھکاوٹ کا احساس ہوتا ہے۔ کچھ افراد کو پورے جسم یا جسم کے کچھ حصوں میں درد محسوس ہوتا ہے۔ اس مرض کا نام ایک برطانوی ڈاکٹر جیمز پارکنسن کے نام پر رکھا گیا ہے جس نے 1817ء میں اس کی پہلی تفصیل اپنے ایک مضمون میں بیان کی۔

ﮐﯿﺎ ﮐﺰﻥ ﻣﯿﺮﺝ ﻣﺴﺘﻘﺒﻞ ﮐﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺧﻄﺮﻧﺎﮎ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ؟ڈاکٹر سید انجم رضا. کوالیفائیڈ ھومیوپیتھک فیذشن. 03145386092. آن لائن ...
28/09/2018

ﮐﯿﺎ ﮐﺰﻥ ﻣﯿﺮﺝ ﻣﺴﺘﻘﺒﻞ ﮐﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺧﻄﺮﻧﺎﮎ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ؟
ڈاکٹر سید انجم رضا. کوالیفائیڈ ھومیوپیتھک فیذشن. 03145386092. آن لائن مشورہ کے لیے وٹس اپ نمبر. 03145386092.
ﮐﯿﺎ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﺩﯾﺎﮞ ﯾﺎ ﯾﻮﮞ ﮐﮩﮧ ﻟﯿﮟ ﮐﺰﻥ ﻣﯿﺮﺝ ﺳﮯ ﺑﭽﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺪﺍﺋﺶ ﻧﻘﺺ ﮐﺎ ﺧﻄﺮﮦ ﺑﮍﮬﺘﺎ ﮨﮯ ؟ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺍﺗﻨﺎ ﺁﺳﺎﻥ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﺍﯾﺴﺎ ﺑﻨﯿﺎﺩﯼ ﺟﯿﻨﯿﺎﺗﯽ ﺍﺻﻮﻟﻮﮞ ﺳﮯ ﻭﺍﻗﻔﯿﺖ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﮯ۔
ﯾﮧ ﺑﺘﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﺩﯾﻮﮞ ﮐﺎ ﺭﻭﺍﺝ ﮐﺎﻓﯽ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﮐﺜﺮ ﺍﻓﺮﺍﺩ ﮐﮯ ﺁﺑﺎﺅ ﺍﺟﺪﺍﺩ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﺟﯿﻨﯿﺎﺗﯽ ﺍﻋﺘﺒﺎﺭ ﺳﮯ ﺑﺎﺕ ﮐﯽ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺍﮔﺮ ﺁﺑﺎﺅ ﺍﺟﺪﺍﺯ ﺁﭖ ﮐﮯ ﮈﯼ ﺍﯾﻦ ﺍﮮ ﮐﺎ 0.20 ﻓﯿﺼﺪ ﺣﺼﮧ ﺷﯿﺌﺮ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ، ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻣﻘﺎﺑﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﺮﮈ ﮐﺰﻥ ﺳﮯ ﮈﯼ ﺍﯾﻦ ﺍﮮ ﺷﯿﺌﺮ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺷﺮﺡ 0.78 ﻓﯿﺼﺪ، ﺳﯿﮑﻨﮉ ﮐﺰﻥ ﻣﯿﮟ 3.12 ﻓﯿﺼﺪ ﺍﻭﺭ ﻓﺮﺳﭧ ﮐﺰﻥ 12.5 ﻓﯿﺼﺪ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ۔
ﻣﺰﯾﺪ ﭘﮍﮬﯿﮟ : ﺟﮕﺮ ﮔﻮﺷﻮﮞ ﮐﻮ ﺗﮭﯿﻠﯿﺴﯿﻤﯿﺎ ﺳﮯ ﻣﺤﻔﻮﻅ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﻋﻼﻥ ﺟﻨﮓ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ
ﺍﻭﺭ ﺟﺘﻨﺎ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺳﮯ ﮈﯼ ﺍﯾﻦ ﺍﮮ ﺷﯿﺌﺮ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ، ﺍﺗﻨﮯ ﮨﯽ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺟﯿﻨﯿﺎﺗﯽ ﺍﻣﺮﺍﺽ ﺟﯿﺴﮯ ﺗﮭﯿﻠﯿﺴﻤﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﮕﺮ ﺍﻭﻻﺩ ﻣﯿﮟ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺁﻧﮯ ﮐﺎ ﺍﻣﮑﺎﻥ ﺑﮍﮬﮯ ﮔﺎ۔
ﺗﺎﮨﻢ ﺍﺱ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﻣﺰﯾﺪ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﯾﮏ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﺟﺎﻥ ﻟﯿﻨﺎ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﻭﻻﺩ ﻣﯿﮟ ﺟﯿﻨﯿﺎﺗﯽ ﻣﺮﺽ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﻣﻨﺘﻘﻞ ﮨﻮﮔﺎ، ﺟﺐ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺟﯿﻨﺰ ﻣﯿﮟ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﮨﻮﮔﺎ۔
ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ : ﺧﻮﻥ ﮐﮯ ﻣﻮﺭﻭﺛﯽ ﺍﻣﺮﺍﺽ ﮐﺎ ﻋﻼﺝ ﺍﺏ ﮨﻮﮔﺎ ﻣﻤﮑﻦ؟
ﺟﯿﺴﮯ cystic fibrosis ﻧﺎﻣﯽ ﻣﺮﺽ ﮨﮯ ﺟﻮ ﮐﮧ ﺳﯽ ﺍﯾﻒ ﭨﯽ ﺁﺭ ﺟﯿﻦ ﻣﯿﮟ ﻧﻘﺺ ﮐﮯ ﺑﺎﻋﺚ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ، ﻣﮕﺮ ﺍﺱ ﻣﺮﺽ ﮐﺎ ﺷﮑﺎﺭ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﻧﺎﻗﺺ ﺟﯿﻦ ﮐﯽ 2 ﮐﺎﭘﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮨﻮﮔﯽ، ﺍﮔﺮ ﺻﺮﻑ ﺍﯾﮏ ﻣﯿﮟ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺁﭖ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﻣﺮﺽ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ۔
ﻣﮕﺮ ﯾﮧ ﻧﻘﺺ ﺁﭖ ﺁﮔﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﻣﯿﮟ ﺿﺮﻭﺭ ﻣﻨﺘﻘﻞ ﮐﺮﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﺻﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺟﯿﻦ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﻧﻘﺺ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﺷﺮﯾﮏ ﺣﯿﺎﺕ ﮐﮯ ﺟﯿﻦ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ، ﺍﮔﺮ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﯾﮏ ﭨﮭﯿﮏ ﮨﻮﮔﺎ، ﺗﻮ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﺎ ﺧﻄﺮﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﮔﺎ۔
ﺗﺎﮨﻢ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﮐﮯ ﺟﯿﻨﺰ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﮨﻮ ﺗﻮ ﺑﭽﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﻤﺎﺭﯼ ﮐﺎ ﺧﻄﺮﮦ ﺍﻭﺭ 2 ﻧﺎﻗﺺ ﺟﯿﻨﺰ ﻣﻮﺭﻭﺛﯽ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﻣﻨﺘﻘﻞ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﺎ ﺧﻄﺮﮦ 25 ﻓﯿﺼﺪ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔
ﺗﻮ ﺍﺏ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﮐﺰﻥ ﻣﯿﺮﺝ ﺧﺼﻮﺻﺎً ﻓﺮﺳﭧ ﮐﺰﻥ ‏( ﭼﭽﺎ ﺍﻭﺭ ﺗﺎﯾﺎ ﮐﯽ ﺍﻭﻻﺩ ‏) ﻣﯿﮟ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﺘﻨﯽ ﺧﻄﺮﻧﺎﮎ ﮨﻮﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ، ﺟﺲ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﯾﮧ ﺗﺨﻤﯿﻨﮧ ﻟﮕﺎﻧﺎ ﮨﻮﮔﺎ ﮐﮧ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﺰﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺟﯿﻨﯿﺎﺗﯽ ﻣﺮﺽ ﮐﯽ ﮐﺎﭘﯽ ﮐﺎ ﺍﻣﮑﺎﻥ ﮐﺘﻨﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔
ﺍﺱ ﮐﺎ ﺣﺴﺎﺏ ﮐﺘﺎﺏ ﺗﻮ ﮐﺎﻓﯽ ﭘﯿﭽﯿﺪﮦ ﮨﮯ ﻣﮕﺮ ﺳﺎﺋﻨﺴﺪﺍﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﮐﺰﻥ ﻣﯿﺮﺝ ﺳﮯ ﺑﭽﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﻣﻮﺭﻭﺛﯽ ﻣﺮﺽ ﮐﺎ ﺧﻄﺮﮦ 4 ﺳﮯ 7 ﻓﯿﺼﺪ ﺗﮏ ﺑﮍﮬﺘﺎ ﮨﮯ ﺟﺒﮑﮧ ﻋﺎﻡ ﺁﺑﺎﺩﯼ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ 3 ﺳﮯ 4 ﻓﯿﺼﺪ ﮨﮯ۔
ﺳﻨﻨﮯ ﯾﺎ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻓﺮﻕ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﮕﺮ ﺗﻮ ﺻﺮﻑ ﺍﯾﮏ ﺟﯿﻨﯿﺎﺗﯽ ﻣﺮﺽ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ، ﺟﺒﮑﮧ ﺷﺠﺮﮦ ﻧﺴﺐ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﮯ ﮨﺰﺍﺭﻭﮞ ﺍﻣﺮﺍﺽ ﭼﮭﭙﮯ ﮨﻮﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﭘﮭﺮ ﺍﮔﺮ ﺑﭽﮯ ﻣﺴﺘﻘﺒﻞ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﻓﺮﺳﭧ ﮐﺰﻥ ﺳﮯ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﺮﯾﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺑﭽﮯ ﺑﮭﯽ ﯾﮩﯽ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﺁﮔﮯ ﺑﮍﮬﺎﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﻧﺴﻠﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺗﺒﺎﮨﯽ ﮐﺎ ﺑﺎﻋﺚ ﺑﻦ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻭﮦ ﭘﺮﺍﻧﮯ ﺟﯿﻨﺰ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﻣﻤﮑﻨﮧ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺧﻄﺮﻧﺎﮎ ﮐﻮ ﺭﯼ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﮐﺮﺭﮨﮯ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ۔
ﻣﺜﺎﻝ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺍﮔﺮ 2 ﺗﮭﯿﻠﯿﺴﯿﻤﯿﺎ ﻣﺎﺋﻨﺮ ﺍﻓﺮﺍﺩ ﺑﮯ ﺧﺒﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﺁﭘﺲ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﺮﻟﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﻣﺴﺘﻘﺒﻞ ﻣﯿﮟ ﺗﻠﺦ ﺗﺠﺮﺑﺎﺕ ﮐﺎ ﺳﺎﻣﻨﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ، ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﮨﺎﮞ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﮐﻮ ﺗﮭﯿﻠﯿﺴﯿﻤﯿﺎ ﻣﯿﺠﺮ ﮨﻮﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔
ﺭﻭﺍﮞ ﺳﺎﻝ ﺁﺋﺮﻟﯿﻨﮉ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﮐﻮﺋﯿﻨﺰ ﯾﻮﻧﯿﻮﺭﺳﭩﯽ ﮐﯽ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﻣﯿﮟ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﮐﺰﻥ ﻣﯿﺮﺟﺰ ﮐﮯ ﻧﺘﯿﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺑﭽﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺷﯿﺰﻭﻓﺮﯾﻨﯿﺎ ﺟﯿﺴﮯ ﻣﺮﺽ ﮐﺎ ﺍﻣﮑﺎﻥ ﺩﻭﮔﻨﺎ ﺑﮍﮪ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔
ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﭘﮍﮬﯿﮟ : ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﺩﯾﻮﮞ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺍﻭﺭ ﻧﻘﺼﺎﻥ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺁﮔﯿﺎ
ﺗﺤﻘﯿﻖ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﮐﮯ ﺍﻣﺮﺍﺽ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﺳﮯ ﺑﭽﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﺨﺼﻮﺹ ﮈﯼ ﺍﯾﻦ ﺍﮮ ﮐﮯ ﺑﺎﻋﺚ ﻭﺭﺛﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﻨﺘﻘﻞ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ، ﺟﯿﺴﮯ ﺳﯿﮑﮭﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﺸﮑﻼﺕ ﺍﻭﺭ ﺫﮨﻨﯽ ﻣﻌﺬﻭﺭﯼ ﻭﻏﯿﺮﮦ۔
ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﮨﺮ 10 ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﭽﮯ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﮯ ﺭﺷﺘﮯ ﺩﺍﺭ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﻣﺤﻘﻘﯿﻦ ﮐﺎ ﮐﮩﻨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﮐﮯ ﻧﺘﺎﺋﺞ ﭼﻮﻧﮑﺎ ﺩﯾﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮨﯿﮟ، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻋﺎﻡ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﮐﺴﯽ ﺷﺨﺺ ﻣﯿﮟ ﺷﯿﺰﻭﻓﺮﯾﻨﯿﺎ ﮐﺎ ﺧﻄﺮﮦ 0.3 ﺳﮯ 0.66 ﻓﯿﺼﺪ ﺗﮏ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﺎﮨﻢ ﺭﺷﺘﮯ ﺩﺍﺭﻭﮞ ﮐﯽ ﺁﭘﺴﯽ ﺷﺎﺩﯾﻮﮞ ﺳﮯ ﯾﮧ ﺧﻄﺮﮦ 0.6 ﻓﯿﺼﺪ ﺳﮯ 1.32 ﻓﯿﺼﺪ ﺗﮏ ﺑﮍﮪ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔
ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﻋﺎﻡ ﺍﻓﺮﺍﺩ ﻣﯿﮟ ﮈﭘﺮﯾﺸﻦ ﮐﺎ ﺧﻄﺮﮦ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ 10 ﻓﯿﺼﺪ ﺗﮏ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﻣﮕﺮ ﮐﺰﻥ ﻣﯿﺮﺝ ﮐﮯ ﻧﺘﯿﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺧﻄﺮﮦ 30 ﻓﯿﺼﺪ ﺗﮏ ﭘﮩﻨﭻ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔
ﮔﺰﺷﺘﮧ ﺳﺎﻝ ﻻﮨﻮﺭ ﻣﯿﮟ ﭼﻠﮉﺭﻧﺰ ﮨﺴﭙﺘﺎﻝ ﮐﮯ ﺯﯾﺮﺍﮨﺘﻤﺎﻡ ﺍﯾﮏ ﻭﺭﮐﺸﺎﭖ ﻣﯿﮟ ﻃﺒﯽ ﻣﺎﮨﺮﯾﻦ ﮐﺎ ﮐﮩﻨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮉﯾﮑﻞ ﮐﯽ ﺍﺻﻄﻼﺡ ﻣﯿﮟ ﻻﺋﯿﺴﻮﺳﻮﻣﻞ ﺍﺳﭩﻮﺭﯾﺞ ﮈﺱ ﺁﺭﮈﺭ ‏( ﺍﯾﻞ ﺍﯾﺲ ﮈﯼ ‏) ﮐﮩﻼﺋﯽ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺟﯿﻨﯿﺎﺗﯽ ﺑﯿﻤﺎﺭﯼ ﺳﮯ ﻧﻮﻣﻮﻟﻮﺩ ﺑﭽﮯ ﻣﺘﺎﺛﺮ ﮨﻮﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﮐﺰﻧﺰ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﯾﺎ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﮯ ﺭﺟﺤﺎﻥ ﮐﯽ ﺣﻮﺻﻠﮧ ﺷﮑﻨﯽ ﮨﻮﻧﯽ ﭼﺎﮨﯿﮯ۔
ﺍﺱ ﺑﯿﻤﺎﺭﯼ ﻣﯿﮟ ﻣﺒﺘﻼ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﺎ ﺍﮔﺮ ﺷﺮﻭﻉ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﻋﻼﺝ ﻧﮧ ﮐﺮﻭﺍﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺑﻤﺸﮑﻞ 5 ﺳﺎﻝ ﺗﮏ ﺯﻧﺪﮦ ﺭﮦ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ، ﺍﯾﻞ ﺍﯾﺲ ﮈﯼ ﮐﮯ ﻋﻼﺝ ﺳﮯ ﺑﭽﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﻣﻮﺍﺕ ﻣﯿﮟ ﮐﻤﯽ ﻻﺋﯽ ﺟﺎﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﯾﮧ ﺑﮩﺖ ﻣﮩﻨﮕﺎ ﻋﻼﺝ ﮨﮯ۔
ﺗﻮ ﺟﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﮐﺰﻥ ﺳﮯ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﺮﺍﺋﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﮔﺮ ﻃﺒﯽ ﻣﻌﺎﺋﻨﮧ ﮐﺮﺍﮐﮯ ﺟﯿﻨﯿﺎﺗﯽ ﺍﻣﺮﺍﺽ ﮐﮯ ﺧﻄﺮﮮ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﭻ ﭘﮍﺗﺎﻝ ﮐﯽ ﺟﺎﺋﮯ، ﺗﺎﮨﻢ ﺍﺳﮯ ﺧﺎﻧﺪﺍﻧﯽ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﮔﺮﯾﺰ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺌﮯ۔

بریسٹ کینسر. ڈاکٹر سید انجم رضا. کوالیفائیڈ ھومیوپیتھک فیذشن. بریسٹ کی مختلف بیماریوں کا شافی ھومیوپیتھک علاج. مکمل کیس ...
26/09/2018

بریسٹ کینسر. ڈاکٹر سید انجم رضا. کوالیفائیڈ ھومیوپیتھک فیذشن. بریسٹ کی مختلف بیماریوں کا شافی ھومیوپیتھک علاج. مکمل کیس ٹیکنگ کے بعد میڈسن گھر بھجنے کی سہولت. آن لائن مشورہ کے لیے وٹس اپ نمبر. 03145386092
چھاتی کا کینسر مرد و خواتین میں کینسر کا دوسرا بڑا مرض بھی ہے۔
رپورٹ کے مطابق 2015 میں بریسٹ کینسر سے 40 ہزار سے زائد خواتین جب کہ 400 سے زائد مرد بھی ہلاک ہوئے۔
ماہرین کے مطابق بریسٹ کینسر کی وجہ سے ہلاکتوں کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ اس مرض کی وقت پر نشاندہی نہیں ہوتی، جس وجہ سے متاثرہ شخص کی حالت انتہائی خراب ہوجاتی ہے۔
بریسٹ کینسر نہ صرف امریکا، برطانیہ، برازیل، چین، جاپان اور بھارت جیسے ممالک میں تیزی سے پھیلنے والا مرض ہے، بلکہ پاکستان میں بھی اس مرض میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
ماہرین صحت کے ماننا ہے کہ اگر بریسٹ کینسر کی بروقت تشخیص ہوجائے تو اس سے کئی متاثرہ افراد کی زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں۔
اگرچہ بریسٹ کینسر کی تشخیص کے لیے دنیا بھر میٓں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جا رہا ہے.

بچے دانی میں گلٹیاں ہونے کی درد ناک علاماتفائبورائڈ کیا ہیں؟ ڈاکٹر سید انجم رضا. کوالیفائیڈ ھومیوپیتھک فیذشن. عورتوں کے ...
25/09/2018

بچے دانی میں گلٹیاں ہونے کی درد ناک علامات
فائبورائڈ کیا ہیں؟ ڈاکٹر سید انجم رضا. کوالیفائیڈ ھومیوپیتھک فیذشن. عورتوں کے تمام امراض کا شافی ھومیوپیتھک علاج. مکمل کیس ٹیکنگ کے بعد میڈسن گھر بھجنے کی سہولت. آن لائن مشورہ کے لیے وٹس اپ نمبر. 03145386092.
فائبورائڈ عورتوں کے بچے دانی (یوٹرس) کے اندر یا اوپر پیدا ہونے والی غیرمعمولی گلٹیاں ہوتی ہیں۔ بعض اوقات یہ گلٹیاں بڑی ہوجاتی ہیں جس سے پیٹ میں شدید درد اور ہیوی پیریڈز آتے ہیں۔ بعض اوقات ان کی کوئی علامات بھی ظاہر نہیں ہوتیں۔ بچے دانی میں گلٹیاں یا ٹیومر عام طور پر بے ضرر ہوتے ہیں اور ان میں کینسر کی علامات نہیں ہوتیں۔
ایک تحقیق کے مطابق ۷۰ سے ۸۰ فیصد خواتین میں ۵۰ سال کی عمر کے بعدبچے دانی میں یہ گلٹیاں ہو جاتی ہیں جن کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔
فائبورائڈ کی وجوہات:
فائبورائڈ کے بننے کی وجوہات ابھی تک معلوم نہیں ہو سکیں لیکن کچھ چیزیں ان کی افزائش میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔
1۔ہارمونز:
اووری میں بننے والے دو قسم کے ہارمونز ایسٹروجن اور پروگیسٹرون ہر ماہواری کے ساتھ یوٹرس کی لائننگ کو بڑھاتے رہتے ہیں اور فائبورائڈ کی افزائش کا باعث بن سکتے ہیں۔
2۔فیملی ہسٹری:
بچے دانی کی یہ بیماری موروثی بھی ہو سکتی ہے۔ اگر آپ کی ماں، نانی یا بہن کو یہ بیماری ہے تو آپ کو بھی ہوسکتی ہے۔
3۔ حمل:
دوران حمل ایسٹروجن اور پروگیسٹرون کی افزائش مین اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس لیے دوران حمل فائبورائڈ بننے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔
کن عورتوں کو بچے دانی میںفائبورائڈ کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے؟
جن خواتین میں ذیل میں لکھی وجوہات میں سے کچھ موجود ہیں ان میں فائبورائڈ ہونے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔
۔ حمل
۔ فیملی ہسٹری
۔ ۳۰ سال سے زیادہ عمر
۔ زیادہ وزن ہونا
علامات:
بچے دانی میں فائبورائڈ کی علامات ان کے سائز،جگہ اور تعداد کے حساب سے ظاہر ہوتی ہیں۔ اگر ٹیومر چھوٹا ہے یا آپ کی ماہواری بند ہونے والی ہے تو ان کی علامات ظاہر نہیں ہوںگی۔
ماہواری بند ہونے کے بعد یہ فائبورائڈ سکڑ بھی سکتے ہیں۔
۔ پیریڈز میں ہیوی بلیڈنگ ہونا یا جمع ہوا خون آنا۔
۔ کمر کے نچلے حصے یا پیڑو میں درد ہونا۔
۔ پیریڈز کے درد میں اضافہ ہونا۔
۔ پیشاب زیادہ آنا۔
۔ پیریڈز زیادہ دن تک آنا۔
۔ پیٹ کا نچلا حصہ بھرا ہوا یا اس میں دبائو محسوس ہونا۔
۔ پیٹ کا بڑھ جانا یا سوجن ہونا۔
فائبورائڈ کی تشخیص:
فائبورائڈ کے لیے گائنوکولوجسٹ سے رابطہ ضروری ہے۔ اس کے لیے یوٹرس کا سائز ، شیپ اور کنڈیشن دیکھی جاتی ہے۔ اس کے لیے ضروری ٹیسٹ کرائے جاتے ہیں۔اس کی تشخیص کے لیے الٹراسائونڈ کیا جاتا ہے جس کے ذریعے یوٹرس کو اندر سے دیکھا جاتا ہے کہ اس میں کوئی فائبرائڈ تو نہیں۔ اس کے علاوہ ایم آر آئی کے ذریعے بھی یوٹرس، اووری اور پیلوس کے دوسرے حصوں کی تصویریں لی جاتی ہیں۔
علاج:
بچے دانی میں فائبورائڈ کے علاج کا تعین ڈاکٹر مریض کی عمر، صحت اور فائبورائڈ کے سائز کی بنیاد پر کرتا ہے۔
دوائوں کے ذریعے ہارمون لیول کو متوازن کیا جاتا ہے جس سے فائبورائڈ سکڑ جاتے ہیں۔
بڑے سائز یاذیادہ مقدار میں ہونے والے فائبورائڈ کو سرجری کے ذریعے نکالا جاتا ہے۔
اگر حالت زیادہ تشویشناک ہو اور دوسرے علاج کارگر ثابت نہ ہوں تو فائبورائڈ کے ساتھ یوٹرس بھی نکال دیا جاتا ہے۔

ٹیسٹس ٹرون لیول میں کمی؟آپ کو کیا کرنا چاہئے!Low Testosterone Levels. ڈاکٹر سید انجم رضا. کوالیفائیڈ ھومیوپیتھک فیذشن. ...
24/09/2018

ٹیسٹس ٹرون لیول میں کمی؟آپ کو کیا کرنا چاہئے!
Low Testosterone Levels. ڈاکٹر سید انجم رضا. کوالیفائیڈ ھومیوپیتھک فیذشن. مکمل کیس ٹیکنگ کے بعد میڈسن گھر بھجنے کی سہولت.
03145386092. 03444160212.
کیا ٹیسٹس ٹرون لیول کم ہوتا ہے ؟جی ہاں ایسا ہوتا ہے لیکن پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ۔اس پر قابو پانے کے کئی طریقے ہیں ۔اس آرٹیکل میں ہم بتائیں گے کہ ٹیٹس ٹرون کیا ہیں ؟ ان کا کیا کام ہوتا ہے؟ اور یہ اچھی صحت کے لئے کیوںضروری ہیں ؟ٹیسٹس ٹرون ایک جنسی ہارمون ہے۔یہ ہارمون بلوغت اور بچہ پیدا کرنے صلاحیت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔مردوں میں ٹیسٹس ٹرون ٹیسٹس سے جبکہ عورتوں میں یہ اووریز میں پیدا ہوتے ہیں ۔ٹیسٹس ٹرون مردوں کی جنسی خواہش پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں ۔مردوں میں عمر کے بڑھنے کے ساتھ اس کی پیداوار میں کمی ہوتی جاتی ہے جس سے ان کا لیول گھٹتا رہتا ہے خاص طور پر تیس سال یااس زیادہ عمر کے مرد اس سے متاثر ہوتے ہیں ۔مردوں میں ٹیٹسٹرون لیول خواتین کے مقابلے میں ۱۰ گنا زیادہ ہوتا ہے۔یہ ہارمون پٹھوں ،ہڈیوں، جسمانی طاقت اور جسم کے بالوں کی نشونماء میں مددگار ہوتے ہیں ۔ ٹیسٹس ٹرون کے اخراج میں کمی جسمانی طاقت کو پوری طرح متاثر کرتی ہے۔لیکن صحت کے کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بڑھتی عمر کی عام نشانی ہے اوربالکل بے ضرر ہے۔ غیر متوازن ٹیسٹیس ٹرون لیول سے کیا مسائل پید اہوتے ہیں یہ جاننے کے لئے نیچے کا آرٹیکل ملاحظہ فرمائیے ۔

آپ کا ٹیٹس ٹرون لیول کتنا کم ہے؟
عام طور پر ٹیسٹسٹرون لیول کو خون کے ٹیسٹ کے ذریعے ناپا جاتا ہے۔نارمل ٹیسٹس ٹرون لیول۳۰۰ سے ۱۰۰۰ نینو گرام / ڈیسی لیٹر کے درمیان ہوتاہے۔۴۰سال کی عمر کے بعد۴۰فیصد مردوں میں ٹیسٹسٹرون لیول اس سے رینج سے کم ہوجاتا ہے۔

ٹیسٹس ٹرون لیول کم ہونا تشویش کی بات نہیں جب تک اس میں یہ علامات نہ ظاہر ہوں ۔

۔جنسی خواہش میں کمی

۔عضو خاص کی صلاحیت کم ہونا

۔دبلا پن اورجسمانی طاقت میں کمی

۔ توانائی میں کمی

۔ محسوس کی جانے والی غنودگی

۔ڈپریشن

ایک تحقیق کے مطابق جن مردوں کا ٹیسٹس ٹرون لیول کم ہوتا ہے انھیں موزی بیماریوں جیسے اسٹروک اور دل کی بیماریوں کا خطرہ ہوتا ہے۔بوڑھے مردوں میں یہ کمی ہڈیوں کو کمزور اور کھوکھلا کردیتی ہیں جس سے ہڈیوں کے ٹوٹنے کا خطرہ ہوتا ہے۔

ٹیسٹس ٹرون کا لیول کیسے متوازن کریں؟
کچھ ہربل دوائیں ٹیٹسٹرون لیول بڑھانے کا دعویٰ کرتی ہیں ،لیکن کسی بھی تحقیق سے ان کی پوری افادیت کی تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔ طرز زندگی کی ایسی بے شمارتبدیلیاں ہیںجو اس سلسلے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہیں ۔ان میں سے کچھ زیل میں درج کئے جارہے ہیں۔

زائد چربی کو کم کریں:
مٹاپا اپنے ساتھ خطرناک بیماریاں لاتا ہے۔ادھیڑ عمر کے ایسے مرد جو زیابیطس کے مریض ہوتے ہیں ان میں ٹیسٹسٹرون لیول کم ہونے کا زیادہ خطرہ ہوتاہے۔جبکہ جو افراد اپنا وزن مناسب رکھتے ہیں وہ ناصرف بڑھتی ہوئی شوگر پر قابو پالیتے ہیں بلکہ ٹیسٹسٹرون لیول کو کم ہونے سے بھی بچالیتے ہیں۔لہٰذا صحت بخش غذا کھائیں اورپابندی کے ساتھ ورزش کریں ۔

پوری نیند لیں:
نیند کی کمی ہارمونز کے اخراج میں کمی کرتی ہے۔مجموعی طور پر ایک انسان کو رات کے وقت ۷ سے ۸ گھنٹے کی نیند کی ضرورت ہوتی ہے۔ مناسب نیند ہارمون لیول کے کم ہونے کے امکانات کو کم کرتی ہے۔

وافر مقدار میں زنک لیں:
ایک صحت مند آدمی میں ٹیسٹسٹرون لیول کو برقرار رکھنے میں زنک اہم کردار ادا کرتا ہے۔لہٰذا جسم میںزنک کی مناسب مقدارکوبرقرار رکھنے اورٹیسٹس ٹرون کو بڑھانے کے لئے اپنی غذا میں پھلیوں،کیکڑے،ثابت اناج اور میوے جات کا استعمال جاری رکھیں۔

اختتامیہ:
مردوں میںٹیسٹسرون لیول قدرتی طور پر عمر کے ساتھ ساتھ کم ہوتا جاتا ہے۔لیکن بعض صورتوں میں یہ صحیح مقدار سے کم ہوکر خطرناک علامات کو ظاہرکردیتے ہیں ۔کیونکہ ٹیسٹس ٹرون لیول کو توازن میں لانے کے لئے کئی علاج ہیںلہٰذا اس سلسلے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔صحت بخش غذا ،اچھی نیند اور پابندی کے ساتھ میڈیکل چیک اپ اس کے لئے نہایت ضروری ہیں ۔

ڈاکٹر کی ہدایت:
ایک مرتبہ ٹیسٹسٹرون لیول کم ہونے پر پریشان نہ ہوں۔اسکی کئی مرتبہ جانچ کرائیں کیونکہ ٹیسٹسٹرون لیول گھٹتا بڑھتا رہتا ہے۔بہتر ہوگا کہ یہ ٹیسٹ صبح ۸ سے ۹ کے درمیان کرایا جائے۔لگاتار خراب ریڈنگز آنے کی صورت میں ڈاکٹر سے رابطہ ضروری ہے۔

🔷UTERINE FIBROIDS ANDS ITS HOMOEOPATHIC TREATMENT~⏺INTRODUCTION:Uterine fibroids, also referred to as uterine myomas) ar...
23/09/2018

🔷UTERINE FIBROIDS ANDS ITS HOMOEOPATHIC TREATMENT~

⏺INTRODUCTION:
Uterine fibroids, also referred to as uterine myomas) are non-cancerous tumors that grow within the muscle tissue of the uterus. As many as 20% to 50% women between the age group of 18 to 40 suffer from the condition, but not all cases warrant treatment.

It may be as tiny as a coin or it may grow to the size of a watermelon, making people think the lady is 6/7 months pregnant! There may be one big fibroid or several small ones.

🔷CAUSES~
Though the exact causes are not known, family history and hormonal imbalances are said to be the main causes for the same.
✅Obesity- Being
overweight is a major risk factor in the development of uterine fibroids.
✅Heredity- If one or more of your family members like your mother or sister has or had fibroids, the chances of your having fibroids are much higher.
✅Race- Black women are more likely to have fibroids and that too at a younger age.
✅Diet- Having a diet high in red meat content and low in fruits and vegetables may contribute to fibroids. At the same time intake of alcohol may also increase risk of uterine fibroids.
✅Vit D Deficiency- The deficiency of Vit D may also increase your risk of having uterine fibroids.
✅PCOS – Presence of Polycystic Ovarian Syndrome can also predispose you to uterine fibroids.

🔷 TYPES OF UTERINE FIBROIDS~

The four types are:

⏺Subserosal uterine fibroids: Develops outside the uterus and continues to grow.
⏺Intramural uterine fibroids:
The most common type that lead to pregnancy like tummy. They develop within the uterus wall and continue to expand.
⏺Submucosal uterine fibroids:
Because these develop within the uterus lining, they are most likely to be the cause of heavy flow during periods.
⏺Pedunculated uterine fibroids:
These grow on the inner or outer side of a small stalk connecting to the uterus.
🔷SYMPTOMS~

✅An enlarged uterus is the most common symptom. It is often mistaken for general weight gain or pregnancy.

✅Prolonged and painful menstrual cycle, that is many times irregular.
✅Urinary incontinence and constant urge to urinate.
✅Pelvic pressure.
✅Pressure on the bowels leading to constipation.
✅Pain during in*******se.

🔷HOMOEOPATHIC TREATMENT ~
During a clinical study of the effects of Homeopathy on fibroids, 85% patients showed improvement and 48% people had complete fibroid removal.
There are medicines in Homeopathy that can treat uterine fibroids, help maintain normal hormonal balance..
🔷Phosphorus – best medicine for fibroids with profuse and protracted bleeding
🔷Sabina- best medicine for fibroids with clotted bleeding
🔷Calcarea Carb- best medicine for uterine fibroids with chilliness
🔷Sepia – best remedy for uterine fibroids with irritability, indifference and bearing down pains
🔷Thyroidinum- best medicine for fibroids with obesity. DrSyed Anjum raza. 03145386092. 03444260212.

گردے کمزور کیوں ہوتے. گردوں کے امراض کا شافی ھومیوپیتھک علاج. ڑاکٹر سید انجم رضا. کوالیفائیڈ ھومیوپیتھک فیذشن. یوریا کری...
23/09/2018

گردے کمزور کیوں ہوتے. گردوں کے امراض کا شافی ھومیوپیتھک علاج. ڑاکٹر سید انجم رضا. کوالیفائیڈ ھومیوپیتھک فیذشن. یوریا کریٹناہن کا زیادہ ھو جانا. گردوں کی کمزوری. گردوں کے فلٹر کی خرابی. گردوں کی پتھری کا شافی ھومیوپیتھک علاج. مکمل کیس ٹیکنگ کے بعد میڈسن گھر بھجنے کی سہولت. 03145386092.
دنیا بھر میں گردوں کی بیماریوں میں روز افروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ کشمیر میں ہزاروں لاکھوں لوگ گردوں کے امراض میں مبتلا ہیں ، مگر وہ بے خبری کے عالم میں زندگی کی شاہراہ پر ’’رینگ ‘‘رہے ہیں ۔ ان کے علامات اتنے واضح یا شدید نہیں ہوتے کہ وہ کسی معالج سے مشورہ کرنے کے بارے میں سوچ سکیں ۔ گردوں کے دیرینہ یا مزمن مرض میں مبتلا ہونے کے بعد گردوں کی ناکامی میں مبتلا ہونے کے درمیان برسوں کا فاصلہ ہوتا ہے ۔ بعض لوگ گردوں کے دیرینہ امراض میں مبتلا ہونے کے باوجود بھی ایک نارمل زندگی گزارتے ہیں ۔ انہیں کبھی گردوں کی ناکامی کا سامنا ہی نہیں کرنا پڑتا ہے ۔ بہرحال عام اور سیدھے سادے لوگوں کے لئے گردوں کی بیماریوں سے متعلق معلومات ایک طاقت ہے ۔ اگر وہ گردوں کی بیماریوں کے علامات کی معلومات رکھتے ہوں تو وہ مرض میں مبتلا ہوتے ہی کسی معالج سے مشورہ کرسکتے ہیں ۔ اگر آپ یا آپ کا کوئی آشنا درج ذیل علامات میں سے ایک یا ایک سے زیادہ کا اظہار کرتا ہے تو آپ کو فوری طورکسی ماہر معالج سے مشورہ کرنا چاہئے۔ یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ بعض علامات گردوں کی بیماریوں کیبجائے کسی اور بیماری کی وجہ سے بھی ہوسکتے ہیں ۔ علامت نمبر1: ہر انسان میں ریڑھ کی ہڈی کے دونوں طرف دو گردے ہوتے ہیں ۔ ان کا کام جسم کے اندر موجود محلول(پانی)اور دیگر مائع جات کو فلٹر کرنا ہے اور جسم سے ردی، فالتو اور زہریلا مواد خارج کرنا ہے۔ پانی اور نمکیات کی مقدار کو طبعی حدود میں رکھنے کے علاوہ بلڈ پریشر کو کنٹرول میں رکھنا ہے اور خون میں خلیات کی تعداد کو مقررہ مقدار میں رکھنے کے لئے ہارمون ترشح کرنا ہے ۔ اگر گردوں یا اس کے ساتھ وابستہ اعضاء میں کوئی خرابی یا بیماری ہو تو پیشاب کے رنگ اور بہاؤ میں بدلاؤ آسکتا ہے ۔ آپ کے پیشاب کا رنگ بدلا ہوا ہے ، نارمل پیشاب ہلکے قہوہ رنگ کا ہوتا ہے ۔ اگر یہ لال، زیادہ پیلا، پیلا، سبز، کالا، سفید دودھیا، زیادہ جھاگ دار، نیلا، نارنجی یا گہرے رنگ کا ہو تو فوری آزمائش ادرار کریں ۔ آپ کو بار بار پیشاب کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے ۔ آپ بہت زیادہ یا بہت کم پیشاب کرتے ہیں۔پیشاب رُک رُک کر آتا ہےپیشاب کرتے وقت ہچکچاہٹ ، جلن یا سوزش محسوس ہوتی ہے۔اگر جلدی سے باتھ روم نہ پہنچے، تو پیشاب قطرہ قطرہ ٹپکنے لگتا ہے یا اس پر کنٹرول ہی نہیں رہتا ہے ۔ ایسامحسوس ہوتا ہے، جیسے پیشاب کرنے کے بعد ابھی مثانہ پوری طرح خالی نہیں ہوا ہے ۔ پیشاب کے ساتھ (یا پیشاب کرنے سے پہلے یا آخر میں )خون بھی آتا ہے ۔ پیشاب کرتے وقت زور لگا نا پڑتا ہے تاکہ مثانہ خالی ہو جائے ۔ رات کو دو تین بار جاگنا پڑتا ہے ۔ پیشاب کرنے کے لئے جاگنے کی وجہ سے نیند میں خلل پڑتا ہے ۔ علامت نمبر 2: جب گردوں کو کوئی مرض بہت دیر تک اپنی لپیٹ میں لئے پھرے تو دونوں گردے دھیرے دھیرے خستہ ہو جاتے ہیں اور وہ اضافی پانی جسم سے خارج کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں ، جس سے پیروں ، ٹخنوں ، ٹانگوں ، ہاتھوں میں اور چہرے پر ورم ظاہر ہو جاتا ہے ۔ صبح کے وقت آنکھوں کے نچلے حصوں میں ورم نمایاں ہوتا ہے اور ٹانگوں ، پیروں ، ٹخنوں پر اگر ہاتھ کے انگوٹھے سے دباؤ ڈالا جائے ، تو دبانے کی جگہ گڑھا جیسا نمودار ہو جاتا ہے ۔ علامت نمبر3: تھکاوٹ: صحت مند گردے ایک انتہائی اہم ہارمون اریتھروپوئیٹین بناتے ہیں ۔ یہ ہارمون جسم کے خلیات کو آکسیجن پہنچانے والی (خون میں موجود) سرخ خلیات کو بنانے میں اہم ترین رول ادا کرتا ہے ۔ جب گردے صحیح ڈھنگ سے اپنا کام انجام دینے میں ناکام ہوں تو اس اہم ہارمون کی کمی واقع ہو جاتی ہے، نتیجہ یہ کہ سرخ خلیات کی تعداد میں نمایاں کمی ہو جاتی ہے ۔ اس لئے دماغ اور عضلات جلدی تھک جاتے ہیں اور مریض تھکاوٹ محسوس کرتا ہے، اُسے ہر وقت اپنا آپ خستہ و کوفتہ لگتا ہے ۔ علامت نمبر4: الرجی، خارش: انسانی جسم میں دو گردے جھاڑ پونچھ اور صفائی کا کام کرتے ہیں۔ یہ جسم سے فالتو زہریلا مواد خارج کرنے میں اپنا اہم رول نبھاتے ہیں۔ جب گردے کسی بیماری کی وجہ سے روٹھ جائیں ،تو یہ زہریلا اور غیر ضروری مواد خارج نہیں کرسکتے ہیں اور وہ مواد جسم میں جمع ہو جاتا ہے ۔ مریض کو ہر وقت جسم کی جلد پر حساسیت (الرجی)نظر آتی ہے اور اسے ہر وقت جلد کھجلانے کی ضرورت پیش آتی ہے ۔ بسااوقات اسے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے نہ صرف جلد بلکہ ہڈیوں کے اندر بھی خارش ہو رہی ہے۔ مریض اتنی شدت سے جلد کو رگڑتا ہے کہ کسی وقت اس کی جلد زخمی ہو جاتی ہے اور اس سے خون بہنے لگتا ہے۔ مریض کو یوں محسوس ہوتا ہے، جیسے اس کی جلد میں دراڑیں پڑی ہوں اور وہ ایک عجیب سی بے قرار ی کا شکار ہو جاتا ہے۔ علامت نمبر5: منہ میں معدنی ذائقہ: جب گردوں کی بیماری طویل مدت تک مریض کو اپنی گرفت میں لئے رکھے تو گردے خون میں موجود زہریلا مواد، یوریا جسم سے رفع کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔ یوریاجسم کے خون کے اندر جمع ہو جاتا ہے اس کی سطح بڑھتی جاتی ہے اور مریض یوریمیا میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ مریض جو کچھ کھاتا ہے اسے عجیب سا ذائقہ محسوس ہوتا ہے۔ اسے یوں لگتا ہے جیسے اسے کوئی معدن چبانا پڑتی ہے۔ بعض مریض کہتے ہیں کہ ’’ ان کا منہ بدمزہ ہے‘‘ اور انہیں یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے وہ پگھلا ہوا سیسہ نگل رہے ہوں۔ مریض کی بھوک بالکل ختم ہو جاتی ہے اور اسے کھانے پینے سے کوئی دلچسپی نہیں رہتی۔ مریض کو گوشت کھانے سے شدید نفرت ہو جاتی ہے۔ وہ گوشت کو دیکھتے ہی منہ پھیرتا ہے چونکہ مریض کی بھوک ختم ہو جاتی ہے اس لئے اُس کے جسم میں پروٹین، کاربوہائیڈریٹ، وٹامن اور نمکیات کی کمی ہوتی ہے اور اس کا وزن کم ہو جاتا ہے اور وہ حد سے زیادہ کمزوری محسوس کرتا ہے۔ وہ کوئی بھی کام انجام دینے میں ناکام ہو جاتا ہے۔ علامت نمبر6: اُبکائی، الٹی: جب گردوں کو کوئی مزمن بیماری گھیر لے تو وہ نیم مردہ ہو جاتے ہیں اور خون میں غیر ضروری یا زہریلے مواد، یوریا کی سطح بڑھتی رہتی ہے۔ یوریا کی سطح بڑھنے سے مریض پہلے اُبکائی محسوس کرتا ہے اور اگر اسے علاج میسر نہ ہو، تو اسے الٹیوں کی شکایت لاحق ہو جاتی ہے۔ اُبکائی سے پہلے شدید خارش اور بے قراری بھی ہوسکتی ہے ۔ بھوک بالکل نہیں لگتی ہے۔ مریض اُبکائی اور اُلٹی کے ڈر سے کھانا پینا ترک کرتا ہے اس سے مریض ’’جنرل کمزوری‘‘ محسوس کرتا ہے اور اس کا وزن گھٹ جاتا ہے ۔ اُلٹی آنے کی وجہ سے مریض دیگر بیماریوں کے کنٹرول کے لئے روز مرہ کی ادویات بھی نہیں لے سکتا ہے ۔ علامت نمبر7: تنگی نفس (سانس کا پھول جانا) : جب گردوں کی بیماری ایک خاص مقام پر پہنچتی ہے، تو دیگر علامات کے علاوہ مریض کی سانس تنگ ہو جاتی ہے یا پھولنے لگتی ہے۔ وہ سینے پر عجیب قسم کا دباؤ محسوس کرتا ہے۔ اس کی دو وجوہ ہیں: (1)۔پھیپھڑوں میں اضافی پانی جمع ہو جاتا ہے۔ (2)۔ خون میں سرخ خلیات کی تعداد میں کمی واقع ہوجانا، جس سے پھیپھڑوں اور جسم کے دیگر خلیات اور نسیجوں تک آکسیجن طبعی مقدار میں نہیں پہنچ پاتا ہے اور آکسیجن کی کمی سے مریض دُچارِ تنگی نفس ہو جاتا ہے ۔ مریض کی سانس پھولتی ہے وہ گھبرا جاتا ہے ، اس کی نیند اس سے روٹھ جاتی ہے کیونکہ لیٹ جانے سے اس کی سانس زیادہ پھولتی ہے۔ وہ اپنے سینے پر دباؤ محسوس کرتا ہے اور وہ بے چین ہو جاتا ہے۔ اس کی زندگی اس کے لئے عذاب بن جاتی ہے۔ علامت نمبر8: سردی کا احساس: جب کوئی مریض گردوں کی کسی مزمن بیماری میں مبتلا ہو اور اس کے گردے اپنا کام صحیح ڈھنگ سے انجام دینے میں ناکام ہو رہے ہوں تو اسے دوسرے صحت مند لوگوں کے مقابلے میں سردی کا حد سے زیادہ احساس ہوتا ہے ۔ جب دوسرے لوگ گرمی کی شکایت کر رہے ہوں تو وہ مریض سردی سے کانپ رہا ہوتا ہے ۔ مریض کو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اسے برف کی ڈلی پر لٹا دیا گیا ہو یا یخ بستہ کمرے میں قید کیا گیا ہو ۔ ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ اسے خون کی کمی ہوتی ہے، یعنی اس کے جسم میں سرخ خلیات کی تعداد اتنی کم ہوئی ہوتی ہے کہ اس کی جلد تک حرارت پہنچ نہیں پاتی ہے ۔ علامت نمبر9: سر چکرانا : گردوں کی ناکامی سے جسم میں خون کی کمی واقع ہونے سے دماغ کی آکسیجن سپلائی بُری طرح متاثر ہوتی ہے ، جس سے مریض کا سر چکراتا ہے ۔ اسے یوں لگتا ہے جیسے اس کے سر میں گیس بھری ہوئی ہے یا سر خالی خالی سا ہے ۔ اسے کسی خاص کام پر توجہ مرکوز کرنے میں سخت دشواری پیش آتی ہے ۔ اس کی یادداشت میں

خلل پڑتا ہے ۔ وہ اکثر چیزیں بھول جاتا ہے۔ اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھایا رہتا ہے ۔ کانوں میں شور شرابہ ہوتا ہے اور وہ ایک عجیب سی بے قراری محسوس کرتا ہے۔ وہ کوئی کام بھی نہیں کرسکتا ہے۔ اس پر ہر وقت سستی اور کاہلی سی طاری رہتی ہے ۔ وہ اپنے آپ سے بے زار ہو جاتا ہے ۔ علامت نمبر10: درد:کمر کے نچلے حصے، پہلو یا ٹانگ میں درد گردوں کی کسی مزمن بیماری کی علامت ہوسکتا ہے ۔ کمر کے نچلے حصے میں درد پیٹ کے دونوں طرف (وسط میں )یا متاثرہ گردہ(دائیں یا بائیں ) کی طرف ٹانگ یا کولہو میں درد ، گردوں کی بیماری کی طرف اشارہ ہوسکتا ہے ۔ گردوں میں اگر کئی رسولیاں ظاہر ہوں اور ان میں اضافی پانی جمع ہو ، تو درد شروع ہوتا ہے۔ کمر میں درد کے علاوہ رات کو کئی بار باتھ روم جانا پڑتا ہے ۔ بعض مریض درد کی شدت سے بستر سے چپک جاتے ہیں۔ بسااوقات رات کے وقت درد انتہائی شدید ہوجاتا ہے۔ مریض درد سے بے قرار ہو جاتا ہے اور وہ کروٹیں بدلتا رہتا ہے۔ اسے فوری ضد درد ادویات کی ضرورت پڑتی ہے ۔

السر کی 10 خاموش علاماتDrSyed Anjum raza. Qualified Homeopathic Physician. 03145386092.السر جسم کے کسی عضو میں زخم پڑجان...
22/09/2018

السر کی 10 خاموش علامات
DrSyed Anjum raza. Qualified Homeopathic Physician. 03145386092.
السر جسم کے کسی عضو میں زخم پڑجانے کو کہتے ہیں اور معدے میں زخم ہونے کی صورت میں اسے السر کا نام دیا جاتا ہے جو اکثر معدے کی پچھلی دیوار پر ہوتا ہے تاہم اگلی سطح پر بھی یہ زخم ہوجاتا ہے۔
یہ پرانا ہونے کے ساتھ بڑھتا چلا جاتا ہے مگر کیا آپ اس کی علامات سے واقف ہیں؟
درحقیقت معدے یا پیٹ میں اس درد کو کسی صورت نظرانداز نہیں کرنا چاہئے خاص طور پر اگر درج ذیل میں دی جانے والی علامات سامنے آئیں۔
شکم کے اوپری حصے میں درد

السر کی ایک سب سے عام علامت شکم کے اوپری حصے میں درد ہونا ہے، شکاگو یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق السر اوپری غذائی نالی میں کسی بھی جگہ ہوسکتا ہے تاہم یہ اکثر لوگ سوچتے ہیں کہ یہ چھوٹی آنت یا معدے میں ہوتا ہے، جہاں درد محسوس ہوتا ہے، یہ درد عام طور پر سینے کی ہڈی اور ناف کے درمیان ہوتا ہے اور جلن، خارش یا طبیعت سست ہونے کا احساس بھی ہوتا ہے۔ یہ کیفیت آغاز میں ہلکی اور قابل برداشت درد کے ساتھ ہوتی ہے مگر السر بڑھنے سے یہ سنگین ہوتی چلی جاتی ہے۔
تحریر جاری ہے‎
متلی

السر کی ایک اور بڑی نشانی دل متلانا ہے، طبی ماہرین کے مطابق السر کے نتیجے میں ہاضمے میں موجود سیال کی کیمیسٹری بدل جاتی ہے جس کے نتیجے میں دل متلانے خصوصاً صبح کے وقت ایسا احساس ہوتا ہے۔ السر ہونے پر خوراک کو ہضم کرنا اکثر مشکل کام ثابت ہوتا ہے۔
مزید پڑھیں : پیٹ پھولنے کے مسئلے سے نجات دلانے میں آسان ٹوٹکے
قے ہونا

اگر السر بڑھنے لگے تو وقت کے ساتھ دل متلانے کا احساس بڑھ کر قے کی شکل اختیار کرلیتا ہے جو اکثر ہونے لگتی ہے، جو کوئی اچھا تجربہ تو نہیں مگر طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسی صورت میں ادویات جیسے اسپرین اور بروفین سے دور رہنا چاہئے کیونکہ ان کے استعمال سے السر کی حالت خراب ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
قے یا فضلے میں خون آنا

واش روم میں فضلے میں خون آنا مختلف طبی مسائل کا باعث ہوسکتا ہے تاہم اگر شکم کے اوپری حصے میں درد کے ساتھ ایسا ہو تو یہ السر کی علامت ہوسکتی ہے، اگر آپ کو بھی اس کی شکایت ہو تو فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہئے۔
کھانے کے بعد اکثر سینے میں جلن

اگر آپ کو اکثر سینے میں جلن کی شکایت رہتی ہے چاہے غذا کچھ بھی ہو تو السر اس کا ذمہ دار ہوسکتا ہے۔ السر کے بیشتر مریضوں کو سینے میں شدید درد کی شکایت رہتی ہے جس کے باعث کھانے کے بعد ہچکیاں آنے لگتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں : معدے میں تیزابیت کی وجہ کیا اور بچنا کیسے ممکن؟
کھانے کی خواہش ختم ہوجانا

السر کے بیشتر مریضوں کے اندر کھانے کی خواہش کم ہوجاتی ہے جس کے نتیجے میں غذا کی مقدار کے استعمال میں کمی آتی ہے جبکہ الٹیاں زیادہ آنے لگتی ہیں اور وزن میں غیر متوقع کمی ہوجاتی ہے۔
بھوک کا عجیب احساس

اگرچہ السر کے باعث کھانے کی خواہش ختم ہوجاتی ہے، مگر کھانے کے بعد ایک سے 3 گھنٹے تک ناف اور سینے کے درمیان درد کو اکثر افراد بھوک سمجھ لیتے ہیں، کچھ کھانے سے ہوسکتا ہے کہ درد میں ریلیف ہو تو یہ معدے میں السر کی علامت ہوسکتی ہے۔
پیٹ پھولنا

اگر آپ کو محسوس ہو کہ پیٹ ضرورت سے پھول گیا ہے تو یہ گیس کے مقابلے میں سنگین معاملہ ہوسکتا ہے بلکہ السر کی ایک نشانی ہوسکتی ہے۔ عام طور پر یہ السر کی ابتدائی علامات میں سے ایک ہوتی ہے خصوصاً ایسے افراد میں جنھیں پیٹ کے درمیانی حصے میں شکایت کی تکلیف بھی ہو۔
کمردرد

ویسے تو السر کو معدے اور چھوٹی آنت سے منسلک کیا جاتا ہے مگر اس کا درد سفر کرکے کمر تک بھی جاسکتا ہے، اگر السر آنتوں کی دیوار تک پھیل جائے تو اس کا درد زیادہ شدید ہوجاتا ہے، دورانیہ بڑھ جاتا ہے اور اس میں کمی مشکل سے آتی ہے۔
ڈکاریں

بدہضمی السر کی چند عام علامات میں سے ایک ہے اور یہ عام طور پر ڈکار کی شکل میں نظر آتی ہے۔ اگر معمول سے زیادہ ڈکاریں آرہی ہوں اور اس کے ساتھ اوپر درج علامات میں سے کوئی نظر آئے تو ڈاکٹر سے رجوع کریں۔

Address

Rawalpindi
051

Telephone

+923145386092

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Homeopathic Treatment For All Critical Diseases. posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on LinkedIn
Share on Pinterest Share on Reddit Share via Email
Share on WhatsApp Share on Instagram Share on Telegram