Dr Maqbool Shah

Dr Maqbool Shah Consultant Physician, CEO Sadaat hospitals, Vice president Rotary Club Faisalabad Downtown.

تمام شہر کو جام و سبو کا مسئلہ ہےمیں برگ خشک ہوں مجھ کو نمو کا مسئلہ ہےادھڑتی خواہشوں کو سی لیا ہے لیکن اب پرانے زخم سے ...
16/11/2025

تمام شہر کو جام و سبو کا مسئلہ ہے
میں برگ خشک ہوں مجھ کو نمو کا مسئلہ ہے

ادھڑتی خواہشوں کو سی لیا ہے لیکن اب
پرانے زخم سے رستے لہو کا مسئلہ ہے

بہت سے بد نظر آنکھیں نہیں ہٹاتے ہیں
مرا نہیں یہ ہر اک خوبرو کا مسئلہ ہے

تمہاری بزم میں ہر رنگ کے مسائل ہیں
کہیں پہ چپ ، تو کہیں گفتگو کا مسئلہ ہے

ہمیں تو اور بھی کارِ جہاں میسر ہیں
ہر ایک شخص سے نفرت عدو کا مسئلہ ہے

یہ کھیل دیکھنا ناکام ہونے والا ہے
تماشہ گاہ میں جو ہاؤ ہو کا مسئلہ ہے

ذرا سا نیند کی چادر میں چھید دیکھا ہے
سو اہلِ خواب کو تب سے رفو کا مسئلہ ہے

کومل جوئیہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

‏اپنے رب کے آگے سچے دل سے‏اپنی کمزوریاں بیان کر دیا کرو‏وہ انہیں تمہاری قوتوں‏میں تبدیل کر دے گا‏بیشک وہ ہر چیز پر قادر ...
13/11/2025

‏اپنے رب کے آگے سچے دل سے
‏اپنی کمزوریاں بیان کر دیا کرو
‏وہ انہیں تمہاری قوتوں
‏میں تبدیل کر دے گا
‏بیشک وہ ہر چیز پر قادر ہے
_______

‏آ کوئی رنگ میں ایسا ترے خاکے میں بھروںلوگ ابہام میں پڑ جائیں کہ یہ میں ہوں کہ تُو
09/11/2025

‏آ کوئی رنگ میں ایسا ترے خاکے میں بھروں
لوگ ابہام میں پڑ جائیں کہ یہ میں ہوں کہ تُو

04/11/2025

َجَعَلْنَا نَوْمَكُمْ سُبَاتًا
اس آیت میں اللہ پاک فرماتے ہیں کہ ہم نے تمہاری نیند کو تمہارے لیے آرام کا ذریعہ بنایا۔
اس آیت کریمہ سے نیند کا مقصد آسانی سے سمجھ آجاتا ہے کہ یہ جسم کو آرام دینے کا ایک ذریعہ ہے لہٰذا اس کو اس حد تک کم کرنا کہ جسم کا ہرج ہو مناسب نہیں اور اس کو بڑھا کر تفریح کا ذریعہ بنا لینا جیسا کہ آج کل چھٹی کے دن بہت زیادہ سونا عام ہے یہ بھی اللہ کے بیان کردا مقصد کے خلاف ہے۔ اس آیت کی حقانیت اگر سائنسی نقطہ نظر سے بیان کی جائے تو ایک لمبی تحریر چاہیے ہو گی بس اتنا بیان کرنا کافی ہے کہ جدید ریسرچ اس آیت کی سچائی پہ گواہی ہے۔
البتہ یہاں ایک چیز بیان کرنا فائدے سے خالی نہیں کہ قرآن کی عملی تفسیر نبی پاک کی ذات ہے اور اگر اللہ کے نبی کی نیند کے بارے غور کیا جائے تو معلوم ہوتا کہ حضرت والا کی نیند کے بارے درج ذیل عادت مبارکہ تھی۔
۱۔ اللہ کے نبی نا بہت زیادہ سوتے تھے اور نہ بہت کم بلکہ آپ کی عادات مبارکہ روزانہ چار سے چھ گھنٹے سونے کی تھی۔
۲۔ اللہ کے نبی ایک بار میں نیند نہیں لیتے تھے بلکہ دو بار میں لیتے تھے ایک عشا کے فورا بعد اور دوسرا ظہر سے پہلے قیلولہ۔ اور جدید ریسرچ ثابت کرتی کہ Biphasic sleep pattern بہتر ہوتا monophasic سے۔
۳۔ اللہ کے نبی کی نیند بہت sound ہوتی تھی اور اس کے لیے آپ کی عادات مبارکہ تھی جن پہ عمل کرنا بہت فائدہ مند ہے۔
پہلا یہ کہ اللہ کے نبی کی نیند کے اوقات مقرر تھے اور آپ روزانہ اسی وقت سونے کا اہتمام کرتے تھے
دوسرا نیند سے پہلے نیند کی تیاری کرتے تھے تاکہ ذہن کو باور ہو جائے کہ اب سونے کا وقت ہوا چاہتا اس کے لیے وضو فرماتے اور دانت صاف کرتے
تیسرا سوتے وقت ذکر اذکار کرتے کرتے سوتے کہ اس سے دماغ آہستہ آہستہ اچھی نیند کی طرف چلا جاتا
چوتھا کہ روشنی میں نہیں سوتے تھے بلکہ حکم دیتے تھے کہ دئیے بجھا دو کہ اس سے بھی نیند کی کوالٹی اچھی ہو جاتی
پانچواں سونے سے پہلے یا سوتے وقت ایسا کوئی کام نہیں کرتے تھے کہ جس سے دماغ اور سوچ میں تیزی آئے اس کا ثبوت یہ ہے کہ عشا کے بعد کام تو کیا بات کرنے کو بھی نا پسندفرماتے تھے
چھٹا دائیں کروٹ سوتے تھے کہ اس سے جسم اور دل پہ پریشر کم آتا اور نیند کی کوالٹی اچھی ہو جاتی
ساتویں اللہ کے نبی کا بستر سادہ مگر صاف ستھرا اور ترتیب والا ہوتا تھا۔یعنی sleep environment صاف ستھرا ہوتا تھا۔
۴۔ اللہ کے نبی نیند جیسی انسانی جسم کی ضرورت کے کام کو عبادت بنا لیتے تھے کہ ذکر اور تلاوت کرتے سوتے اور اٹھ کر بھی دعا اور ذکر فرماتے۔
اللہ پاک ہمیں بھی اللہ کے نبی کی سنت کی اتباع نصیب فرمائے آمین
تحریر ڈاکٹر سید مقبول حسین۔

29/10/2025
"اور ایک ہم ہیں،  شکارِ ہزار اندیشہ تمام کرب و تجسس،  تمام وہم و گمانزباں پہ قفلِ طلسماتِ روز و شب ڈالےٰخیال و خواب کی آ...
29/10/2025

"اور ایک ہم ہیں، شکارِ ہزار اندیشہ
تمام کرب و تجسس، تمام وہم و گمان
زباں پہ قفلِ طلسماتِ روز و شب ڈالے
ٰخیال و خواب کی آہٹ سے چونکنے والے

کوئی رفیقِ جنوں، کوئی ساعتِ مرہم
روایتاً بھی نہ دیکھے ہماری سمت کہ ہم
ہزار مصلحتوں کو شمار کرتے ہیں
تب ایک زخمِ جگر اختیار کرتے ہیں

مصطفیٰ زیدی

شام بخیر ۔۔۔🌸

‎اے خوئے اجتناب تعلق کہیں تو رکھ ‎بے چارگی میں پوچھنے والا کوئی تو ھو ‎کشور ناہید
23/10/2025

‎اے خوئے اجتناب تعلق کہیں تو رکھ
‎بے چارگی میں پوچھنے والا کوئی تو ھو

‎کشور ناہید

17/10/2025

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

فرد واحد بحثیت امت

چاروں رات کی گھور تاریکی میں جمع ہوئے اور یہ عہد کیا کہ وہ اسی پرانے دین پر جمے رہیں گے جو ان کے آباء کا تھا۔ ان دنوں مکہ مکرمہ میں سورج پر تپش تو ضرور تھا پر ظلمت کے اندھیروں سے گہنایا ہوا تھا۔ ایسے میں ان چار ہم خیالوں نے اس عہد کو تازگی بخشی کہ وہ " دین حنیف" کے پابند رہیں گے۔ اسی دین کے جو حضرت ابرہیم علیہ السلام لیکر آئے تھے مگر اب اس کی روح اور ظاہری شکل بری طرح مسخ ہوچکی تھی۔
بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قریب تین سو سال پہلے عمرو بن لحی خزاعی جو ایک بدو سردار تھا، اس نے شام کے سفر کے دوران بت پرستی سے آشنا ہوکر مکہ میں بت پرستی کی داغ بیل ڈالی اور دین ابراہیمی کو بدل ڈالا۔ اس کی بدعت سے قبل عرب بالعموم حنیفی کے پیرو تھے۔
حنیفیت کے معنی بت پرستی سے انحراف کیوں کہ حنف کا مطلب انحراف ہے ۔
الحنف، گمراہی سے استقامت کی طرف مائل ہونا جبکہ جنف، استقامت سے گمراہی کی طرف لوٹنا۔
سورہ آل عمران کی آیت مبارکہ 67 کی تفسیر میں حضرت امام جعفر صادق فرماتے ہیں
ابراہیم علیہ السلام ایک مخلص شخص تھے کہ کسی صورت میں بتوں کی پرستش نہیں کی، اس وجہ سے قرآن شریف میں ان کی راہ کو راہِ حنیف کہ کر اعلان کیا گیا ہے۔
"ابراہیم نہ تو یہودی تھے، نہ نصرانی بلکہ وہ ہر باطل سے اعراض کرنے والے مسلم تھے اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھے۔"

وہ چار روشن باطن جو دین حنیف کے پیرو کار تھے ان کے اسماء گرامی ہیں
1 ورقہ بن نوفل اسدی قریشی
2 عثمان بن الحویرث اسدی قریشی
3 عبداللہ بن جحش اسدی خزیمی، ان کی والدہ امیمہ بنت عبد المطلب ہاشمی تھیں۔
4 زید بن عمرو بن نفیل عدوی قریشی۔
ان چاروں نے بہ اتفاق دین ابراہیمی کو اس کی اصل شکل میں تلاش کرنے اور اختیار کرنے کا عزم کیا۔ کچھ مدت وہ حنیفیت پر قائم رہے پھر باقی تینوں نصرانی بن گئے۔ حضرت ورقہ بن نوفل اسدی کو بعثت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصدیق کا موقعہ ملا اور ان کو اسلام کی دولت ملی۔ یہ دولت عبداللہ بن جحش کو بھی مکہ مکرّمہ میں نصیب ہوئی مگر حبشہ جا کر انہوں نے کھو دی اور بطور نصرانی حبشہ میں وفات پائی۔ عثمان بن حویرث اسدی بھی شام میں بطور نصرانی مرے۔ صرف حضرت زید بن عمرو بن نفیل "امت مسلمہ واحدہ" اور حنیف کامل رہے۔

حضرت زید بن عمرو بن نفیل بن عبد العزی بن رباح بن عبداللہ بن قرط بن رزاح بن عدی بن کعب بن لؤی القریشی العدوی و کان الخطاب۔
حضرت زید بن عمرو کی اہلیہ حفصہ بنت الحضرمی تھیں، ایک بیٹا حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ایک ہی بیٹی عاتکہ بنت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہا۔ عاتکہ بنت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بلند بختی دیکھئے کہ وہ دین اسلام کے پانچ بہترین شہداء کی اہلیہ رہیں۔
زید بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ
عبداللہ بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ
عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ
زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حسن بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
ان پانچوں صحابہ سے انہیں کوئی اولاد نہیں تھی۔

حضرت اسما بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ زید بن عمرو کعبہ کی جانب ٹیک لگائے قریش سے فرمایا کرتے تھے "اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں زید بن عمرو کی جان ہے، میرے علاوہ تم میں سے کوئی اور دین ابراہیمی پر باقی نہیں"۔
پھر فرمایا کہ" اے اللہ! اگر میں جانتا کہ تجھ کو کون سا طریقہ زیادہ پسند ہے تو میں اسی کے مطابق تیری عبادت کرتا لیکن میں اسے نہیں جانتا"
پھر وہ اپنے پہلو پر سجدہ کرتے۔
حضرت زید بن عمرو وہ جلیل القدر شخصیت، جو بتوں کو پوجنے سے منکر کہ وہ خدائے واحد کے پرستار تھے اور نذر نیاز کے چڑھاوے اور ذبیحہ پر نفرین بھیجتے تھے ۔
اسما بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ زید بن عمرو زندہ دفنائی جانے والی بچیوں کو بچایا کرتے تھے۔ آدھی رات کو جب باپ اپنی زندہ بیٹی کو مارے شرمندگی کے دفنانے جاتا تو یہ اس کی منت کرتے کہ اسے مت مارو، اس کی جان نہ لو بلکہ مجھے دے دو میں اسے پال لوں گا اور میں اس کے تمام اخراجات کا ذمہ لیتا ہوں۔جب وہ بچی بڑی ہو جاتی تو اسے اس کے باپ کے پاس لے جاتے اور کہتے کہ اب اگر تم چاہو تو میں تمہاری لڑکی تمھارے حوالے کر سکتا ہوں اور اگر تمہاری مرضی ہو تو اس کے سب کام میں پورے کروں گا۔ زید بن عمرو نے لاتعداد بچیوں کی جان بچائی تھی۔

جب زید اپنی روش سے باز نہ آئے اور ببانگ دہل مکہ والوں کی بت پرستی پر نکتہ چیں تو ان کی باتوں کے سبب اہل مکہ شدید برگشتہ ہوئے اور ان کے چچا خطاب نے انہیں پہلے زبانی منع کیا، پھر سر عام ان کے منہ پر تھوک دیا پر دین ابراہیمی پر زید بن عمرو کی استقامت نے انہیں اس درجہ ناراض کیا کہ انہوں نے مکہ کے شہدوں کو اس بات پر مامور کر دیا کہ زید بن عمرو کو جہاں بھی پائیں وہیں بری طرح زد و کوب کریں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زید بن عمرو بن نفیل سے وادی بلدح کے نشیبی علاقے میں ملاقات ہوئی،
یہ قصہ نزول وحی سے پہلے کا ہے۔ وہاں ایک دستر خوان بچھایا گیا، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھانے سے انکار کیا اور زید بن عمرو بن نفیل نے بھی کھانے سے انکار کیا اور اپنے میزبانوں سے کہا کہ اپنے بتوں کے نام پر تم جو ذبیحہ کرتے ہو میں نہیں کھاتا۔ میں تو صرف وہی ذبیحہ کھاتا ہوں جس پر صرف اللہ کا نام لیا گیا ہو۔ زید بن عمرو بن نفیل قریش پر ان کے ذبیحے کے بارے میں عیب لگایا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ بکری کو پیدا تو کیا اللہ تعالیٰ نے، اسی نے اس کے لیے آسمان سے پانی برسایا، اسی نے اس کے لیے زمین سے گھاس اگائی، پھر تم لوگ اللہ کے سوا دوسروں کے ناموں پر اسے ذبح کرتے ہو۔
ایک مرتبہ ان سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا، یا اخی! مکہ کے لوگ آپ سے اس قدر برگشتہ کیوں ہیں؟
حضرت زید بن عمرو نے جواب دیا اس لیے کہ میں ان کے بتوں کو نہیں مانتا اور ان سے برات کا اظہار کرتا ہوں اور میں ان کی بتوں کی نظر نیاز نہیں کھاتا۔
ان کی وحدانیت کے پرچار پر اہل مکہ ان کی جان کے درپے ہوئے اور مکہ کی سرزمین ان پر تنگ کر دی گئ۔ وہ تلاش دین حنیف میں مکہ سے نکل گئے اور راہبوں اور احباروں سے پوچھتے پوچھتے موصل و جزیرہ کا چکر لگاتے ہوئے شام پہنچے تاآنکہ وہ ارض بلقاء میں میفعہ میں ایک راہب سے جا ملے جو نصرانیوں کا سب سے بڑا عالم سمجھا جاتا تھا۔ اس نے انہیں بتایا کہ ان کے اپنے وطن میں ایک نبی دین ابراہیم حنیفیت کے ساتھ مبعوث ہو گا۔ یہ سنتے ہی وہ فوراً واپس پلٹے۔ وہ مکہ کے قریب تھے کہ وادی لخم میں ڈاکوؤں نے ان کو دھر لیا اور مال و اسباب لوٹنے کے باوجود درپئے جان ہوئے۔ مرنے سے پہلے زید بن عمرو نے نہایت دلسوزی سے رب کو پکارا اور کہا
اے اللہ ! اگر تو نے مجھے اپنے رسول کی اتباع سے روک دیا ہے تو یہ تیرا فیصلہ ہے اور تو بہتر جانتا ہے ،مگر میرے رب میرے بیٹے سعید کو اس فضیلت سے محروم نہ رکھنا۔
زید بن عمرو کا قتل بعثت نبوی سے فقط پانچ سال قبل یعنی 605 ق۔ھ میں ہوا۔
اللہ تعالیٰ نے ان کی آخری دعا کو ایسی عزت بخشی کہ ان کے بیٹے سعید بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عشرہ مبشرہ میں جگہ دے دی۔ یہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بہن فاطمہ کے شوہر تھے، وہی خوش نصیب جوڑا جس کی سورہ طحہٰ کی تلاوت سن کر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسلمان ہوئے تھے۔
عامر بن ربیعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، زید بن عمرو کے دوست تھے اور ایک دن زید بن عمرو نے عامر بن ربیعہ سے کہا کہ " میں نبی کا انتظار کر رہا ہوں جو اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ہو گا۔ اگر میں زندہ رہا تو میں ان پر ایمان لاؤں گا، مگر میرا گمان ہے کہ اس وقت تک میں نہیں رہوں گا۔ اگر تم نے ان کو پایا تو ان کی تعلیمات کو قبول کرنا اور ان کے حضور میرا سلام پیش کرنا۔"
عامر بن ربیعہ نے نبوت کے چوتھے سال اسلام قبول کیا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام قصہ سنانے کے بعد زید بن عمرو کا سلام پیش کیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے زید کو جنت کے دو درجے عطا کیے ہیں۔
حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دربار رسالت میں حاضری دی اور حضرت سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ "یا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ میرے باپ سے اچھی طرح واقف ہیں، کیا ہم ان کے لیے استغفار کر سکتے ہیں؟"
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ "بالکل استغفار کرو کہ قیامت کے دن زید بن عمرو بن نفیل بطور امت کے کھڑے کیے جائیں گے۔"
"وہ میرے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے درمیان اکیلے ایک امت کی حثیت سے اٹھائے جائیں گے۔"

سوچئیے بھلا کیا منظر ہو گا جب ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء اپنی اپنی امتوں کے ساتھ کھڑے ہونگے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درمیان حضرت زید اپنی اکیلی ذات میں بطور امت کھڑے ہوں گے۔
یہ فضیلت انہیں تلاش حق کے باعث ملی۔ اپنی ساری زندگی انہوں نے خالص اللہ کی طلب اور اس کی خوشنودی میں لگا دی، پل بھر کو غیر اللہ کی پرستش نہیں کی.
وہ دین ابراہیم کی تلاش میں تھے سو وہ حنیف رہے اور انعام میں اللہ تعالیٰ ان کو کیسی شان اور سرفرازی عطاء کی۔
حضرت زید بن عمرو بن نفیل اپنی ذات میں امت، وہ واحد بشر جن کو یہ اعزاز خاص عطاء ہوا۔
اللہ تعالیٰ ہم سبھوں کو اپنی خالص بندگی کی توفیق عطاء فرمائے آمین ثم آمین۔

حوالاجات
بخاری 1/244 کتاب مناقب الانصار باب حدیث زید بن عمرو بن نفیل
بخاری شریف حدیث نمبر 3826
ابن ھشام 1/82 شاہ ولی اللہ دہلوی
البدایہ والنہایہ، ابن کثیر 2/262
لیکچر شیخ عمر سلیمان۔

شاہین کمال
کیلگری
شاہین کمال کی وال سے بہترین تحریر جمعہ کے دن کی مناسبت سے

نہ حریف جاں نہ شریک غم شب انتظار کوئی تو ہو کسے بزم شوق میں لائیں ہم دل بے قرار کوئی تو ہو کسے زندگی ہے عزیز اب کسے آرزو...
15/10/2025

نہ حریف جاں نہ شریک غم شب انتظار کوئی تو ہو
کسے بزم شوق میں لائیں ہم دل بے قرار کوئی تو ہو

کسے زندگی ہے عزیز اب کسے آرزوئے شب طرب
مگر اے نگار وفا طلب ترا اعتبار کوئی تو ہو

کہیں تار دامن گل ملے تو یہ مان لیں کہ چمن کھلے
کہ نشان فصل بہار کا سر شاخسار کوئی تو ہو

یہ اداس اداس سے بام و در یہ اجاڑ اجاڑ سی رہگزر
چلو ہم نہیں نہ سہی مگر سر کوئے یار کوئی تو ہو

یہ سکون جاں کی گھڑی ڈھلے تو چراغ دل ہی نہ بجھ چلے
وہ بلا سے ہو غم عشق یا غم روزگار کوئی تو ہو

سر مقتل شب آرزو رہے کچھ تو عشق کی آبرو
جو نہیں عدو تو فرازؔ تو کہ نصیب دار کوئی تو ہو

احمد فرازؔ

ساہنواں وچ پرو وے ماہیمیں تیری خشبو وے ماہیتکنا، کہیڑا بوہتا سوہنا؟چن دے نال کھلُو وے ماہی اج میں تیرا سُفنا بننااکھ دا ...
15/10/2025

ساہنواں وچ پرو وے ماہی
میں تیری خشبو وے ماہی
تکنا، کہیڑا بوہتا سوہنا؟
چن دے نال کھلُو وے ماہی
اج میں تیرا سُفنا بننا
اکھ دا بوہا ٹوہ وے ماہی

بڑی سی عمر ہوئی دودھیا سے بال ہوئےوہ اتنا پیارا ہوا جتنے ماہ و سال ہوئےکئی جواب دیئے اور کئی سوال ہوئےنہیں ‌ہوئے وہ نہیں...
12/10/2025

بڑی سی عمر ہوئی دودھیا سے بال ہوئے
وہ اتنا پیارا ہوا جتنے ماہ و سال ہوئے

کئی جواب دیئے اور کئی سوال ہوئے
نہیں ‌ہوئے وہ نہیں آشنائے حال ہوئے

اسے بھی وقت کی مٹی نے گرد پوش کیا
لباس جس کے زمانے میں بے مثال ہوئے

مرے نصیب نے گرد آشنا اسے بھی کیا
جو پھول اس نے دیئے وہ بھی پا ئمال ہوئے

نہیں‌کہ ہاتھ کسی نے کبھی نہیں تھاما
پر ایسے لوگ زمانے میں‌خال خال ہوئے

کوئی کمال نہیں تھا ہماری قسمت میں
ہم اس لئے تو زمانے میں لازوال ہوئے

عبدالحمید عدم

پیر نصیر الدین شاہ نصیرمری زیست پر مسرت کبھی تھی نہ ہے نہ ہوگیکوئی بہتری کی صورت کبھی تھی نہ ہے نہ ہوگیمجھے حسن نے ستایا...
09/10/2025

پیر نصیر الدین شاہ نصیر

مری زیست پر مسرت کبھی تھی نہ ہے نہ ہوگی

کوئی بہتری کی صورت کبھی تھی نہ ہے نہ ہوگی

مجھے حسن نے ستایا، مجھے عشق نے مٹایا

کسی اور کی یہ حالت کبھی تھی نہ ہے نہ ہوگی

وہ جو بے رخی کبھی تھی وہی بے رخی ہے اب تک

مرے حال پر عنایت کبھی تھی نہ ہے نہ ہوگی

وہ جو حکم دیں بجا ہے، مرا ہر سخن خطا ہے

انہیں میری رو رعایت کبھی تھی نہ ہے نہ ہوگی

جو ہے گردشوں نے گھیرا، تو نصیب ہے وہ میرا

مجھے آپ سے شکایت کبھی تھی نہ ہے نہ ہوگی

ترے در سے بھی نباہے، در غیر کو بھی چاہے

مرے سر کو یہ اجازت کبھی تھی نہ ہے نہ ہوگی

ترا نام تک بھلا دوں، تری یاد تک مٹا دوں

مجھے اس طرح کی جرأت کبھی تھی نہ ہے نہ ہوگی

میں یہ جانتے ہوئے بھی، تری انجمن میں آیا

کہ تجھے مری ضرورت کبھی تھی نہ ہے نہ ہوگی

تو اگر نظر ملائے، مرا دم نکل ہی جائے

تجھے دیکھنے کی ہمت کبھی تھی نہ ہے نہ ہوگی

جو گلہ کیا ہے تم سے، تو سمجھ کے تم کو اپنا

مجھے غیر سے شکایت کبھی تھی نہ ہے نہ ہوگی

ترا حسن ہے یگانہ، ترے ساتھ ہے زمانہ

مرے ساتھ میری قسمت کبھی تھی نہ ہے نہ ہوگی

یہ کرم ہے دوستوں کا، وہ جو کہہ رہے ہیں سب سے

کہ نصیرؔ پر عنایت کبھی تھی نہ ہے نہ ہوگی

Address

Sadaat Hospital Subhan Garden
Toba Tek Singh
36051

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Dr Maqbool Shah posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Practice

Send a message to Dr Maqbool Shah:

Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on LinkedIn
Share on Pinterest Share on Reddit Share via Email
Share on WhatsApp Share on Instagram Share on Telegram

Category