07/11/2025
سورۃ الرحمٰن کی تفسیر اور مرکزی خیال
(عام فہم انداز میں – از ڈاکٹر نعمان رفیع راجپوت)
سورۃ الرحمٰن قرآنِ پاک کی نہایت دلکش اور روح پرور سورت ہے۔ یہ سورت مدنی بھی کہی گئی ہے اور مکی بھی، مگر زیادہ تر مفسرین کے نزدیک یہ مکی سورت ہے۔ اس کا نام "الرحمٰن" اللہ تعالیٰ کے ایک عظیم صفاتی نام پر رکھا گیا ہے، جس کا مطلب ہے "نہایت مہربان، بے حد رحم کرنے والا"۔
اس سورت کا مرکزی موضوع اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شمار اور انسانوں و جنات کو اُن پر غور و فکر کی دعوت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بار بار ایک آیت دہرائی ہے:
فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ
یعنی “پھر تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟”
یہ آیت اس سورت میں 31 بار دہرائی گئی ہے تاکہ انسان کے دل میں شکرگزاری، عاجزی اور اللہ کی عظمت کا احساس جاگ اٹھے۔
سورۃ الرحمٰن کے آغاز میں اللہ تعالیٰ نے اپنی صفتِ رحمت کا ذکر کیا اور بتایا کہ قرآن کا نزول خود اللہ کی سب سے بڑی نعمت ہے۔
الرَّحْمٰنُ، عَلَّمَ الْقُرْآنَ، خَلَقَ الْإِنسَانَ، عَلَّمَهُ الْبَيَانَ۔
یعنی “رحمٰن (اللہ) نے قرآن سکھایا، انسان کو پیدا کیا، اور اسے بولنا سکھایا۔”
پھر زمین و آسمان، سورج و چاند، پھل، درخت، پانی، سمندر، موتی اور مرجان جیسی بے شمار نعمتوں کا ذکر کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ یہ سب انسان کی خدمت میں ہیں، مگر افسوس انسان اکثر ان پر غور نہیں کرتا۔
اس سورت میں قیامت کا منظر بھی بیان ہوا ہے، جہاں سب کچھ فنا ہوجائے گا، اور صرف اللہ رب العالمین کی ذات باقی رہے گی:
كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ، وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ۔
پھر نیک لوگوں اور گناہگاروں کے انجام کا موازنہ کیا گیا ہے۔ نیک لوگوں کے لیے جنت کے حسین مناظر، چشمے، درخت، پاکیزہ بیویاں اور ابدی سکون کا ذکر ہے۔ جب کہ گناہگاروں کے لیے سخت عذاب، آگ اور ذلت آمیز انجام بیان ہوا ہے۔
اس سورت میں اللہ تعالیٰ کی رحمت اور عدل دونوں پہلوؤں کو نمایاں کیا گیا ہے۔ رحمت اُن کے لیے ہے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کیے، اور عدل اُن کے لیے جو نافرمانی میں ڈٹے رہے۔
مرکزی پیغام:
سورۃ الرحمٰن ہمیں سکھاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں کو پہچانو، ان پر شکر ادا کرو، اور اس کی نافرمانی سے بچو۔ قرآن اللہ کی سب سے بڑی نعمت ہے، اسی کے ذریعے انسان اپنی اصل پہچان اور مقصدِ زندگی سمجھتا ہے۔
آخر میں سبق یہ ہے:
اگر انسان دنیا کی نعمتوں کو پہچان کر ان کا صحیح استعمال کرے، اللہ کے حکم کے مطابق زندگی گزارے، تو وہ دنیا و آخرت دونوں میں کامیاب ہوگا۔ لیکن جو ناشکرا اور نافرمان ہو، وہ اپنے رب کی رحمت سے محروم رہ جائے گا۔
یہ سورت ہمیں بار بار جھنجھوڑتی ہے:
“فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ”
یعنی “اے انسانو اور جنو! اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟”
یہ آیت دراصل شکرگزاری، ایمان، اور محبتِ الٰہی کی دعوت ہے۔
اللہ پاک کمی بیشی معاف فرمائے آمین
طالب دعا
ڈاکٹر نعمان رفیع راجپوت