Dr Nauman Rafi Rajput Official

Dr Nauman Rafi Rajput Official Dr Nauman Rafi Rajput Is ex Assistant Professor of Medicine MBBS\MD ,MCPS(CPSP).

MD(Medicine KEMU) .MPH( GCUF).Dip Dibe(BIDE) CHPE( FMU).Dip Dibe( IDF)
Certificate in AI (HSA)
and Medical Specialist & """ Value Creator""

13/10/2025

ایک اچھا ڈاکٹر – سکون و ضبط کا پیکر

ڈاکٹر کا پیشہ انسانیت کی خدمت کا عظیم پیشہ ہے۔ ایک کامیاب ڈاکٹر وہ ہوتا ہے جو صرف جسمانی بیماری نہیں بلکہ مریض کے دل و دماغ کو بھی تسلی دے۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب ڈاکٹر خود پُرسکون، حوصلہ مند اور متوازن ہو۔ اگر وہ گھبراہٹ، خوف یا جذبات میں بہہ جائے تو نہ صحیح فیصلہ کر سکتا ہے اور نہ مؤثر علاج کر پاتا ہے۔

مریض جب تکلیف میں ہوتا ہے تو وہ ڈاکٹر سے امید اور رہنمائی چاہتا ہے۔ ایسے وقت میں ڈاکٹر کا پرسکون رویہ مریض کے لیے اطمینان کا باعث بنتا ہے۔ ایک پُرسکون ڈاکٹر بہتر تشخیص کرتا ہے اور اپنے اعتماد سے مریض کے دل میں حوصلہ پیدا کرتا ہے۔ یہی اعتماد علاج کا سب سے مضبوط سہارا ہوتا ہے۔

ایمرجنسی کی صورتحال میں ڈاکٹر کا ضبط سب سے زیادہ آزمایا جاتا ہے۔ ایسے وقت میں یہ بھی ضروری ہے کہ مریض یا اس کے اہلِ خانہ کی جلد بازی یا بے جا دباؤ ڈاکٹر کے فیصلوں پر اثر نہ ڈالے۔ ڈاکٹر کو ہمیشہ اپنے پیشہ ورانہ اصولوں پر قائم رہنا چاہیے تاکہ وہ بہترین علاج فراہم کر سکے۔

مختصراً، ایک اچھا ڈاکٹر وہی ہے جو اپنی مہارت، صبر اور سکون سے کام لے اور کسی دباؤ میں آ کر اپنے فرض سے انحراف نہ کرے
ڈاکٹر نعمان رفیع راجپوت

13/10/2025

Lecture for students of NRE on Sickel Cell Anemia

📖 “میں اور کتاب — Emotional Intelligence”از ڈاکٹر نعمان رفیع راجپوتکچھ عرصہ پہلے میں نے ایک ایسی کتاب پڑھی جس نے میری سو...
13/10/2025

📖 “میں اور کتاب — Emotional Intelligence”

از ڈاکٹر نعمان رفیع راجپوت

کچھ عرصہ پہلے میں نے ایک ایسی کتاب پڑھی جس نے میری سوچ، میرا رویہ اور میرا زندگی دیکھنے کا انداز بدل دیا۔ اس کا نام ہے “Emotional Intelligence”، جسے معروف امریکی ماہرِ نفسیات Daniel Goleman نے لکھا۔ گول مین ایک محقق، سائنس جرنلسٹ اور ماہرِ انسانی رویات ہیں۔ انہوں نے برسوں انسانی جذبات، تعلقات، اور ذہنی کارکردگی پر تحقیق کی۔ ان کا ماننا ہے کہ زندگی میں کامیابی کا انحصار صرف IQ (ذہنی قابلیت) پر نہیں بلکہ EQ (جذباتی ذہانت) پر بھی اتنا ہی، بلکہ کہیں زیادہ ہے۔



جب میں نے یہ کتاب پڑھی تو مجھے احساس ہوا کہ ہمارے معاشرے میں لوگ زیادہ تر ذہانت کو نمبروں اور ڈگریوں سے جوڑتے ہیں، مگر کامیابی، تعلقات اور سکون حاصل کرنے کے لیے جذباتی ذہانت زیادہ ضروری ہے۔ گول مین نے وضاحت کی کہ اگر ہم اپنے جذبات کو پہچاننا، سمجھنا، اور انہیں درست سمت میں استعمال کرنا سیکھ جائیں، تو ہم بہتر فیصلے کر سکتے ہیں اور دوسروں کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کر سکتے ہیں۔

کتاب میں جذباتی ذہانت کے پانچ بنیادی اجزاء بیان کیے گئے ہیں:
1. خود آگاہی (Self-awareness): اپنے جذبات اور ان کے اثرات کو پہچاننا۔
2. خود نظم و ضبط (Self-regulation): غصے، خوف یا دباؤ میں اپنے رویے کو قابو میں رکھنا۔
3. حوصلہ افزائی (Motivation): بیرونی انعام کے بجائے اندرونی جذبے سے کام کرنے کی صلاحیت۔
4. ہمدردی (Empathy): دوسروں کے احساسات کو سمجھنا اور ان کا لحاظ کرنا۔
5. سماجی مہارتیں (Social Skills): مؤثر ابلاغ اور تعلقات قائم کرنے کی قابلیت۔



میں نے جب ان اصولوں کو اپنی روزمرہ زندگی میں آزمایا، تو غیر معمولی تبدیلیاں محسوس کیں۔
پہلے جب کوئی تنقید کرتا تو میں فوراً دفاعی رویہ اختیار کر لیتا، لیکن اب میں خود آگاہی کے ساتھ پہلے اپنے احساسات کو پہچانتا ہوں، گہری سانس لیتا ہوں، اور پرسکون انداز میں جواب دیتا ہوں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ گفتگو بہتر ہوئی، تعلقات مضبوط ہوئے، اور غلط فہمیاں کم ہوئیں۔

اسی طرح ہمدردی کا اصول میری پیشہ ورانہ زندگی میں بہت کارآمد ثابت ہوا۔ جب کوئی ساتھی کسی دباؤ یا مشکل میں ہوتا ہے تو میں فوری مشورہ دینے کے بجائے اس کے احساسات کو سننے اور سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ یہ چھوٹا سا قدم لوگوں کے دلوں میں گہرا اثر چھوڑتا ہے اور اعتماد بڑھاتا ہے۔



کتاب میں ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ گول مین دماغ کے اس حصے یعنی امیگڈالا (Amygdala) کا ذکر کرتے ہیں جو ہمارے فوری جذباتی ردعمل کا ذمہ دار ہے۔ اگر ہم اپنی سوچ کو تربیت دیں، تو ہم دماغ کے اس حصے کو قابو میں رکھ کر بہتر فیصلے کر سکتے ہیں۔ میں نے اپنی زندگی میں یہ دیکھا کہ جب بھی میں کسی دباؤ یا غصے کے لمحے میں رک کر سوچتا ہوں، تو نتائج ہمیشہ مثبت ہوتے ہیں۔



میں اکثر اپنے طلبا، ساتھیوں اور دوستوں کو مشورہ دیتا ہوں کہ اگر وہ حقیقی کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں — چاہے وہ تعلیمی میدان ہو، پیشہ ورانہ زندگی ہو یا ذاتی تعلقات — تو انہیں “Emotional Intelligence” ضرور پڑھنی چاہیے۔ یہ کتاب ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ ذہانت صرف علم حاصل کرنے کا نام نہیں بلکہ اپنے اور دوسروں کے جذبات کو سمجھنے اور سنبھالنے کا فن بھی ہے۔



اختتامیہ:
Daniel Goleman کی یہ کتاب میرے لیے صرف ایک مطالعہ نہیں بلکہ ایک زندگی کا سبق ہے۔ میں نے اس سے یہ سیکھا کہ اپنے جذبات پر قابو پانا کمزوری نہیں بلکہ سب سے بڑی طاقت ہے۔
اب میں روز کوشش کرتا ہوں کہ میں جذبات کے تابع نہ رہوں، بلکہ جذبات کو اپنے تابع رکھوں — کیونکہ یہی وہ راستہ ہے جو انسان کو ایک بہتر لیڈر، بہتر انسان، اور زیادہ پُرسکون شخصیت بناتا ہے۔

ڈاکٹر نعمان رفیع راجپوت

نظامی اسٹریٹ، باکو — تاریخ اور احساس کا امتزاجنظامی اسٹریٹ (Nizami Street) آذربائیجان کے دارالحکومت باکو کی سب سے معروف ...
12/10/2025

نظامی اسٹریٹ، باکو — تاریخ اور احساس کا امتزاج

نظامی اسٹریٹ (Nizami Street) آذربائیجان کے دارالحکومت باکو کی سب سے معروف اور تاریخی شاہراہ ہے۔ یہ سڑک نہ صرف اپنے خوبصورت طرزِ تعمیر کے باعث مشہور ہے بلکہ یہاں کی فضا میں تاریخ، ثقافت اور رومان کا ایسا امتزاج محسوس ہوتا ہے جو ہر آنے والے کو مسحور کر دیتا ہے۔ اس شاہراہ کا نام آذربائیجان کے عظیم شاعر نظامی گنجوی کے نام پر رکھا گیا ہے، جن کی شاعری عشق، علم اور انسانیت کا پیغام دیتی ہے۔

یہ سڑک تقریباً تین سے ساڑھے تین کلومیٹر تک پھیلی ہوئی ہے، جو Fountains Square سے شروع ہو کر باکو کے مختلف مرکزی حصوں سے گزرتی ہے۔ 1900 کی دہائی کے آغاز میں، جب باکو تیل کی دولت کی وجہ سے دنیا کے امیر ترین شہروں میں شمار ہونے لگا، تو اسی دور میں اس سڑک پر یورپی طرز کی شاندار عمارات تعمیر کی گئیں۔ آج بھی ان عمارات میں کلاسیکی فنِ تعمیر کی جھلک اور جدید زندگی کی رونق ایک ساتھ دیکھی جا سکتی ہے۔

روسی سلطنت کے دور میں اس کا نام Torgovaya Street تھا، کیونکہ یہاں تجارتی سرگرمیاں اپنے عروج پر تھیں۔ سوویت دور میں بھی یہ سڑک باکو کی سماجی اور ثقافتی زندگی کا مرکز رہی۔ آج یہ مکمل طور پر پیدل چلنے والوں کے لیے مخصوص ہے، اور دن رات سیاحوں، مقامی لوگوں، اور فنونِ لطیفہ کے شائقین سے بھری رہتی ہے۔ یہاں کی کیفے ثقافت، دکانوں کی روشنی، اور موسیقی کی نرم دھنیں اس جگہ کو خوابناک بنا دیتی ہیں۔

یہاں واقع نظامی میوزیم آف لٹریچر، فاؤنٹین اسکوائر، اور قدیم عمارات اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ سڑک صرف ایک تجارتی مرکز نہیں بلکہ ایک تاریخی و ثقافتی علامت بھی ہے۔



نظامی گنجوی — عشق و حکمت کے شاعر

نظامی گنجوی (1141–1209) فارسی ادب کے عظیم شاعر اور مفکر تھے۔ ان کا اصل نام جمال الدین ابو محمد الیاس بن یوسف بن زکی بن معید نظامی گنجوی تھا۔ وہ شہر گنجه (موجودہ آذربائیجان) میں پیدا ہوئے۔ نظامی نے اپنی شاعری میں اخلاق، عشق، فلسفہ اور روحانیت کو خوبصورتی سے جوڑا۔

ان کی پانچ مشہور مثنویات کو “خمسه” کہا جاتا ہے:
1. خزینۂ اسرار — اخلاقی و روحانی مضامین
2. خسرو و شیرین — محبت و قربانی کی داستان
3. لیلیٰ و مجنون — ازلی عشق کی علامت
4. ہفت پیکر — حسن و حکمت کا امتزاج
5. اسکندر نامہ — علم، حکمرانی اور انسانیت پر مبنی

نظامی کی شاعری نے فارسی، آذری، ترکی اور اردو ادب پر گہرا اثر ڈالا۔ ان کی تعلیمات میں محبت، عدل، علم اور خواتین کے احترام کو بنیادی مقام حاصل ہے۔



میرا تجربہ

مجھے خود بھی نظامی اسٹریٹ دیکھنے کا موقع ملا — اور یہ تجربہ ناقابلِ فراموش تھا۔ جب میں اس تاریخی سڑک پر چلا، تو ایسا محسوس ہوا جیسے فضا میں رومان، محبت اور تاریخ گھلی ہوئی ہو۔ عمارات کی خوبصورتی، سڑک کی روشنی، اور ہوا میں بہتی موسیقی نے ایسا تاثر دیا جیسے واقعی میں نظامی گنجوی کی شاعری زندہ ہو۔

میں نے وہاں ایک لمحے کے لیے رُک کر سوچا کہ شاید انہی گلیوں میں کبھی کوئی شاعر اپنے خوابوں کے عشق کو لفظوں میں ڈھال رہا ہوگا۔ اس لمحے فضا میں وہی رومانوی احساس موجود تھا جس کا ذکر نظامی اپنی مثنویوں میں کرتے ہیں — اور جیسا کہ میری تصویر میں دکھایا گیا ہے،
واقعی ایسا لگا کہ محبت آج بھی اس شہر کی ہوا میں زندہ ہے۔

ڈاکٹر نعمان رفیع راجپوت

12/10/2025

پاکستان ہمیشہ زندہ باد

11/10/2025

Lecture for NRE students on Hemoglobinopathies

فلسطینیوں کی جدوجہد اور جنگ بندی کی دعاتحریر: ڈاکٹر نعمان رفیع راجپوتفلسطین کی سرزمین صدیوں سے ظلم و ستم کا شکار ہے، مگر...
10/10/2025

فلسطینیوں کی جدوجہد اور جنگ بندی کی دعا
تحریر: ڈاکٹر نعمان رفیع راجپوت

فلسطین کی سرزمین صدیوں سے ظلم و ستم کا شکار ہے، مگر اس کے بہادر عوام آج بھی اپنے وطن، اپنی شناخت اور اپنی آزادی کے لیے ڈٹے ہوئے ہیں۔ دنیا کے سامنے ظلم کی انتہا ہے کہ معصوم بچے، عورتیں اور بوڑھے گولیوں، بمباری اور بھوک کے باوجود ہمت نہیں ہارتے۔ ان کے دل میں اپنے وطن سے محبت اور ایمان کی حرارت آج بھی زندہ ہے۔ غزہ کی گلیوں میں ملبے کے ڈھیر پر کھڑا ہر فلسطینی بچہ یہ اعلان کرتا ہے کہ "ہم زندہ ہیں اور اپنی آزادی کی جنگ جاری رکھیں گے۔"
گزشتہ مہینوں کی جنگ نے نہ صرف انسانیت کو لرزا دیا بلکہ دنیا کے ضمیر کو بھی جھنجھوڑا۔ اب دنیا بھر میں یہ مطالبہ شدت اختیار کر چکا ہے کہ فوری جنگ بندی کی جائے، زخمیوں کو امداد پہنچائی جائے، اور فلسطینیوں کو ان کا حقِ خود ارادیت دیا جائے۔ ظلم کی یہ رات کب ختم ہوگی، کوئی نہیں جانتا، مگر امید کی شمع ابھی بجھی نہیں۔
آج جمعہ المبارک کے اس بابرکت دن پر ہم سب مسلمانوں کو چاہیے کہ اپنے فلسطینی بھائیوں کے لیے دعا کریں — کہ اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے، ان کے شہداء کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے، اور امتِ مسلمہ کو یکجا ہو کر مظلوموں کا ساتھ دینے کی توفیق دے۔
اللّٰہ تعالیٰ ہمیں امن، انصاف اور بھائی چارے کا پیغام عام کرنے والا بنائے۔ آمین۔
جمعہ مبارک

ڈاکٹر نعمان رفیع راجپوت

09/10/2025

مقبوضہ غزہ میں جنگ بندی کی مبارکباد۔۔۔۔ فلسطین ان بلڈ

ایک پروفیسر صاحب  سے، جوتا پالش کرنے والے بچے نے جوتا پالش کرتے کرتے پوچھا، "ماسٹر صاحب! کیا میں بھی بڑا آدمی بن سکتا ہو...
09/10/2025

ایک پروفیسر صاحب سے، جوتا پالش کرنے والے بچے نے جوتا پالش کرتے کرتے پوچھا، "ماسٹر صاحب! کیا میں بھی بڑا آدمی بن سکتا ہوں‘‘

پروفیسر نے قہقہہ لگا کر جواب دیا
’’دنیا کا ہر شخص بڑا آدمی بن سکتا ہے‘‘

بچے کا اگلا سوال تھا
’’کیسے؟‘‘

پروفیسر نے اپنے بیگ سے چاک نکالا‘اوراسکےکھوکھے کی دیوار پر
دائیں سے بائیں تین لکیریں لگائیں‘

پہلی لکیر پر محنت‘ محنت اور محنت لکھا‘
دوسری لکیر پر ایمانداری‘ ایمانداری اور ایمانداری لکھا
اور تیسری لکیر پر صرف ایک لفظ ہنر (Skill) لکھا۔

بچہ پروفیسر کو چپ چاپ دیکھتا رہا۔
پروفیسر یہ لکھنے کے بعد بچے کی طرف مڑا اور بولا:

ترقی کے تین زینے ہوتے ہیں‘

پہلا زینہ محنت ہے.
آپ جو بھی ہیں‘ آپ اگر صبح‘ دوپہر اور شام تین اوقات میں محنت کر سکتے ہیں تو آپ تیس فیصد کامیاب ہو جائیں گے. آپ کوئی سا بھی کام شروع کر دیں، آپ کی دکان‘ فیکٹری‘ دفتر یا کھوکھا صبح سب سے پہلے کھلنا چاہئے اور رات کو آخر میں بند ہونا چاہئے۔ آپ کامیاب ہو جائیں گے‘‘۔

پروفیسر نے کہا،
’’ہمارے اردگرد موجود نوے فیصد لوگ سست ہیں‘ یہ محنت نہیں کرتے‘ آپ جوں ہی محنت کرتے ہیں آپ نوے فیصد سست لوگوں کی فہرست سے نکل کر دس فیصد محنتی لوگوں میں آ جاتے ہیں‘ آپ ترقی کیلئے اہل لوگوں میں شمار ہونے لگتے ہیں".

اگلا مرحلہ ایمانداری ہوتی ہے. ایمانداری چار عادتوں کا پیکج ہے.

وعدے کی پابندی
جھوٹ سے نفرت
زبان پر قائم رہنا
اپنی غلطی کا اعتراف کرنا۔

آپ محنت کے بعد ایمانداری کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لو۔ وعدہ کرو تو پورا کرو۔ جھوٹ کسی قیمت پر نہ بولو۔ زبان سے اگر ایک بار بات نکل جائے تو آپ اس پر ہمیشہ قائم رہو اور ہمیشہ اپنی غلطی‘ کوتاہی اور خامی کا آگے بڑھ کر اعتراف کرو‘

تم ایماندار ہو جاؤ گے۔
کاروبار میں اس ایمانداری کی شرح 50 فیصد ہوتی ہے.

آپ پہلا تیس فیصد محنت سے حاصل کرتے ہیں. آپ کو دوسرا پچاس فیصد ایمانداری دیتی ہے اور پیچھے رہ گیا 20 فیصد تو یہ 20 فیصد ہنر ہوتا ہے. آپ کا پروفیشنل ازم، آپ کی سکل اور آپ کا ہنر آپ کو باقی 20 فیصد بھی دے دے گا.

"آپ سو فیصد کامیاب ہو جاؤ گے‘‘.

پروفیسر نے بچے کو مزید بتایا۔
’’لیکن یہ یاد رکھو ہنر‘ پروفیشنل ازم اور سکل کی شرح صرف 20 فیصد ہے اور یہ 20 فیصد بھی آخر میں آتا ہے‘ آپ کے پاس اگر ہنر کی کمی ہے تو بھی آپ محنت اور ایمانداری سے 80 فیصد کامیاب ہو سکتے ہیں لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ بے ایمان اور سست ہوں اور آپ صرف ہنر کے زور پر کامیاب ہو جائیں۔

آپ کو محنت ہی سے سٹارٹ لینا ہو گا‘
ایمانداری کو اپنا اوڑھنا اور بچھونا بنانا ہو گا'
آخر میں خود کو ہنر مند ثابت کرنا ہوگا‘‘۔

پروفیسر نے بچے کو بتایا۔
"میں نے دنیا کے بے شمار ہنر مندوں اور فنکاروں کو بھوکے مرتے دیکھا‘

کیوں؟
کیونکہ وہ بے ایمان بھی تھے اور سست بھی'

اور میں نے دنیا کے بے شمار بےہنروں کو ذاتی جہاز اڑاتے دیکھا‘-

’تم ان تین لکیروں پر چلنا شروع کر دو‘
تم آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگو گے‘‘۔

09/10/2025

Best Description of Epilepsy

مرگی (Epilepsy)

مرگی ایک دماغی بیماری ہے جس میں دماغ کے اندر برقی رو (electrical activity) میں اچانک غیر معمولی تبدیلی پیدا ہوتی ہے۔ اس کے نتیجے میں مریض کو دورہ (seizure) پڑتا ہے، جو چند سیکنڈ سے چند منٹ تک جاری رہ سکتا ہے۔ مرگی کے دورے میں مریض اچانک بے ہوش ہو جاتا ہے، جسم اکڑ جاتا ہے، ہاتھ پاؤں جھٹکنے لگتے ہیں، یا کبھی کبھی صرف آنکھوں میں خالی پن اور چند لمحوں کی غیر حاضری (absence) ہوتی ہے۔
مرگی کسی بھی عمر میں ہو سکتی ہے، مگر اکثر اس کا آغاز بچپن یا جوانی میں ہوتا ہے۔ اس کی وجوہات میں دماغی چوٹ، فالج، دماغ میں رسولی، پیدائشی نقص، یا بعض اوقات جینیاتی (وراثتی) عوامل شامل ہو سکتے ہیں۔ کچھ کیسز میں کوئی واضح وجہ بھی نہیں ملتی۔
تشخیص کے لیے ڈاکٹر عموماً مریض کی مکمل طبی تاریخ، EEG (Electroencephalogram)، MRI یا CT Scan کرواتا ہے تاکہ دماغ کی غیر معمولی سرگرمیوں کا پتہ لگایا جا سکے۔
مرگی کا علاج ممکن ہے۔ زیادہ تر مریضوں کو دوا سے مکمل کنٹرول حاصل ہو جاتا ہے۔ مرگی کے علاج میں Anti-epileptic Drugs (AEDs) سب سے مؤثر طریقہ ہیں۔ اگر دوائیں فائدہ نہ دیں تو بعض اوقات surgery، vagus nerve stimulation یا ketogenic diet بھی استعمال کی جاتی ہے۔
مرگی کے مریضوں کو چاہیے کہ وہ دوا باقاعدگی سے استعمال کریں، نیند پوری لیں، ذہنی دباؤ کم کریں، اور چمکدار روشنی یا بے وقت کھانے جیسے عوامل سے پرہیز کریں جو دورے کو بڑھا سکتے ہیں۔
مرگی کوئی قابلِ علاج بیماری ہے، بشرطیکہ اس کا صحیح تشخیص اور مناسب علاج کیا جائے۔ سماجی طور پر بھی ضروری ہے کہ مرگی کے مریضوں کو ہمدردی، سمجھ اور عزت دی جائے، کیونکہ وہ عام زندگی گزارنے کے پورے اہل ہوتے ہیں۔

تحریر: ڈاکٹر نعمان رفیع راجپوت

08/10/2025

What is anemia and its symptoms

08/10/2025

Address

Nizama Abad Wazirabad
Wazirabad

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Dr Nauman Rafi Rajput Official posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Practice

Send a message to Dr Nauman Rafi Rajput Official:

Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on LinkedIn
Share on Pinterest Share on Reddit Share via Email
Share on WhatsApp Share on Instagram Share on Telegram