Urdu Kahani

Urdu Kahani Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Urdu Kahani, Medical and health, .

29/06/2025

جب علم فنتے کے بجائے امن و عمل کے لیے ئو

معروف شیعہ عالم آیت اللہ شیخ ابراہیم منہاج دشتی کی تحریر

تاریخِ فتح مکہ میں ایک واقعہ درج ہے کہ حضرت رسولِ اکرم ﷺ نے عمومی معافی کا اعلان فرمایا، لیکن چند مخصوص افراد کے قتل کا حکم بھی دیا، جن میں عکرمہ بن ابوجہل شامل تھا۔ تاہم، عکرمہ کی بیوی نے رسول اللہ ﷺ سے شوہر کے لیے امان حاصل کی اور اُسے واپس لے کر آئیں۔ جب رسولِ خدا ﷺ کو خبر ہوئی کہ عکرمہ واپس آ رہا ہے تو آپ ﷺ نے صحابہ سے فرمایا:

"عکرمہ تمہارے پاس آ رہا ہے۔ جب اسے دیکھو تو اس کے باپ کو برا بھلا نہ کہنا، کیونکہ مردوں کو گالیاں دینا زندہ لوگوں کو تکلیف دیتا ہے۔"

پھر جب عکرمہ مسلمان ہو گیا تو اس نے شکایت کی کہ لوگ اسے "عکرمہ بن ابوجہل" کہہ کر پکارتے ہیں۔ رسولِ اکرم ﷺ نے صحابہ کو اس سے باز رہنے کا حکم دیا اور فرمایا:

"مردوں کو برا بھلا کہہ کر زندوں کو اذیت نہ دو۔"

(ماخذ: الاستیعاب، ابن عبدالبر، جلد 3، صفحہ 108)

یہ وہ نبی ﷺ ہیں جو اس بات سے بھی رنجیدہ ہو جاتے ہیں کہ کوئی کسی کے باپ کو بُرا کہے، یہاں تک کہ اگر وہ ابوجہل ہی کیوں نہ ہو، جسے قرآن "فرعونِ امت" کہہ چکا ہے۔

اگر رسولِ اکرم ﷺ اس قدر حساس تھے کہ وہ دشمنِ اسلام ابوجہل کے ذکر پر بھی اپنے نومسلم صحابی کے دل کا خیال رکھتے تھے، تو کیا یہ ممکن ہے کہ وہ اپنے قریبی اصحاب یا ازواج مطہرات کی اہانت سے رنجیدہ نہ ہوں؟ آج جب ہم بعض تاریخی روایات کی بنیاد پر بزرگ صحابہ، امہات المؤمنین یا دیگر شخصیات کی توہین کرتے ہیں، تو ہم دراصل وہی کام کر رہے ہوتے ہیں جس سے رسولِ خدا ﷺ نے سختی سے منع فرمایا تھا۔

ہمیں غور کرنا چاہیے کہ کہیں ہم تاریخ کے فتنہ انگیز عناصر کے ہاتھوں نادانستہ طور پر استعمال تو نہیں ہو رہے؟ ہم بعض روایتوں کو، جن کی صحت مشتبہ ہو، اس اعتماد سے دہراتے ہیں گویا وہ وحی ہوں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم اپنے ہی دین کی جڑیں کاٹتے ہیں، اپنے ہی عقیدے کو مشکوک بناتے ہیں، اور دشمنوں کے ہاتھوں مضبوطی سے کھیلتے ہیں۔

ان حالات میں جب کہ روایات میں جعل سازی، تحریف، مبالغہ آرائی اور فرقہ واریت کی بو صاف محسوس کی جا سکتی ہے، اہلِ علم کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسی روایتوں کو تنقیدی نظر سے دیکھیں۔ ان کی تصدیق اور ترویج سے پہلے خوب تحقیق کریں۔ خصوصاً منبر پر بیٹھنے والے خطبا، ذاکرین اور مداحین کو چاہیے کہ وہ فتنہ انگیز، اختلاف پر مبنی اور اشتعال انگیز روایتوں سے احتراز کریں۔ ورنہ یہ جذباتی تقریریں اور نوحے قوم کو شعور نہیں، انتشار دے رہے ہوتے ہیں۔

آیت اللہ شیخ ابراہیم منہاج دشتی

28/05/2025
26/05/2025
01/05/2025

کرامتوں والے پیر صاحب کی شادی تھی۔
جب لاگ لینے نائی آیا تو پیر بولے:
“اوے شکور! بتا، پیسے لینے ہیں یا دعا؟”
نائی بےچارہ بولا:
“مرشد! میں تو دعا ہی لوں گا، آپ سے پیسے لے کر کیا کرنا؟”

کمہار آیا تو پیر نے پھر پوچھا:
“او اشرف! تُو نے بھی دعا لینی ہے یا پیسے؟”
کمہار بولا:
“باوا جی! میں نے بھی دعا ہی لینی ہے۔”

جب مراسی کی باری آئی تو پیر بولے:
“او ڈوم! بتا، پیسے چاہییں یا دعا؟”
مراسی بولا:
“باوا جی! پچاس روپے کی دعا دے دو، باقی پچاس نقد دے چھوڑو۔”

پیر نے دعا دے دی، اور تھوڑی دیر بعد بولے:
“میکوں غلطی لگ گئی، میں تُجھے پچاس نہیں، پانچ سو کی دعا دے چھوڑی ہے۔ تُو ایویں کر، آپڑا پچاس کاٹ کے باقی چار سو پچاس میکوں واپس دے۔”

یادداشت اُس کی گئی ہے، میری نہیں…ایک پچاس سالہ اَدھیر عمر شخص کلینک میں داخل ہوا۔ انگوٹھے پر پٹی کروانی تھی، لیکن وہ بار...
01/05/2025

یادداشت اُس کی گئی ہے، میری نہیں…

ایک پچاس سالہ اَدھیر عمر شخص کلینک میں داخل ہوا۔ انگوٹھے پر پٹی کروانی تھی، لیکن وہ بار بار نرس اور کمپاؤنڈر سے کہہ رہا تھا:
“بیٹا! ذرا جلدی کر دو… مجھے آٹھ بجے دوسرے اسپتال پہنچنا ہوتا ہے۔”

ڈاکٹر نے مسکرا کر پوچھا:
“بابا جی! وہاں کوئی اپوائنٹمنٹ ہے؟ کون ہے وہاں؟”

بابا جی کی آنکھوں میں عجب ٹھہراؤ تھا۔ بولے:
“میری بیوی ہے… پانچ برس سے بیمار ہے۔ ہر روز آٹھ بجے میں اسے اپنے ہاتھ سے ناشتہ کراتا ہوں۔”

ڈاکٹر چونکا:
“تو وہ ایسی کیا بیماری میں مبتلا ہے؟”

بابا جی نے آہستہ سے جواب دیا:
“اس کی یادداشت ختم ہو چکی ہے۔ اُسے اپنا نام تک یاد نہیں، نہ رشتے پہچانتی ہے، نہ بات کرتی ہے… لیکن میں روز صبح وقت پر وہاں پہنچتا ہوں۔”

ڈاکٹر کی حیرت بڑھ گئی۔ بولا:
“جب وہ آپ کو پہچانتی نہیں، وارڈ بوائے اور آپ میں فرق نہیں کر سکتی تو آپ یہ سب کیوں کرتے ہیں؟ روز روز یہ تکلیف؟”

بابا جی نے جو جواب دیا، وہ دل میں نقش ہو کر رہ گیا:
“بیٹا! وہ مجھے نہ پہچانے، لیکن میں تو اُسے پہچانتا ہوں۔
یادداشت اُس کی گئی ہے، میری نہیں۔

پچھلے پچیس برس اس نے ہر صبح میرے لیے ناشتہ بنایا۔ نوکر تھے، خادم بھی، مگر وہ خود جاگتی، اپنے ہاتھوں سے ناشتہ تیار کرتی، اور ٹھیک آٹھ بجے میرے سامنے رکھتی۔
بارش ہو، سردی ہو، طوفان ہو، اُس کی محبت میں کبھی دیر نہ ہوئی۔

آج اگر اُسے سب کچھ بھول بھی گیا ہے، تو کیا میں اپنی وفا کو بھول جاؤں؟
محبت جسم سے نہیں، چہرے سے نہیں، دماغ سے نہیں — یہ دل سے ہوتی ہے، اور دل کی آخری دھڑکن تک رہتی ہے۔
کبھی کبھی سوچتا ہوں، اگر میں بیمار ہوتا، میری یادداشت چلی جاتی، تو کیا وہ مجھے چھوڑ دیتی؟
نہیں بیٹا… وہ تب بھی روز آٹھ بجے میرے سرہانے ناشتے کی ٹرے لیے کھڑی ہوتی…

اس لیے میں روز آٹھ بجے وہاں ہوتا ہوں… کیونکہ وہ آج بھی میری بیوی ہے… اور میں آج بھی اُس کا شوہر ہوں… محبت وقت سے آزاد ہوتی ہے، اور یادداشت سے بھی۔”

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Urdu Kahani posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

  • Want your practice to be the top-listed Clinic?

Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on LinkedIn
Share on Pinterest Share on Reddit Share via Email
Share on WhatsApp Share on Instagram Share on Telegram